الیکشن اور لیڈر 

یاسرعرفات طلبگار

ہمیشہ کی طرح ہر سال پھر سے لوٹ آتا ہے

الیکشن آپسی رشتوں کو آکر توڑ جاتا ہے

گلی کوچوں میں بارش پھر نئے وعدوں کی ہوتی ہے

ہزاروں توڑ کر وعدے وہ جب بھی لوٹ آتا ہے

جسے خچر نہیں گھر میں میسر وہ الیکشن میں

امیدیں چاند پر جانے کی لوگوں کو دلاتا ہے

جو اپنے دورِ کرسی میں رہا ناکام کاموں میں

وہ اوروں کے کئے کاموں کے عیبوں کو گناتا ہے

جسے اپنی خبر ہوتی نہیں تو آ کے لوگوں میں

نشانہ وہ کسی نیتا کو پھر اپنا بناتا ہے

سیاسی رہنما مذہب سے اچھا کام لیتا ہے

وہ کرسی کے لئے قرآں، کبھی گیتا اٹھاتا ہے

وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے کوئی کاغذ قلم لے کر

جو جلسے کے تقاضوں کو سیاہی سے سجاتا یے

پلندوں سے بھری تقریر جب جلسے میں ہوتی ہے

تو سادہ دل یہ ووٹر جوش میں نعرے لگاتا ہے

نہیں معلوم لوگوں کو حقیقت اس الیکشن کی

جو گھر میں، بستیوں میں آ کے لوگوں کو لڑاتا ہے

غلط فہمی ہے ووٹر کی کہ لیڈر لوٹ آئے گا

ارے یاسر جو جیتا پھر کہاں وہ ہاتھ آتا ہے

تبصرے بند ہیں۔