زائرہ وسیم : قوم کی بچیوں کے لیے مشعل راہ
حکیم محمد شیراز
زائرہ وسیم کے نام سے تو آپ آشنا ہوں گے؟ 2016 میں ریلیز ہونے والی سُپر ہٹ بالی وڈ فلم دنگل میں انھوں نے ایک مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔ اس کے بعد وہ سیکرٹ سُپر سٹار جیسی انڈین فلمز میں نظر آئیں۔ ان دونوں فلموں میں انھوں نے بالی وڈ سٹار عامر خان کے ساتھ کام کیا تھا۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والی زائرہ وسیم نے، جن کی عمر اب 18 برس ہے، اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں فلمیں چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس پیشے کی وجہ سے ’دین کے ساتھ ان کا رشتہ خطرے میں پڑ رہا تھا۔ ‘ نیز انھوں نے مختصراً حضرت عمر ؓ اور دیگر اسلاف کا تذکرہ کیا۔ عقائد اور ایمانیات پر باتیں کیں۔ بس پھر کیا تھا، پوسٹ وائرل ہو گئی اور ان کے اس فیصلے کو مذہب سے جوڑنے پر کافی تنقید ہوئی۔ بالی وڈ سٹارز سے لے کر صحافیوں تک کئی لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ اس فیصلے کو مذہب سے جوڑنا غلط تھا اور کیا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ جو دوسرے مسلمان اس پیشے سے جڑے ہیں ’وہ گناہ گار ہیں ؟‘ کچھ نے اس کے بعد اسلام پر تنقید شروع کر دی کہ ’یہ تو مذہب ہی خواتین کے حقوق کے خلاف ہے‘۔
تاہم یہاں کچھ باتیں قابل غور ہیں۔ فلموں اور ڈراموں کی دنیا کی میں پردہ پر کیا ہوتا ہے پردہ کے پیچھے کیا ہوتا اس سے سب واقف ہیں۔ اس وقت دنیا میں عریانیت اور فحاشی کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس کے پیچھے فلمی دنیا کا بڑا ہاتھ ہے بلکہ پورا ہاتھ ہے۔ راقم، مادیت پرستی اور ہوا پرستی کی دنیا میں پڑے ہوئے لوگوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ جب تک انسان اجالے میں نہیں آتایا اجالے کو دیکھ نہیں لیتا اس وقت تک اسے اندھیرے اور اجالے کا فرق سمجھ میں نہیں آتا۔ قلوب و اذہان پر جس وقت باری تعالیٰ کی جانب سے ہدایت کا فیضان ہوتا ہے اس وقت دلوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس کو وہی شخص جانتا ہے جو اس مرحلہ سے گذرتا ہے۔ زر پرستی، زن پرستی، نفس پرستی، ہوا پرستی یہ سب بت پرستی کی اقسام ہیں، خدا پرستی کوئی اور چیز ہے۔ آئیے اس چیز قرآن پاک کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ وہ شخص جو مردہ تھا پھر اللہ نے اسے زندگی دی اور اسے ایک نور دیا جسے لیے ہوئے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے کیا وہ اس شخص کے مثل ہو سکتا ہے جو گمراہی کے اندھیروں میں پڑا ہو ا اور اس سے نکل ہی نہ سکتا ہو؟ یوں تو کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔ (سورہ انعام، آیت نمبر ۲۲)
تاہم یہاں مصنف اپنی ان بچیوں اور خواتین اسلام سے جن کے خواب، اور تمنائیں فلمی دنیا تک ہی محدود ہیں اور وہ للچائی نظروں سے ہو ا پرستوں کو دیکھتی رہتی ہیں نیز ان کا منتہائے مقصد اداکارہ بننا ہے ا دبا ً عرض کرنا چاہتا ہے کہ اس سراب سے نکلیں۔ حقیقت کی دنیا میں آئیں۔ جو چیز پردے پر دکھائی جاتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ حقائق تو قرآن نے بیان فرمائے ہیں۔ پچھلی قوموں کے واقعات پیش کیے ہیں۔ نیز ہوا پرستی کے نتیجے میں جو عذاب ان پر نازل ہوا ہے اس کو بیان کیا ہے۔ آپ کے لیے زائرہ وسیم کا فیصلہ مشعل راہ ہے جس نے چمک و دمک کی عروج پر پہنچ کر ہوا پرستی کو طلاق دی ہے۔ پتہ نہیں یہ کس کی نگاہوں کا فیضان تھا کہ اس بچی نے ہدایت کے نور اور گمراہی کے اندھیرے میں تمیز کی۔ اپنے اسلاف کی سیرت سے صحیح معنوں میں خوشہ چینی کی۔ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ بقول شخصی ؎
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
اب آپ کو یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے سوچا کہ جس قدر زائرہ وسیم کے فیصلے پر شور ہو رہا ہے اور تنقید ہو رہی ہے، کیا اس سے پہلے کسی سلیبرٹی نے اس طرح کا فیصلہ نہیں کیا؟ کچھ نام تو بنا زیادہ سوچے ہی ذہن میں آگئے!
