سفر نامۂ قطر

محمد حاذق

  مدرسہ ڈسکورس ایک آن لائن پروگرام ہے جو کہ پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی زیرقیادت میں ہندوستان اور پاکستان کے طلبہ کے لئے تشکیل دیا گیا ہے پروفیسر ابراہیم موسی یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم امریکہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں پروفیسر ابراہیم موسی ندوۃ سے فراغت کے بعد کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ مدرسہ ڈسکورس کا مقصد روایتی اسلامی درسیات کو معاصر سائنسی افکار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے نیز اکیسویں صدی کا عالم کیسا ہو ؟ اس دور میں امت کو ایسے عالم کی ضرورت ہے جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی مہارت رکھتا ہو۔ جس کا ہندوستانی مدارس میں بڑا فقدان رہا ہے اس کورس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ طلبہ کے ذہنوں میں وسعت پیدا کی جائے۔

 اس کورس میں ہرسال دو انٹنسیو پروگرام ہوتے ہیں جس کا مقصد ہندوستان و پاکستان اور یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم کے طلبہ ایک ساتھ رہ کر آپس میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کریں اور ایک دوسرے کی تہذیب سے ہم آہنگ ہوں۔ میرا پہلاونٹر انٹنسیو قطر میں ہونا طے پایا۔ ہم لوگ بہت زیادہ پرجوش تھے پہلا انٹنسیو ہونے کی وجہ سے وہ بھی دوسرے ممالک میں قطر کی راجدھانی دوحہ کی خوبصورتی کے بارے میں احباب سے پہلے ہی سن رکھاتھا تو اب اس خوبصورتی کو دیکھنے کے لئے ہم لوگ بے تاب تھے اللہ اللہ کرکے وہ دن آیا اور ہم لوگوں نے سفرکی تیاری مکمل کی۔ ۲۵ تا ۳۰؍ دسمبر پروگرام طے ہوا تھا۔

  ورکشاپ مذہب اور سائنس کے موضوع پر متعین تھی جس پر مختلف ممالک کے اسکالرس کا لیکچر تھا امریکہ، قطر، سری لنکا، انڈیاو پاکستان کے اسکالرس نے موضوع کے مختلف پہلوؤ ں پر روشنی ڈالی۔ جس کا مٹیریل ایک مہینہ پہلے ہی ہم لوگوں کو مل گیا تھا جس کو پڑھ کر جانا تھا۔

 دہلی سے ہم لوگ۲۴؍دسمبرکو شام ۵ بجے کے قریب اندراگاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے مدرسہ ڈسکورس کے ساتھیوں کے ساتھ پہلا سفر تھا۔ ہم لوگ بہت پرجوش تھے قطر دیکھنے کے لئے اور پاکستانی دوستوں سے بھی ملاقات کرنے کے لئے گرچہ فیکلٹی ممبر سے بھی پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا تھا۔اللہ اللہ کرکے ائیرپورٹ کا عمل دوگھنٹے میں مکمل ہوگیااور ہم لوگ فلائٹ میں بیٹھے مدرسہ ڈسکورس کے دوستوں سے ایک دوبار کی ملاقات تھی اتنی شناسائی نہ تھی کہ سیٹ تبدیل کرکے ان کے پاس بیٹھ سکتے نہ وہ اس بات کی جرأت کر پائے سو جسے جہاں سیٹ ملی وہ وہیں بیٹھ گیا اور سوتے جاگتے یہ سفر مکمل ہوا اور ہم لوگ دوحہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر قطر وقت کے حساب سے (۱۲) بجے کے قریب پہونچے رات کا وقت روشنی میں نہایا ہوا ائیرپورٹ اتنا دلکش منظر کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔ یہاں پرکچھ دیر ہم لوگ رکے اتنی دیر میں ہم لوگوں نے اپنے شوق پورے کئے مدرسہ ڈسکورس کے دوستوں کے ساتھ اس یادگار پل کو کیمروں میں قید کرلیا۔اس کے بعد بس آئی اور ہم لوگ ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے سنسان سڑک، روشنی میں نہائی بلڈنگ، پرسکون ماحول، ابھی ہم لوگ یہ سب نظارہ کرہی رہے تھے کہ ہوٹل کی بلڈنگ آگئی اور ہم لوگ ہوٹل میں داخل ہوگئے استقبالیہ پر حیدرآباد کے ہی ایک صاحب موجود تھے ساری کاروائی ہونے کے بعد انہوں نے روم نمبر۲۰۹ کا کارڈ ہمارے ہاتھ میں دے دیا اور میں اپنے روم کی طرف بڑھا تھکان بالکل حاوی تھی لیکن اس ظالم پیٹ کا کیا ہو جو سونے نہیں دے رہا تھابھلا ہو خلیق بھائی کے بڑے بھائی کا جو اتنی رات میں ہماری ضیافت کے لئے آملیٹ اور روٹی گھر سے بنواکر لے آئے ہم لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا پھر اپنے بیڈ کی طرف متوجہ ہوئے ہوٹل اتنا شاندار کی ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی آسائشوں کے ساتھ ہم لوگوں کو رہنے کا موقع دیا جائے گا۔ خیر Coordinator  صاحب کا میسیج موصول ہوچکا تھا کی ساڑھے آٹھ(۳۰:۸) بجے تک نیچے ناشتہ کے لئے سب لوگ تیار ہوکرتشریف لے آئیں اور نو(۹) بجے تک بس حماد بن خلیفہ یونیورسٹی روانہ ہوجائے گی۔ ہم لوگوں نے سونے کی تیاری کی تھکان اس قدر تھی کہ بستر پرلیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے صبح جب اٹھے تو نیند پوری طرح ہمارے ذہنوں پر حاوی تھی اور تھکان سے بدن بھی لاچار تھا۔ لیکن فریش ہوکر ہم لوگ نیچے پہنچے اور ناشتہ کیا اس کے بعد ٹھیک ۹ بجے بس روانہ ہوگئی۔

