دلِ بسمل

مبصّر  :  سہیل بشیرکار

نام کتاب  :  دلِ بسمل

مصنف  :  صدف زبیری

ناشر  :  رنگ ادب پبلی کیشنز۔ کراچی

اشاعت  :  نومبر۲۰۱۶ء

صفحات  :  ۲۰۸

قیمت  :  ۴۰۰روپے (پاکستان)

                فن پارہ کسی مخصوص صنف کے فنی اورجمالیاتی تقاضوں کے مطابق وجودمیں آئے تب ہی فن پارہ کہلانے کاسزاوارہوتاہے۔ یہ مفروضہ، ادب وفن سے متعلق ہماری روایتی سوچ اورمعیار کازائیدہ ہے،لیکن آج نئی معاشرت اورثقافت کی پیداکردہ نظریاتی تکثیریت کے دورمیں چونکہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب وفن کی تخلیق وتنقید سے لے کرقبولیت اورارتداد تک…..قلم کاراورقاری کے رویے کہیں زیادہ آزادی،فطری اوربے محابہ ہوگئے ہیں۔ اس لئے عالمی پیمانے پر تمام تہذیبوں، معاشروں اورزبانوں کے اندر ادب اورادبی اصناف کی شعریات بھی وحدانیت اورادعائیت کوردکرکے تکثیریت اورآزادی کی طرف مائل ہیں۔ چنانچہ آج ادب وفن میں کسی بھی صنف کے مروجہ امتیازات ٹھوس اورجامدنہ رہ کرسیال اورمتحرک ہوگئے ہیں۔

                افسانہ زندگی کے حقائق کے تخلیقی اظہارکانا م ہے۔ دلِ بسمل صدف زبیری کے افسانوں اورافسانچوں کامجموعہ ہے۔ صدف زبیری فیس بک کی مشہور لکھاری ہیں۔ مختصر جملوں میں حالات وواقعات، اورمعاشرتی خرابیوں کا اظہاربرملااوربرمحل کرتی ہیں، میں ہمیشہ اس تجسس میں رہاکہ آخرصدف کی مختصر الفاظ میں اس طرح کی معاشرتی عکس بندی کارازکیاہے، یہ رازصدف زبیدی کی زیرتبصرہ کتاب کامقدمہ پڑھتے ہی افشاء ہوا،صدف زبیری کتاب کے مقدمہ میں رقمطرازہیں :

                ’’میں نے سوچاایک کہانی لکھوں جوپہلے کبھی نہیں لکھی گئی ہو۔ رضیہ بٹ نے سرگوشی کی اوں ہوں ’’ندامت‘‘اٹھاؤگی، ہاجرہ مسرورنصیحت کوآئیں ’’آنگن‘‘ کی بات چوراہے پرنہ کرنا، دہلیزپر عصمت چغتائی کھڑی تھیں ہنس کوبولیں ’’لحاف‘‘ کودھوپ لگانی ہوتودیوارپرڈالنا ہی پڑتاہے نکڑپرمنٹوسے ملاقات ہوئی، ارادہ جان کرفکرمندہوگئے یہ ’’گنجے فرشتے ‘‘تمہیں جینے نہیں دیں گے۔ ہانپتی کانپتی لائبریری تک پہنچی کتابوں میں گم جمیلہ ہاشمی نے دھیرے سے سراٹھایا،باریک ’’دشتِ سوس‘‘ پھانک لوگی؟سامنے بیٹھے مفتی جی نے آنکھ ماری ایلی کی انگلی پکڑو اورعلی پورکاچکرماروپہلے ! گھبراکرلائبریری سے باہرنکلی تو’’آگ کے دریا‘‘ کے پار قراۃ العین حیدرکوگم صم بیٹھے پایا،اب میں وقت کے چوراہے پرتنہاکھڑی ہوں، نیچے سڑک پرکرشن چندربیٹھے اپنا’’جوتا‘‘ گانٹھ رہے ہیں پاس ہی بانوآپاہر چوک پرایک ’’راجہ گدھ‘‘ دیکھ رہی ہیں اورمہر بہ لب ہیں اشفاق صاحب آپاسے بے پروا’’گڈریا‘‘ کے ساتھ مگن ہیں، سامنے شوکت صدیقی کی ’’خدا کی بستی ‘‘میں شہاب صاحب ’’یاخدا‘‘ کی تسبیح پڑھ رہے ہیں، پڑھے ہی جارہے ہیں اورمیں سوچ رہی ہوں ….

