محال کی طلب

حافظ فیصل عادل

جیسے چیونٹی کی ہو کوشش کہ الٹ دے چٹاں

جیسے بوڑھے میں امنگ جاگے جواں ہونے کی

جیسے الفت کے مریضوں کو تلاش درماں

جیسے پتھر کی تمنا ہو رواں ہونے کی

یہ ہے اک ایسا مرض جس کا کہاں ہے درماں

وہ جو کچھ لوگ ہیں انسان بنانے میں لگے

جانتے ہیں کہ نہیں بدلے گا اک بھی حیواں

پھر بھی دیوانے ہیں کیوں جان گنوانے میں لگے

آبِ زمزم کو سمجھ، مے کی حقیقت بھی جان

سوچ پھر کفر ہے کیا کیوں ہو خدا پر ایمان

جب جہنم کی سمجھ آئے تو جنت بھی جان

کون شیطان ہے اور کون فرشتہ پہچان

بال سر کا نہ کلہاڑی سے اتارے کوئی

پوری بستی کو جلا کر نہ جلائے بیڑی

صورتِ فیل نہ بہروں میں چنگھاڑے کوئی

کس کی ہمت ہے جو بادل پہ چلائے ریڑھی

برف ہونے کی امیدیں نہ لگا سورج سے

اور آتش کو کبھی گل کا بچھونا مت جان

ہے فقیری ہی میسر تو گزر سج دھج سے

روند دے ارض مگر  اس کو کھلونا مت جان

تبصرے بند ہیں۔