پھر بڑھا دیں نہ پیچ و تاب سوال

افتخار راغبؔ

پھر بڑھا دیں نہ پیچ و تاب سوال

مت کر اے عقل یوں جواب سوال

اُس نے پھر مسکرا کے ٹال دیا

ہو گئے پھر سے آب آب سوال

مطمئن ہو کے بیٹھنا ہے موت

کھولتے علم کے ہیں باب سوال

وہ ترا جرح تھا کہ خوشبو تھی

لگ رہے تھے مجھے گلاب سوال

دو بدو بے رُخی و بے تابی

اور لاتے گئے عذاب سوال

کوئی ملتا نہیں جواب اے دل

دردِ دل ہے کہ لا جواب سوال

اُن سے پوچھوں کہ کون ہے دل میں

اور ہو جائے باریاب سوال

کتنا اچھا ملا جواب اُسے

پھر نہ پوچھے گا وہ خراب سوال

ہے مخاطب تمھاری خاموشی

اور بڑھاتے ہیں اضطراب سوال

میں نے پوچھی تھی خیریت راغبؔ

ہو گیا باعثِ عتاب سوال

اُس کے ہونٹوں پہ کچھ نہیں راغبؔ

اُس کی آنکھوں میں بے حساب سوال

تبصرے بند ہیں۔