                ایک کہانی لکھوں جوپہلے کبھی نہیں لکھی گئی ہو……‘‘

                مختصر مگرجامع لکھنے کے لئے وسیع مطالعہ شرط اول ہے، صدف کے مقدمہ سے معلوم ہوتاہے۔ موصوفہ نے ناصرف بڑھوں کوپڑھا ہے بلکہ ان کی فکراورتخیل کوگہرائی کے ساتھ سمجھ بھی رکھاہے، ۲۰۶صفحات پرمشتمل کتاب میں کل ۱۴افسانے اور۳۱افسانچے ہیں، سبھی افسانے روایات سے ہٹ کرہیں، اگرچہ ہرافسانہ ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویرپیش کرتاہے لیکن ہرافسانے کی کہانی ان کہانیوں سے مختلف ہے جوعام طورپرافسانوں میں ملتی ہے،صدف کتاب کے بارے میں رقمطرازہیں :

                ’’یہ کتاب آپ کے لئے نہیں ہے،اگرآپ بازارحسن کے داخلی اورخارجی راستوں کے حقائق جاننے کے لئے افسانے پڑھتے ہیں تویہ کتاب آپ کے لئے نہیں ہے۔ اگر محبت کی معصوم شرارتیں اورچپکے چپکے رات دن بھیگی آنکھوں کے بہتے کاجل والے افسانوں کی تلاش میں ہیں توبھی یہ کتاب آپ کے لئے نہیں ہے۔ اگرآپ دفاترمیں کام کرنے والے کلرک،بیٹیوں کے مجبورباپ یاپھرممتا کی ماری ماؤں کی کہانیوں سے متاثرہونے کے شوقین ہیں توبھی یہ کتاب آپ کے لئے نہیں ہے۔ یہ بھیڑ کاحصہ بنے زندگی کے وارسے لگنے والی خراشوں کاچہروں پرسجائے ہوئے لوگوں کی کہانیاں ہیں جواپنی کہانیاں چھپاتے نہیں، صدف زبیدی سے لکھواتے ہیں ‘‘۔

                اپنے دعویٰ میں صدف کافی حدتک کامیاب دکھائی دیتی ہیں، تاہم افسانوں کی بنیاد صدف کایہ احساس ہے کہ ہمارا معاشرہ مردانہ معاشرہ ہے،یہاں خواتین پرتشدد اورظلم وجبرہوتاہے،ساتھ ہی عورت کوکم ترہستی تصورکیاجاتاہے،ان کے سبھی افسانوں میں مردانہ نفسیات کے بارے میں اچھی رائے دکھائی نہیں دیتی،مگر جس شدت کے ساتھ اس احساس کااظہارموصوفہ نے اپنے افسانوں میں کیاہے،شایدحقیقت حال کے مناسبت سے قاری کومبالغہ لگے۔ صدف لکھتی ہیں :

                ’’انسان میں مردمیں خصوصاً ایک خداہوتاہے جوبیوی بچوں کواپنے آگے جھکا، گڑگڑاتا دیکھ کرتسکین پاتاہے مگروہ یہ بھول جاتاہے کہ خدا توبس وہی ہے جوآسمانوں پرہے، باقی توسب وقت کاکھیل ہے…..نفس کابہکاوا‘‘۔ (صفحہ ۱۴۸)

                اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جہاں ہم محسوس کرتے ہیں کہ خواتین واقعی مظلومیت کے بھنورمیں ابھی بھی گھری ہیں، تاہم اسے عموم حاصل نہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں اکثرخواتین کوعزت واکرام دیاجاتاہے۔ اب توخواتین ہرمیدان میں مردوں کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتی ہیں، ایسے میں زیرنظرکتاب میں مردوں کے تئیں جس احساس کااظہارہواہے، اسے اعتدال کانام قطعاً نہیں دے سکتے۔ مصنفہ کودین اسلام سے عقیدت ہے اوراسلام پران کی نظر ان کی تحریروں میں دیکھابھی جاسکتاہے لیکن حاملین مذہب کے بارے میں صدف کے خیال میں وہی مردانہ نفسیات کی بومحسوس ہوگی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ حاملین مذہب نے عورت کوصرف خواہش پوری کرنے کاذریعہ تصورکیاہے،صدف لکھتی ہیں :

                ’’وہ روزصبح سرکتے،مچلتے سیاہ بالوں والے سرپرپانی بہاتی اوردل کے تنورمیں آگ دہکتی جاتی،وہ دینی اجتماعات میں شرکت کے لئے جاتاتواسے قید سے رہائی مل جاتی، کاجل لگاتی،بالیاں پہنتی دھیرے دھیرے گنگناے بھی لگتی، واپسی کاتصوردل ہلاتارہتا، پھروہ لوٹ آتا،رات رات بھردین اس کے اندرانڈیلتارہتا،تھک کرسونے سے پہلے ازدواجی ایکسرسائیز کرتااورصبح نہادھوکرآفس نکل جاتا،اسی آفس جہاں اس کے بقول ساری بے حیا،بے غیرت عورتیں تھیں، مردوں کے ساتھ ہنستی بولتی،بے پردہ جہنم کاایندھن‘‘!!(صفحہ :۳۶)۔

