وقت کی پیشانی پر لکھا ہوا ایک فیصلہ

سہیل انجم

کیا اب نریندر مودی ایل کے آڈوانی کے ہمسایہ بننے والے ہیں۔ یعنی کیا اب وہ اپنے بنائے ہوئے ’مارگ درشک منڈل‘ کے ممبر بننے کی تیاری کر رہے ہیں اور کیا وقت اس کے لیے راستہ ہموار کر رہا ہے۔ ابھی تو یہ سوال بہت دور از کار معلوم ہوتا ہے اور شاید کچھ لوگ اس پر ہنسیں بھی کہ مودی نے ابھی ابھی اترپردیش سمیت چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی دلوائی ہے، لہٰذا وہ کیسے مارگ درشک منڈل میں جا سکتے ہیں۔ ابھی تو ان کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر چمک رہا ہے۔ یہ سوال بالکل بے وقت ہے اور ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔ دراصل اس سوال کا جواب پانے کے لیے موجودہ حالات کا ہلکا سا تجزیہ کرنا ہوگا اور بی جے پی کے ماضی قریب پر ایک نظر ڈالنا ہوگی۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب بی جے پی دو نفری فوج تھی۔ اٹل بہاری واجپئی اس کے کمانڈر انچیف تھے اور لال کرشن آڈوانی ان کے نائب۔ بالکل اسی طرح جیسے مودی اور شاہ کی جوڑی ہے۔ آر ایس ایس کی مدد سے وشو ہندو پریشد اور بی جے پی نے رام مندر کی تحریک چھیڑی۔ رفتہ رفتہ بی جے پی کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہونے لگا اور ایک وقت ایسا آیا جب ایل کے آڈوانی کی مقبولیت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ وہ وقت تھا ان کی رتھ یاترا کا۔ ان کے رتھ کے سارتھی یا رتھ بان کا نام تھا نریندر مودی۔ اس وقت مودی مطلع سیاست پر پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں گجرات تک محدود تھیں۔ رتھ یاترا جہاں جہاں سے گزرتی فسادات رونما ہوتے اور اس کے پیچھے انسانی خون کی ایک لکیر کھنچتی چلی جاتی۔ لیکن جب بی جے پی کو بہت زیادہ سیاسی قوت حاصل ہو گئی اور 2014 کا پارلیمانی الیکشن قریب آیا تو آڈوانی کی مخالفت کے باوجود بی جے پی اعلیٰ کمان نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنا دیا۔ حالانکہ واجپئی کے بعد آڈوانی اس منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ لیکن کئی ایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے آڈوانی کی چمک کو دھندلا کرنا شروع کر دیا۔ ان واقعات میں ایک واقعہ ان کا 2005 میں پاکستان کا دورہ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری کا بھی تھا۔ انھوں نے جناح کے مزار پر حاضری کے وقت ان کو ایک سیکولر سیاست داں اور ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار قرار دیا تھا۔ اس کے بعد ہی وہ آر ایس ایس کی نظروں سے گر گئے اور ان کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ اس سے قبل گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف فسادات رونما ہوئے جن میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ اس فساد کو قتل عام کہا گیا اور اس کے بعد نریندر مودی نے دوبارہ گجرات اسمبلی کا الیکشن جیت لیا۔ گجرات فسادات اور دوبارہ انتخابی کامیابی نے آڈوانی کی جگہ پر مودی کو ’ہندو ہردے سمارٹ‘ بنا دیا اور وہ رفتہ رفتہ آڈوانی کی جگہ لینے لگے۔ بالآخر 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو عدیم المثال کامیابی ملی اور آڈوانی وزیر اعظم کی زرنگار کرسی کو للچائی نظروں سے دیکھتے رہے اور مودی اس پر متمکن ہو گئے۔ پھر تو آڈوانی کا سورج غروب ہو گیا۔ مودی نے جو کہ ان کے شاگرد تھے، ایک مارگ درشک منڈل بنا یا جسے اولڈ ایج ہوم یا بزرگوں کا گھر کہہ لیں اور آڈوانی کو اس میں ڈال دیا۔ وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ ہو گیا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا اور پھر اس وقت سے لے کر اب تک مودی کی مقبولیت کی پتنگ سیاست کے کھلے آسمان میں انتہائی بلندی پر اڑ رہی ہے اور کوئی بھی کھلاڑی اس کی ڈور نہیں کاٹ پا رہا۔

