زندگی نو، مئی 2024
سہیل بشیر کار
رسائل جہاں رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں؛ وہیں اگر وہ ایک فکر نظر کا حامل ہو تو یہ قاری کی ذہنی نشوونما میں بھی اہم رول ادا کرتا ہے۔ ‘زندگی نو’ گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصے سے امت مسلمہ کی فکری و علمی رہنمائی کرتا آرہا ہے۔ "زندگی نو” مئی 2024 میں بہترین فکری اور علمی مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ رسالہ کے آغاز میں مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کے ایک اقتباس کا انتخاب "تفھیم القرآن” سے لیا گیا ہے۔ رسالہ کے مدیر ڈاکٹر محی الدین غازی گزشتہ کچھ عرصہ سے اجتماعیت پر بہترین مضامین لکھ رہے ہیں۔ اس شمارہ میں "اسلامی تحریک میں محرک کی اہمیت” پر اجتماعیت کے حوالے سے ایک فکری مضمون لکھا ہے۔ مضمون کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
"دینی کاموں کا دینی محرک دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ دل پر شیطان کی مسلسل یلغار رہتی ہے۔ ہرآن ایک کشمکش کا سماں رہتا ہے۔ مختلف محرکات اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ باہر تو سب کچھ ٹھیک چلتا ہے لیکن خانہ دل کسی شیطانی حملے کا نشانہ بن جائے اور دینی محرک کو بے دخل کر کے دوسرے محرکات دل کی سلطنت پر قابض ہو جائیں۔ اس لیے محرک کے بارے میں چوکسی بہت ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔” (صفحہ 5)
انسانی نفسیات کے حوالے سے اسلامی اجتماعیت کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "انسان کی نفسیات یہ ہے کہ اگر اس کے کاموں کی ستائش نہ کی جائے تو اس کا دل ٹوٹنے اور بکھرنے لگتا ہے۔ انسان ستائش چاہتا ہے۔ انسانوں کی کم زوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی دل کھول کر ستائش نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے عام انسانی اداروں اور تنظیموں میں بہت سے لوگ عمر کے کسی مرحلے میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو بقدر تسکین ستائش نہ مل سکی۔ اس کے علاوہ اداروں اور تنظیموں میں بہت سے کام اور ذمے داریاں ایسی ہوتی ہیں جنھیں انجام دینے والے ستائش سے محروم ہی رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جابجا محرومی کا احساس ستاتا ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے کوششیں کرنے والے ستائش کے مسئلے سے آزاد ہوتے ہیں۔ انسانوں کی ستائش کرنے اور نہ کرنے کا ان پر ذرا اثر نہیں پڑتا ہے۔”(صفحہ 10)
مصنف کا ماننا ہے کہ یہ محرک آزمائشوں کو آسان کر دیتا ہے لکھتے ہیں: "رضائے الہی کا سودا سر میں سما جائے تو آدمی ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ اپنا بہترین وقت تحریک کو دیتا ہے ، وہ اپنے مال کا بڑا حصہ تحریک کی راہ میں خرچ کرتا ہے، وہ مشقت سے بھر پور اسفار میں تکان کے بجائے لطف محسوس کرتا ہے، کہیں لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں، کہیں اس پر فقرے کستے اور کہیں تو جسمانی اذیت بھی دیتے ہیں۔ قید و بند اور دار و رسن کے مراحل بھی دور نہیں ہوتے۔ غرض یہ راستہ ہر طرح کی قربانیاں مانگتا ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لیے یہ سب کچھ آسان معلوم ہوتا ہے۔ محرک کی بلندی انسان کو صدیقیت کی صفت سے آراستہ کر دیتی ہے، جس کے بعد کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ۔۔”