                اس مجموعے میں شامل کہانیاں مصنفہ کے حساس ہونے کاثبوت فراہم کرتی ہیں۔ ان تحریروں سے ایک بارپھریہ حقیقت آشکاراہوئی کہ ایک حساس فنکار حالات وواقعات سے صرف نظرنہیں کرسکتا۔ صدف کامزاج ایک انشائیہ نگار کامزاج ہے۔ مجموعہ میں شامل افسانے وراثت،مرڈر، نگہبان اورمٹھی گھماؤ اس کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ یہ فن ان کہانیوں میں باربارجھلکتا ہوانظرآتاہے۔ لکھتی ہیں :

                ’’اورتواوراب توادب میں بھی وراثت، دانشور کابیٹا دانشور،کالم نگار کابیٹاکالم نگار،عقل کایہ عالم ہے کہ مشرق کی تان مغرب پرجاکر توڑتے ہیں …..وہ چپ چپ سنتا رہا، ارے بھائی ہرچیز ہی وراثت میں منتقل ہورہی ہے،مکاری،عیاری،چالاکی، فتنہ پروری، ابن الوقتی اوربعض اولادیں توباپوں سے بھی چارہاتھ آگے ہیں، سو اس ’’ترکے‘‘ میں بڑھوتی بھی خوب ترہورہی ہے‘‘۔ (وراثت۔ ص۱۶)

                کرداروں کے نام اگرچہ فرضی ہیں مگرواقعات اس لئے فرضی نہیں ہوسکتے کہ آدمی کی ذات رنج وغم میں ہمیشہ دوربھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔ خوشی کامنظر غیرحقیقی ہوسکتا ہے لیکن المیہ مناظر کوگڑھنا کوئی عام بات نہیں :

                ’’وہ کھولتا ہواخون جیل کی سرد دیوارں نے ٹھنڈا کردیاتھا،تھکے ماندے ٹوٹے ہوئے بدن کے اندرکچلی ہوئی روح نڈھال پڑی رہتی، بے دھیانی میں، غنودگی اورہوش وہواس کے درمیانی مرحلے میں اس کی انگلیاں چلتی رہتیں، انہیں نڈل کے ہونے ناہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتاتھا، ذہن کارابطہ عرصہ ہواباقی جسم سے منقطع ہوچکاتھا، وہ کسی گہرے خلامیں ڈوبتااُبھرتارہتا…..‘‘(مٹھی گھماؤ۔ ص ۱۳۷)

                فنی اعتبار سے بھی یہ افسانے خوب ہیں۔ ان تحریروں میں جوذہانت اوردیدہ وری، زبان وبیان کی شگفتگی اوربرجستگی ہے،اس کااندازہ صدف زبیدی کی کسی بھی تحریر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے:

                ’’وہ کیسابھنورمیں پھنساتھا،نکلنے کی کوئی صورت نظرنہ آتی، ان کی گفتگو لاحاصل، بے معنی سوالوں کے بوجھ تلے دبنے لگی،اگرمگر کے گرداب میں ہاتھ پاؤں مارتے مارتے بھی وہ ڈوب ہی گیا اوروہ ہمیشہ کی طرح جیت گئی‘‘۔ (مرڈر۔ ص۸۹)

                کتاب میں جوافسانچے ہیں، ان میں کافی گہرائی ہے،ان کوسمجھنے کے لئے مختصر ہی صحیح مگرمنظر،پیش منظر اورپس منظر ہوناچاہیے تھا،تاکہ عام قاری کوسمجھنے میں دقت محسوس نہ ہوتی،شایدصدف کاہدف ہرقاری نہ ہولیکن اس طرح کے اختصار نے افسانچوں کوکافی مشکل اورکبھی کبھی مہمل بھی بنادیاہے۔ اس بات کااظہارلازم ہے کہ صدف کے اندرمنافقت نہیں، آپ جولکھتی ہیں وہ بلاجھجک لکھتی ہیں۔ ہرکہانی کاپلاٹ خوبصورت ہے۔ تحریر کی خوبی ہے کہ وہ تصویربن جائے۔ کتاب پڑھتے وقت قاری محسوس کرتاہے کہ کہانی پڑھ نہیں بلکہ دیکھ رہاہے۔ کتاب کی طباعت اعلیٰ ہے۔ کچھ کمیوں کے باوجود کتاب اس لائق ہے کہ ہرلائبریری کی زینت بنے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