مطالعہ کتب ہی کلید فلاح

الطاف جمیل ندوی

علم و ادب  کا جزو بے بدل 
ہمارے عروج کا ذامن

وسعت نظر یقینا وسعت مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اعتدال کی ضرورت و اہمیت میں خاصہ اضافہ ہوگیا کیونکہ بعض تنگ نظر اور ایک ہی مسلک یا نقطہ نظر کو شوق سے پڑھنے والے افراد فریق مخالف کے نقطہ نظر کو سننا پسند کرتے ہیں اور نہ اس کی مجلس میں بیٹھتے ہیں، فتویٰ کی زبان سے اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے ہر مخالف شخص کو کافرو مشرک اور منافق جیسے سخت کلمات کہنے سے بھی باز نہیں آتے، اسی بے اعتدالی کی وجہ سے بعض اوقات وہ اپنی فکر میں اس حد تک متشدد ہوجاتے ہیں کہ خود کو ہی صحیح اور حق بجانب خیال کرتے ہیں، خود کو جنتی اور فریق مخالف کوجہنمی، جاہل اور قابل گردن زدنی تصور کرتے ہیں۔

 بالآخر یہی سوچ انتہا پسندانہ نظریات کو جنم دیتی ہے، جو ایک اچھے، پرامن اور مثالی معاشرے کی علامت نہیں ہے۔ اگر اس غلط تصور کی تردید نہ کی جائے تو مجلس و محافل قتل گاہ اور میدان جنگ کا منظر پیش کریں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنی کرم نوازی سے ہر دور میں ایسے کئی لوگ پیدا کرتا ہے جن کی مخلصانہ کوششوں سے انتہا پسندی کے زور کو مکمل ختم تو نہیں مگر کم ضرور کیا جاسکتا ہے اس شدید ترین ضرورت کے پیش نظر زیر مطالعہ مختصر مگر تحقیقی مضمون میں اعتدال کے متعلق ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جارہا ہے جس سے نہ صرف تنقیدی مزاج  ( مراد تنقید برائے تذلیل )  کے طوفان کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ یقینا ہٹ دھرمی پر مبنی سوچ کو تبدیل کرنے کا فائدہ بھی حاصل ہوگا۔

مطالعہ کے حوالے سے ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالی  نے ہمارے لئے جو سب سے اولین بات کی وہ اقراء سے شروع کی قرآن و سنت سے بار بار اس جانب توجہ دلائی گئی کہ ہمیں ہرصورت علم کا سہارا لینا چاہئے جس کا اولین ماخذ قرآن کریم  اور سنن نبوی علیہ السلام ہے  مسلمان معاشرے میں جب تک علم کا دور دورہ رہا تب تک یہ عروج پر تھے علم کے زوال کے ساتھ ہی اندھیری شب  میں بدل گئے وہ شب و روز  جو تاریخ عالم میں تابناک گردانے جاتے ہیں مطالعہ کرنا علم میں اضافے کا سبب ہے جب سے یہ طریقہ گیا تب سے اب تک ہماری پستی کا  زخم گہرے سے گہرا ہی ہوتا گیا  مطالعہ کے حوالے سے یاد رکھیں کہ  شیشی کے اندراگر مشک ہوتو کھولنے کے بعد خوشبو ضرور پھیلتی ہے اسی طرح جب ایک صاحب علم  کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہوتا ہے تواس کی تحریر و تقریر  میں قوت اور اثر ہوتا ہے؛ ورنہ تحریر و تقریر  کمزور، پھسپھسی اور بے جان ہوتی ہے۔عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے: ”زمانے کا بہترین دوست کتاب ہے“ اسی کو شورش مرحوم نے اس طرح کہا ہے: ”کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں “۔ اسی طرح ایک مفکر کہتا ہے:”کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ، حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور عملی تجرباتی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے۔“

 کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن ودماغ کو تازگی بھی بخشتا ہے۔ایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لیےدانا اور پانی کی ضرورت ہے، مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے، علم انسان کا امتیاز ہی نہیں ؛ بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے، ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے؛ اس لیے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے۔ اگرانسان اپنے اسکول و مدرسہ کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے تو اس کے فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا۔ مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور زاویہٴ فکر ونظر کو وسیع سے وسیع تر کرتا رہتا ہے۔

مطالعہ ایک ایسا دوربین ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کے گوشہ گوشہ کو دیکھتا رہتا ہے، مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے جس پرسوار ہوکر ایک مطالعہ کرنے والا دنیا کے چپہ چپہ کی سیر کرتا رہتا ہے اور وہاں کی تعلیمی، تہذیبی،سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ شورش نے کہا: ”کسی مقرر کاایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لیےدانا اور پانی کی ضرورت ہے، اتنا ہی لازم ہے مطالعہ  بغیر مطالعہ کے انسان کسی صورت بھی اپنے اسلاف کو اپنی تاریخ کے روشن ابواب سے واقفیت حاصل نہیں کر سکتا  انسانی دنیا پر عروج و زوال  کے زمانے کے تذکروں  سے ناواقف ہوکر کسی عظیم انقلاب کے بارے میں سوچنا بھی فضول ہے قومیں تب تک نہیں پنپتی  جب تک انہیں تاریخ کے اوراق کے بارے میں علم نہ ہو ۔

  اللہ تعالی سابقہ اقوام کی بربادیون کے تذکرے کرکے امت محمدیہ  علیہ السلام کو یہی بتلانا چاہتے ہیں کہ ان کی بربادی سے زیادہ اسباب بربادی کو دیکھیں ان کے ذوال کے اسباب پر غور فکر کریں  اگر ایسا ہو تو یقینا امت مسلمہ  بام عروج پر پہنچ سکتی ہے جس کی مثال عرب سے نکلے ان عظیم داعیان حق کے کارناموں سے ملتی ہیں جنہوں نے علم و ادب  کی دنیا کا رخ ہی بدل دیا مگر سبب یہی علم تھا جس نے انہیں عرب کے لق و دق صحراؤں سے نکال کر روم کے دروازے پر پہنچا
دیا مناسب رہے گا اگر اس جگہ ہم نسیم حجازی کی کتاب سے لیا گیا یہ اقتباس سمجھ لیں

ہر قوم کی تعمیر  نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصہ لیتی ہے تاریخ ایک آئینہ ہے جس کو  سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی و حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہ ماضی و حال کا موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا رہتا ہے ماضی کی یاد مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر ترقی کا زینہ بن سکتی ہیں اور ماضی کے روشن زمانے پر لاعلمی کے نقاب ڈالنے والی اقوام  کے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہو جاتے ہیں
مسلمانوں کے ماضی کی داستان دنیا کی تمام قوموں سے زیادہ روشن ہے  اگر ہمارے نوجوان غفلت اور جہالت کے پردے اٹھا کر اس روشن زمانے کی معمولی سی روشنی بھی دیکھ سکیں تو مستقبل کے لئے انہیں ایک ایسی  شاہراہ عمل نظر آئے گئی جو کہکشاں سے زیادہ درخشاں  ہے  ۔ ۔داستان مجاہد۔ ۔

مطالعہ کتب کے بارے میں جاننے یہ آراء بھی 

امام محمد ؒ ساری رات مطالعے میں منہمک رہتے۔ ساتھ ساتھ پڑھے گئے مواد پر کتاب بند کر کے غور و خوض کرتے۔ بسا اوقات صبح تک جاگتے رہتے اور عشاءکے وضو ہی سے نماز فجر پڑھتے .امام شافعیؒ کے جلیل القدر شاگرد، امام مزنیؒ فرماتے ہیں ”میں نے اپنے استاد کی اےک کتاب کا پچاس برس مطالعہ کیا اور ہر مرتبہ مطالعے میں مجھے نئے فوائد حاصل ہوئے دیوبند کے ممتاز عالم دین، مولانا اعزاز علیؒ کو کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ جب بیمار ہوتے تب بھی سرہانے کتابوں کا انبار لگا رہتا۔ فرمایا کرتے تھے، بیماری کا علاج کتب بینی ہے
ڈاکٹر عائض القرنی ”لاتحزن“ میں لکھتے ہیں :مطالعہ سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ ناحقلڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔ فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔ زبان کھلتی ہے اور کلام کاطریقہ آتا ہے۔ ذہن کھلتاہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔ علوم حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے تجربات اور علماء وحکماء کی حکمتوں کاعلم حاصل ہوتا ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ سے ایمان تازہ ہوتا ہے