آر ایس ایس ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نصب العین کے لیے کسی بھی محسن کی قربانی دینے کو تیار رہتی ہے۔ ا س نے واجپئی کو بھی کام نکلنے کے بعد سیاسی کوڑے دان میں ڈالا، جسونت سنگھ کو بھی۔ آڈوانی کو بھی اور یشونت سنہا کو بھی۔ اگر آپ اس کی فہرست بنانا چاہیں تو اس میں اور بھی نام جوڑ سکتے ہیں۔ جب 2017 میں یوپی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو شاندار کامیابی ملی تو سوال پیدا ہوا کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر کس کو فائز کیا جائے۔ کئی ناموں پر غور ہوا جن میں کیشو پرساد موریہ اور منوج سنہا جیسے نسبتاً کم متعصب سیاست دا نوں کے نام بھی شامل تھے۔ ایک وقت تو منوج سنہا کا نام بالکل فائنل ہو گیا تھا۔ لیکن پھر آر ایس ایس کے کارپردازوں نے مداخلت کی اور ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ کے لیے منتخب کیا جو اسمبلی کا رکن تو نہیں تھا لیکن جس میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنانے میں معاون ثابت ہوتیں۔ آر ایس ایس کے ذمہ داروں کی ہدایت پر اس وقت کے بی جے پی کے صدر امت شاہ نے گورکھپور سے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ کو حکم دیا کہ وہ فوراً دہلی آئیں۔ وہ آئے اور ان کے سر پر وزیر اعلیٰ کا تاج سجا کر انھیں لکھنو ¿ بھیج دیا گیا۔ ان کے نظریات بھی کم و بیش وہی ہیں جو آر ایس ایس کے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے اپنے مزاج، فطرت اور پالیسی کے مطابق ہر وہ فیصلہ کیا جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ پر لے جانے میں معاون ہو۔ رفتہ رفتہ ان کی مقبولیت بھی بڑھتی گئی اور ان کی طاقت بھی۔ ان کی طاقت یہاں تک بڑھی کہ انھوں نے ایک موقع پر بی جے پی قیادت سے ہی ٹکر لے لی اور نریندر مودی اور امت شاہ کو وہ نہیں کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔

جب اسمبلی انتخابات قریب آئے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یوگی کی مقبولیت گھٹ رہی ہے۔ مودی اور شاہ ان کی شکست چاہتے ہیں اور اسی لیے انتخابی مہم میں ان کو آگے کیا گیا ہے مودی کو پیچھے۔ لیکن پھر حکمت عملی تبدیل ہوئی اور یہ محسوس کیا گیا کہ اگر یوگی کی شکست ہو گئی تو اس سے بی جے پی کی تو بدنامی ہوگی ہی اس کی مرکزی سیاست پر بھی اثر پڑے گا۔ لہٰذا مودی اور شاہ نے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا اور شاہ نے عوام سے یہاں تک کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ 2024 میں مودی جی پھر جیتیں تو انھیں 2022 میں یوگی کو جتانا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کی اپیل پر کان دھر کر عوام نے یوگی کو جتایا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کی پوری مشینری اس کام میں لگ گئی اور مبینہ طور پر بیورو کریسی نے بھی اس میں مدد کی۔ بڑی خاموشی سے ہندوو ¿ں کی اکثریت کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر یوگی جی ہار گئے تو ملک ہندو راشٹر نہیں بن سکے گا۔ اس کے علاوہ مختلف بہانوں اور بیانوں سے یہ بھی یاد دلایا جاتا رہا کہ اگر مسلمانوں کو ’ٹھیک‘ رکھنا ہے تو یوگی کو جتانا ہوگا۔ بہرحال یوگی جیت گئے۔ قارئین کے ذہنوں میں وہ تصویر تازہ ہوگی جس میں نریندر مودی یوگی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہے ہیں اور مودی کے قد کے مقابلے میں یوگی کا قد بہت چھوٹا لگ رہا ہے۔ اب اس کو آپ یوں دیکھ سکتے ہیں کہ مودی کے کندھے پر یوگی ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں اور یوگی کا قد پہلے کے مقابلے میں قدرے بلند ہو گیا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ آر ایس ایس کو یوگی کی شخصیت میں وہ کشش نظر آتی ہے جو پہلے آڈوانی اور مودی میں نظر آتی تھی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سورج ہمیشہ نہ تو سوا نیزے پر چمکتا ہے اور نہ ہی آسمان کے درمیان میں۔ اسے بہرحال ڈھلان کی طرف جانا ہے اور پھر اپنی تمازت کھوتے ہوئے دور بہت دور شفق میں غروب ہو جانا ہے۔ وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں ہے جب مودی کا سورج مغرب کی جانب گامزن ہوگا اور اس کی جگہ یوگی کا سورج لے لے گا۔ پہلے آڈوانی نے اپنا کردار ادا کیا اب مودی ادا کر رہے ہیں اور اگلا ایکٹ یوگی نبھائیں گے۔ تب آر ایس ایس کے کرتا دھرتا مودی کو اسی مارگ درشک منڈل میں ڈال دیں گے جس میں انھوں نے آڈوانی کو ڈالا ہے۔ وقت نے بظاہر یہ فیصلہ لکھ دیا ہے البتہ اس پر عمل درآمد میں کتنا وقت لگتا ہے یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