دو روزہ روحانی و تاریخی سفر

محمد رضی الرحمن قاسمی

پاکیزہ روزی کی جستجو نے اس حقیر کو ڈیڑھ سال پہلے دوحہ قطر سے سعودی عرب کے ایک صنعتی، ساحلی اور نہایت ہی خوبصورت شہر ینبع پہونچا دیا، یہ شہر مدینہ طیبہ سے تقریبا سوا دو سو کیلو میٹر، بدر سے ستر کیلو میٹر اور مکہ مکرمہ سے تقریبا ساڑھے چار سو کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، یہاں کی صاف شفاف اور کشادہ سڑکوں کی وجہ سے مدینہ طیبہ تین گھنٹے اور مکہ مکرمہ ساڑھے چار گھنٹے میں بہ آسانی لوگ پہونچتے ہیں۔

گرمیوں کی دو ماہ سے زیادہ کی چھٹی گذار کر 15 ستمبر 2017 کو خیریت و عافیت سے واپس ینبع پہنچ گیا، شدت سے یہ بات دل میں آرہی تھی کہ جتنی جلدی ممکن ہو رب کی چوکھٹ پر حاضری ہو، عمرہ کی سعادت نصیب ہو، حرم مکی کی مقدس فضاؤں میں کچھ وقت گذرے، اسی طرح سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری دی جائے، مدینہ منورہ کی پر نور فضاؤں میں کچھ وقت گذارا جائے، مسجد نبوی میں عبادتوں کا شرف حاصل کیا جائے۔

اتفاق سے سعودی نیشنل ڈے کی وجہ سے 24 ستمبر بروز اتوار کو حکومت نے چھٹی کا اعلان کردیا، اس طرح جمعہ اور سنیچر کی ہفتہ واری تعطیل کے ساتھ اتوار کی چھٹی کی وجہ سے تین دن مسلسل تعطیل ہوگئی، گھر سے آتے ہی اگلے ہفتہ میں یہ تعطیل حرمین شریفین کی حاضری کے لئے نعمت غیر مترقبہ  محسوس ہوئی۔

حلقۂ  یارا ں

 ہم پانچ دوستوں کا ایک مختصر سا حلقہ ہے، جن میں ایک جناب طارق انور صاحب علیگ (ماسٹر ان لائبریری سائنس) ہیں، مدھے پورہ بہار کے باشندہ ہیں، نہایت ہی خلیق، متواضع، غم گسار، محبتی اور حقیقی معنوں میں ” انسان ” ہیں، دوسرے جناب ابرار مصطفی صاحب (ایم اے انگلش) ہیں، ان کا تعلق جنت ارضی کشمیر سے ہے، محبتی، خوش رہنے اور دوستوں کو خوش رکھنے والے اور دوران گفتگو اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بنانے والے ہیں۔ تیسرے ڈاکٹر عبد الخالق صاحب علیگ (پی ایچ ڈی اردو) ہیں، عمر میں ہم سے بڑے اور بڑوں والے اخلاق کے حامل، ہر طرح کے تعاون کے لئے ہمہ وقت تیار، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، ان کا تعلق سیوان بہار سے ہے۔ چوتھے عادل احمدبھٹ (ماسٹر ان کمپیوٹر سائنس) ہیں، یہ ہم میں چھوٹے اور زندگی کی ایک اہم  نعمت ”نکاح”  کے ابھی امیدواروں ہی میں سے ہیں، ملنسار، متواضع اور طبیعت میں ہلکی شوخی لئے ہوئے ہیں، ان کا تعلق بھی جنت ارضی کشمیر سے ہے، اس حلقۂ یاراں کا پانچواں ممبر یہ حقیر ” محمد رضی الرحمن قاسمی (ماسٹر ان شریعہ، ایم اے عربی زبان وادب) ” ہے، دربھنگہ بہار سے تعلق ہے، کوتاہ علم وعمل ہے، بس سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت اپنا کل اثاثہ ہے، ان کے لائے ہوئے دین کی پڑھنے لکھنے کے حوالہ سے بہت ہی چھوٹی اور کھوٹی سی خدمت امیدوں کا دیا ہے۔

ہم دوستوں نے یہ طے کیا کہ ان شاء اللہ اگلے ہفتوں میں عمرہ کے لئے حرم مکی کا بابرکت سفر کریں گے۔ اس تعطیل میں بدر ہوتے ہوئے مدینہ طیبہ جائیں گے، پھر وہاں ایک شب قیام کر کے اسلامی تاریخ سے وابستہ ایک اہم شہر خیبر کی زیارت کرتے ہوئے واپس ینبع آجائیں گے۔ ہم سب شاداں  تھے کہ اسلامی نئے سال کی ابتداء حرم مدنی کی مقدس فضاؤں سے ہوگی۔

ینبع سے روانگی

طے شدہ پروگرام کے مطابق یہ پانچ رکنی قافلہ 2 محرم 1439 مطابق 22 ستمبر 2017 بروز جمعہ کو ساڑھے آٹھ بجے صبح، ڈاکٹر عبد الخالق صاحب کی آرام دہ، نئی کار سے ینبع سے روانہ ہوا، یہاں ہر شہر کی سرحد پر چیک پوسٹ ہوتا ہے اور اس سے متصل یا کچھ پہلے آخری پٹرول پمپ ہوتا ہے، جہاں ریسٹورنٹ، جنرل اسٹور وغیرہ بھی ہوتا ہے کہ مسافر یہاں سے پٹرول بھی لے لیں اور کھا پی بھی لیں اور پانی وغیر بھی خرید لیں، کیونکہ بسا اوقات اس آخری پٹرول پمپ کے بعد سو دو سو کیلو میٹر تک ان اشیاء کے ملنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے ینبع کے آخری پٹرول پمپ پر گاڑی روکی، پٹرول لیا، ناشتہ کیا اور تازہ دم ہو کر اپنی پہلی منزل بدر کی طرف روانہ ہو گئے۔

بدر میں

اس سفر کی پہلی منزل بدر تھی، اللہ کے فضل سے اس سے پہلے بھی کئی بار بدر آنے کا اتفاق ہوا ہے، ہر بار یہ احساس شدید سے شدید تر ہی ہوتا رہا ہے کہ حرمین شریفین کے بعد جو قلبی سکون اور طمانینت اور ایک ٹھنڈک سی دل میں اترتی ہوئی یہاں محسوس ہوتی ہے اور کہیں نہیں محسوس ہوتی ہے۔ سوا دس بجے صبح کے آس پاس کا وقت ہوگا، جب ہم بدر کے باب الداخلہ پر تھے، جس پر خوشنما تحریر میں لکھا تھا:

