جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قاضی عبدالستار کی رحلت پر تعزیتی جلسے کا انعقاد

قاضی عبدالستار کی شخصیت اور فن دونوں کا اپنا ایک جداگانہ اسلوب تھا۔ وہ بنیادی طورپر جاگیر دارانہ تہذیب کے آخری فکشن نگار تھے۔ ان کی رحلت سے اردو فکشن، زمیندارانہ کلچر اور علی گڑھ کا ایک زریں عہد سپرد خاک ہوگیا۔ وہ ایک صاحب اسلوب فکشن نگار تھے اور صاحب اسلوب ہونا بہت بڑی بات ہے۔ ان خیالات کا اظہار صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہپر رسول نے شعبے میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں کیا۔

ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ قاضی صاحب ایک لیجنڈ تھے۔ ان کے یہاں زمیندارانہ کرو فر تھا اور ان کی تحریروں میں سحر انگیزی تھی۔پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ قاضی صاحب تحریر، تقریر اور اپنے گفتار وکردار میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ان کی موت سے اردو فکشن اور علی گڑھ کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب کی شخصیت بے حد مسحور کن تھی۔ ان کا انداز گفتگو، رکھ رکھاﺅ اور ان کے طرز تحریر میں ان کے خاندانی پس منظر کا اہم رول ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے قاضی صاحب کے حوالے سے کہا کہ ان کی شخصیت اور تحریر دونوں میں جو جاہ و حشم کا عنصر ہے، یہی ان کو ان کے ہم عصروں سے الگ کرنے کے لیے کافی ہے۔

ڈاکٹر خالد جاوید نے اظہار افسوس کرتے ہوئے قاضی صاحب کے فکشن کو زمیندارانہ نظام کے زوال کی کہانی، رومانویت، طنز اور ملال کاایک بہت خوبصورت آمیزہ قرار دیا اورکہا کہ یوپی کے فیوڈل کلاس کے مطالعے کے لیے قاضی صاحب کا فکشن ایک دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ قاضی صاحب کا افسانوی بیانیہ نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر عمران احمد عندلیب کی نظر میں قاضی عبدالستار ایک بہترین انسان، ایک بہترین استاد اور ایک بہترین تخلیق کار تھے اور ان سے چند لمحوں کی گفتگو بہترین کتابوں کی نعمل البدل ہوتی تھی۔

تعزیتی اجلاس میں احمر جلیسری، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر محمد آدم اور ڈاکٹر شاہنواز فیاض شریک تھے۔

تبصرے بند ہیں۔