رسول رحمتﷺ سے تعلق ہی وجہ تسکین ہے!
الطاف جمیل شاہ ندوی
کائنات کے امام خاتم النبیین صل اللہ علیہ وسلم کی زات مبارک کا نام لبوں پر آتے ہی دل میں محبت کا سمندر امڈ آتا ہے کیوں نہ آئے یہ تو در یتیم ہیں یہ تو امت کے قائد انقلاب شفیق و مہربان ہیں جن کی آنکھوں کی پلکیں امت کے لئے تر ہوتی تھیں جو سجدون میں بھی اور بدر کے میدان میں بھی غم امت میں آنسو بہاتے رہے آپ کی امت سے شفقت و مہربانی کو اگر دیکھا جائے تو دل مسرت و شادمانی سے سرشار ہو جاتا ہے آپ کی مبارک زات ہی ہے جو اس قابل ہے کہ اسے مرکز محبت بنایا جائے ان سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے یہی تو ہیں جو دلوں کا سکون نگاہوں کی ٹھنڈک ہیں اصحاب نبوی علیہ السلام نے آپ سے محبت و تعلق کا وہ عظیم طریقہ بتایا کہ دل عش عش کرتا ہے کہ یہ شمع کے پروانے کیسے اپنے محبوب کے وارے جارہے ہیں آئمہ کرام علماء حدیث و فقہ مفسرین محدثین عظام نے محبت و عقیدت کے وہ کارنامے انجام دیے کہ تاریخ عالم جس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں دکھا سکتی پر یہ محبت و عقیدت کا تعلق ہمارے زمانے تک آتے آتے سرد ہوتا گیا اور باقاعدہ سازش کے تحت ان جذبات کو ’راکھ کا ڈھیر‘ بنانے اور مسلمانوں کے دل سے ’روحِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ نکالے جانے کی کوششیں کی جاتی رہیں تاکہ دین اسلام اور رشتۂ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں ان کے اندر موجود زندہ قوت (living force) کو ختم کر دیا جائے۔ اس لیے کہ یہی نسبتِ رِسالت سے محبت کی قوت ان کو گرنے اور مرنے نہیں دیتی۔ بدقسمتی سے فتنہ گر عہد جدید میں بعض دینی شخصیات محبت رسول کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ محبت کے ان جذبوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ان کی مشروعیت پر دلیلیں بھی طلب کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں سے غیر مشروط محبت کی نعمت کو غبار آلود کرتے ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ایسے مجموعہ ہائے احادیث مرتب کیے جائیں جو نوجوانانِ اُمت کے دلوں میں عشقِ مصطفی، اطاعت و اتباعِ مصطفی اور تعظیم و توقیرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بجھتی چنگاری کو پھر سے شعلہ زَن کر دیں کہ یہ امت پھر سے منصب عظمت پر فائز ہو ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہو کہ دنیا آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہوئے ہم فخر محسوس کریں آپ کی محبت و اطاعت ہمارے لئے ھدایت کا سر چشمہ ہو وجہ زندگی ہو بقاء زندگی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو دل، دماغ، آنکھوں اور کانوں کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ صرف طبعی کارکردگی کے لیے ہی نہیں ہیں کہ دل صرف خون کے دوران کے لیے پمپ کا کام کر رہا ہو، دماغ انسانی جسم کی نشوونما یا انسانی حرکات و سکنات کے لیے احکامات جاری کرنے ہی میں مصروف ہو، آنکھیں صرف دیکھ رہی ہوں یا کان صرف سُن رہے ہوں، بلکہ نفسانی اور روحانی کارکردگی میں بھی ان کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ آنکھیں نہ صرف دیکھ سکتی ہیں بلکہ حق و باطل میں تمیز بھی کر سکتی ہیں، کان نہ صرف سُن سکتے ہیں بلکہ سُن کر حق و باطل میں فرق کو محسوس کر سکتے ہیں۔ آنکھوں اور کانوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر دماغ تدبر کرتا اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کر سکتا ہے پھر اس فیصلے کو دل قبول کر بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ جن لوگوں کے پھیپھڑوں میں ایمان کی آکسیجن پہنچتی رہتی ہے یعنی ایمانی Oxygenation ہوتی رہتی ہے ان کی آنکھیں کان اور دماغ حق کو نمایاں کرتے اور حق کی تائید کرتے ہیں جس کی وجہ سے دل حق کو قبول کر لیتا ہے۔
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی محبت تکمیلِ ایمان کی نشانی ہے۔ اگر اس میں خامی ہو گی، تو ایمان نامکمل ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے محبت، مومن کا گراں بہا سرمایہ ہے اور کسی مومن کا دل اس سے خالی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی محبت مقصود حقیقی کے قرب اور اس کی ذات و صفات کے صحیح تصور کا واحد ذریعہ ہے۔
حضور خاتم النبیین صل اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت، امت پر فرض قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’قسم ہے اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ عزیز تر نہ ہو جائوں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اور ایک روایت میں ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جائوں ۔ زیر نظر حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ تکمیل ایمان کا مدارحبّ رسول پر ہے جس شخص میں نبی اعظم و آخرصلی اللہ علیہ وسلم سے اس درجہ کی محبت نہ ہو، اس کے ایمان کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔
ایک اور روایت میں آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین صفات جس میں پائی جائیں وہ ایمان کی شیرینی کو پالے گا۔ پہلی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسری: اگر کسی سے محبت رکھے تو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے۔ تیسری: یہ کہ کفر میں جانے کو اسی طرح برا سمجھے جس طرح آگ میں گرائے جانے کو برا سمجھتا ہے(بخاری و مسلم)
امام بخاریؒ نے باب حب الرسول صل اللہ علیہ وسلم من الایمان اور باب حلاوۃ الایمان کے عنوانات کے زیر تحت لکھا ہے کہ ایمان کی لذت اور مٹھاس تب محسوس ہو گی جب حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب ہوں