أرض الفرقان ترحب بكم  (حق کو باطل سے ممتاز کرنے والی سرزمین میں آپ کا استقبال ہے)

چند ہی پلوں میں ہم بدر کے حدود میں تھے، بدر ایک چھوٹا سا پہاڑوں سے گھرا ہوا، بلند و بالا ڈربہ نما بلڈنگوں سے پاک اور نہایت ہی صاف و شفاف شہر ہے، آج اس کا رقبہ لمبائی میں تقریبا تین سے چار کیلو میٹر اور چوڑائی میں ایک سے ڈیڑھ کیلو میٹر ہوگا۔

ہمیں سب سے پہلے شہداء کے قبرستان میں جانا تھا، راستہ میں ریت کا ایک بڑا پہاڑ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کا نزول اسی پہاڑ پر ہوا تھا، ویسے ایک عجیب بات ضرور محسوس ہوتی ہے کہ اس پورے خطہ میں سنگلاخ پتھروں کے پہاڑ ہیں، صرف بدر میں دو تین چھوٹے اور ایک کسی قدر بڑا ریت کا پہاڑ ہے۔

دس منٹ میں ہماری کار قبرستان سے متصل چھوٹے سے میدان میں پہنچ گئی، قبرستان چہار دیواری سے گھرا ہے اور دروازہ بھی مقفل ہی رہتاہے، جس طرف شہداء کے مقابر ہیں اس طرف لوگوں نے دو تین جگہوں پر پتھروں کو جمع کر کے ایسا بنا دیا ہے کہ ان پر کھڑے ہو کر قبریں دکھائی دینے لگتی ہیں، عقیدت و محبت سے لبریز دل کے ساتھ ہم کار سے اترے، اسلام کے ان اولو العزم اولین سپاہیوں کو سلام پیش کیا، قرآن کریم کی تلاوت کر کے ان کے حق میں دعائیں کی، دل کی دنیا میں عجیب سی اتھل پتھل تھی، غزوہ بدر کے واقعات جو قرآن کریم، حدیث پاک اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا، سب نگاہوں میں گھومنے لگے، غزوہ بدر میں شریک تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایمانی قوت، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل بھروسہ، جاں نثاری، دین اور اس کی سر بلندی کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کے جذبہ کی انوکھی تاریخ لوح دل پر روشن ہونے لگی۔

تصور کیجئے صرف تین سو تیرہ میدان میں، اور چند سو لوگ ان کے حمایتی مدینہ منورہ میں اور بس، دوسری طرف کفار کا ایک ہزار کا لشکر، پورے مکہ بلکہ پورے عرب کی انہیں حمایت حاصل۔ لیکن جیت کس کی ہوئی؟؟ کامیابی نے کن کے قدموں کو چوما؟ اس کی وجہ صرف اور صرف قوت ایمانی تھی، ورنہ اس معرکہ سے پہلے اسلام اور مسلمان دنیوی اعتبار سے کمزور اور کمتر حالت میں تھے، دنیوی اسباب و وسائل قلیل سے قلیل تر میسر تھے، خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن تک چھوڑ کر آنا پڑا تھا، پھر آخر کون سا جذبہ تھا، جس نے صحابہ کرام کو دنیوی اعتبار سے مضبوط ترین دشمنوں کے سامنے کامیابی کے بھروسہ کے ساتھ سینہ سپر کردیا، حقیقی ایمان بالغیب تو ان کا تھا کہ اس دین کی سچائی اور برتری کا اس حال میں مکمل بھروسہ تھا، جب کہ اسباب کی دنیا میں سب کچھ الٹا تھا کہ افراد قلیل، وسائل محدود، اپنے اور پرائے سب دشمن۔

آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے ایمان پر غور کریں کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں ہونے کہ باوجود بھی اپنے تحفظ کے لئے بھی دوسروں کے دست نگر ہیں، جب کہ اس حوالہ سے ہمارا ایمان ایمان بالشہود ہے کہ اگر ایمان سے، اپنے دین سے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری کامل وابستگی ہو جائے تو ہم سربلند ہوں گے اور رہیں گے کہ اسلام اور مسلمانوں کی طویل  روشن تاریخ اس بات کی شاہد عدل  رہی ہے۔

 صحابہ کرام کی اولو العزمی کی یادیں اور اپنے نا کارہ پن  کے خیال کے ساتھ بو جھل قدموں سے وہاں سے مسجد عریش کی طرف روانہ ہو گیا، قبرستان اور مسجد عریش کے درمیان کا حصہ ہی غزوہ بدر کا میدان تھا، اب کچھ میں لوگوں نے مکان بنالیا ہے اور ہنوز کچھ حصہ خالی میدان کی صورت میں باقی ہے، درمیان میں ایک دیوار پر گورنمنٹ نے چودہ شہداء بدر کا نام اور جنگ کے مقامات کی تعین کرنے والا نقشہ بنا دیا ہے۔

  گیارہ بجے ہم مسجد عریش میں تھے، عریش کے معنی چھجہ اور چھپر کے ہیں، یہ مسجد اسی مقام پر بنی ہے، جہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ لگا تھا، جہاں سے آپ نے لشکر کی قیادت کی تھی،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ انفاس کی خوشبو وجدان نے وہاں محسوس کیا، ہم نے تحیۃ المسجد ادا کی اور ایک گوشہ میں بیٹھ گئے، سورہ کہف کی تلاوت کی، ابھی جمعہ کی اذان میں تقریبا ایک گھنٹہ کا وقت باقی تھا۔

