دہلی میں معصوم طالب علم عظیم کی موت کا سانحہ
سید منصورآغا
گزشتہ جمعرات (25اکتوبر) جنوبی دہلی کے بیگم پورعلاقے میں ایک سانحہ پیش آیا جب کہ مدرسہ فریدیہ کا ایک آٹھ سالہ طالب علم، جو پانچواں پارہ حفظ کررہا تھا، ایک معمولی واقعہ میں موت کا شکارہوگیا۔ ہم اس بچے کے اہل خاندان کی خدمت میں اپنی تعزیت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے صبروتحمل کے جس جذبہ سے کام لیا وہ نہایت ہی قابل قدراورلائق تعریف ہے۔
یہ مدرسہ ایک وقف آراضی پر قائم ہے، جس میں ایک وسیع مسجد ہے، ہاسٹل ہے، چند رہائشی کوارٹر ہیں، ایک مزاراورقبرستان ہے اورکچھ افتادہ آراضی(میدان) ہے۔ اسی سے ملی ہوئی جھگی جھونپڑی بستیاں ہیں ان میں ایک بالمیکی کیمپ ہے۔ دیگر میں مشترکہ آبادی ہے۔ بستیاں گنجان ہیں۔ کوئی جگہ ایسی نہیں کہ بچے کھیل لیا کریں۔ چنانچہ پڑوس کے بچے بھی مدرسہ کے اسی میدان میں کھیلنے آجاتے ہیں۔ مگران پڑوسیوں کے درمیان ایک اجنبیت کی دیوارحائل ہے جس کو منہدم کیاجانا چاہئے کہ یہ کارخیر سماج کی ضرورت ہے۔
یہ سانحہ :
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب چند طلباء مدرسہ سے متصل میدان میں گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔گلی چھٹک کردورچلی گئی اوربالمیکی بچوں نے گلی واپس کرنے سے انکارکردیا۔ پہلے توگالیاں دیں، جو ایسی آبادیوں کے بچوں میں ایک عام سی بات ہے۔ اس کے بعد اینٹ پتھراچھالے پھر ہاتھا پائی ہوگئی۔ متوفی عظیم کھیل میں شریک نہیں تھا۔جب ہاتھا پائی دیکھی تواٹھ کر آگیا۔ بظاہر بیچ بچاؤکرانے آیا تھا کہ ایک 12 سالہ بالمیکی لڑکے نے اس کو گرد ن سے پکڑ دھکا دے دیا۔ معصوم بچہ وہاں کھڑی ہوئی ایک موٹربائک سے ٹکرایا اور زمین پر گر گیا۔ ایک لڑکا اس پر چڑھ گیا اورفلمی اندازسے اس پرکودا،اس کو زودوکوب کیا۔ چوٹ کہیں ایسی نازک جگہ لگی جس نے جان لے لی۔ بالمیکی کیمپ کے ایک شخص نے جو یہ دیکھا تواسے اٹھاکر مدرسہ تک لایا۔ فوراً اسپتال لیجایا گیا۔ ڈاکٹروں نے تین گھنٹے کی جدوجہد کی مگروہ جانبر نہ ہوسکا۔
اس افسوسناک واقعہ کو کچھ نے ’ہجومی تشدد‘ سے تشبیہ دی۔ کچھ نے ’’فرقہ ورانہ تشدد‘‘ قراردیا۔دوسرے دن جمعہ تھا۔ جمعہ کے بعد نماز جنازہ ہوئی۔بڑی تعداد میں آس پاس کے لوگ شریک ہوئے۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے چاہا کہ بچے کی لاش کے ساتھ احتجاجی جلوس نکالاجائے۔لیکن عظیم کے والد نے اجازت نہیں دی اور میت کو لے کروطن میوات چلے گئے۔انہوں نے اسی طرح کا کردار اداکیاجو آسنسول کے امام امداداللہ رشیدی نے فساد کے دوران اپنے 16سالہ بیٹے کے قتل کے بعد اداکیا تھا اورفرقہ پرستوں کو شکست دی تھی۔
جنازہ کے موقع پرغم کا اظہارکرنے کیلئے جھگیوں بستیوں کے بہت سے ہندواورمسلم باشندے موجود تھے۔ سب نے اس واقعہ پر غم کااظہارکیا۔ مقامی ایم ایل اے سومناتھ بھارتی اوردہلی وقف بورڈ کے چیر مین امانت اللہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے خبردارکیا کہ اس ناگہانی واقعہ سے فرقہ پرست عناصرفائدہ نہ اٹھانے پائیں۔ مدرسہ کے ذمہ داروں نے بتایا کچھ لوگ چھیڑ اٹھاتے رہتے ہیں۔ مدرسہ کے بچوں کے لباس پر اورمذہب پر طنز کرتے ہیں۔ ٹکراؤکے چھوٹے موٹے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ سی سی ٹی وی میں قید ہوگیا ہے۔ مدرسہ کی رپورٹ پر پولس نے چاربالمیکی لڑکوں کو حراست میں لے لیا۔ ہم اس سانحہ پردکھ کا اظہارکرتے ہیں اورواقعہ کی مذمت کرتے ہیں۔