مطالعہ انسان کے لئے اخلاق کا معیار ہے۔ [علامہ اقبالؒ]

بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ [امام غزالیؒ]

تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ [حکیم ابو نصر فارابی ؒ]

ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اورمطالعے کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کے لئے۔ [ایڈیسن]
مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ [بیکن]

مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے۔ [سمر سٹ ماہم]

تین دن بغیر مطالعہ گزار لینے کے بعد چوتھے روز گفتگو میں پھیکا پن آجاتا ہے۔ [چینی ضرب المثل]

انسان قدرتی مناظر اورکتابوں کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ [سسرو]

مطالعے کی بدولت ایک طرف تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا اوردوسری طرف تمہاری شخصیت دلچسپ بن جائے گی۔ [وائٹی]

دماغ کے لئے مطالعے کی وہی اہمیت ہے جو کنول کے لئے پانی کی۔ [تلسی داس]

مطالعہ کسی سے اختلاف کرنے یا فصیح زبان میں گفتگو کرنے کی غرض سے نہ کرو بلکہ ’’تولنے‘‘ اور’’سوچنے‘‘کی خاطر کرو۔ [بیکن]

جس طرح کئی قسم کے بیج کی کاشت کرنے سے زمین زرخیز ہو جاتی ہے، اسی طرح مختلف عنوانات پر کتابوں اور رسالوں وغیرہ کا مطالعہ انسان کے دماغ کو منور بنادیتا ہے۔ [ملٹن]

جو نوجوان ایمانداری سے کچھ وقت مطالعے میں صرف کرتا ہے، تو اسے اپنے نتائج کے بارے میں بالکل متفکر نہ ہونا چاہئے۔ [ولیم جیمز]

مطالعے سے خلوت میں خوشی، تقریر میں زیبائش، ترتیب وتدوین میں استعداد اور تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ [بیکن]
وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے

جس کو مطالعہ کا شوق نہیں – [میکالے]

مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اوراس کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ [شیلے]

دنیا میں ایک باعزت اورذی علم قوم بننے کے لئے مطالعہ ضروری ہے مطالعہ میں جو ہر انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے۔ [گاندھی]

اکثر دیکھا گیا ہے کہ کتابوں کے مطالعے نے انسان کے مستقبل کو بنادیا ہے۔ [جیفر سن]

تم مطالعہ اس لئے کرو کہ دل ودماغ کو عمدہ خیالات سے معمور کر سکونہ کہ اس طمع سے کہ تھیلیاں روپوں سے بھر پور ہوں۔ [سینکا]‏

  ذرا سوچئے اگر ایک شخص روزانہ ایک گھنٹہ مطالعہ کر ے اور ایک گھنٹہ میں 20 صفحات کا مطالعہ کرے تو ایک ماہ میں 600 صفحہ کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں 7200)سات ہزاردوسو( صفحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔بالفرض ایک شخص کی عمر 65 سال ہو اور وہاپنی تعلیم سے فارغ ہوکر 25 سال کی عمر میں مطالعہ شروع کرے اس طرح وہ 40 سال مطالعہ کرے گا اور اس مدت میں 2,88000)دو لاکھ اٹھاسی ہزار( صفحات پڑھ ڈالے گا، اوسطاً اگر ایک کتاب 80 صفحہ کی ہو تو اس دوران 3600 کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

