اصلاح معاشرہ

مدثراحمد

اصلاح معاشرہ اور اصلاح امت کےنام سے ہمارے سماج میں مسلسل جلسوں اور پروگراموں کااہتمام کیاجاتا ہے۔ یہ جلسےاور پروگرام باقاعدہ طو رپر بڑے بڑے ہال، اسٹیجوں اور کنونشن سینٹرس میں منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں بڑے پیمانے پر افرادکی شرکت کی بھی ہوتی ہے۔ ان جلسوںمیں خطاب کیلئے بڑے بڑے خطیب، علماء اور دانشوروں کومدعو کیا جاتا ہے اور یہ پیغام دیاجاتات ہے کہ اسلام کےاحکامات پر چلیں تو یقینی طو رپراُمت و معاشرےکی اصلاح ہوگی۔ یقیناً اصلاح معاشرہ آج وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان کے حالات زوز بروز بدلتے جارہے ہیں۔ عدالتوں اور حکومت کے جو فیصلے ہمارے درمیان آرہے ہیں وہ ایک مہذب معاشرے کے برخلاف ہیں، ہماری تہذیب، ہمارے رواج اور اصولوں پر خطرناک حملہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اصلاح معاشرے کیلئے تحریکی کام کرنا بیحد ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جلسہ گاہوں میں بیٹھ کر، اسٹیجوں پر سوار ہوکر اور چار دیواری میں بیٹھ کر پڑھے لکھے، دین کو سمجھنے والے، اللہ اور اس کے رسول کا خوف رکھنے والے اور معاشرے میںمعزز مانے جانے والے افراد کو بٹھا کر اُن کو ہی نصیحت کرنے سے کیا اصلاح معاشرہ ممکن ہے؟

دراصل آج ہمارے معاشرے میں جو بدکاریاں، خامیاں اور گناہ سرزد ہورہے ہیں وہ معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے سے زیادہ پسماندہ، مزدور پیشہ اور غربت سے متاثرہ علاقوںسے پھیل رہے ہیں۔ ان علاقوںمیں بنیادی سطح پر اصلاح کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے اہل علم حضرات، ذمہ داران اور دانشوران چار دیواری سے باہرنکلنا نہیں چاہ رہے ہیں، ان جھونپڑپٹیوںاور پسماندہ علاقوں میں اپنا پسینہ بہانا نہیں چاہ رہے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو صحیح و غلط کی پہچان دلانا چاہ رہے ہیں، اس وجہ سے ہماری ملت کی اصلاح نہیں ہورہی ہے۔

اصلاح معاشرے کامطلب محض مسلکی او رعقائد کی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ آج ہمارے معاشرے میں برائیاں بڑھ چڑھ کر بول رہی ہیں اُن برائیوں کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل نشہ کی عادی ہوچکی ہے، مرد شراب نوشی، جوئے بازی اورناجائز رشتوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں، عورتیں مائکر فائنانس کے نام پرسود خوری میں مبتلا ہورہی ہیں، نوجوان لڑکیاں فحاشی میں ملوث ہوکر مسلم غیر مسلم لڑکوںکی شناخت کئے بغیر ہی رشتے بنا رہی ہیںاور بعض جگہوں پر تو شادیاں بھی ہورہی ہیں۔ وہیں لڑکپن میں کھیلنے کودنے کے بچے جرائم پیشہ ہورہے ہیں۔

غرض کہ کسی نہ کسی طریقے سے پوری ملت اسلامیہ برائیوں کاشکار ہورہی ہے۔ ایسے میں علماء کی جانب سے مسجدوںمیں ان برائیوں سے دور رہنے کی بات تو کی جارہی ہے، لیکن ان باتوں کو سننے والوںکی اکثریت بھی انہیںلوگوں کی ہے جو خداترس یا پھر کچھ نہ کچھ وقت مسجدوںمیں گذار تے ہیں۔ ایسے میں اصلاح معاشرے کے اُن جلسوں کا کیا فائدہ جہاں پر عمل کرنے والے ہی شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے ان جلسوںکیلئے ہم لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں، بڑے بڑے اسٹیج سنوارتے ہیں، مقررین کو موٹے لفافے زادِراہ کے طو رپر ادا کرتےہیں، وہی کام جو مفت میں ہوسکتا ہے اسے انجام دینے کیلئے پہل نہیں کی جارہی ہے۔ جب تک اصلاح معاشرے کیلئے تمام مسلکوں اور مکاتب فکرکے ذمہ داران اجتماعی طور پر کوشش نہیں کرتے اُس وقت معاشرے کی اصلاح ممکن نہیںاور نہ ہی ان پروگراموں کاکوئی فائدہ ہوگا۔

جب تک ہم ہمارے سماج کے پسماندہ طبقے میں بیداری نہیں لاتے اُس وقت تک معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ اگرہمارے سماج کے اہل علم حضرات اور دانشوران خود اس کام میں پہل نہیں کرتے ہیں تو ذمہ داری اُن نوجوانوںکی ہے جو کچھ اچھا سوچتے ہیں اور کچھ کرنے کی چاہ رکھتے ہیں۔ سماجی کارکن یا سوشیل ورکر کے نام کے وزیٹنگ کارڈ بانٹتے پھرتے ہیں اُن نوجوانوں کو سوچنا چاہے کہ صرف کار ڈ دینے سماجی خدمت نہیں ہوتی بلکہ ہمارے سماج میں سوشیل ورک کرنے کیلئے یہ ایک عمدہ میدان ہے۔ سوبار نہیں ہزار باربھی ہم اگرچہ جلسوں کااہتمام کرتے ہیں تواس سے مثبت نتائج نہیں آئینگےاور اس سے وقت بھی ضائع ہوگا، پیسے بھی ضائع ہونگے۔

تبصرے بند ہیں۔