رضائے الہی کا سودا سر میں سما جائے تو آدمی ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ اپنا بہترین وقت تحریک کو دیتا ہے ، وہ اپنے مال کا بڑا حصہ تحریک کی راہ میں خرچ کرتا ہے، وہ مشقت سے بھر پور اسفار میں تکان کے بجائے لطف محسوس کرتا ہے، کہیں لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں، کہیں اس پر فقرے کستے اور کہیں تو جسمانی اذیت بھی دیتے ہیں۔ قید و بند اور دار و رسن کے مراحل بھی دور نہیں ہوتے۔ غرض یہ راستہ ہر طرح کی قربانیاں مانگتا ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لیے یہ سب کچھ آسان معلوم ہوتا ہے۔ محرک کی بلندی انسان کو صدیقیت کی صفت سے آراستہ کر دیتی ہے، جس کے بعد کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ "(صفحہ 12) اور جب بندے میں رضائے الہی کا محرک کمزور پڑ جاتا ہے تو اس کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جب رضائے الٰہی کا محرک کم زور پڑ جاتا ہے تو شیطان دل میں وسوسے ڈالتا ہے کہ لوگوں کو جوڑنے اور لوگوں تک پیغام پہنچانے کی محنت تم کرتے ہو، شخصیت فلاں صاحب کی نمایاں ہوتی ہے، تم چپکاتے ہو اور پوسٹر پر نام فلاں صاحب کا ہوتا ہے، دن رات محنت کر کے مجمع گاہ تم تیار کرتے ہو اور اسٹیج کی رونق فلاں صاحب بنتے ہیں۔ گھر والے بھی کبھی اسی طرح کی باتیں سناتے ہیں۔ رضائے الٰہی کی طلب سے سرشار انسان ایسے تمام وسوسوں کو سختی سے دھتکار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں اس کے اپنے کام کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے کہ کیوں کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے وہ سارے کام کرتا ہے۔”(صفحہ 14)
دانشور قائد انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کا مضمون” قرآن کی سفارت کا عظیم فریضہ "ایک خطاب ہےجو انہوں نے مدرسین قرآن کے ایک تربیتی پروگرام میں کیا ہے، اس مضمون میں قائد نے درس قرآن دینے کا طریقہ بیان کیا ہے۔ اپنے اس مضمون میں مصنف سب سے پہلے قرآن کے مقاصد سے قاری کو آگاہ کراتے ہیں؛ اس کے بعد درس قرآن دینے والے کو کہتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے سفیر کا کام کریں، لکھتے ہیں:” قرآن کا سفیر وہ ہے جو اپنے قارئین کو قرآن سے روحانی تعلق قائم کرنے میں مدد دے۔ جہاں درس خشک؛ علمی درس نہ ہو۔ ہمارے دروس لوگوں کے دلوں کے تاروں کو چھیڑیں۔ ان کے ایمان کے شعلوں کو بھڑکائیں۔ ان کے اندر وہ اضطراب پیدا کریں جو قرآن پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کی محبت ، اس کی عبادت میں لطف و سرور ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، اس کی اطاعت کا ذوق و شوق، اللہ کی راہ میں جد و جہد کا جنون، اس راہ کی مشقتوں اور قربانیوں میں لطف و سرور ، اہل ایمان سے محبت، اللہ کی راہ میں جد و جہد کرنے والوں سے محبت، دعوت دین کے لیے اضطراب، اقامت دین اور قیام عدل و قسط کے لیے بے چینی۔ قرآن کے سفیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ جہاں قرآن کی سوچ کو عام کرنے والا ہو وہیں پاکیزہ قرآنی جذبات کو بھی عام کرنے والا ہو۔ درس مکمل ہو تو جہاں سامعین کا دامن قرآنی علم و حکمت کے موتیوں سے بھرجائے وہیں ان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں قرآنی جذبات کی طاقتور موجیں بھی ٹھاٹھیں مار نا شروع کر دیں۔” (صفحہ 28)