ایک پہلو یہ بھی ہے :
یہ الگ بات ہے کہ مرنے والا کون ہے اورخطاکارکون ہیں ؟اس واقعہ کا ایک پہلو اوربھی ہے جو بلاتفریق مذہب وقوم سب کیلئے سنگین اورسخت فکرمندی کا سبب ہے۔وہ ہے جرم میں بچوں کے بڑھتے ہوئے قدم۔ عظیم کی موت کیلئے جن لڑکوں کو پولیس نے تحویل میں لے کر بچو ں کے نگرانی گھربھیجا ہے ان میں سے دو کی عمرکوئی دس سال اوردوکی بارہ سال ہے۔ جس لڑکے نے عظیم کو دھکا دیا تھاوہ بارہ سال کا ہے۔سوچئے اتنی کم عمر کے بچوں میں جر م اور تشدد پسندی کا رجحان اور فرقہ ورانہ منافرت کا زہر کہاں سے آگیا ؟اس کے نتائج ملک کیلئے کیا نکلنے والے ہیں ؟ جب ذہن میں کم عمری سے جرم اور تشدد پسندی رچ بس جاتی ہے تواس کی زد سے اپنے بھی نہیں بچتے۔ حتٰی کہ ان کی تربیت سے بے خبرماں باپ بھی محفوظ نہیں رہتے جن کی اپنی زبان پر گالیاں رہتی ہیں۔ ایسا ماحول صرف سلم بستیوں میں ہی نہیں، بلکہ مسلم آبادیوں میں بھی پنپ رہا ہے۔ ساتھ ہی نشہ کا کاروبار بھی خوب چل رہا ہے۔
ہم یہ باتیں کچھ ہوامیں ہی نہیں کہہ رہے ہیں۔ بلکہ’نیشنل کرائم ریکارڈبیوریو‘کی 2016کی رپورٹ کے مطابق راجدھانی دہلی میں نابالغ بچے ہرروز جرم کی کم ازکم چھ وارداتیں انجام دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ آبادی والے 19 بڑے شہروں میں نابالغ بچے جتنے جرائم کرتے ہیں ان میں 35.6 فیصد یعنی ایک تہائی سے زیادہ دہلی میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک سال کے دوران دہلی میں نابالغوں کے انجام دئے گئے 2368 کیس درج کئے گئے۔ ان میں چوری، جیب کتری کے علاوہ عصمت دری اورقتل جیسی سنگین وارداتیں بھی ہوتی ہیں۔ آپ کویاد ہوگادہلی میں ستمبر2012میں چلتی بس میں جو گنگ ریپ ہوا تھا، جس میں 23 سالہ لڑکی ’نربھیا‘کی شدید تشدد سے موت ہوگئی تھی، اس میں ایک نابالغ لڑکا بھی شامل تھاجس کا رول سب سے زیادہ بھیانک تھا۔ اس طرح کے واقعات روز پیش آتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بچوں کے حقوق کی نگرانی کرنے والے دہلی کے کمیشن (دہلی کمیشن فارپروٹکشن آف چائلڈرائٹس) کے ایک مطالعہ کے مطابق’’دہلی کے حراستی مراکز میں قید70.3 فیصدبچوں کو ارتکاب جرم کے وقت تو یہ شعورہی نہیں تھا کہ اس کے نتائج کیا ہونگے؟ انکے ذہن میں بس فوری طورپرملنے والا فائدہ ہوتا ہے، یا کسی فلم کے کردار کی شبیہ ہوتی ہے، یا کچھ نیاکرگزرنے اورخطرے سے کھیلنے کی چاہت ہوتی ہے تاکہ وہ لوگوں کی نظروں میں چڑھ سکیں، بڑا بن سکیں۔ ‘‘
