عکس کے بر عکس ہر انداز تھا
افتخار راغبؔ
عکس کے بر عکس ہر انداز تھا
اک حسیں انجام کا آغاز تھا
…
تیری ضد کی زد میں تھا کیا دل کا حال
اک پرندہ تھا جو بے پرواز تھا
…
آگے آگے تھا وہ راہِ عشق میں
دم کہاں لیتا مرا دم ساز تھا
…
میری آنکھوں میں چمک گھٹتی نہ تھی
آس کی اک ڈور کا اعجاز تھا
…
بے مزہ لگتی تھی ان کو میری آہ
کم شکستہ میرے دل کا ساز تھا
…
عشق بھی جیسے سیاسی کھیل ہو
ہر وضاحت میں تری اک راز تھا
…
وہ ندی بھی خشک اک دن ہو گئی
جس کی طغیانی پہ دل کو ناز تھا
…
چہچہاتا اک پرندہ تھا یہ دل
تیرے پنجرے میں جو بے آواز تھا
…
کون تھا شاہِ جہانِ شاعری
کون حسن و ناز میں ممتاز تھا
…
اک طرف راغبؔ تھا دل بے اختیار
اک طرف اک پیکرِ طنّاز تھا
تبصرے بند ہیں۔