بچوں کی نگہداشت اور ویکسین  

تبسّم منظور

بچےکی پیدائش سے ہی ان کی نگہداشت پر دھیان دینا ضروری ہے۔ آج سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی حالت کا پتہ چل جاتا ہے۔ سونوگرافی کے ذریعے پیٹ میں ہی بچے کے تمام اعضاء کے بارے میں معلوم کرلیاجاتا ہے۔ خدانخواستہ بچے کا کوئی عضو ناکارہ ہو یا پیدائش کے بعد بچے کو زیادہ تکلیفوں سے گزرنا پڑے یا اس عضوکی وجہ سے وہ بچہ زندگی بھر معذور ہو سکتا ہے تو ڈاکٹر کی صلاح سے اسے ختم بھی کیا جاتا ہے۔ ماں کے بھی سارے ٹیسٹ حمل کے دوران ہی کیے جاتے ہیں ۔ جس میں ایچ آئی وی کا ٹیسٹ بھی کرایا جاتا ہے۔ ٹیسٹ کرانے پر پتہ چلے کہ ماں کو ایچ آئی وی ہے تو بھی گھبرانے کی بات نہیں ۔ اب ایسی دوائیاں موجود ہیں جو ایچ آئی وی کی مریض عورت کو حمل کے دوران تندرست رکھتی ہیں اور اس وائرس کوبچے میں منتقل ہونے سے روکتی ہیں ۔ لیکن اگر دوائیں نہ لی جائے تو یہ وائرس بچے میں منتقل ہو سکتا ہے۔

ماں کو حمل کے دوران اور زچگی کے بعد صاف صفائی پر پوری توجہ دینی چاہئے۔ کئی مائیں دودھ پلاتے وقت صفائی کا خیال نہیں رکھتیں ۔ دودھ پلانے میں غفلت اور بے پروائی کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ اپنے سینے کو صاف نہیں کرتیں ۔ جب دودھ بہنے لگتا ہے اور وہ سوکھ جائے تو بدبو آنے لگتی ہے۔ اس لئے ماؤں کو اپنے سینے پر کپڑا رکھنا چاہئے اور بار بار بدلنا چاہئے تا کہ بچہ آسانی سے دودھ پی سکے۔ بچے کوصفائی سے دودھ نہ پلایا جائے تو کئی پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے میں کئی بچے ہیضے کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

صحت مند اور تندرست بچہ کسی مشکل اور محنت کے بغیر آسانی سے سانس لیتا ہے۔ اسے ہر ایک سے دو گھنٹے بعد دودھ پینا چاہیے۔ بچہ اگر بھوکا ہو یا گیلا ہو تو اسے خود جاگنا چاہیے۔ بچے کے دوسرے دن سے لے کر پانچویں دن کے درمیان ہونے والاپیلیا (یرقان)خطرناک نہیں ہوتا۔ اس کا بہترین علاج سورج کی روشنی یعنی صبح کی ہلکی دھوپ ہوتی ہے اور ماں کا دودھ زیادہ سے زیادہ پلانا چاہیے۔ ماں کا دودھ بچے کے لئے سب سے بہترین غذا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کی چھاتی سے نکلنے والاپیلا دودھ سونے کے پانی کی طرح ہوتا ہے۔ کم مقدار میں آتا ہے لیکن نوزائیدہ بچے کے لئے یہ مقدار اس کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔ نوزائیدہ بچے کے لئے یہ مکمل اور بہترین غذا ہے۔ اس دودھ میں جراثیم کو مارنے والے اجزا ہوتے ہیں جو ماں کے جسم کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور بچے کو انفیکشن سے بچاتے ہیں ۔ اس پہلے دودھ کوضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ بچے کے لئے یہ کسی بھی دوا سے بڑھ کر اور بے حد قیمتی ہے۔ پیدائش کے بعد دو دن یہ دودھ پلانا بہت ضروری اور اہم بھی ہے کیونکہ اس سے ہی ماں میں دودھ بننا شروع ہو جاتا ہے۔

  لیکن آج کل کا یہ ماڈرن زمانہ ہے۔ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانا مناسب نہیں سمجھتیں۔ بس یہ کہتی ہیں کہ ہمیں دودھ نہیں آتا۔ انہیں لگتا ہے دودھ پلانے سے ان کی فیگر خراب ہو جائے گی۔

پہلے ہفتے میں بعض بچوں کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے بعد بھی بچے کا وزن کم ہو رہا ہے تو اس کا مطلب بچے کو پوری خوراک نہیں مل رہی ہے۔ پہلے تو کوشش کریں کہ ماں کا دودھ ہی دیا جائے پھر بھی خوراک پوری نہ ہو تو ڈاکٹر کی صلاح سے بچے کو باہر کا دودھ دیں ۔ بچوں کی ہر چھوٹی چھوٹی حرکت پر نظر رکھیں ۔ ڈاکٹر سے تھوڑی بہت دوائیاں لکھوا لیں تاکہ تکلیف میں آپ آسانی سے بچے کو گھر پر ہی دوا دیں سکیں ۔

