پیپر لیک: ایک سنجیدہ مسئلہ 

مشرف شمسی

(میرا روڈ ،ممبئی)

پیپر لیک کا معاملہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن یہ معاملہ پورے ملک میں سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے اور  اس معاملے میں اب تک سنجیدگی سے  جانچ نہیں ہوئی ہے اور جب سنجیدگی سے جانچ ہی نہیں ہوئی ہے تو  پیپر لیک معاملے میں کسی بڑے گروہ کے خلاف کاروائی ہونے کی اطلاع بھی نہیں ہے۔ آخر پیپر لیک ہوتا کیوں ہے؟ اور اس پیپر لیک سے سماج کے کس حصے کو فائدہ پہنچتا رہا ہے؟

پیپر لیک کالج یا یونیورسٹی کے امتحانات میں ہوتے ہوں یا انجیرنگ یا میڈیکل ٹیسٹ میں ہوتا ہو یا پھر نوکری کے امتحانات میں ہوتے ہوں ان سبھی میں غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔غریب اور متوسط گھر کا بچّہ جانتا ہے کہ اس کے والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ امتحان میں آنے والے سوال کو خرید سکے اسلئے اُن  طبقے کے بچوں کی کوشش ہوتی ہے کہ امتحان صاف و شفاف ہو اور وقت پر ہو۔ لیکن پیسے والے اپنے کم صلاحیت والے بچوں کو بھی اعلی تعلیم سے فارغ کرنا چاہتے ہیں اور اعلی تعلیم کے بعد ایک اچھی سرکاری نوکری بھی چاہتے ہیں جو مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہو کر  اُنھیں  نہیں مل سکتا ہے۔ تو پھر پیسے سے  سوالات یا امتحانات کے پیپر لیک کرائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یو پی ایس سی کے امتحانات کو چھوڑ دیں تو تقریباً سبھی امتحانات کے پیپر مسلسل لیک ہونا معمول کی بات بن گئی ہے۔

پوری دنیا میں امیر اور غریب سماج کے دو طبقے ہوتے ہیں اور ان دو طبقوں میں آپسی جدّو جہد پوری دنیا میں چلتا رہتا ہے۔ بھارت میں بھی یہ جدّو جہد ملک کے وسائل پر قبضے کے لئے چلتا رہا ہے لیکن بھارت میں امیر اور غریب ذات میں تقسیم ہے۔اسلئے پیپر لیک کرنے والے گروہ اور پیپر لیک سے سوالات حاصل کرنے والے بچے کا زیادہ تر تعلق اونچی ذات یا طبقے سے ہوتا ہے۔ اسلئے تو ویاپم جیسے گھپلے میں سو سے زیادہ کی جانیں جانے کے باوجود پورے گھپلے کو دبا دیا جاتا ہے۔ اس گھپلے میں آر ایس ایس کے کچھ بڑے رہنماؤں کے نام بھی شامل تھے۔ اسی طرح ہر ایک پیپر لیک معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بھارت میں یہ ایک روٹین کا معاملہ بن گیا ہے اور واقعی یہ ایک روٹین کا معاملہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ پیپر لیک معاملے کا پتہ چل جاتا ہے اور کچھ کا نہیں پتہ چلتا ہے۔لیکن ہر ایک امتحان کی منصفانہ جانچ ہو تو پتہ چلے گا کہ امتحان شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی کیوں نہ ہو پیپر لیک ضرور ہوتا ہے۔

پیپر لیک معاملے میں بہت بڑے پیمانہ پر پیسہ جڑا ہوا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا ریکٹ ہے اور اس ریکٹ سے کوئی بھی سرکار ٹکرانا نہیں چاہتی ہے بلکہ سرکار میں موجود کئی وزیر کے نام پیپر لیک معاملے میں آتے رہے ہیں۔لیکن جب تک پیپر لیک معاملے کو روکا نہیں جاتا ہے تو بھارت سرکار کے سبھی اہم عہدے پر اونچی ذات یا طبقے کی اجارادری برقرار رہے گی۔ کیونکہ پیسے اُنہیں کے پاس ہے اور اونچے عہدے پر وہ لوگ ہی ہیں۔ پھر جو جانچ کمیٹی بنتی ہے اُن میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس ریکٹ کو ختم کرنا آسان نہیں ہے لیکن اس ملک سے برہمنی سوچ کو ختم کرنا ہے تو اس کی شروعات صاف و شفاف امتحانات سے ہونی چاہئے۔ لیکن کیا بہوجن سماج کی سیاست کرنے والے رہنماء اس بات کو سمجھ پا رہے ہیں ؟ اگر سمجھ رہے ہیں تو جہاں اُنکی حکومت ہے  وہاں پیپر لیک گروہ کو آہنی ہاتھوں سے کچلنا ہوگا تبھی چپراسی سے لیکر اعلی عہدہ تک بہوجن سماج کے لوگ نظر آئیں گے ورنہ بہوجن سماج جس میں اس ملک کے اقلیت بھی شامل ہیں اُن کے حصے میں جو تھوڑا بہت ا رہا ہے وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور سرکار میں موجود سرکاری ملازمین بہوجن سیاست کے خلاف نظر آتے رہیں گے  اور ایسے میں  بہوجن سماج کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ موجودہ سرکار پہلے ہی تعلیم کو اتنا منهگا کر چکی ہے کہ غریب اور بہوجن سماج کے لوگوں کے لئے تعلیم کی حصولیابی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں پیپر لیک کو روکا نہیں گیا تو غریب اور بہوجن سماج کے لوگوں کے لئے انجینئر،ڈاکٹر اور سرکاری نوکر بننا ممکن نہیں ہوگا اور تب  بھارت کو ہندو راشٹر ہونے کا اعلان بھلے نہ کیا جائے لیکن حقیقت میں ملک ہندو راشٹر کے قاعدے قوانین سے ہی چلتا نظر آئے گا۔ یعنی منو سمرتی کو سماج میں ہر طرح سے نافذ کر دیا جائے گا۔ اسلئے جو لوگ بہوجن سماج کی سیاست کرتے ہیں اُنھیں اس معاملے کو کافی سنجیدگی سے لینا ہوگا اور پیپر لیک معاملے کو اولین ترجیح میں شامل کرنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