حماد بن خلیفہ یونیورسٹی پہنچے شاندار عمارت میں اسلامی آرکٹکچر کا بہت خاص خیال رکھا گیا ہے مسجد کا مینار نہ تو پرانے طرز کا ہے بلکہ جدید طرز پر اسلامی آرکٹکچر کو پرویا گیا ہے تو وہاں کے اسٹاف نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا پہلے دن کا لیکچر پروفیسر ماہان مرزا کا تھا جو کہ مدرسہ ڈسکورس کے منتظم اور استاد بھی ہیں۔ دوران لیکچر پروفیسر ماہان مرزا صاحب نے یہ کہا کہ ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم آپ کو بتائیں کہ آپ سوچیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ ’’سوچیں ‘‘ ماہان مرزا صاحب نے اس جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ قرآن کریم میں دوطرح کی آیات ہیں ایک ذکر اللہ کی دوسری آفاق وانفس میں تدبر وتفکر کی۔ آفاق وانفس کی جوآیات ہیں یہ ہمیں سائنس سے قریب تر کرتی ہیں اور سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اس پر علماء کی مختلف رائیں ہیں بعض علماء نے سائنس او ر مذہب کے درمیان تصادم کو بتایا بعض نے تقابل اور بعض نے دونوں کے درمیان ہم آہنگی پید ا کرنے کی کوشش کی۔ آپ کو بتادوں کہ ماہان مرزا کی شخصیت ایسی ہے کہ بچوں سے بچے بن کر رہنے والے مشفق اساتذہ میں شمار ہوتے تھے دوران لیکچر ہنسی مذاق کا خاص خیال رکھتے تھے اپنی بات کو اس انداز سے سامعین کے گوش گزار کرتے تھے کہ وہ سیدھے دماغ میں جا سماتی تھی۔ بیچ میں ۳۰ منٹ کا وقفہ دیا گیا چائے نوشی کے لئے لیکن مشین والی چائے پی کرتھکان نہیں جاتی اتنی تھکان میں پکی ہوئی چائے ہی کارگر ہو سکتی ہے اچھی چائے تو علی گڑھ میں ہی دستیاب تھی علی گڑھ میں پڑھنے کا یہ فائدہ ہے کہ کسی چیزکی عادت آپ کو چاہے نہ ہو لیکن چائے نوشی کی عادت آپ کو ضرورلگ جائے گی۔خیر نہ سے اچھا ہاں ہے سب نے چائے پی اور واپس کانفرنس روم میں تشریف لائے اور دوپہر تک مہان سر کا لیکچر ختم ہوااس کے بعد ہم لوگ کھانا کھانے کے لئے ہوٹل روانہ ہوئے۔نہایت شاندار ہوٹل لیکن مشرقی لوگوں کے لئے کھانا اتنا ہی بے مزہ۔ بڑاکلیجہ ہے عرب کے لوگوں کے پاس جو نمک اور مرچ کے بنا وہ شوق سے کھالیتے ہیں ہم لوگ تو ہری مرچ کے ساتھ اس کا نوالہ حلق سے اتار پاتے تھے۔ ڈشیں تو بہت تھی پہلے روز تھوڑا تھوڑا سبھی کا ذائقہ لیا لیکن دوسرے دن سے پرہیز کیا صرف انہوں چیزوں کو ہاتھ لگایا جو کھاسکتے تھے۔ ہوٹل سے واپس پھر حماد بن خلیفہ یونیورسٹی آئے جولیکچر ہوئے تھے اس سے Relatedڈسکشن ہونا تھا ہر میزپر ہندوستانی اور پاکستانی احباب کے ساتھ ایک لڑکی موجود ہوتی تھی تاکہ عورتوں کی بھی نمائندگی ہوسکے۔ ٹوٹل سات میز تھی ہر میز سے ایک لیڈر کا تعیین ہوتا جو سوال کرتا آخر میں ان سوالوں کے جواب بڑے شائستہ انداز میں جن کالیکچر ہوتا ان کے کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی۔ اس کے بعد چائے کے لئے وقفہ ہواپھر اس کے بعد دوسرے دن کے لیکچر کی تیاری شروع ہوئی اس کے بعد پہلے دن رات کاکھانے کی ضیافت حماد بن خلیفہ یونیورسٹی اپنے ذمہ لے لی۔ سفر کی تھکان سب پر حاوی تھی رات کا کھانا کھا کر ہم لوگ ہوٹل واپس آگئے تھوڑی بہت دیر تک گپ شپ کی اس کے بعد خلیق بھائی کے بڑے بھائی نے گھر سے بنی ہوئی چائے کی پیش کش کی۔پرائے شہر میں گھر کی بنی ہوئی چائے کسی جنتی نعمت سے کم نہیں وہ بھی ان لوگوں کے لئے جن کو چائے کی عادت ہے۔