مطالعہ ایک خوبصورت گلشن کی مانند ہے، اس میں خوشبو بھی ہے، دل آویزی بھی ہے، اور خاردار شاخیں بھی ہیں۔ ایک طرف جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم اور افادیت قابل ذکر ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے مواد میں انتہائی چاق و چوبندی ناگزیر ہے۔ اسی طرح اس کے طریقہ کار سے بھی واقفیت بہت ہی ضروری ہے؛ اس لیے کہ کسی بھی کام کو اگر اس کے اصول وضابطہ سے کیا جائے تو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے؛ ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہاتھ۔

 مطالعہ ہی سے اورون کے تجربات سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔ پروفیسر محسن عثمانی ”کتابوں کے درمیاں “ میں تحریر فرماتے ہیں: ”مطالعہ دراصل دوسروں کے تجربات سے استفادہ کا اور تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات اور ان کی گفتگو سننے کا نام ہے۔ سوانح عمریوں سے اور خاص طور سے خود نوشت سوانح سے اور سفرناموں سے ایک قاری بہت کارآمد معلومات حاصل کرسکتا ہے، کتابوں کے مطالعہ سے انسان کو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے۔ جسے وہ دور کرنےکی کوشش کرتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان کے شعور میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اچھے اور بُرے کی پرکھ اور تنقید کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان میں فنی تخلیق کی استعداد پیدا ہوسکتی ہے اور انسان کائنات اور حیات کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان آفاق وانفس کی نشانیوں کو بہتر طور پر جان سکتا ہے۔ اس سے وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے اور علم کے اظہار کے موٴثر طریقے دریافت کرتا ہے۔ ایک انسان جب کتب خانہ میں داخل ہوتا ہے اور کتابوں سے بھری ہوئی الماریوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے تو دراصل وہ ایسے شہر علم میں کھڑا ہوتاہے جہاں تاریخ کے ہر دور کے عقلاء، علماء، اہلعلم اور اہل ادب کی روحیں موجود ہوتی ہیں۔ اس شہر میں اس کی ملاقات امام غزالی، امام رازی، افلاطون، ارسطو اور ابن رشد سے لے کر دور جدیدکے تمام اہل علم اور اہل قلم سے ہوسکتی ہے۔

یعنی اگر ہم مطالعہ کتب کو اپنا مشغلہ بنالیں تو ہمارا کل روشن تابناک ہوگا اسی لئے جو بھی تحریک ہو نظم ہو ان کی بقاء  اور کامیابی کے لئے مطالعہ کتب  ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ورنہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جہالت زد پر مبنی ہر کوشش اور تحریک اپنے ہی جاہل غازیوں  کے ہاتھوں شھید ہوکر گمنامیون  کی اتھاہ  گہرائیوں میں جاگرتی  ہے جہاں سے اس کا ابھرنا  سمندر کو ندی میں بدلنے جیسا ہے ۔

یادرکھیےکہ مطالعےکاذوق پیداکرنےمیں طالب علمی کازمانہ نہایت اہم کرداراداکرتاہے! اگراس زمانہ میں مطالعہ کاذوق پیدانہ ہو تو عموما بعدمیں بھی پیدانہیں ہوتا  لیکن اس حقیقت سےبھی انکارممکن نہیں کہ اگرطالب علم کی توجہ خارجی مطالعہ کی طرف زیادہ ہو تو بسا۔ اوقات نصابی کتب کےمطالعےمیں کمزوری درآتی ہے! اس کاحل یہ ہےکہ استاد طالب علم کونصابی کتب کا رٹا  لگوانےکی بجائے اس کتاب کی تدریس کےساتھ ساتھ اس کتاب سےمتعلق دیگر کتب  کابھی عمومی تعارف کروائے۔ اور ان میں ان کتب کےمطالعہ کی تحریک پیداکرتا  رہے ضمنایہ بھی عرض کردوں کہ ایک استادکےلیےیہ بات فرض کےدرجےمیں ہونی چاہیےکہوہ اپنےفن سےمتعلق کتب کابھرپورمطالعہ رکھتا ہو اور اس کتاب کافہم کس کتاب کوپڑھنےکےبعدحاصل ہوگا اس کامکمل ادراک رکھتاہو  آخر پر اپنے عزیز بچوں سے جو کہ ابھی علم کے میدان میں مشغول ہیں سے یہ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہمارا آج کا طالب علم موبائل، انٹرنیت، سی ڈی وغیرہ پر گھنٹوں مصروف رہ کر اپنا قیمتی وقت نہایت بے دردی سے ضائع کر رہا ہے لیکن مطالعہ کتب کے لئےاس کے پاس ٹائم نہیں۔ اس صورت میں اگر علم و دانش سے عاری نسل پید اہو رہی ہے تو حیرانی کی کیا بات ہے جب ایسا ماحول ہم نے فراہم کر دیا جو علم و ادب  سے عاری ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہی تو ہے کہ ایک ایسی نسل پیش ہو جو علم و دانش  سے عاری ہوگئی اور اس کا خمیازہ ہم آج بگھت رہے ہیں کہ ایک ایسی سوسائٹی  بن گئی ہے جو اپنی جہالت کی انتہا پر ہے جس نے اپنے چاروں اور اندھیروں کا پردہ ڈال کر دنیا کو مصیبت کدہ بنا دیا ہے۔

