سب مال خزانہ اس کا ہے

تاج ا لدین اشعرؔ رامنگری

آنکھوں میں اسی کے جلوے ہیں دل بھی کاشانہ اس کا ہے

آفاق سے لیکر انفس تک سب تانا بانا اس کا ہے

یہ تو نہ کوئی،بھی جان سکا کیا ٹھور ٹھکانہ اس کا ہے

پر روز ازل سے ہر جلوہ جانا پہچانا اس کا ہے

سچ پوچھو تو سب شاہ و گدا محتاج اسی کے در کے ہیں

وہ کون و مکاں کا سلطاں ہے سب ٹھاٹھ شہانہ اس کا ہے

یہ سیم و زر یہ لعل و گہر انساں نے کہاں سے پائے ہیں

ہم مفت میں مالک بن بیٹھے سب مال خزانہ اس کا ہے

وہ سب کا مالک و خالق ہے وہ سب کا رب اور رازق ہے

مخلوق ہے اہل و عیال اس کی سنسار گھرانہ اس کا ہے

بادل دریااور چشمے کا قطرہ قطرہ بخشش اس کی

باغوں کھیتوں کھلیانوں کا  سب دانہ دانہ اس کا ہے

شاخ گل پر بیٹھی بلبل تسبیح اسی کی پڑھتی ہے

کوئل کی زباں پر وقت سحر مدحت کا ترانہ اس کا ہے

وہ پھولوں کی رنگیینی ہو یا خوشبو بھینی بھینی ہو

اشجار کے تن پر پتوںکا سر سبز یہ بانا اس کا ہے

سونا چاندی لوہا تانبا یہ لعل و زمرد اور ہیرے

دھرتی کے شکم میںتہہ درتہہ ہرشئے کا خزانہ اس کا ہے

یہ لعل و گل یہ شمش و قمر سب اس کی کہانی کہتے ہیں

بادل کی گرج بجلی کی تڑپ ہر لب پہ فسانہ اس کا ہے

اوجھل ہے نگاہوں سے سب کی سب اس کی نظر کی زد میں ہیں

روپوشی و جلوہ نمائی کا یہ شیوہ پرانا اس کا ہے

جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں اک سیل تجلی سامنے ہے

جس رخ سے بھی دیکھو یہ عالم اک آئینہ خانہ اس کا ہے

افلاک اس کے اک ہاتھ میں ہیںوَالرض جمیعاََ قبضتہہٗ

ہر روز ہے اس کی شان الگ ہر طرز یگانہ اس کاہے

ایام و شہود کا وہ صانع اعصارو دہور اس کے تابع

ماضی ہو کہ حال و مستقبل ہر ایک زمانہ اس کا ہے

حی و قیوم ہے ذات اسکی عالم کی حفاظت کام اس کا

اس کی کرسی ہیں کون و مکاں دربار شہانہ اس کا ہے

للہ الاسما ء ا لحسنیٰ جس نام سے چاہو یاد کرو

ذاتی ہو چاہے صفاتی ہو ہر نام سہانا اس کا ہے

تبصرے بند ہیں۔