  دوسرے دن سرابراہیم موسی کا لیکچر تھامٹیریل ذرا مشکل تھا کچھ سمجھ میں آیا کچھ نہیں لیکن ان کے لیکچر نے الجھنوں کی بہت ساری گرد ہٹادی جوالجھنوں کے درمیان پھنس گئی تھی۔دوپہر کا کھانا ہوٹل میں کھا کرپھر ڈسکشن گروپ میں شامل ہوگئے اس کے بعداگلے دن کے لیکچر کی تیاری میں مصروف ہوگئے اس کے بعد رات کا کھانا ہوٹل میں کھا کر واپس آگئے۔ پھروہی معمول کے مطابق صبح نوبجے تک بس پر بیٹھ گئے آج کے دن یہاں کے فیکلٹی ممبر کا لیکچر تھا آج کا دن اس لئے بھی ہمارے لئے بہت اہم تھا کیونکہ آج دوپہر بعد ہمیں میوزیم جانا تھا موڈ پہلے سے خوشگوار تھا کہ آج دوحہ کی گلیوں کی سیر کرنے کا موقع ملے گا۔اتنے دنوں میں پاکستانی احباب سے بھی ہم لوگ گھل مل گئے تھے پاکستانی احباب میں  بالخصوص عثمان جو ہمارے ہر پروگرام میں ساتھ دیتا تھا انڈیا کے احباب میں خلیق رحمانی، برادر سعد، فیصل نذیراور سلیم بھائی کوئی بھی پلان ان لوگوں کے بنا ادھورا رہتا تھا۔ سمندر کے کنارے بنا میوزیم آف اسلامک آرٹ دوحہ، قطر اپنے آپ میں مثال رکھتا ہے۔ میوزیم کی عمارت ہی بہت دل نشیں ہے میوزیم کے اندر سے سمندر کا نظارہ اتنا دلکش اور دلفریب ہے کہ انسان اپنے غموں کو وہیں چھوڑ آئے اور تروتازہ ہوکر وہاں سے دم لے۔میوزیم کے اندر ایک لائبریری، گفٹ کی دکان،نماز کے لئے ایک مختص روم، سنیماہال اور اسلامی فن کا ایک اچھامجموعہ ہے۔ اس کے بعد ہم لو گ بازار گئے جو کہ ایرانی مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے جو کہ دوحہ کا بہت مشہور بازار ہے۔ وہاں سے ہم لوگوں نے شاپنگ کی اور دوحہ کی خوبصورتی کا اندازہ کیا بازار اتنا سلیقہ سے سجایا ہوا تھا کہ دیکھ کر رشک آرہا تھا بازار کے وسط میں ایک عالیشان مسجد تھی مغرب کی نماز وہاں ادا کی اس کے بعد بس میں واپس بیٹھ کر حماد بن خلیفہ یونیورسٹی آگئے اگلے دن سر عمار خان ناصر اور سر وارث مظہر ی کا لیکچر تھایہ پہلا لیکچر اردو میں تھا وارث صاحب کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے عمار صاحب نے اکیلے ہی تیاری کا ذمہ اپنے کاندھوں پر لے لیا۔ تیاری کے عمل میں یہ ہوتا تھا کہ کل کے لیکچر میں کس موضوع پر بحث ہونے والی ہے جو مواد ہمیں دیا گیا ہے ان میں کن نکات کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ ڈسکشن میں آج اتنے سوال آئے کی عمار صاحب کے پاس وقت کی قلت پڑگئی۔ اس کے اگلے دن ڈاکٹر رانا دجانا کا لیکچر تھا ان کا لیکچر بہت اہم تھا اور انہوں نے ایک لیکچر کے ساتھ ہر گروپ کو ایک ایکٹویٹی دی تھی جو کہ ہرگروپ کو پیش کرنی تھی وہ پاور پوائنٹ کی شکل میں ہو یاڈرامے کی شکل میں ہو۔ ہرگروپ کو ۵ منٹ کو وقت دیا گیاہمارے گروپ نے قرآن ہدایت کی کتاب ہے اس پر اپنا ڈرامہ پیش کیا۔اس کے اگلے دن پھر ہمیں گروپ کی شکل میں پورے پروگرام کے بارے میں review پیش کرنا تھاگروپ کے ہر فرد نے اپنی بات گروپ کے لیڈر کی نذر کردی اور لیڈر نے اس کو اچھے الفاظ کا زیور پہنا کر تمام فرد کے سامنے پیش کیا۔ آج قطر میں ہمارا آخری دن تھا صبح ہی ہم لوگ ہوٹل سے رخصت ہوچکے تھے دل مایوس تھا کہ یہ وقت کب گذرگیا اس کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ شاہ ظفر کا شعر ہے