اللہ اللہ، یہ کیا ؟ ہر طرف تاریکی ہے، خوف کا ماحول ہے، ہر ایک امید و بیم کی کیفیت میں ہیں، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھروسہ ہے لیکن وسائل کی قلت کی وجہ سے بتقاضائے بشریت فکرمندی بھی ہے، کچھ یہی کیفیت تو غزوہ بدر سے پہلے والی رات میں صحابہ کرام کی رہی ہوگی، دنیا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کل کی صبح ظاہری طور پر بھی حق کو اسباب و وسائل کی قلت کے باوجود باطل پر تاریخی فتح حاصل ہونے والی ہے، ایسا نظارہ چشم فلک نے شاید ہی دیکھا ہو۔ نگاہوں میں وہ منظر بھی گھوم گیا کہ ہمارے آقا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور ہاتھ پھیلا رکھا ہے، اسلام کی اور مسلمانوں کی نصرت اور فتح کی اور کلمہ ء حق کو کلمہ ء باطل پر ظاہری برتری کی دعائیں مانگ رہے ہیں، مبارک چادر جسم اطہر سے ڈھلک گئی ہے، زبان مبارک پر یہ بھی ہے کہ اے اللہ! اگر یہ جماعت آج شکست کھا گئی، ہلاک ہوگئی، تو اس روئے زمین پر آپ کے نام لیوا نہ رہیں گے، اے اللہ ! مدد، مدد۔(بخاری، حدیث نمبر: 3737  ، مسلم، حدیث نمبر: 1763 )

اس ایک گھنٹہ میں تصور کی نگاہیں معرکہ بدر کے واقعات دیکھتی رہیں، یہاں تک کہ مؤذن کی پکار نے ماضی کے سفر سے حال میں لا کھینچا، نماز جمعہ ادا کی، دل میں ایک عجیب سا نشاط تھا کہ یہ وہ زمین ہے، جہاں دنیا کے سب سے بہتر انسان نے قیام کیا ہے، چلا پھرا ہے، حدیث و فقہ کی کتابوں میں تو یہ  نگاہوں سے نہیں گذرا ہے کہ مسجد عریش ان جگہوں میں سے ہے، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، لیکن اتنا تو ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسمپرسی کے عالم میں دعائیں کی تھی اور اللہ عز و جل نے انہیں قبول کیا تھا، ہم لوگوں نے بھی اس یقین کے ساتھ خوب دعائیں کی کہ اس محترم ہستی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گناہ گار امتیوں کو بھی رب کریم ارض فرقان میں محروم نہیں رکھے گا۔

مسجد کسی قدر بلندی پر ہے، اس کی دیوار قبلہ سے شہداء کے قبرستان تک کا حصہ اصل میدان جنگ تھا، دیوار قبلہ سے قریب ہی چند کنواں نما گڑھے ہیں، جن کے بارے میں بعض مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس میں ایک تو وہ ہے، جس میں جنگ میں مر جانے والے کافروں کو اجتماعی طور پر ڈال کر مٹی ڈال دی گئی تھی، اور بھی کچھ ایسی باتیں بتائیں جو اساطیری ہی محسوس ہوئیں۔ و اللہ اعلم بالصواب۔

مسجد کے باہر مختلف اشیاء بیچنے والوں میں ”بلسان” کا تیل اور اس کی خشک ٹہنیاں بیچنے والے بھی کئی تھے، لوگوں کے مطابق بلسان کی جھاڑیاں صرف بدر اور اس کے ارد گرد کے پہاڑیوں پر ہوتی ہیں، یہاں اور مدینہ طیبہ میں بھی خاص کر اس کا تیل طرح طرح کے فائدے بتاکر بیچا جاتا ہے، بعض لوگوں نے اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں یہ بتایا کہ اس کے تیل کا ایک ایک قطرہ صبح و شام سادی چائے میں ڈال کر پینا شوگر کے مرض میں مفید ہے اور اس کے ٹکڑے ابال کر اس کا پانی پینے سے شوگر اور جوڑوں کے درد میں فائدہ ہوتا ہے، طب کے پیشہ سے وابستہ افراد ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے، البتہ یہ گراں قیمت پر، اور خوب ہی بکتا رہتا ہے۔

دیار شوق میں

احباب نے ناشتہ بھاری بھرکم کھا لیا تھا، اس لئے یہ طے پایا کہ مدینہ طیبہ پہنچ کر ہی کچھ کھائیں گے، ہلکی رفتار کے ساتھ شہر کا ایک چکر لگا کر ہم مدینہ طیبہ جانے والی سڑک پر آگئے۔

بفضل الہی قرب مکانی کی سہولت بلکہ نعمت کی وجہ سے اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں دسیوں بار مدینہ طیبہ اور بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کا شرف حاصل ہو چکا ہے، (اللہم لک الحمد ولک الشکر)، ہر بار حاضر ہونے پر دل میں سکینت کا نزول ہوتا ہے، وہاں کا ہر لمحہ بے پناہ حسین معلوم ہوتا ہے، اور وہاں سے واپس ہوتے ہی دوبارہ حاضری کا جذبہ دل میں انگڑائی لینے لگتا ہے، رب ذو الجلال کی قسم، جو محبوبیت اللہ نے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور آپ کے مبارک شہر میں رکھی ہے، اس کا احساس اس ادنی اور حقیر ترین مسلمان کو بھی اس شدت سے ہوتا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیر کے اور دوسرے تمام احباب کی زبان پر درود پاک کا ورد تھا،ڈاکٹر عبد الخالق صاحب نہایت ہی مشاقی سے گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے، پہاڑوں کا سینہ چیر کر بنائی ہوئی سڑک پر گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ جانب منزل رواں دواں تھی، اور اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ خیالات کا ایک سلسلہ موجزن تھا، آرام دہ ایر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر دو تین گھنٹے کا سفر قطع کر کے مدینہ طیبہ پہنچنے میں ہم کوتاہ ہمت کو تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے، خیال آیا کہ اسی یا اس کے اطراف کے اسی جیسے راستہ سے مسلمانوں کا کارواں بدر تک پہونچا ہوگا۔ نگاہ تصورسیدی و مولائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو کبھی پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتا ہوا اور کبھی دروں اور وادیوں میں چلتا ہوا دیکھتی رہی۔ سلام ہو آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر، سلام ہو ان اولو العزم صحابہ کرام پر

