ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن اور اسلامی نظام معیشت کا ستون ہے ۔ قرآن میں اس کا ذکر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ نماز فحش ومنکرات سے روکتی ہے تو زکوٰۃ اقتصادی نابرابری کو کم کرتی ہے ۔ نماز جسم کی اور زکوٰۃمال کی عبادت ہے ۔ رب کائنات نے دولت مندوں کے مال میں غریبوں، مسکینوں، کمزوروں اور بے سارا لوگوں کا حصہ رکھا ہے ۔ یہ حصہ صرف دولت میں نہیں بلکہ کھیتی، موسمی پھلوں، تجارت کے جانوروں اور سامان میں بھی ہے ۔ اس کی ادائیگی پر مال کی حفاظت وترقی کی ضمانت، کوتاہی یا ادا نہ کرنے پر بربادی، دقتوں وپریشانیوں کا سامناطے ہے ۔ زکوٰۃ سے غریبوں کی مدد، ہمدردی اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، انا پر لگام لگتی ہے ۔ اہل دولت فقراء ومعذوروں کو دھتکارنے کے بجائے ان کی عزت کرتے ہیں۔ اس طرح غریبوں کو بہتر زندگی ملتی ہے اور سماج سے غریبی دور ہوتی ہے ۔
قرآن نے زکوٰۃ پر پہلا حق فقراء ومساکین کا بتایا ہے ۔ پیغمبر اسلامﷺ نے بھی زکوٰۃ کو فقراء ومساکین پر خرچ کرنے کی تاکید کی ہے ۔ آپ ﷺ نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت دولت مندوں سے زکوٰۃ لے کر غرباء و مساکین میں تقسیم کرنے کا حکم دیاتھا ۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ماننے والوں کے نزدیک زکوٰۃ کا مصرف غریب اور فقیروں کی اعانت کے سوا کچھ نہیں۔ غربت وافلاس اور فقروفاقہ ایسی مصیبت ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ کیوں کہ فقروفاقہ انسان کو کفرتک پہنچا دیتا ہے۔ غریبی کا سیدھا اثر سب سے پہلے انسان کی صحت پر پڑتا ہے۔ پیسوں کی کمی کی وجہ سے وہ پیٹ بھر کھانا نہیں کھا پاتا اور کم خوراکی کی وجہ سے عدم غذائیت کا شکار ہوکر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اس سے ملک کی معیشت پر بوجھ بڑھتا ہے ۔
گلوبل ہنگر انڈیکس 2021 کے اعداد وشمار کے مطابق 116 ممالک میں بھارت 101 ویں پائیدان پر ہے ۔ یہاں قریب 27.5 کروڑ لوگ خط افلاس پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ بھکمری کے معاملے میں بھارت شمالی کوریا اور سوڈان کی قطار میں کھڑا ہے ۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حالات اس سلسلہ میں بھارت سے بہتر ہیں ۔ دنیا کے 25 فیصد بھوکے صرف بھارت میں بستے ہیں۔ 2012 میں سرکار نے 22 فیصد آبادی کے غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے کی بات مانی تھی۔ جبکہ عالمی بینک کا 23.6 فیصد لوگوں کے غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے کا تخمینہ تھا ۔ یعنی 276 ملین لوگ ایسے ہیں جن کی قوت خرید 1.25 ڈالر یومیہ سے بھی کم تھی ۔ وہیں پانچ سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچوں کا وزن مقررہ معیار سے کم ہے۔ 72 فیصد نومولود اور 52 فیصد شادی شدہ عورتوں میں خون کی کمی پائی جاتی ہے۔ بھارت میں مذہبی عقائد کی وجہ سے بڑی آبادی گوشت، انڈا اور کچھ دودھ سے بنی اشیاء کا استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے انہیں پورا پڑوٹین نہیں مل پاتا ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ آمدنی والے خاندانوں کے مقابلے کم آمدنی والے خاندان عدم غذائیت کے زیادہ شکار ہیں ۔
یونائیٹڈ نیشن کے ملینیم ڈولپمنٹ پرگرام کے تحت وزیراعظم کی حیثیت سے اٹل بہاری واجپئی نے اس عہدنامہ پر دستخط کئے تھے جس میں 2015 تک بھارت سے غریبی کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کیاگیا تھا۔ آج بھی ملک کے حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ کورونا بحران کے دوران 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دیئے جانے سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے ۔ کئی ریاستوں میں یہ اسکیم ابھی بھی جاری ہے ۔ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں واضح طورپر کہا تھا کہ ملک کے مختلف صوبوں میں مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی وسماجی حالت میں یکسانیت نہیں لیکن تمام ہی علاقوں میں پسماندگی اور پچھڑاپن تمام پہلوں میں نمایاں ہے ۔ نیشنل کونسل فار اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سروے کے مطابق 31 فیصد مسلم خط افلاس سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ یعنی دس میں سے تین۔ ان کے پاس مہینہ میں 550 روپے بھی خرچ کرنے کو نہیں ہوتے۔ پی ٹی آئی نے 28مارچ 2010 کی خبر میں یہ انکشاف کیا تھا۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر امرتیہ سین نے اپنے پراٹیچی انسٹی ٹیوٹ اینڈ گائیڈینس گلڈ کے ذریعہ جاری سوشل نیٹ ورک فار اسٹینس پیوپل رپورٹ میں اس بات پر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ مغربی بنگا ل کے غریبوں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے،وہ ترقی کے لوازمات سے محروم ہیں۔ ان کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق 47 فیصد مسلم یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے ہیں اور ترقی کے زینوں میں سب سے نیچے ہیں۔ وہ بنیادی سہولیات، حفظان صحت اور ایل پی جی سلنڈرس کی فراہمی سے محروم ہوکر زندگی گزاررہے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں چار ہزار کروڑ سے بیس ہزار کروڑ روپے کے قریب زکوٰۃ کی رقم نکلتی ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ سرکار کی کئی وزارتوں کا سالانہ بجٹ اتنا نہیں ہوتا۔ پھر بھی مسلمانوں کی خاصی تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ موٹے طورپر اس کی کئی وجہ ہیں،یہ کہ زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ زکوٰۃ کے بارے میں غلط فہمیوں کا پایا جانابھی ہے کہ فقراء ومساکین یا اپنے مستحق رشتہ دار کو کچھ رقم، چند کلو اناج یا کچھ میٹر کپڑا دے دیا جائے جس سے وہ مہینہ دو مہینہ یا اس سے زیادہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔ تیسرے نام ونمود کیلئے رمضان کٹ(Kit)، افطار کٹ یا عید کٹ کا تقسیم کیاجانا۔ اس سے زکوٰۃکا مقصد پورا نہیں ہوتا۔اس کا مقصود فقراء ومساکین کی بحالیات (rehabilitation)ہے۔ بقول امام شافعیؒ فقرا ومساکین کو اتنا مال دیا جائے جو انہیں ضرورت واحتیاج سے نکال کر استغنا اور عدم احتیاج سے ہم کنار کردے۔یعنی اگر کوئی شخص دستکاری کرتا ہو اور مال کی کمی یا کام میں نقصان کی وجہ سے وہ محتاج بن گیا ہو تو اسے اتنی رقم دی جائے کہ وہ دوبارہ سے اس کام کو شروع کرکے ہمیشہ کیلئے تہی دست یا ہاتھ پھیلانے سے اسے چھٹکارا مل جائے۔ تھوڑی مدد ایسی دوا کی مانند ہوتی ہے جو وقتی طورپر تو آرام پہنچاتی ہے لیکن بعد میں مرض کو اور بڑھا دیتی ہے۔ اس لئے فقرو فاقہ اور غریبی سے نجات دلانے کے واسطے زکوٰۃ کا نظام قائم کرنا ضروری ہے ۔
زکوٰۃ کے سرمایہ سے مستقل انوسٹمنٹ کیا جاسکتا ہے۔ بعض مسلم ممالک نے اس پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے زکوٰۃکی رقم سے مال، مارکیٹ، ٹرانسپورٹ، ہوٹل اور فیکٹریاں قائم کی ہیں۔ ان کے ذریعہ حاصل شدہ آمدنی سے ان خاندانوں کی مستقل مدد کی جاتی ہے جو ضرورت مند اور محتاج ہیں۔ اس سلسلہ میں ملیشیا اور ساؤتھ افریقہ کے ماڈل سے استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے تقسیم زکوٰۃمیں زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جسے وہ پیداواری غریب (Productive Poor) اور غیر پیداواری غریب( Productive NonPoor)کا نام دیتے ہیں۔ غیر پیداواری غریبوں میں عمر رسیدہ بوڑھے، بیوہ، اپاہج ومعذور، دائمی مریض وغیرہ شامل ہیں، جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی معاشی حالت خراب ہوتی ہے،ان کی مسلسل اور مستقل مدد کی جاتی ہے۔ ان پر زکوٰۃ کی پوری رقم کا 20-25 فیصد صرف ہوتا ہے۔ البتہ باقی 75-80 فیصد پیداواری غریبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ ان میں ایسے مرد و خواتین کو رکھا گیا ہے جو سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اپنا کاروبار نہیں کرسکتے۔ بعض کو ہنر سکھا کر مدد کی جائے تو وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اوزار یا مشین فراہم کی جائے تو خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ ان کی مستقل مدد کے بجائے۔ ان کی درخواستوں کو جانچ کر بڑی رقم یک مشط یا قسط وار زکوٰۃ کی رقم سے مدد کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ طبقہ بہت جلد خود کفیل ہوکر زکوٰۃ دینے کے قابل بن جاتا ہے۔
بھارت میں یہ کام ناممکن تونہیں لیکن دشوارضرور ہے ۔ یہاں اکثر بھیک مانگنے وا لے یا تو پیشہ ور ہیں یا پھر کسی بھیک منگوانے والے مافیا گروپ کے ملازم ۔ ان کی وجہ سے اصل حاجت مند و مسکین یا تو سامنے نہیں آتے یا پھر انہیں پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے ہر سال کروڑوں روپے کی زکوٰۃ وصدقہ فطرکی تقسیم کے باوجود فقیروں کی تعداد میں کمی نہیں آتی بلکہ سال درسال اس میں اضافہ ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔ کلمہ اور نماز کو عام کرنے کی کوششوں کی طرح کمزوروں، پسماندہ طبقوں، حاجت مندوں کو اوپر اٹھانے کیلئے منصوبہ بند ومنظم طریقہ سے زکوٰۃ کی مہم مسلسل چلانی ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کرناٹک کی زکوٰۃ سے آندھرا پردیش کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے یا پھر کسی اور علاقے کے لوگوں کو جہاں زیادہ ضرورت ہو۔ اگر یہ سعی مسلسل کی گئی تو چند سالوں میں ملک سے غریبی کے خاتمے کی امید کی جاسکتی ہے۔ اس کا آغاز بستیوں، محلوں اور شہروں سے کرنا ہوگا کیوں کہ زکوٰۃ کا اکٹھا کرناجتنا آسان ہے اس کے مستحق تک پہنچانا اتنا ہی مشکل۔ لیکن اس کا اصل فائدہ تبھی سامنے آئے گا جب یہ اس تک پہنچ جائے جو اس کا حقدار ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