الیکشن اور لیڈر
یاسرعرفات طلبگار
ہمیشہ کی طرح ہر سال پھر سے لوٹ آتا ہے
الیکشن آپسی رشتوں کو آکر توڑ جاتا ہے
…
گلی کوچوں میں بارش پھر نئے وعدوں کی ہوتی ہے
ہزاروں توڑ کر وعدے وہ جب بھی لوٹ آتا ہے
…
جسے خچر نہیں گھر میں میسر وہ الیکشن میں
امیدیں چاند پر جانے کی لوگوں کو دلاتا ہے
…
جو اپنے دورِ کرسی میں رہا ناکام کاموں میں
وہ اوروں کے کئے کاموں کے عیبوں کو گناتا ہے
…
جسے اپنی خبر ہوتی نہیں تو آ کے لوگوں میں
نشانہ وہ کسی نیتا کو پھر اپنا بناتا ہے
…
سیاسی رہنما مذہب سے اچھا کام لیتا ہے
وہ کرسی کے لئے قرآں، کبھی گیتا اٹھاتا ہے
…
وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے کوئی کاغذ قلم لے کر
جو جلسے کے تقاضوں کو سیاہی سے سجاتا یے
…
پلندوں سے بھری تقریر جب جلسے میں ہوتی ہے
تو سادہ دل یہ ووٹر جوش میں نعرے لگاتا ہے
…
نہیں معلوم لوگوں کو حقیقت اس الیکشن کی
جو گھر میں، بستیوں میں آ کے لوگوں کو لڑاتا ہے
…
غلط فہمی ہے ووٹر کی کہ لیڈر لوٹ آئے گا
ارے یاسر جو جیتا پھر کہاں وہ ہاتھ آتا ہے
تبصرے بند ہیں۔