  زچگی کے بعد ہی بچوں کے ڈاکٹر آکر بچے کا چیک اپ کر لیتے ہیں۔ اس وقت ایک فائل دی جاتی ہے جس میں ویکسین کا پورا چارٹ ہوتا ہے کہ کونسا ویکسین کب لینا ہے۔ کئی لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اتنے سارے ویکسین کیوں لینے ہیں ؟ ویکسین کیا کام کرتے ہیں ؟ کیا وہ وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف کام کرتے ہیں ؟ ویکسین مستقبل میں ہونے والی کسی مخصوص بیماری کے حملوں کے خلاف مدافعتی طاقت کو تیار کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ وائرل اور پیتھو جینز دونوں یا بیماری پیدا کرنے والے ایجنٹوں کے خلاف ویکسین موجود ہیں ۔ اور یہ ویکسین وائرس اور بیکٹیریا کو پوری طرح ختم تو نہیں کرتے لیکن ان کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں ۔

 ٹیکہ ایک دوائی ہے۔ کچھ میں زندہ جراثیم ہوتے ہیں ، کچھ میں مردہ جراثیم ہوتے ہیں ۔ جب یہ دوائی جسم کے اندر جاتی ہے تو اس وقت جسم کا مدافعتی نظام سویا ہوا ہوتا ہے۔ جب اسکو ویکسین دیتے ہیں تو اس کا مطلب سوئے ہوئے کو جگا دیا تو وہ فوراً حرکت میں آتا ہے۔ اس حرکت میں بچوں کو بخار آتا ہے۔ کچھ کو کم کچھ کو زیادہ۔ آج کل تو بنا درد اور بنا بخار کے بھی ویکسین دستیاب ہیں

 بچے کے پیدائش کے دوسرے یا تیسرے دن دو ویکسین دی جاتی ہیں ۔ جن میں پولیو اور بی سی جی شامل ہیں ۔ پولیو ویکسین بچے کو پولیو سے بچاتی ہے۔ بی سی جی کا انجیکشن بچے کو ٹی بی سے لڑنے کی قوت مدافعت دیتا ہے۔ پھر بچے کی پیدائش کے چھٹے ہفتے بعد ایک بار پھر پولیو سے بچاؤ کے لئے پولیو کے دو قطرے دیئے جاتے ہیں ۔ پولیو ویکسین کے علاوہ ہیپاٹائٹس ون (ڈی پی ٹی، ایچ بی، ایچ آیی بی ) کے انجکشن دیئے جاتے ہیں ۔ یہ ٹیکہ جات کا کورس نومولود بچے کو نمونیا، ہیپاٹائٹس، کالی کھانسی، گردن توڑ بخار سے محفوظ رکھتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے دس ہفتے بعد ایک بار پھر پولیو سے بچاؤ کے لئے پولیو کے دو قطرے پلائے جاتے ہیں اور ہیپاٹائٹس ٹو (ڈی پی ٹی، ایچ بی، ایچ آیی بی ) ٹیکے بھی لگائے جاتے ہیں ۔ چودہ ہفتے کے بعد ایک بار پھر بچے کو پولیو سے بچاؤ کے لئے پولیو کے دو قطرے اور ہیپاٹائٹس تھری (ڈی پی ٹی، ایچ بی، ایچ آیی بی ) کا  ڈوز دیا جاتا ہے۔ بچے کو نومہینے کی عمر میں خسرہ سے بچاؤ کے لئے ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور دوسرا ٹیکہ ڈیڑھ سال کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر وبائی بیماریوں سے بچنے کے لئے ویکسین موجود ہیں ۔ اور یہ ویکسین لگوانا بھی ضروری ہیں ۔ ویکسین اور ٹیکوں کا کورس پورا کرنے کے بعد بچہ ایک صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔

 آج انٹرنیٹ پر ساری معلومات مل جاتی ہے۔ پھر بھی میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ویکسین اور ٹیکے نہ لگنے کی وجہ سے پانچ سال کے اندر کے بہت سارے بچوں کی موت ہوجاتی ہے۔ کئی پڑھے لکھے لوگوں کو بھی کہتے سنا ہے کہ بی سی جی لگوایا اور پولیو ڈراپس دلاتے ہیں ۔

 بچوں کو برابر وقت وقت پر ویکسین اور ٹیکے لگائے جانے چاہئیں تاکہ پانچ سال کے اندر کے بچوں کی اموات کی شرح کم ہو سکے۔ یہ ٹیکے سرکاری ہسپتالوں میں مفت دیئے جاتے ہیں ۔ جو لوگ ویکسین اور ٹیکوں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں ۔ انہیں  چاہئے کہ اپنے آس پاس گلی محلے میں معلومات دیں ۔ ٹیکہ یا ویکسین کے عنوان پر نہ صرف معلومات میں کمی ہے بلکہ ان کے ذریعے اس پر کام کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