2019 کا سیمی فائنل

منورنجن بھارتی

(منورنجن بھارتی NDTV انڈیا میں ‘سینئر ایكزیكيوٹو ایڈیٹر- پولیٹکل نیوز’ ہیں۔)

پانچ ریاستوں میں دسمبر میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ ریاستیں ہیں: مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم۔ ان تمام ریاستوں میں لوک سبھا کی 83 سیٹیں ہیں۔ سیٹوں کی حیثیت دیکھیں تو کچھ اس طرح سے ہے۔ مدھیہ پردیش -29، راجستھان -25، چھتیس گڑھ -11، تلنگانہ -17 اور میزورم میں 1 لوک سبھا کی سیٹ ہے۔ ان ریاستوں میں سے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اقتدار میں ہے جبکہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور میزورم میں کانگریس کی حکومت ہے۔ اب ان ریاستوں میں اسمبلی کی کیا صورت حال ہے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں اسمبلی کی 230 سیٹیں ہیں جس پر 28 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے اور گنتی 11 دسمبر کو۔ مدھیہ پردیش میں لوک سبھا کی 29 سیٹیں ہیں جس میں 26 پر بی جے پی کا قبضہ ہے تو کانگریس کے پاس صرف 3 سیٹیں ہیں۔ کانگریس کو امید ہے کہ وہ مدھیہ پردیش میں اسمبلی اور لوک سبھا دونوں میں اچھا کرے گی۔ وجہ ہے شیوراج سنگھ چوہان کے 15 سالوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ ایک نسل وہاں تیار ہو گئی ہے جس نے دوسری پارٹی کی حکومت دیکھا ہی نہیں ہے۔ کانگریس کے کمل ناتھ کے پاس تجربہ ہے تو جیوتی رادتیہ سندھیا کی نوجوانوں میں خاصی اپیل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 2015 میں رتلام سیٹ پر لوک سبھا کے لیے ضمنی انتخاب ہوا تھا جس پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی اور بی جے پی سے یہ سیٹ چھینی تھی۔ شیوراج سنگھ چوہان کو کسانوں کا بھی غصہ جھیلنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر مندسور میں کسانوں پر ہوئی فائرنگ کے واقعہ کے بعد۔

اب بات راجستھان کی کرتے ہیں۔ راجستھان میں اسمبلی کی 200 سیٹیں ہیں۔ یہاں 7 دسمبر کو ووٹنگ ہے۔ راجستھان میں لوک سبھا کی 25 سیٹیں ہیں اور 2014 میں تمام 25 سیٹوں پر بی جے پی نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔ لیکن یہاں 2 لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں کانگریس نے بڑی جیت درج کی۔ لوک سبھا ضمنی انتخاب میں کانگریس نے الور کی سیٹ 1 لاکھ 96 ہزار ووٹوں سے جیتی اور اجمیر لوک سبھا سیٹ 84 ہزار ووٹوں سے۔ یہی نہیں، اسمبلی کی بھی تین سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں کانگریس نے جیت درج کی۔ اس لحاظ سے بی جے پی کے لیے 2014 لوک سبھا انتخابات کے اعداد و شمار کو دوبارہ ممکن نہیں لگتا ہے۔ راہل گاندھی نے کئی سال پہلے سچن پائلٹ کو راجستھان کا ریاستی صدر بنا کر بھیج دیا تھا جنہوں نے وہاں خوب اسفار کیے ہیں۔ اگر کانگریس میں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے بیج سیٹوں کی تقسیم پر کھینچا تانی نہیں ہوئی تو کانگریس یہاں بہتر کرنے کی حالت میں ہو گی۔