دونیم جن کی ٹھوکر سے دریا و صحرا

سمٹ کر پہاڑ جن کی ہیبت سے رائی

نگاہوں کے سامنے سیرت کے واقعات، اخلاق نبوی اور امت کی صلاح و فلاح کے لئے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حد درجہ بے چینی و بے قراری کا منظر آتا رہا، اور یہ گنہ گار امتی اپنی دین سے دوری اور کوتاہ عملی پر مارے شرم کے سمٹتا رہا، مدینہ طیبہ جس قدر قریب ہوتا جا رہا تھا، احساس شرمندگی بڑھتا جا رہا تھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم!  جب یہ حقیر اپنے سیاہ اعمال نامہ کو دیکھتا ہے اور اپنے دل میں جھانکتا ہے تو صرف یہی خیال آتا ہے کہ اس گنہ گار کا کل سرمایہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور فخر عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کی با برکت ذات سے اپنی نسبت ہے اور کچھ نہیں۔ دعاء کریں کہ اس کھوٹے سکہ کے لئے یہ محبت دنیا و آخرت کی کامرانی کا ذریعہ بن جائے۔ آمین

تین بجے ہم مدینہ طیبہ کے شہری حدود میں داخل ہوگئے، تھوڑی ہی دیر میں ہماری نگاہوں کے سامنے احد کا پھیلا ہوا دلکش پہاڑی سلسلہ تھا، یہ وہی پہاڑی ہے، جس کے بارے میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جبل یحبنا ونحبہ(مسلم، حديث نمبر: 2474)۔  (یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیں بھی اس سے محبت ہے)،

مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ میں دوسرے بڑے شہروں کی طرح اس قدر شاخ در شاخ راستے ہیں کہ شہری حدود کے اندر داخل ہونے کے بعد منزل تک پہنچنا دوسرے شہروں میں مقیم افراد کے لئے آسان نہیں ہوتا ہے، اسی لئے ہم لوگ ہمیشہ گوگل میپ سے اس مرحلے میں فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، وہ ہدایات دیتا ہوا ایک بہتر رہبر کی طرح منزل تک پہونچا دیتا رہا ہے، اس مرتبہ بھی وہی کیا، لیکن ہمارے جو رفیق گوگل میپ سے ہدایات لے کر ڈرائیو کرنے والے کی رہنمائی کر رہے تھے، انہوں نے ہدایات کی ترسیل میں کئی بار تاخیر کی، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے تقریبا پانچ سات کیلو میٹر کا چکر تو لگا لیا، لیکن حرم کی پارکنگ، یا اس سے متصل دوسری پارکنگ میں نہیں پہنچ سکے، خیر اس کام کا بیڑا ایک دوسرے رفیق نے اٹھایا اور انہوں نے بھی حرم کے گرد ایک چکر لگوا دیا۔ خیر کسی طرح سید الشہداء مسجد کے قریب "ٹاپ ٹن شاپنگ سنٹر”  کی پچھلی سڑک پر پہنچے، تو عصر کی اذان ہونے لگی، حرم پہنچ کر گاڑی پارک کر کے جماعت میں شریک ہونا دشوار محسوس ہونے لگا، بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ قریبی مسجد میں نماز پڑھ کر کھانا کھا لیا جائے کہ سب لوگ زوروں بھوک محسوس کرنے لگے تھے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، مدینہ طیبہ میں داخل ہوتے ہی اس حقیر نے اپنے محترم دوست مولانا وسیم بکر قاسمی صاحب اور عزیزی محمد اسلام قاسمی  کو اپنے آمد کی اطلاع کا فون کردیا تھا، ان سے بھی یہ طے پایا کہ ٹاپ ٹن کے پیچھے والے ” میراج ریسٹورنٹ ” میں ملیں گے۔

مولانا وسیم بکر قاسمی صاحب میرے نہایت ہی قریبی دوست ہیں، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ کے زمانہ تعلیم میں میرے سینئر تھے، درمیان میں کئی سال کوئی رابطہ نہیں رہا، پھر قطر کے دوران قیام جب پہلی بار اللہ عز و جل نے حرمین شریفین کی زیارت اور عمرہ کی سعادت سے نوازا، تو مدینہ طیبہ میں ان سے ملاقات ہوئی، پھر ماشاء اللہ اب تک مستقل رابطہ ہے، اللہ سے دعاء ہے کہ ہماری اس محبت کو سدا قائم و دائم رکھے۔

مولانا وسیم صاحب متوسط قد، معصوم صورت، غایت درجہ متواضع، ملنسار، دینی وسماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والے اور صاحب لطف و کرم انسان ہیں،  مدینہ طیبہ میں حجاج و معتمرین کی خدمت سے وابستہ ہیں، ہندوستان کے مختلف شہروں کے متعدد حج و عمرہ کی ٹریول ایجنسیوں کو مدینہ طیبہ میں ہوٹل، کیٹرنگ اور مقامات مقدسہ کی زیارت کی سہولت فراہم کرتے ہیں، ان کی سادگی اور تواضع کی وجہ سے لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ وہ کس قدر انتھک محنت کرتے ہیں اور کس سلیقہ اور محبت سے حجاج و معتمرین کو خدمات فراہم کرتے ہیں، مختصر یہ کہ رب کریم نے  بڑی ہی خوبیوں سے نوازا ہے۔

اس حقیر سے ہمیشہ بڑی ہی محبت سے ملتے ہیں اور اپنی گوناگوں مشغولیتوں کے باوجود مدینہ طیبہ کے قیام کے دوران رہنے سہنے، کھانے پینے، زیارت وغیرہ کی سہولتیں بھی فراہم کرتے ہیں اور اپنا وقت بھی دیتے ہیں، خصوصا اہل خانہ کے ساتھ جب بھی مدینہ طیبہ حاضری ہوئی، ان کی عنایتوں کی وجہ سے گھر کا سا سکون میری بیوی بچہ کو رہا۔ جزاہ اللہ خیر الجزاء

عزیزی محمد اسلام قاسمی صاحب مولانا وسیم صاحب کے رشتہ دار اور ان کے کاموں میں معاون ہیں، میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں، نیک، متواضع، پیارے اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہیں، پہلے عمان میں ایک مکتبہ کی خدمت سے منسلک تھے، سال گذشتہ سے مدینہ طیبہ میں ہیں، ان کے آجانے سے مجھے مدینہ طیبہ میں بڑی راحت محسوس ہوتی ہے، مدینہ منورہ تو میری حاضری ہوتی رہتی ہے اور مولانا وسیم صاحب اور عزیزی اسلام سے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے، بلکہ میرے اور اہل خانہ کے مستقل میزبان ہیں، ان سے شکایت یہ ہے کہ قرب مکانی اور ماشاء اللہ میرے پاس ینبع میں کشادہ مکان ہونے، ینبع کے تفریحی شہر ہونے اور بار بار دعوت دینے کے باوجود بھی اپنے پھیلے ہوئے کاموں کی وجہ سے کم ہی آپاتے ہیں۔ بہرحال اللہ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ان کے کاموں اور روزی میں برکت دے۔

