سب مال خزانہ اس کا ہے
تاج ا لدین اشعرؔ رامنگری
آنکھوں میں اسی کے جلوے ہیں دل بھی کاشانہ اس کا ہے
آفاق سے لیکر انفس تک سب تانا بانا اس کا ہے
…
یہ تو نہ کوئی،بھی جان سکا کیا ٹھور ٹھکانہ اس کا ہے
پر روز ازل سے ہر جلوہ جانا پہچانا اس کا ہے
…
سچ پوچھو تو سب شاہ و گدا محتاج اسی کے در کے ہیں
وہ کون و مکاں کا سلطاں ہے سب ٹھاٹھ شہانہ اس کا ہے
…
یہ سیم و زر یہ لعل و گہر انساں نے کہاں سے پائے ہیں
ہم مفت میں مالک بن بیٹھے سب مال خزانہ اس کا ہے
…
وہ سب کا مالک و خالق ہے وہ سب کا رب اور رازق ہے
مخلوق ہے اہل و عیال اس کی سنسار گھرانہ اس کا ہے
…
بادل دریااور چشمے کا قطرہ قطرہ بخشش اس کی
باغوں کھیتوں کھلیانوں کا سب دانہ دانہ اس کا ہے
…
شاخ گل پر بیٹھی بلبل تسبیح اسی کی پڑھتی ہے
کوئل کی زباں پر وقت سحر مدحت کا ترانہ اس کا ہے
…
وہ پھولوں کی رنگیینی ہو یا خوشبو بھینی بھینی ہو
اشجار کے تن پر پتوںکا سر سبز یہ بانا اس کا ہے
…
سونا چاندی لوہا تانبا یہ لعل و زمرد اور ہیرے
دھرتی کے شکم میںتہہ درتہہ ہرشئے کا خزانہ اس کا ہے
…
یہ لعل و گل یہ شمش و قمر سب اس کی کہانی کہتے ہیں
بادل کی گرج بجلی کی تڑپ ہر لب پہ فسانہ اس کا ہے
…
اوجھل ہے نگاہوں سے سب کی سب اس کی نظر کی زد میں ہیں
روپوشی و جلوہ نمائی کا یہ شیوہ پرانا اس کا ہے
…
جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں اک سیل تجلی سامنے ہے
جس رخ سے بھی دیکھو یہ عالم اک آئینہ خانہ اس کا ہے
…
افلاک اس کے اک ہاتھ میں ہیںوَالرض جمیعاََ قبضتہہٗ
ہر روز ہے اس کی شان الگ ہر طرز یگانہ اس کاہے
…
ایام و شہود کا وہ صانع اعصارو دہور اس کے تابع
ماضی ہو کہ حال و مستقبل ہر ایک زمانہ اس کا ہے
…
حی و قیوم ہے ذات اسکی عالم کی حفاظت کام اس کا
اس کی کرسی ہیں کون و مکاں دربار شہانہ اس کا ہے
…
للہ الاسما ء ا لحسنیٰ جس نام سے چاہو یاد کرو
ذاتی ہو چاہے صفاتی ہو ہر نام سہانا اس کا ہے
تبصرے بند ہیں۔