رام مندر کا مدعا پھر کیوں گرمانے لگا ہے؟

رويش کمار

2019 سے پہلے 1992 آ رہا ہے، بلکہ آ چکا ہے۔ انتظار اب اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم نریند مودی کب 1992 کے اس سیاسی کھیل میں اترتے ہیں۔ 2014 میں وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر نریند مودی کے بھاشنوں(تقریروں) کو یاد کیجیے، کیا آپ کو کوئی تقریر یاد آتی ہے، جو بنیادی طور پر رام مندر پر مرکوز ہو۔ اس انتخابات میں ماں گنگا ضرور آ گئی تھیں، مگر رام مندر کا سوال مینی فیسٹو میں کسی کنارے پر درج تھا۔ 2014 کے مینی فیسٹو میں رام مندر کا ذکر صفحہ نمبر 37 پر تھا۔ 38 صفحے کے مینی فیسٹو میں 37 ویں صفحے پر، وہ بھی تین لائن۔ مگر کچھ دنوں سے رام مندر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کی تقریر میں پہلے صفحے پر آ گیا ہے۔ سوال یہ ہے وزیر اعظم مودی کب رام مندر پر بھاشن دیں گے؟

2014 کے بعد کے اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم مودی کہا کرتے تھے کہ ریاست اور دہلی میں ایک حکومت ہوگی تو ٹیم کی طرح کام کرے گی۔ پھر جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے فیض آباد ضلع کو ایودھیا کے نام سے تبدیل کر دیا، تب وزیر اعظم کا کوئی ٹویٹ کیوں نہیں آیا؟ بی جے پی کے صدر امت شاہ کا کوئی ٹویٹ نہیں آیا؟ جبکہ یوگی جی کے اعلان کے بعد تک وزیر اعظم  اپنے ٹویٹر ہینڈل پر سرگرم تھے، لوگوں کی ٹویٹس کا جواب دے رہے تھے۔ کیا آج کے دن وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بڑے فیصلے پر مبارکباد نہیں دینی چاہیے تھی؟ یا دونوں مختلف راستے پر چلتے ہوئے کسی غیر اعلانیہ منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ایودھیا کو لے کر شروع سے صاف ہیں۔ پچھلی دیوالی کے پہلے بھی وہیں تھے۔ اس دیوالی کے پہلے بھی وہیں ہیں۔ بی جے پی نے مخالف جماعتوں سے تو پوچھا ہے، مگر وزیر اعظم نے ابھی تک اپنی رائے نہیں بتائی ہے۔ انتظار کیجیے کہ وہ کب وِکاس چھوڑ کر یا وِکاس کے ساتھ ساتھ رام مندر کے معاملے میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ادھر دہلی کسی اور چیز میں مصروف ہے۔ سی بی آئی کا جھگڑا سڑک پر ہے، کورٹ میں ہے۔ آر بی آئی کا جھگڑا روز سڑک پر آ رہا ہے۔

الہ آباد کا نام تبدیل کرنے کے بعد وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے فیض آباد ضلع کا نام تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے ایودھیا فیض آباد ضلع میں آتا تھا، اب ایودھیا کے نام کا ضلع ہو گیا ہے۔ رام کی نگری ایودھیا کو ضلع کی ڈگری ملی ہے، اسے میڈیا نے بڑی خبر کے طور پر دکھایا ہے۔ ایودھیا کے نام سے اسمبلی سیٹ پہلے سے ہے۔ لوک سبھا کا نام فیض آباد ہے۔ کیا اسی کے ساتھ لوک سبھا علاقے کا نام بھی بدل جائے گی یا پارلیمانی حلقہ فیض آباد ہی کہلائے گا۔ بی جے پی کے ہی للو سنگھ، فیض آباد سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ فیض آباد سے ہمارے ساتھی پرمود شریواستو نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں فیض آباد گئے تھے، ایودھیا نہیں گئے تھے۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں فیض آباد بھی نہیں گئے، ایودھیا بھی نہیں گئے۔ ایودھیا اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ہی ممبر اسمبلی ہیں۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ 7 بار ایودھیا اور 3 بار فیض آباد جا چکے ہیں۔ سوال ہے وزیر اعظم مودی ایودھیا کب جائیں گے؟ بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کے مسئلہ پر کب بولیں گے؟ جو بھی ہے اتنا بڑا اعلان ہو گیا ہے اور شام چھ بجے سے لے کر رات کے نو بجے تک یعنی جب پرائم ٹائم شروع ہوا، تب تک وزیر اعظم اور امت شاہ کا کوئی ٹویٹ نہیں آیا۔ اس بڑے اعلان کے ساتھ دونوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کو مبارکباد نہیں دی۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیر اعظم مودی نے ایودھیا پر ٹویٹ نہیں کیا، 6 بج کر 40 منٹ پر ان کا ٹویٹ آیا ہے، جس میں جنوبی کوریا کی فرسٹ لیڈی کی تصویر ہے۔ انہوں نے جنوبی کوریا اور ایودھیا کے قدیم رابطہ کا ذکر ہے، ایودھیا کے پروگرام کا ذکر ہے، تصویر ہے مگر یوگی کی اعلانات پر کوئی ٹویٹ نہیں آیا ہے۔ 2019 کے نام پر 1992 آرہا ہے، سب کی رائے آ چکی ہے، وزیر اعظم کی رائے نہیں آئی ہے۔ کیا وزیر اعظم مودی ایودھیا جائیں گے؟