وادی بیضاء میں

ہم لوگ کھانا کھا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ یہ دونوں حضرات تشریف لے آئے، ہمیشہ کی طرح بڑی گرمجوشی سے ملے، کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی، پھر طارق بھائی، ابرار بھائی اور عادل کی خواہش پر یہ طے پایا کہ پہلے وادی بیضاء سے گھوم آئیں، جسے برصغیر کے حجاج و معتمرین نے اور یہاں کے مقامی ٹورس والوں نے ” وادی جن ” کے نام سے مشہور کر رکھا ہے، وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس وادی میں پندرہ بیس فٹ کا نشیبی حصہ ایسا ہے، جہاں کوئی بھی گول چیز نشیب میں ڈال دیں، تو وہ بلندی کی طرف چڑھنے لگتی ہے، یہاں تک کہ گاڑی کا انجن بھی اس نشیبی حصہ میں بند کر دیں، تو گاڑی اوپر کی طرف خود بخود جانے لگتی ہے، لوگوں کا یہ غلط خیال ہے کہ اس کی وجہ جنات کا عمل دخل ہے، ویسے اس پوری وادی کو حکومت نے پکنک کی جگہ کے طور پر بنا رکھا ہے، اور شام میں بہت ساری فیملی یہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔

حرم سے تیس پینتیس کیلو میٹر کا فاصلہ ہے، ارادہ تھا کہ مغرب سے پہلے واپسی ہو جائے گی، لیکن واپسی میں راستہ ہی میں مغرب کی اذان ہو گئی، مسجد طریق میں ہم لوگوں نے نماز ادا کی اور سوئے حرم چل پڑے۔ حرم سے متصل پارکنگ میں کار پارک کر کے ہم لوگ حرم پہنچ گئے۔

بے قراری کو آخرقرار آ ہی گیا

مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا، جیسے کہ ایک چھوٹے سے بچہ کو اپنی ماں کی محبت اور مامتا بھری آغوش مل گئی ہو، رعب کے ساتھ ساتھ جمال نبوی کا مظہر وہاں اتنا واضح اور نمایاں رہتا ہے کہ ہم جیسوں کو بھی بہت محسوس ہوتا ہے، دل بلیوں اچھل رہا تھا، کیوں نہ ہم اللہ عزو جل کا شکر ادا کریں اور اپنی قسمت پر رشک کریں کہ آج ہم ان کے قریب ہیں۔ ان کی مسجد میں ہیں، جو سید الاولین الآخرین ہیں، جنہوں نے اپنا ہر طرح کا آرام ہماری فلاح و کامیابی کے لئے تج دیا۔ جزی اللہ عنا نبینا محمدا ما ہو اہلہ۔

 مسجد میں پہنچتے ہی مؤذن نے عشاء کی اذان شروع کر دی، اللہ اللہ، اذان کی دلکش اور پرسوز آواز نے ایک سماں سا باندھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ پوری کائنات گوش بر آواز ہے، جب مؤذن نے ” أشهد أن محمدا رسول الله” کی صدا بلند کی، تو جسم میں ایک سنسنی سی ہونے لگی، آنکھیں بھر آئیں، دل پھٹنے لگا، نگاہوں میں سوا چودہ سو سال پہلے کا منظر آنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی دلکش اذان سے مدینہ منورہ گونج رہا ہے، وہ رسالت کی گواہی دے رہے ہیں اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سامنے موجود ہے، نگاہوں میں وہ منظر بھی آگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد جب بہ اصرار سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کو کہا گیا، تو جب انہوں نے ” اللہ اکبر” کی صدا بلند کی، تو لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں اور جب ” أشهد أن محمدا رسول الله ”  پر پہنچے تو وہ خود تو بے ہوش ہو گئے اور لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، لوگ گھروں سے بے تحاشہ باہر نکل آئے، ایک کہرام سا مچ گیا۔

اس حقیر کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی خوشی بھی تھی، روز قیامت آپ کی شفاعت اور قرب کے حصول کی دعائیں بھی دل میں تھیں اور اپنی سیہ کاری پر نظر کر کے خائف بھی تھا۔

 امید و بیم اور دعاؤں کے بیچ چند منٹ گذر گئے، پھر نماز شروع ہوگئی، نماز کے بعد سنت و وتر ادا کر کے تمام احباب دعاؤں میں لگ گئے، پھر کچھ وقت بلند و بالا خوبصورت بنی ہوئی مسجد کو دیکھتے رہے، پھر  ادب و احترام کے ساتھ ادھر چل پڑے، جہاں سید الاولین و الآخرین، فخر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، دل کہہ رہا تھا کہ لپک کر چلو، کالی کملی والے کے روضہ اطہر سے لپٹ جاؤ، اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرو، شفاعت کی درخواست کرو، امت مسلمہ کی حالت زار کہو، ہندی مسلمانوں کا درد گوش گزار کرو اور بہت کچھ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اچانک دماغ نے کہا ٹھہرو، یہ کس کا دربار  عالی وقار ہے؟ کیا تم حاضری کے لائق ہو؟ تم نے ان کی سنتوں پر عمل کیا ہے؟ کیا کیا ہے تم نے ان کی امت کے لئے؟  کس منہ سے جاؤگے ؟ پاؤں منوں بھاری ہوگئے، آنکھیں نم ہوگئیں، دل نے کہا ہمیں اپنے تمام قصوروں کا اعتراف ہے، لیکن اپنے پاس ایک پونجی ہے، اور وہی اپنا کل سرمایہ ہے، وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، بے پناہ محبت۔