جنید جمشید:
’دل دل پاکستان‘ کے ساتھ ہی جنید جمشید پاکستان میں مقبول ہوئے۔ دھیمی آواز کے مالک جنید جمشید پہلی بار 1987 میں اس وقت مقبول ہوئے جب وائٹل سائنز بینڈ کے ساتھ ان کا گانا ’دل دل پاکستان‘ بہت مقبول ہوا۔ 1994 میں انہوں نے اپنا پہلا سولو ایلبم ریلیز کیا اور اس کے بعد بھی مقبول ایلبمز اور گانے بناتے رہے۔ جنید جمشید 2016 میں ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے
تاہم وہ کہتے تھے کہ تمام تر عزت کے باوجود انہیں اندر سے کسی ‘کمی’ کا احساس ستاتا رہتا تھا۔ ان کی یہ ‘کمی’ تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل کے ہاتھوں پوری ہوئی، اور جنید سب کچھ چھوڑ کر مذہب کی جانب مائل ہو گئے۔ 2004 کے بعد انھوں نے نعتوں اور نشید کے علاوہ کسی بھی طرح کی موسیقی سے خود کو الگ کر لیا۔
کیٹ سٹیونز/ یوسف اسلام :
کیٹ سٹیونز نے 1977 میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ اگر آپ کو انگریزی پاپ میوزک کا شوق ہے تو شاید آپ برطانوی موسیقار کیٹ سٹیونز کے نام سے واقف ہوں گے۔ ان کا پہلا ایلبم 1967 میں ریلیز ہوا۔ کئی برسوں تک ایک کے بعد ایک مقبول ایلبمز ریلیز کرنے کے بعد 1977 میں انھوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے نام یوسف اسلام اپنایا۔ 1979 میں انھوں نے اپنے تمام گٹار چیرِٹی کے لیے بیچ دیے۔ اس کے بعد انھوں نے موسیقی سے اپنا رشتہ صرف نشید تک محدود رکھا اور اپنے پاپ سٹار کیرئیر کو خیرباد کہا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے مسلمان کمیونٹیز کے لیے فلاحی کاموں میں بھی شرکت شروع کر دی۔
حاصل یہ کہ کئی لوگ فیصلے کر کے، انھیں واپس لے لیتے ہیں اور کئی ان فیصلوں پر قائم رہتے ہیں۔ لیکن بہرحال لوگ اپنی زندگی کیسے گزارنا چاہیں یہ ظاہر ہے ان کا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے۔ تاہم علمائے حقانی قوم کے دیگر بزرگان دین نے زائرہ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مزید بر آں جموں کشمیر کی سیاسی شخصیات نے اپیل کی ہے کہ ہم سب کو اس کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیئے۔ تاہم ہم بارگاہ الٰہی میں دعا گو ہیں کہ اللہ پاک اس بچی کو استقامت نصیب فرمائے۔ نا بکاروں اور نا ہنجاروں کی بات میں آکر ضمیر فروشی بلکہ قوم فروشی سے بچائے۔ ؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ
حیا زمانہ کی آنکھ میں نہیں باقی
اللہ کرے جوانی رہے تری بے داغ
تبصرے بند ہیں۔