یہ سوچ بچوں میں کہاں سے آتی ہے۔ پہلے صرف فلموں کا نام تھا۔ اب ٹی وی چینلزدیکھئے، اخباروں پر نظر ڈالئے اورسیاست دانوں کے کارناموں اوربیانوں پر غورکیجئے وہ کس طرح کے اخلاق اورکردار کا مظاہرہ کرتے ہیں ؟ کوئی گردن کاٹ کرلانے پرانعام بولتا ہے توکوئی قبروں سے مردے نکال کر زناکرنے اورکوئی لڑکیوں کو بھگا لیجانے کی بات کرتا ہے۔ کوئی قاتلوں کا ہارپہنا کراستقبال کرتاہے اورکہیں قتل کے ملزم کو قومی ہیروبتایا جاتا ہے۔ کہیں معصوم بچی کی عصمت دری اورقتل میں گرفتار ملزموں کو بچانے کیلئے جلسے جلوس ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو مذہبی کہلاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہماری سرکار نے ہرہاتھ میں موبائل تھما دیا ہے۔ انٹرنیٹ آسان کردیاہے، جن سے سماج کو بگاڑنے والے یہ سارے لوازمات تقریباً مفت پروسے جارہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ انٹرنیٹ مفید معلومات حاصل کرنے اور رابطہ قائم کرنے کابہترین ذریعہ ہے، وقت کی ضرور ت ہے۔ مگراس کے ساتھ جو یہ خرافات جڑی ہوئی ہیں کچھ نظران پر بھی رکھنی ضروری ہے۔انٹرنیٹ پر کمائی کا سب سے بڑاذریعہ فحش اورمجرمانہ سرگرمیوں کے ویڈیو زہیں، جن کو کچے ذہن کے بچے شوق شوق میں دیکھتے ہیں اورپھران کی نقل کرتے ہیں۔
مسلم بستیاں :
ہماری مسلم بستیوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے گھرکے قریب جماعت اسلامی ہند کا کمپلکس ہے۔ آس پاس درمیانہ طبقہ کی مسلم آبادی ہے۔ اس کمپلکس سے گزرکرلوگ ادھرسے ادھرآتے جاتے ہیں۔ صبح میں رات میں کچھ لوگ چہل قدمی کرنے بھی آتے ہیں۔ ایک دن معلوم ہوا کہ رات کوگیٹ جلد بند ہوا کریگا۔ وجہ معلوم کی توپتہ چلا رات کو ادھر ادھر گوشوں میں بیٹھ کر نوجوان نشہ کرتے ہیں۔ روکو توباز نہیں آتے۔ اس سے متصل کالونی شاہین باغ میں توایک این جی او ’والنٹیرس آف چنج‘‘ علاقہ میں نشہ خوری کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ اندازہ ہورہا کہ لڑکے ہی نہیں، بچیاں بھی اس جال میں پھنسائی جارہی ہیں۔ میں ایک بات اورکہتا ہوں۔ ہندو، مسلم تفریق تو بالغ ذہنوں کی خرافات ہے۔ بچے سب گھل مل جاتے ہیں۔ اچھی باتیں کم، بری باتیں دوسروں سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اس لئے ہمیں بحیثیت مجموعی ہندوہوں یا مسلم سبھی بچوں کیلئے فکرمندہونا چاہئے۔تبھی اپنے بچوں کو بچاسکیں گے۔
یہ مدرسہ:
یہ مدرسہ ایک مدت سے قائم ہے۔ آس پاس کی کچی بستیاں بعد کی پیداوارہیں۔ ہماری دینی اورملی تنظیموں کو اوردینی مدارس کو اپنے گردوپیش کی آبادی میں خیرکوپھیلانے اورشرکوروکنے کی تدا بیرکی فکرہونی چاہئے اوراس کیلئے دیگرلوگوں کا تعاون لیاجانا چاہئے۔ جمعیۃ علماء ہند کی پالیسی اورپروگرام میں اس کی باقاعدہ شق موجود ہے کہ معاشرے کی مشترکہ خرابیوں کے خلاف مشترکہ مہمیں چلائی جائیں جن میں اگرآپ قائدانہ رول اداکرتے ہیں تو یہ دعوت دین کا کام ہوگا اورہمارے بارے میں جو بہت ساری غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں ان کا جواب ہوگا۔ایسی ہی ایک تدبیرنادارطبقے کیلئے مفت طبی امدادی مرکز یا ڈسپنسری ہے۔ اس کیلئے صرف چھوٹی سی جگہ درکار ہے۔ کارخیر میں مدد کرنے والے بہت مل جاتے ہیں اورکچھ دنوں میں معمولی وصولی سے خرچ نکلنے لگتا ہے۔ ہمیں یہ سارے کام اس حکمت عملی کے تحت کرنے چاہیں کہ یہ کارخیرہمارے لئے باعث رحمت وبرکت ہوگا۔ انشاء اللہ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