 دل و دماغ کی اسی کشمکش کے بیچ باب السلام پہنچ گیا، جھکی نگاہوں اور زبان پر درود شریف کے نذرانہ کے ساتھ مواجہہ شریف پر پہنچا، صلاۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا، والدین، اساتذہ، اہل و عیال اور دوستوں کا سلام پہنچایا، روز قیامت شفاعت کی درخواست کی، امت اسلامیہ ہند کے دکھوں کا ذکر کیا، پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی یلغار کا شکوہ کیا، مسلم حکمرانوں کی بے حسی کی شکایتیں کی، دادرسی کی درخواست کی۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں عالی وقار خلفاء کی خدمت میں سلام پیش کیا، پھر دربار عالی وقار میں شرف حاضری پر خوشی کے ساتھ اور اپنی سیہ کاریوں پر شرمندگی کے احساس کے ساتھ باب بقیع سے باہر نکلا، دل تو چاہ رہا تھا خدمت اقدس میں اور دیر تک کھڑا رہوں، لیکن لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ان کے حق کی رعایت میں وہاں سے ہٹنا پڑا۔

برادر محترم مولانا وسیم صاحب کا حکم تھا کہ تمام رفقاء کے ساتھ ان کے گھر پر قیام کروں، جو مسجد سید الشہداء احد کے قریب ہے، عزیزی اسلام قاسمی کی معیت میں ہم سب مولانا وسیم صاحب کے گھر پہنچے، پر تکلف عشائیہ سے انہوں نے ضیافت کی، پھر دوسرے احباب سو گئے، طارق بھائی اور یہ حقیر عزیزی اسلام سلمہ کے ساتھ احد کی طرف نکل گئے، دس منٹ میں ہم جبل رماۃ پر تھے، یہ احد سے متصل وہی چھوٹی سی پہاڑی ہے، جس پر غزوہ احد کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ایک مختصر جتھے کو اس حکم کے ساتھ تعینات کیا تھا کہ ہماری فتح ہو یا شکست آپ کو یہیں رہنا ہے، اور یہ پوزیشن نہیں  چھوڑنی ہے۔

جب اللہ عز و جل نے کافروں کو ہزیمت دیا اور دوسرے مسلمان مال غنیمت جمع کرنے لگے، تو اس جتھے کے اکثر افراد کمانڈر عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور چند لوگوں کو چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے، ان کے کمانڈر نے انہیں منع کیا اور کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے حکم تک ہمیں یہیں رہنا ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ حکم جنگ کے وقت تک کا تھا، اب جنگ ختم ہو چکی ہے۔ کفار جو بھاگ رہے تھے، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اس پہاڑی پر بہت کم لوگ ہیں، تو یہ سوچا کہ انہیں آسانی سے ختم کر کے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کیا جاسکتا ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس پہاڑی پر موجود صحابہ کو شہید کر کے عقب سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا، خود سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے اور آپ کے دو دندان مبارک شہید ہوگئے۔

ہم اس پہاڑی پر کھڑے تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا طبیعت کو نشاط بخش رہی تھی، تاحد نگاہ رنگ و نور کا سیلاب تھا، حرم مدنی کے روشن مینارے یہاں سے بہت خوشنما لگ رہے تھے اور ذہن میں غزوہ احد کے واقعات ایک ایک کر کے آ رہے تھے، دل میں رہ رہ کر یہ بات آتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم پر صحیح سے عمل نہ ہو سکنے پر کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا، آج ہم بہ حیثیت فرد اور بہ حیثیت امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے فرمان کو صبح و شام پامال کرتے ہیں، کتنے احکامات سے غفلت برتتے ہیں، فرد و جماعت ہر سطح پر ہماری پریشانی کی وجہ یہی ہے، اللہ ہمیں سمجھ دے۔

سامنے سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے شہداء کے مقابر تھے، ہم پہاڑی سے اتر کر وہاں حاضر ہوئے، سلام پیش کیا، دعائیں کی، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور آپ کے جسم کے ساتھ بے احترامی کا واقعہ یاد آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس واقعہ پر کرب یاد آیا، دل نے کہا سلام ہو اے حمزہ آپ پر، سلام ہو اے شہداء احد، آپ لوگوں نے اسلام کی سر بلندی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہم۔ ۔۔ ہم صرف باتیں ہی بنا رہے ہیں، عمل تقریبا صفر ہے۔

غزوہ احد میں جنگ کا پانسہ پلٹنے سے مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا، یہ المناک بات بھی ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے، اس کے بعد چند صحابہ کرام کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے پہاڑ پر ایک جگہ کچھ وقت گذارا، عزیزی اسلام قاسمی نے بتایا کہ یہاں سے صرف سات آٹھ سو میٹر کے فاصلہ پر وہ مقام واقع ہے، ہم لوگ اس مقام کی زیارت کے لئے چل پڑے، وہاں پہنچ کر انہوں نے  وہ مقام دکھایا جو پہاڑ کے نچلے حصہ میں واقع تھا، اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر ٹھہرے تھے، آپ کے بیٹھنے کا اثر وہاں ہنوز محسوس ہوتا ہے، مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ پتہ نہیں یہ واقعی وہ مقام ہے یا نہیں، لیکن جب یہ دیکھا کہ حکومت نے اس مقام کے ارد گرد لوہے کی جالی دار دیوار بنادی ہے، تو کسی حد تک یہ یقین ہونے لگا کہ یہ وہی مقام ہے، کیوں کہ اسلامی آثار کے ساتھ ان لوگوں کا طرز عمل کچھ ایسا ہی ہے، مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل پچھلی حاضری کے موقع پر بئر عریس پر جانا چاہ رہا تھا، جس کا پانی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا، تو ہمیں قریب سے واپس کر دیا گیا، بہ حیثیت شرعی علوم کے طالب علم کے اس کنویں پر جانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں وہاں کے پانی پینے میں شرعی طور پر کوئی قباحت تو نہیں سمجھ میں آسکی، جو روکنے کا سبب ہو، بہر حال بس دور سے لوہے کی جالی دار دیوار کے پیچھے سے اس مقام کو دیکھا، پھر عزیزی اسلام سلمہ نے اشارہ سے پہاڑ کے اوپر کی اس جگہ کو بھی دکھایا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وقت گذارا تھا، وہ کافی بلندی پر واقع ہے۔ رات کا بارہ بجنے والا تھا، ہم لوگ مولانا وسیم صاحب کے گھر لوٹ گئے۔