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

 دوپہر بعد ہمیں نیشنل قطر لائبریری جانا تھا حماد بن خلیفہ یونیورسٹی سے مشکل سے ۵ منٹ کا راستہ تھا لائبری اتنی عالیشان کہ دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ سہولیات اتنی مہیا تھی کہ پڑھنے والے کی ساری ضروریات اس بلڈنگ کے اندر پوری ہوجائے۔ عالیشان ریسٹورینٹ، دماغ کو تروتازہ کرنے کے لئے کیرم بورڈ، اگر پڑھنے والے کا ذہن پڑھتے پڑھتے تھک جائے تو کچھ دیر ذہنی سکون کے لئے سارے سامان مہیا تھے۔ گروپ ڈسکشن کے لئے الگ وسیع وعریض روم، کمپیوٹر استعمال کے لئے مختص روم، لیکن ان ساری سہولیات جن کے لئے قطر گورنمنٹ نے مہیاکر رکھی ہے ان کی تعداد البتہ پریشان کن تھی اتنی وسیع وعریض لائبریری میں چنندہ لوگ پڑھنے والے نظر آئے باقی حضرات تو Tourist place کے طورپر استعمال کرتے ہوئے نظر آئے،چھوٹے بچوں کے لئے اس میں الگ سے پورا انتظام تھا۔ ان کی دماغ کی ورزش کے ساتھ جسمانی ورزش کے سبھی آلات موجود تھے۔ جسمانی ورزش سے مراد وہ جسمانی ورزش جو دماغ کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ہم لوگ پھر حماد بن خلیفہ یونیورسٹی تشریف لائے پروگرام کے اختتام کا اعلان ہوا۔

 رات کاکھانا آج ہم لوگوں نے حماد بن خلیفہ یونیورسٹی میں ہی کھایا کھانا کھانے کے بعد سارے فیکلٹی ممبر نے اپنی رائے دی جوکچھ ان لوگوں نے سات دنوں میں محسوس کیا۔ اور تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جن لوگوں نے بھی اس پروگرام کو کامیابی کی بلندی میں اپنا کردار ادا کیا۔ پورے قطر فیکلٹی ممبران اور وہاں کے نان ٹیچنگ اسٹاف کابھی شکریہ ادا کیا گیااور ساتھ ہی طلبہ کو بھی باور کرایا یہ ساری محفلیں آپ کے لئے سجائی گئی ہیں۔ آپ کتنی دیانت داری سے کام کرتے ہیں اور اس کے لئے کتنے فکر مند ہیں اور اس پر کتنا عمل پیرا ہوتے ہیں۔