ابھی چھتیس گڑھ کی بھی بات کر لیں۔ یہاں اسمبلی کی 90 سیٹیں ہیں، جس میں بی جے پی کے پاس 49 سیٹیں ہیں اور کانگریس کے پاس 39 سیٹیں۔ مگر ووٹ فیصد کو دیکھیں تو بی جے پی کو 41 فیصد ووٹ ملے تھے اور کانگریس کو 40۔3 فیصد۔ یعنی ووٹوں کا فرق ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس بار یہاں اسمبلی میں سہ رخی مقابلہ ہوگا کیونکہ مایاوتی اور اجیت جوگی نے مل کر ایک نیا مورچہ بنا لیا ہے۔ اس لیے یہاں کا مقابلہ مزیدار ہو گا۔ چھتیس گڑھ میں لوک سبھا کی 11 سیٹیں ہیں جس میں 10 پر بی جے پی کا قبضہ ہے تو ایک پر کانگریس کا۔ 2019 کے لیے یہ ریاست بھی کانگریس کے لیے اہم ہو گا۔

بات کرتے ہیں تلنگانہ کی۔ یہاں اسمبلی کی 119 سیٹیں ہیں۔ یہاں 7 دسمبر کو ووٹنگ ہونی ہے۔ تلنگانہ میں اس وقت چندر شیکھر راؤ کے ٹی آر ایس کے خلاف اپوزیشن نے پوری گھیرا بندی کی ہے۔ اپوزیشن نے متحد ہوکر گٹھ بندھن بنایا ہے جسے مہاكٹامی کہا جا رہا ہے یعنی مهاگٹھ بندھن۔ اس میں کانگریس، تیلگو دیشم پارٹی، سی پی آئی اور تلنگانہ جَن سمیتی شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے 80 سیٹوں کے آس پاس کانگریس انتخابات لڑے گی، باقی ساتھیوں کو دیا جائے گا۔ اگر تلنگانہ کے لوک سبھا سیٹوں کی بات کریں تو یہاں 17 سیٹیں ہیں جس ٹی آر ایس کے پاس 11، کانگریس -2، بی جے پی -1، اے اے آئی ایم آئی ایم -1، وائی آر ایس کانگریس -1 اور ٹی ڈی پی کے پاس 1 سیٹ ہے۔ اب سب سے بڑا سوال ہے کہ جس طرح سے تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات میں تمام اپوزیشن پارٹی متحد ہوکر لڑ رہے ہیں تو کیا لوک سبھا انتخابات میں بھی یہ ساتھ لڑیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو تلنگانہ سے 2019 لوک سبھا کے اعداد و شمار چونکانے والے ہوں گے۔

اور آخر میں میگھالیہ کی بات جہاں اسمبلی کی 40 سیٹیں ہیں اور لوک سبھا کی 1 سیٹ۔ اسمبلی اور لوک سبھا دونوں پر کانگریس کا قبضہ ہے مگر جس طرح بی جے پی کا شمال مشرق کی ریاستوں پر قبضہ کرنے کی مہم چل رہی ہے، کانگریس کو کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اب لوک سبھا سیٹوں کے اعداد و شمار کو دیکھو۔ ان ساری ریاستوں کو ملا دیں تو لوک سبھا کی 83 سیٹیں بنتی ہیں۔ اس میں سے 60 بی جے پی کے پاس اور کانگریس کے پاس صرف 9 سیٹیں۔ یعنی 2019 میں کانگریس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اسے بس اپنے پتے درست طریقے سے کھیلنے ہیں کیوں کہ 11 دسمبر کو جب پانچ ریاستوں کے اسمبلی کے اعداد و شمار آئیں گے تو وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ چیزوں کا صحیح اندازہ کر سکیں۔ کانگریس کو اس وقت پتہ چلے گا کہ کون سے عوامل کام کر رہے ہیں اور کون سے نہیں۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات میں کارفرما عوامل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بڑی حد تک درست ہے مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اسمبلی کے نتائج سے لوگوں کے موڈ کا اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے کیونکہ یہ 2014 نہیں ہے، 2019 ہے اور اس کے بعد سے اب تک گنگا میں کافی پانی بہہ چکا ہے۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