ڈاکٹر شبیر صاحب کے ساتھ میٹنگ

دوسری صبح 3 محرم 1439 مطابق 23 ستمبر 2017 بروز ہفتہ ہمارے پاس دو کام تھے، ان سے فارغ ہو کر خیبر جانا تھا، پہلا کام ڈاکٹر شبیر صاحب کے ساتھ ایک ضروری میٹنگ تھی، دوسرا روضۂ پاک پر حاضری، یہ طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب سے میٹنگ کے بعد روضۂ پاک پر حاضری دیتے ہوئے خیبر کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر شبیر صاحب پٹنہ کے مضافات کے رہنے والے ہیں، اب پٹنہ میں ہی اپنا مکان بنا لیا ہے، مدینہ طیبہ کے گورنمنٹ ہاسپیٹل میں سالوں سے خدمت کر رہے ہیں،  بہت ہی اچھے ڈاکٹر اور نہایت ہی بلند اخلاق انسان ہیں، دل درد مند اور فکر ارجمند رکھتے ہیں، قوم و ملت کی خدمت کا نہ صرف جذبہ ہے، بلکہ عملی طور پر اپنے مقدور بھر کرتے بھی رہتے ہیں، ان کا نیا پلان یہ ہے کہ ایک ٹرسٹ کے زیر انتظام  پہلے بہار (پھر دوسری ریاستوں ) کے ہر شہر میں، پھر دیہاتوں میں تین کام کئے جائیں :

 1- دینی بنیادی تعلیم اور اسلامی اخلاقیات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے حامل اسکول کا قیام۔ (ما شاء اللہ اس حوالے سے بہت سارے لوگ اب بھی کام کر رہے ہیں )

2- بہترین اور عمدہ سہولتوں سے لیس ہاسپیٹل کا قیام۔

3- سرائے اور مسافر خانہ کا قیام۔

کام کا نقشہ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ کوشش کر کے بہار سے ابتداء کرتے ہوئے پہلے ایک لاکھ پڑھے لکھے، ذی ہوش افراد کی ممبر سازی کی جائے، جب اس ٹارگٹ کو پا لیا جائے، تو ممبر شپ فیس فی کس (سات ہزار)7000 روپیہ لیا جائے، جس سے ان شاء اللہ بڑی خطیر رقم جمع ہوگی، اس رقم سے کام شروع کیا جائے، ممبر حضرات کو علاج اور سرائے میں ٹھہرنے کی صورت میں بیس پچیس فی صد سے زیادہ رعایت دی جائے، اور مسلسل ممبر سازی پر بھی توجہ رکھی جائے، اس طرح بہ آسانی اس کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، اہل علم، اصحاب فکر و نظر اور سمجھ بوجھ والے لوگوں سے در خواست ہے کہ اس سلسلے میں آگے بڑھیں، ابھی اس مرحلہ میں ان کے پلان کو سمجھنے کی کو شش کریں، اس کے عملی پہلوؤں پر گفتگو کریں، مشکلات سے انہیں آگاہ کریں اور مفید مشوروں سے نوازیں، پھر اگر شرح صدر ہو تو ممبر سازی، اور کام کو آگے بڑھانے میں ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاکر آگے بڑھیں۔ (فیس بک کے اس ایڈریس پر ان سے جڑا جا سکتا ہے: https://www.facebook.com/hesifom.trust.7)

اول الذکر دو کام تو اس حقیر کے ذہن میں تقریبا دو تین سال پہلے سے ہیں۔ مستقل رب ذو الجلال و الاکرام سے دعاء کرتا رہتا ہوں کہ اخلاص سے، عمدہ نظم و نسق کے ساتھ اپنے علاقہ سے شروع کر کے بڑے وسیع پیمانے پر ان دونوں کاموں کو انجام دینے کی توفیق دے اور ان کاموں کے لئے افرادی اور معاشی وسائل مہیا فرمائے، قارئین سے بھی دعاء کی درخواست ہے اور یہ بھی درخواست ہے کہ آپ بھی اس پہلو سے  ملت اسلامیہ اور انسانیت کی خدمت کی بابت سوچیں۔

خیبر میں

ساڑھے نو بجے دن میں ڈاکٹر شبیر صاحب کے ساتھ میٹنگ سے فارغ ہوکر ہم مسجد نبوی کی طرف چل پڑے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے، صلاۃ وسلام اور شفاعت کی درخواست کے ساتھ ساتھ پھر حاضری اور بار بار حاضری کے لئے موقع اور اجازت کی درخواست بھی کی، اللہ سے دعاء ہے کہ یہ شرف تا زندگی بار بار عطا کرتا رہے۔ آمین

گیارہ بجے کہ آس پاس ہم مدینہ طیبہ سے خیبر کی طرف نکلے، مدینہ طیبہ سے تقریبا 170 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، ایک بجے دوپہر کو ہم خیبر میں داخل ہوئے، ایک اہم مسئلہ ایک ایسے رہنما کا تھا، جو کم وقت میں بہتر طور پر ہمیں یہاں کے قلعے اور دوسری تاریخی چیزوں کو دکھا دے، اس کا حل ہمارے رفیق جناب ابرار مصطفی صاحب نے یوں نکالا کہ ان کے ایک دوست جناب شوکت صاحب۔ جو سال گذشتہ تک خیبر کے ایک ٹیکنیکل کالج میں استاذ تھے اور ان دنوں ابہا میں ہیں۔ سے درخواست کی کہ اس سلسلہ میں کوئی تعاون کریں، انہوں نے اپنے ایک سعودی نژاد شاگرد (حسان عیسی، جو ان دنوں بلدیہ میں ملازم ہیں ) کو ہماری رہنمائی کے لئے کہا، جسے اس ہونہار طالب علم نے بہ خوشی قبول کیا۔

بہت ہی محبت کے ساتھ حسان عیسی نے ہمیں خوش آمدید کہا اور یہ کہا کہ آپ لوگ ہماری گاڑی میں آ جائیں، بات اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر ہمیں اپنی گاڑی یہیں چھوڑ دینے کو کیوں کہہ رہے ہیں، لیکن جب نخلستان اور قلعوں کو دیکھنے کے لئے گیا اور حد درجہ دشوار گذار اور غیر مسطح پتھریلے راستہ سے سابقہ پڑا تو اندازہ ہوا کہ لینڈ کروزر یا اس جیسی بڑی اور مضبوط گاڑی سے ہی، اور واقف کار اور خوب مشاق ڈرائیور کے ساتھ ہی ان راستوں پر سفر ممکن ہے۔

