عکس کے بر عکس ہر انداز تھا

افتخار راغبؔ

عکس کے بر عکس ہر انداز تھا

اک حسیں انجام کا آغاز تھا

تیری ضد کی زد میں تھا کیا دل کا حال

اک پرندہ تھا جو بے پرواز تھا

آگے آگے تھا وہ راہِ عشق میں

دم کہاں لیتا مرا دم ساز تھا

میری آنکھوں میں چمک گھٹتی نہ تھی

آس کی اک ڈور کا اعجاز تھا

بے مزہ لگتی تھی ان کو میری آہ

کم شکستہ میرے دل کا ساز تھا

عشق بھی جیسے سیاسی کھیل ہو

ہر وضاحت میں تری اک راز تھا

وہ ندی بھی خشک اک دن ہو گئی

جس کی طغیانی پہ دل کو ناز تھا

چہچہاتا اک پرندہ تھا یہ دل

تیرے پنجرے میں جو بے آواز تھا

کون تھا شاہِ جہانِ شاعری

کون حسن و ناز میں ممتاز تھا

اک طرف راغبؔ تھا دل بے اختیار

اک طرف اک پیکرِ طنّاز تھا

تبصرے بند ہیں۔