دھوبی پچھاڑ پھر ایک بار
ڈاکٹر سلیم خان
اتراکھنڈ میں ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے ایم جوزف کی ڈویژن بنچ نے دوسال قبل مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل ۳۵۶ نافذ کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔ اس سے مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی جس کا حتمی نتیجہ اب آیا اور حکومت کو پھر ایک بار منہ کی کھانی پڑی۔ اس وقت کانگریس کے ۹ ارکان اسمبلی کی بغاوت کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کانگریس اکثریت کھوچکی ہے۔ معاملہ جب عدالتِ عالیہ میں پہنچا تو کورٹ نے فلور ٹسٹ کرانے کی ہدایت کی لیکن مرکزی حکومت نے من مانی کرتے ہوئے ایوان میں قوت ثابت کرنے کی تاریخ سے ایک دن قبل صدر راج نافذ کردیا۔ کانگریس نےدوبارہ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔عدالت نے پھر فلور ٹسٹ کی نئی تاریخ طے کی تو مرکزی حکومت نے اس کے خلاف اپیل کردی لیکن جسٹس جوزف کے قیادت والی بنچ دباو میں نہیں آئی اور انہوں نے ہریش راوت کو وزیراعلیٰ کے طور پر بحال کردیا۔
جسٹس کے ایم جوزف نے اپنے جرأتمندانہ فیصلے میں کہا تھا کہ ان حالات میں صدرراج کا نفاذ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی رولنگ کے خلاف ہے۔بی جے پی کے ہاتھوں بک جانے والے باغی ممبران اسمبلی کی برخواستگی سے متعلق اسپیکر کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ انہیں پارٹی بدلنے کیلئے ’آئینی گناہ‘ کے ارتکاب کی قیمت چکانی ہوگی۔ سماعت کے دوران جب مرکز ی حکومت کے وکیل نےالتجا کی کہ سپریم کورٹ کا حکم آنے تک ہائی کورٹ اپنا فیصلہ ملتوی کرے تو بنچ نے کہا تھاکہ ہم اپنے فیصلے پر روک نہیں لگائیں گے۔ آپ چاہیں تو سپریم کورٹ جاکراسٹے لے آئیں۔ اس کے بعدسے مرکزی حکومت جوزف کی دشمن بن گئی اور ان کی سپریم کورٹ میں ترقی کے راستے میں روڈے اٹکانے لگی۔
اس سال جنوری میں عدالتی تقرری کے لیے کام ذمہ دار ادارے ( کالجیم) نے دو ججوں کا نام حکومت کی خدمت میں پیش کیےجن میں سے ایک کے ایم جوزف کا تھا۔ ماہِ اپریل میں مرکزی حکومت نے جسٹس کے ایم جوزف کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی سفارش کونا منظورکردیا۔ اس کی یہ دلیل تھی کہ کالجیم کی تجویز عدالتِ عظمی ٰ کی کسوٹی کے مطابق نہیں ہےکیونکہ ان سے سینیر ججس موجود ہیں حالانکہ ججس کا تقرر سینیرٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس میں ایک تضاد یہ بھی تھا کہ اندو ملہوترا کو براہِ راست وکیل سے جج کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا اور انہیں سینیرٹی تو دور سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود ان کے نام پر مہر ثبت کردی گئی تھی۔ اسی لیے معروف وکیل اندرا جئے سنگھ نے چیف جسٹس دیپک مشرا سے درخواست کی تھی کہ جب تک جوزف کا تقرر نہیں ہوجاتا اس وقت تک اندو ملہوترا کی حلف برداری موقوف کردیں۔ اس درخواست کو چیف جسٹس نے نامعقول قرار دے کر ٹھکرا دیا تھا۔
اس سرکاری دھاندلی کے خلاف سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جے چیلامیشور نے مئی میں چیف جسٹس دیپک مشرا کو خط لکھ کر کالجیم کی میٹنگ بلانے کی درخواست کی تاکہ جسٹس کے ایم جوزف کو پرموشن دینے کے لیے سفارش کا اعادہ کیا جا سکے۔ اس طرح عدلیہ نے سرکار کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن کے ساتھ پھر سے جسٹس جوزف کا نام مرکز کو روانہ کردیا۔ مودی حکومت کو کالجیم کی سفارشوں کے ضابطے کا علم تھا کہ اگرکالجیم کسی ہائی کورٹ کے جج کا نام ترقی کے لیے دوبارہ بھیج دے اس پر حکم نامہ جاری کرنا سرکار کے لیے لازم ہوجاتا ہے لیکن شاید اس کو توقع نہیں تھی کہ عدلیہ ایسا کڑا رخ اپنائے گی۔ اس طرح مرکزی سرکار پھنس توگئی لیکن سات ماہ سے جاری کشمکش و ہزیمت کے باوجود شرارت کرنے سے نہیں چوکی۔
جنوری میں جب نام بھیجے گئے تھے تو جسٹس جوزف کا نام اندو مہوترا سے اوپر تھا لیکن ان کا نام ہذف ہوگیا۔ دوسری مرتبہ پھر جوزف کا نام سب سے اوپر اور جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن کا نام نیچے تھا لیکن اس ترتیب کو بدل گیا۔ یہ اگر کینہ پروری نہیں تو کیا ہے؟ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مودی سرکار چاہتی تو ہے کہ بہت کچھ پہلی بار کرے لیکن بدقسمتی سے ہربار کوئی نہ کوئی خراب روایت قائم کردیتی ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف ۲۰۱۴ سے اتراکھنڈ ہائی کورٹ چیف جسٹس تھے۔ جسٹس اندرا بنرجی مدراس ہائی کورٹ میں ۲۰۱۷ کے اندر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئیں اور جسٹس سرن اڈیشہ ہائی کورٹ کے ۲۰۱۶ میں چیف جسٹس بنے۔اس لحاظ سے جسٹس کے ایم جوزف ان دونوں کے مقابلےطویل المدت چیف جسٹس ہیں لیکن سرکار نے اپنا سینیرٹی والا معیار فراموش کرکے جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن کو جسٹس جوزف سے سینئر بنادیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنوری میں جب کالجیم نے جسٹس جوزف کے نام کی سفارش کی تھی اس وقت جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن کواس ذمہ داری کے لیے مناسب نہیں پایا گیا تھا۔ اس بار بھی ان کا نام نیچے تھے لیکن حکومت نے اپنے بغض وعناد کے چلتے سب کچھ الٹ دیا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو جج حضرات خود ناانصافی کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے لیےدوسروں کو انصاف دینے میں کس قدر دقت کا سامنا ہوتا ہوگا؟ جن کے اپنے حقوق کی علی الاعلان پامالی ہوتی ہو ان کے لیے عوام کے حقوق کو بحال کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہوگا؟ لیکن ان ساری دقتوں اور مشکلات کو عبور کرتے ہوئے جسٹس جوزف کے معاملے میں ایک بار پھر عدلیہ نے سرکار کو دھوبی پچھاڑ دیا ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