خیبر میں بڑے آٹھ قلعے ہیں، حسان کو یہ شکایت تھی کہ اگر آپ کو تمام قلعے دیکھنا تھا تو علی الصباح خیبر میں رہنا تھا، ایسی صورت میں شام تک دیکھنا ممکن ہوتا، پھر وقت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ طے کیا کہ ہم دو قلعوں کو دیکھنے جائیں گے، ایک قلعہ قموص، دوسرا قلعہ نزار، ان دونوں کے بیچ کھجور کے باغات بھی ہیں، جو تیس سے زائد قدرتی چشموں سے سیراب ہوتے ہیں اور بہت ثمر آور ہیں۔

خیبر کے پرانے اکثر حصہ کو ” قریہ تراثیہ”  (ہسٹوریکل ولیج یعنی تاریخی بستی) قرار دے دیا گیا ہے اور کم و بیش تیس چالیس سال  سے اس حصہ میں تعمیرات ممنوع ہے، ہم اس حصہ سے گزرتے ہوئے قلعہ قموص کے نیچے پہنچے، راستہ سے تقریبا بیس فٹ کی بلندی پر قموص کے گرد واقع بستی کا کھنڈر ہے، جو مکانات اور کشادہ راستوں پر مشتمل ہے، اس بستی سے تقریبا ساٹھ ستر فٹ بلندی پر قلعہ قموص ہے، ہم نے نیچے کی بستی دیکھی، پھر راہبر کے ساتھ قلعہ قموص میں داخل ہوئے، رہبر نے بتایا کہ یہ قلعہ عہد نبوی سے آج تک اپنی حالت پر ہے، دیواریں مٹی اور پتھر سے بنی ہیں، چھت کھجور کی لکڑی اور اس کے پتوں سے بنی ہوئی ہے۔ اندر کمرے، راہدریاں، جانوروں کے باڑے اور بیٹھک وغیرہ ہیں، قلعہ کی بلندی، مضبوطی اور انتظام کو دیکھ کر  عقل یہی کہتی ہے کہ بظاہر قلعہ ناقابل تسخیر تھا، ایمان کی قوت اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نے اس ناممکن یا بہت ہی مشکل کو ممکن کیا۔

ہم عجلت کے ساتھ یہاں سے قلعہ نزار کی طرف گئے، اس کے گرد بستی کا کھنڈر نہیں ہے، لیکن یہ قموص کے مقابلہ میں زیادہ بلندی پر واقع ہے، ہمارے رہبر نے بتایا کہ یہ قلعہ  تیس سال پہلے تک آباد تھا، اور خود حسان عیسی  کے دادا یہیں رہتے تھے، اس اطراف میں نخلستانوں میں جب آگ لگتی تھی تو کئی کئی دن تک بجھ نہیں پاتی تھی اور کئی بار جانی نقصان بھی ہوا، اسی پس منظر میں حکومت نے جبرا لوگوں کو نئی بسائی آبادی میں منتقل کر دیا اور ان قلعوں اور ارد گرد کی پرانی بستی کو ہسٹوریکل ولیج قرار دے کر یہاں رہائش اور نئی تعمیر کو ممنوع قرار دے دیا ، اس قلعہ میں ہم نے بعض جگہوں کو خوشنما اور رنگ برنگے کاغذات اور پلاسٹک سے سجا ہوا  دیکھا، پوچھنے پر رہبر نے بتایا کہ اب بھی تقریبات اور عید کے موقع پر ہم یہاں آکر کچھ وقت گذارتے ہیں۔

 وہاں سے اس مقام پر آئے، جہاں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے ساتھ قیام کیا تھا، اس میدان سے متصل شہداء کے مقبرے بھی ہیں، ان کو سلام پیش کرنے اور دعاء کرنے کی سعادت حاصل کی، ان پاکیزہ نفوس کی خوشبو آج بھی ان فضاؤں میں محسوس ہوتی ہے۔

شام کے تقریبا چار بج گئے تھے، اور سب لوگ تھکن سے چور ہو گئے تھے، حسان عیسی کو بھی ایک ضروری کام نا گہانی طور پر پیش آگیا تھا، ان تمام وجوہات سے یہ طے پایا کہ ان شاء اللہ پھر کبھی ایک دو دن وقت لے کر آئیں گے اور تفصیل سے سارے مقامات کو دیکھیں گے اور سمجھیں گے، حسان عیسی نے خیبر کے نئے شہر تک چھوڑا، جہاں ہماری گاڑی لگی تھی اور تمام مقامات کو نہیں دکھا پانے پر  معذرت کے ساتھ ضروری کام کے لئے چلے گئے، ہم لوگوں نے نماز عصر ادا کی، ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور ساڑھے چار سو کیلو میٹر کے سفر کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔

چکنی سڑک پر تیز رفتاری سے گاڑی چلتی رہی اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے دماغ میں غزوہ خیبر کے واقعات آتے رہے کہ چودہ سو صحابہ کرام کو لے کر سن سات ہجری میں کس قدر مشقتیں اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آٹھوں قلعے جن میں اکثر جنگ کے ذریعہ فتح ہوئے، اس کے لئے کس قدر انتھک  محنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے کیا، ان پاکیزہ نفوس نے جانوں کا نذرانہ دے کر سازشی یہودیوں کی قوت و شوکت کو ختم کیا، آج بھی پوری امت مسلمہ ان سازشی یہودیوں کی سازش کا شکار ہے، کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی۔ جو آج کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ میں کوئی فرد، کوئی ملک، اور کوئی جماعت ایسی نہیں جو ان مردودوں کے خلاف کھڑی ہو ؟ اور بالخصوص قبلہء اول کو ان کے ناپاک قبضہ سے چھڑائے۔

ساڑھے چار گھنٹے کا سفر طے کر کے۔ الحمد للہ۔ ہم لوگ خیریت و عافیت سے واپس ینبع پہنچ گئے۔ مجموعی طور پر یہ پورا سفر بہت ہی اچھا اور معلومات افزا رہا، ہم مزاج دوستوں کی معیت نے اس سفر کو اور ہی دلچسپ بنادیا۔

تبصرے بند ہیں۔