تجزیہ پروگرام

 الحمداللہ قطر کا سات روزہ پروگرام ہم لوگو ں کے لئے بہت نفع بخش رہا۔ یہاں آکر بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال ہوئے بڑی خوشی کی بات ہے ہم لوگ ایک ایسی جہت کے لئے اکٹھا ہوئے جس پر مسلم اسکالر آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم سوسائٹی بڑی مشکلات سے دوچار ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں سب سے بڑا مریض ہمارا معاشرہ ہے۔ ہمیں تجدید کے ساتھ ساتھ تقلید کی بھی ضرورت ہے دونوں میں سے کسی ایک پر شدت سے جمے رہنا ہمارے معاشرے کے لئے میٹھا زہر ہے۔

موجود ہ زمانے میں ایک شخص تمام میدان میں ماہرہو یہ بہت مشکل ہے اسپسلائزیشن کا دور ہے one man institution کا دور ختم ہوچکا ہے اور ہم ایک عالم دین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ فلسفہ، سائنس اور اسلام میں بیک وقت تینوں میدان میں ماہر ہو اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ وہ بالکل ہی بے بہرہ ہو۔ اگر ہم اپنی توقعات عالم دین سے کچھ کم کرلیں اور بذات خود کچھ کرنے کا عزم کریں تو امید ہے کہ اس کے نتائج بہت خوش آئند ہوں گے۔ ہمیں امت محمدیؐ ہونے کاشرف اگر حاصل ہے تو اس کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں۔

ان سات دنوں میں ہم لوگوں نے بہت کچھ سیکھا اس سے پہلے ہم لوگ مدرسہ میں اسلام کو صرف اسلامی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورس کی یہ خاصیت رہی ہے کہ اس نے اسلام بمقابلہ سائنس، فلسفہ ان جہتوں سے بھی سوچنے کی دعوت دی ہے۔ سات روزہ قطر کے پروگرام میں کئی بحثیں زیر غور آئیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ قرآنی متشابہات کو عصر حاضر میں کس طرح سے دیکھا جائے قرآن میں دوطرح کی آیات ہیں محکمات اور متشابہات۔ محکمات سے صرف ایک ہی معنی اور مفہوم مراد لئے جاسکتے ہیں جب کہ متشابہات سے ایک سے زائد کئی معنی پہنائے جاسکتے ہیں۔ وہ آیات جو سائنسی نظریہ سے ٹکراتی ہیں تو اس میں ہمارے لئے کیا گنجائش نکل سکتی ہے یاپھر وہ مسائل جو دورحاضر میں اسلام کے لئے چیلنجز بنتے چلے جارہے ہیں چاہے وہ عائلی قوانین کا مسئلہ، بینک کا مسئلہ، طلاق کا مسئلہ، وغیرہ۔ ان مسئلوں کو ہم موجودہ زمانے میں کیسے حل کرسکتے ہیں جب کہ دوسری طرف سائنس ہے جو کہ ہرچیز کو تجربہ کی بنیاد پر پرکھتی ہے۔

 دورحاضر کے علماء کا شدت سے نکل کر ان امور پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے جس سے مسلم معاشرہ دن بدن کھوکھلا ہوتا چلا جارہاہے ہم اس بات کو شروع سے سنتے چلے آئے ہیں قرآن ایک مکمل ہدایت کی کتاب ہے اور ہمارااس بات پر مکمل یقین بھی ہے لیکن یہ بات جب ہم دوسروں تک پہنچائیں گے تو موجودہ ذہن ہر چیز کو تجربہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انسان کو وہی چیز اپنی طرف مائل کرتی ہے جس کے بارے میں ذہنوں میں شکوک کم ہوں موجودہ اسلامی تعلیمات کو اتنا مشکل بنا کر پیش کیا جارہا ہے اسلام کے ماننے والے ہی اس کا دفاع نہیں کرپارہے ہیں۔ ان سب سے پرے اٹھ کر ہمیں قرآن کریم سے رہنمائی کا راستہ نکالنا ہے جو کہ اجتہاد کے ذریعہ ہی اس کو عمل میں لایا جاسکتا ہے قرآن کریم کی یہ خاصیت ہے کہ آپ جس پہلو سے بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں اس میں آپ کورہنمائی مل جائے گی۔ہمیں یہ مانناہوگا کہ قرآن کی اپنی ایک الگ سائنس ہے جس کے سمجھنے کے لئے ہمیں اس میں اترنا پڑے گا اور اس کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو پچھلے اور آنے والے کو اس کے اندر پوشیدہ سائنس کو سمجھنا ہوگا اور ایک نتیجہ پر پہنچنا ہوگا کہ کونسی جہت اللہ کی طرف لے جارہی ہے اور کون اللہ سے دور کررہی ہے۔