حاصل مطالعہ 

مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے۔ علم ومعلومات کی مثال ایک شکار کی سی ہے؛ لہٰذا اسے فوراً قابو میں کرنا چاہیے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص باتوں کو نوٹ کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے؛ ورنہ بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ نہیں ملتی ہے۔اب یا تو سرے سے بات ہی ذہن سے نکل جاتی ہے یا یاد تو رہتی ہے لیکن حوالہ دماغ سے غائب ہوجاتا  یاد رکھنے کے قابل بات ہمیں دوران مطالعہ کتابوں پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر نشان لگانے اور کتاب کی پشت پر سادہ اوراق میں اہم نکات کے خلاصہ ہو اسے کاپی یا کسی کاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کرلیں مطالعہ کے معاً بعد بعض کتابوں پر ذاتی تاثرات تبصرے بھی اختاصار کے ساتھ لکھنے کی عادت بنائے  حاصل مطالعہ کیسے ذہن نشین ہو یہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس سلسلے میں نعیم صدیقی رقم طراز ہیں : ”میری ذہنی ساخت یوں بنی کہ میں حاصل مطالعہ کو دماغ میں ڈال دیتا اور میرے اندراس پر غور و بحث کا ایک سلسلہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کھانا کھاتے جاری رہتا یہاں تک کہ اس کا مثبت یا منفی اثر میرے عالم خیال پر رہ جاتا“۔معلوم ہوا کہ مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ ورنہ  بات لاحاصل ہی رہے گی۔ مطالعہ کے دوران جہاں اچھی کتابوں، خوشگوار فضا، مناسب مقام، موزوں روشنی اور وقت کی تنظیم ضروری ہے وہیں صحت کا بھی خاص خیال رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
دیکھئے، مولانا اسعدؒ نے کتنے جامع، خوبصورت اور دل نشین انداز میں مطالعے کے بیش بہا فوائد و ثمرات اپنے اشعار میں بیان کئے ہیں۔

انسان کو بناتا ہے اکمل، مطالعہ

ہے چشمِ دل کے واسطے کاجل مطالعہ دنیا کے ہر ہنر سے ہے افضل،

مطالعہ کرتا ہے آدمی کو مکمل، مطالعہ یہ تجربہ ہے خوب سمجھتے ہیں

وہ سبق جو دےکھتے ہیں غور سے اول،

مطالعہ ہم کیوں مطالعہ نہ کریں،

ذوق و شوق سےکرتے نہیں ہیں، احمق و اجہل مطالعہ ناقص تمام عمر،

وہ رہتے ہیں علم سےہوتا نہیں ہے،

جن کا مکمل مطالعہ کھلتے ہیں راز علم کے،

انہیں کے قلوب پرجو دےکھتے ہیں دل سے

تبصرے بند ہیں۔