یوگی آدتیہ ناتھ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ایودھیا میں رام کی مورتی قائم کریں گے۔ یہ رام مندر سے مختلف ہو جائے گا۔ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ایودھیا میں ایک میڈیکل کالج بنے گا، جس کا نام راجرش دشرتھ پر ہو جائے گا اور ایئر پورٹ کا نام پرشوتم رام کے نام پر ہو جائے گا۔ ہم نے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کا ٹوئٹر ہینڈل بھی چیک کیا۔ فیض آباد کا نام بدلا گیا ہے اس پر وہ کہتے ہیں۔ تو ان کے ٹوئٹر ہینڈل پر اس بارے میں کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے مرکزی وزیر جِتندر سنگھ کو سالگرہ پر مبارک باد دی ہے، مگر یوگی آدتیہ ناتھ کے اتنے بڑے فیصلے پر بی جے پی کے صدر امت شاہ اور وزیر اعظم مودی نے کوئی ٹویٹ تک نہیں کیا۔ سیاست کے علاوہ آج کے دن آپ کو نیوز چینلز کی کوریج کو علیحدہ نوٹس کرنا چاہیے۔ سکرین کا رنگ تک بدل گیا تھا۔ فیض آباد کا رنگ مختلف تھا، ایودھیا کے لیے رنگ الگ تھا۔ سکرین پر جن علامتوں کا استعمال ہو رہا تھا، اسے سمجھنے اور الرٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ چار سال سے نیوز چینلز پر جو ہندو مسلم ٹاپک کا نیشنل کورس چل رہا تھا، وہ اب اپنے پورے شباب پر ہے۔ ٹی وی چینلز کے پردے پر جو پٹیاں لکھی ہوئی آرہی ہیں، ان پر راست بازی کا رنگ ہے۔ خوفناک بھی ہے اور یکطرفہ بھی۔ اس کا سُر کچھ اور ہے۔ تھوڑا محتاط ہوکر چینلز کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ کچھ بھی دیکھنے کے قابل ہی نہ بچے۔ باقی آپ سمجھدار ہیں۔ یہ سب نئی تبدیلی نہیں ہیں مگر بہت دنوں بعد پرانا دور واپس آ رہا ہے تو انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

صرف ٹی وی دیکھنے سے آپ ناظرین نہیں ہو جاتے، تماشائی بنے رہنے کے لیے الگ سے پڑھنا بھی چاہیے۔ بغیر پڑھے آپ نہ تو اپنے ناظرین ہونے کو سمجھ پائیں گے اور نہ ہی ٹی وی کو۔ یہ اروند راج گوپال کی کتاب politics after television ہے۔ آپ اسے پڑھ سکتے ہیں۔ کتاب بہت مہنگی ہے۔ پھر بھی آپ لائبریری سے لے کر پڑھ سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف فارم میں موجود ہے۔ اس کتاب کے موضوع کی فہرست سے ہی آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں اور آج کے نیوز چینلز کو دیکھ سکتے ہیں۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