اسی طرح حضرت انس بن مالکؓ سے ایک اور روایت ہے کہ ’’ایک شخص بارگاہ رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! یہ فرمائیے کہ قیامت کب برپا ہو گی؟ شافع محشرصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: مَااَعْدَدْتَ لَھَا تم نے قیامت کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے؟ اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صل اللہ علیہ وسلمپر قربان! میں نے نہ تو زیادہ نمازیں پڑھی ہیں، نہ زیادہ روزے رکھے ہیں اور نہ زیادہ صدقات ہی دیے ہیں۔ لَکِنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہ وَرَسُوْلَہٗ۔ البتہ میں اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ رحمۃ للعالمینصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَیْتَ تُو اس کے ساتھ ہو گا جس سے تُو محبت کرتا ہو گا۔ محبت رسولؐ کی وجہ سے ایک مسلمان کی آنکھیں، کان، دل و دماغ روشن ہو جاتے ہیں۔ گمراہی و ضلالت کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔
جن بدقسمت مسلمانوں کے دلوں میں محبت رسول کی کم ہوتی ہے، ایمانی اعتبار سے ان پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کی دماغ صلاحیت کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے۔ وہ گستاخان رسولؐ کے ساتھ تعلقات قائم کر لیتے ہیں اوروہ صحیح فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔ پھر ان کی حالت نازک ہو جاتی ہے۔ وہ ایمانی طور پر کوما یعنی بے ہوشی میں چلے جاتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی سدھ بدھ نہیں رہتی کہ ان سے جو کچھ بھی سرزد ہو رہا ہے، کیا سرزد ہو رہا ہے۔ وہ دماغی طور پر اتنے پست ہو جاتے ہیں اور اپنے ہوس و حواس اس قدر کھو جاتے ہیں کہ حق و باطل، نیکی و بدی میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ انہیں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔
ذرا غور کیجئے اصحاب نبوی علیہ السلام کی ان روایات پر جنہیں سنتے سناتے ان کی دنیا و آخرت فلاح و کامرانی کے ساتھ بنتی سنورتی چلی گئی۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،کہتے ہیں،نبی ﷺ کے ہاں بحرین سے مہمان ٹھہرے،آپ نے اپنے وضو کا پانی منگوایا اور وضو کیا، وہ آپ کے وضو کے پانی کی طرف لپکے،اس میں سے انہوں نے جو پایا، پی لیا، اور جو اس میں سے زمین پر گرا انہوں نے اسے اپنے چہروں،سروں اور سینوں پر مل لیا۔ نبیﷺ نے ان سے کہا: کس چیز نے تم کو اس پر اُکسایا؟انہوں نے کہا آپ کی محبت نے۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کریں۔اے اللہ کے رسول ﷺ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس رسول ﷺ تم سے محبت کرے تو تین باتوں پر ہمیشگی کرو) سچی بات کہنا۔(2)امانت کی ادائیگی۔(3)اور اچھا پڑوس، کیوں کہ پڑوسی کو تکلیف دینا نیکیوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح سورج برف کو مٹا دیتا ہے۔(تخرج: الصحیحۃ،2998۔الخلعی فی الفوائد،18/۔73/۔1)۔شاطبی فی الاعتصام(2/۔139)،طبرانی فی الاوسط(6513)،بیہقی فی شعب( 1534)
محبت صرف ظاہری عقیدت کا نام نہیں بلکہ سچی محبت میں اپنے محبوب جیسا کردار بنانا لازمی ہے۔”ان المحب لمن یحب مطیع”۔محبت کرنے والا اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے، ہمارے ہاں بھی عاشقانِ رسول اور محبان مصطفیٰ صرف جذبات، نعرہ بازی کو ہی کافی سمجھتے ہیں، جبکہ نجات اور آپ کی شفاعت پانے کے لیے آپ کی ہر سنت پر عمل ضروری ہے،اس حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محبت رسول اور محبت الہٰی حاصل کرنے کے لیے وضو کے قطرات کو اپنے جسم پر مل لینا اور ان سے تبرک حاصل کر لینا ہی کافی نہیں، اگر تم واقعتاً اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو ہمیشہ سچ بولو، امانت ادا کرو اور اپنے پڑوسی سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
حبِ رسول کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسول ہے- یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حما عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گرِ ایمان ہے- سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورؐ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے- اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو- ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو بلاشبہ جو لوگ رسول اللہؐ کے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے- اے نبی! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پاارتے ہیں ، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں – اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنہو آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے- “ (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پر بلند تھی، ایمان ضائع ہو جانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہو کر بیٹھ گئے آپ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ”تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا :
”میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورؐ سے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہو جاؤں گا-“ (بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مہن والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جا کر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے-عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