جب مدرس اس طرح درس دے گا تو قرآن کریم ہماری زندگیوں میں عملی رہنمائی کرے گا، آخر میں سعادت صاحب مثالی درس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ درس قرآن میں تین چیزوں کا تعامل ضروری ہے۔ پہلی چیز خود قران ہے؛ دوسری چیز سامعین اور تیسری چیز سماج ہے۔ لکھتے ہیں: "پہلی چیز خود قرآن ہے۔ اللہ کا کلام، اس کے الفاظ، اس کی مستند تفسیر و تعبیر اس کی ہدایت و رہنمائی، اس کے اصول، اس کے قوانین، اس کا فلسفہ ، اس کا ورلڈ ویو، اس کا وژن، اس کی روحانی تاثیر۔۔۔ دوسری چیز آپ کے سامعین ہیں۔ ان کے افکار و خیالات، ان کے جذبات و احساسات، ان کے احوال و کوائف ، ان کے مسائل اور ان کی الجھنیں ، ان کی آرزوئیں، خواہشات اور ان کے خواب، ان کے تفکرات، ان کے دل کی دنیا اور ان کے دماغوں کی کائنات۔تیسری چیز سماج ہے، یعنی زمان و مکان۔ ہمارا دور اور ہمارا جغرافیائی محل وقوع ، یہاں رائج افکار و خیالات، قوانین و دساتیر ، رسوم و رواج اور معمولات، یہاں کے حالات، یہاں کے چیلنج، یہاں پائے جانے والے جاہلیت کے اندھیرے، شیطان کے جال، وسوسے ، الجھنیں، یہاں کے تمدنی احوال، یہاں برپا حق وباطل کی مخصوص نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی کشمکش۔ "(صفحہ 29)
مصنف مدرس کو مزید ہدایت دیتے ہیں: "تفسیر پڑھ کر اپنی زبان میں اسے بیان کر دینا آسان کام ہے۔ لیکن قرآن کو زندگی کی عملی رہ نمائی کا سرچشمہ بنادینا محنت طلب کام ہے۔ اس کے لیے آپ کو تیاری کرنی ہو گی۔ محنت کرنی ہوگی۔ سب سے پہلے قرآن کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ اس سے زندہ تعلق قائم کرنا ہوگا۔ بار بار اور بہ کثرت قرآن پڑھنا ہوگا، ہر سوال کے جواب کے لیے اور ہر الجھن کے ازالے کے لیے قرآن سے رجوع ہونا ہوگا۔ بار بار قرآن میں غوطہ زن ہونا ہوگا۔ ذاتی، ملی، ملکی اور عالمی عملی احوال سے متعلق ، قرآن سے بار بار ، سوال کرنے اور اس سے جواب حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔ پھر اپنے سامعین، ان کے ذہن، ان کے مسائل، ان کی ضرورتوں، ان کی الجھنوں ، ان کے سوالات، ان کے طرز زندگی، ان کے جذبات وغیرہ کو بھی سمجھنا ہو گا اور اپنے سماج اور اپنے عہد کو بھی سجھنا ہو گا۔ اپنے زمانے کی جاہلیت کا گہرا شعور بھی حاصل کرنا ہوگا۔ سماج کے مسائل اور اس میں درپیش چیلنجوں کو بھی سمجھنا ہوگا اور ان تینوں کے گہرے فہم کے ساتھ درس قرآن دینا ہوگا۔”
سابقہ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نے پٹنہ کے ایک اجتماع میں دس سال قبل ایک خطاب کیا تھا؛ جس کا عنوان ” مسلم امت :انصاف قائم کرنے والی امت ” تھا۔ اس خطاب کو مضمون کی صورت شامل کیا گیا ہے، عمری صاحب کا یہ خطاب فکری اور عملی پہلو کو بیان کرتا ہے۔
دین اسلام میں جہاں رہبانیت کی مذمت کی گئی ہے وہیں مادہ پرستی پر بھی ضرب لگائی گئی ہے؛ "مادہ پرستی اور زندگی پر اس کے اثرات "کے عنوان سے پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کا اہم مضمون رسالہ میں شامل کیا گیا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں مصنف نے مادہ پرستی کے اکثر پہلوؤں کو بیان کیا ہے جگہ جگہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا ہے۔
ڈاکٹر وقار انور صاحب ماہر معاشیات ہیں۔ اس شمارے میں بھی ان کا ایک مضمون "مروجہ معاشیات کی حقیقت اور اس کے متبادلات” شامل ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب پہلے یورپی معیشت کے خدوخال کو بیان کرتے ہیں؛ اس کے بعد مروجہ معاشیات کے متبادلات ہندوستان میں پیش کیے ہیں۔ متبادلات کے سلسلے میں رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نارائن کی مثال دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان مثالوں کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"یہ مثالیں صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے دی گئی ہیں کہ دنیا میں متبادل نظام معیشت کی تلاش رہی ہے اور دنیا نے مروجہ نظام معیشت کو بالکلیہ قبول نہیں کیا۔ ان دونوں حضرات کی آرا کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ انھوں نے مغرب میں تعلیم حاصل کی اور اپنے خیالات کے مطابق ساری عمر جد و جہد کرتے رہے۔ یعنی یہ صرف ڈرائنگ روم اور کلاس روم تک محدود رہنے والے مفکرین نہیں تھے بلکہ میدان کار میں نبرد آزما افراد تھے۔ ان کی آرا پر تبصرہ و رائے زنی یہاں مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ مروجہ معاشیات سے سے بے اتفاقی و بے اطمینانی پائی جاتی رہی ہے۔ "(صفحہ 59)
مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے اسلامی تصورات کی معیشت کی تنظیم نو پر توجہ مرکوز رکھنے پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے چند خیالات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ مضمون کے اخیر میں ڈاکٹر صاحب نے مروجہ قانونِ معاشیات کے انسانی زندگی پر منفی اثرات بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رضوان صاحب گزشتہ کچھ عرصہ سے انحرافی جنسی رویوں پر لکھ رہے ہیں۔ اس شمارے میں انہوں نے” انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس” کے عنوان سے اسلام اور LGBTQ+پر گفتگو کی ہے۔
اس شمارے میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے سید عبید الرحمان کی ایک کتاب ‘PEACEFUL EXPANSION ISLAM IN INDIA’ پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے؛ لکھتے ہیں:
"کہا جاسکتا ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے بیسویں صدی کے آغاز میں صحیح علمی نہج پر اشاعت اسلام کی تاریخ لکھنے کی جو ابتدا کی تھی اور جس کام کو آگے بڑھانے میں خود مسلمانوں کی طرف سے بڑی کوتاہی ہوئی، سید عبید الرحمان نے اس سلسلے کو علمی سنجیدگی کے ساتھ کچھ آگے بڑھایا ہے۔ یہ بہت بڑا اور ضروری کام ہے اور مسلسل توجہ اور متعدد محققین کی شمولیت چاہتا ہے۔ یہ کتاب دستیاب حقائق پر مبنی معروضی مطالعہ ہے یا اس میں معذرت خواہانہ کیفیت کے ساتھ سلیکٹیو اپروچ کو اختیار کیا گیا ہے؟ اس کا فیصلہ کتاب کے قارئین خود کرسکیں گے۔” (صفحہ 80)
قومی تعلیمی پالیسی 2020 اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ وہ طلبہ کو ایسی تعلیم دے گی کہ طلبہ بین الاقوامی شہری بن سکیں۔ سید تنویر احمد صاحب نے اپنے مضمون "اکیسویں صدی کے طلبہ کے لیے مطلوب صلاحیتیں” پر ایک بہترین مضمون لکھا ہے؛ جو انتہائی محنت سے لکھا گیا ہے۔ تعلیم سے وابستہ افراد کے لئے اس مضمون میں سیکھنے کے لیے بہت ہی عمدہ بحث ہے۔ زندگی نو کے مختلف شماروں میں جیفری لینگ اسلام پر اعتراضات کا جواب دیتے ہیں۔ اس شمارے میں بھی انہوں نے دو اعتراض 1۔ ازواج مطہرات اور 2۔ حجاب سے متعلق اشکالات کا جواب دیا ہے۔
مشہور فقیہ مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب "زندگی نو” کے ہر شمارے میں فقہی مسائل پر رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ رسالہ کی جان ہے۔ اس شمارے میں مولانا نے "بڑھاپے میں عبادات میں کمی کی تلافی کیسے کی جائے "اور کیا مصنوعی استقرار حمل اور رحم مادر کی کرایہ داری "پر فقہی رہنمائی کی ہے۔
رسالہ کا سالانہ زرتعاون صرف 400 روپے ہے۔ رسالہ حاصل کرنے کے لیے آپ فون نمبر 8920589292 پر رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ رسالہ www۔zindagienau۔com پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