عصر حاضر میں ہمیں اپنے افکار کو وسعت دینا ہوگا اور موجودہ مسائل جو اسلامی معاشرے میں بے چینی کا سبب بنے ہوئے ہیں ان سے نبردآزما ہونے کے لئے کوئی تدبیر بھی کرنی پڑے گی مدراس نے ابھی اس طرف خاص توجہ نہیں دی ہے لیکن مدرسہ ڈسکورس کے پلیٹ فارم سے اس کی شروعات ہوچکی ہے جس کا تجربہ ہمیں قطر کے سات روزہ پروگرام میں ہوا۔ اسلام کی اصل روح جو کہ منجمد ہوچکی ہے اس کو بھی حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ برصغیر کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صرف اجتھاد سے کام نہیں چل سکتا بلکہ اجتھاد بغیر تقلید کے ناممکن ہے۔

 ہمار اسائنس اور فلسفہ سے کوئی تضاد نہیں ہے لیکن دانشوروں کا یہ کہنا کہ ان کو پڑھنے کے بعد جو چیزیں صحیح ہیں وہ لے لی جائیں اور جو بات صحیح نہ لگے اسے چھوڑ دیا جائے تو یہاں ایک سوال اورپیدا ہوتا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کون کرے گااور کون سا پیرامیٹر بنایا جائے گا جو اس کی صحت کو جانچے گا ایک شخص دوسرے perspective سے مطالعہ کرتا ہے تو دوسرا کسی دوسری عینک سے۔ وحی اور سائنس میں جب بھی کوئی تضاد ہوگا تو حتمی بات ہے کہ وحی کو مقدم رکھیں گے اور سائنس کو چھوڑ دیں گے۔

 ذاتی طورپر اس پروگرام سے جوفائدہ ہوا وہ یہ کہ جن اشکال پر دماغ اکیلے پریشان ہوتا تھا اس کے لئے مدرسہ ڈسکورس نے ایک پلیٹ فارم فراہم کردیا جہاں ہم لوگ ایک دوسرے سے کسی بھی موضوع پر تبادلۂ خیال کرسکتے تھے بحث ومباحثہ کے لئے بالکل آزادانہ ماحول اور جوبات ذہن میں نہ سما سکے ان کی تردید بھی اپنے الفاظ میں کرسکتے تھے۔ اس پروگرام کے ذریعہ تھوڑی بہت دنیا دیکھنے کا موقع ملا ہم لوگ آج تک اسلام کو کس نظریہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور جو غیر مسلم حضرات ہیں وہ اسلام کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ کتابی باتوں سے پرے ہٹ کر جب انسان میدان میں اترتا ہے تو چیزوں کو جلدی اخذ کرتا ہے جو دماغ میں سما جاتی ہے۔یہ پروگرام میرے لئے کئی لحاظ سے بہت نفع بخش رہا بہت ساری نئی چیزیں دیکھنے کو ملی اور نئے لوگوں سے intractionکرنے کا موقع ملا ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات ہوئے جو کہ مدرسہ ڈسکورس کے پلیٹ فارم نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا۔ آخر میں مدرسہ ڈسکورس کے تمام فیکلٹی ممبران کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اتنے بہترین انداز سے پروگرام کو سیٹ کیا اور ایسی بحثوں کا تعین کیا جو کہ اسلامی سوسائٹی کے لئے آگے خیرخواہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ پروگرام کے managementمیں کہیں سے بھی کمی نکالنا چاہیں تو بہت مشکل ہے وقت کی پابندی ہر چیز کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے مدرسہ ڈسکورس نے اس پر عملی نمونہ سات روزہ پروگرام میں پیش کی۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اور آپ کو صراط مستقیم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے، اور وقت کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