”بھائیو ! سنو میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چال ہوں خدا کی قسم اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں – خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکاً اس کو مل لیتا ہے- وہ جب کوئی حما دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حمن کو بجا لاتے ہیں ، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں – وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہو جاتی ہیں – وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنھض بھر کر نہیں دیکھتے (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہو جاتا تو اپنی سواری کو آنحضورؐ کی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے- غایتِ ادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی- دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا- اگر آپ ماان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہؐ کے اوپر چل پھر رہے ہیں ، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا-
یہ تو تھا آپ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپ کی عزت و ترییم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپ سے صدقِ دل سے محبت کریں ، آپ کے فرمودات پر عمل کریں ، اپنی زندگی میں آپ کو واقعی اپنے لئے اُسوہٴ حسنہ سمجھیں -جب حدیث پڑہی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے- حدیث کی تعظیم رسول اللہ اکی تعظیم ہے-
حبِ رسول کا حقیقی معیار
حبِ رسول کا سب سے اہم تقاضا اطاعتِ رسول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
ایک صحابیؓ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
” یارسول اللہ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں ، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتا ہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں ، آپ کا دیدار کر کے سوقن حاصل کر لیتا ہوں – لینے جب میں اپنی اور آپؐ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سولں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا- (یہ سوچ کر) بے چین ہو جاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی
(سورۃ النساء :۶۹) ”اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں -“ (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کر کے واضح فرما دیا کہ اگر تم حبِ رسول میں سچے ہو اور آنحضور کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمؐ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو-
حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
”(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: مانگ لو (جو مانگنا چاہتے ہو)- میں نے عرض کیا: ”جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں -“ آپ نے فرمایا ”کچھ اس کے علاوہ بھی ؟“ میں نے عرض کیا ”بس یہی مطلوب ہے-“ تو آپ نے فرمایا ”تو پہر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو-“ (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)-(صحیح ابوداود؛ ۱۱۸۲)
گویا آپ نے واضح فرما دیا کہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو- یہی حبِ رسول ہے اور معیتِ رسول حاصل کرنے کا ذریعہ بہی-
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
”یارسول اللہ ا! مجھے آپ سے محبت ہے- آپ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو- تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپ سے محبت ہے- آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقر و فاقہ کے لئے تیار ہو جاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونہ جو مجہ سے محبت کرتا ہے فقر و فاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے-“ (ترمذی؛۲۳۵٠)
گویا جس کے دل میں حبِ رسول ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورؐ کی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبر و تحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے-
فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے
”جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا-“ (تاریخ ابن عساکر:۳/۱۴۵)
فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے-“ (مشوٰ ۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مومن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسول کی تابعداری کرے گا وہ مومن ہو گا اور جو رسول اللہؐ کی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہو گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت وہ قیمتی جوہر ہے جو دل میں ایک عظیم نور سے چمکتا ہے ، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس سے ایسی نورانی شعائیں نکلیں جو اس محبت کو بتائیں اور جیسے یہ شعائیں اس کے آثارمیں سے ہیں، اسی طرح اپنے اندر تاثیر بھی رکھتی ہیں جس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں ترقی ہوتی ہے، یہاں تک کہ محبت کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوبیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔ معاملہ صرف یہی نہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں بلکہ اصل معاملہ نجاح و فلا ح اور عظیم کامیابی کا یہ ہے کہ آ پ سے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں۔
نہیں تو ہمارا انجام ایسا ہوگا کہ ہم اپنی کامیابیوں کے تو ترانے سنا سنا کر ناکامیوں کا بوجھ اٹھائے عازم سفر آخرت ہوجائیں گئے دنیا ہمارے لئے مصیبت بن جائے گئی گر ہم نے اپنا رخ زندگی نہ بدلا ہمارے لئے سبب محبت و اطاعت ہی گر باقی نہیں تو یقینا ہم دنیا کی ظلمتون کا شکار ہوکر رہ جائیں گئے بدی کا بول بالا ہوگا جس کی لپیٹ میں ہم بھی آہی جائیں گئے۔
تبصرے بند ہیں۔