سماجی جوڑ توڑ کی نفی اور سیاست میں اس کی خوگری کیا رنگ دکھائے گی؟
عمیر کوٹی ندوی
ہمارے ملک میں ‘سماجی جوڑ توڑ’ کتنی اہمیت رکھتا ہے اور حکومتوں کے بننے اور بگڑنے میں اس کا کتنا اہم رول ہوتا ہے یہ ملک کا ہر شہری جانتا ہے۔ ملک کی سیاست نے اپنے آغاز سے اسی پر اپنی بنیاد رکھی ہے۔ خاص طور پر 2014ء کے پارلیمانی انتخابات اور اس کے بعد سے اب تک کے تمام اسمبلی انتخابات میں ایک پارٹی کی کامیابی اور دوسروں کی ناکامی اور ایک نظریۂ مخصوص کے زور آور ہونے اور دیگر نظریات کے خلاف مہم جوئی میں ‘سماجی جوڑ توڑ’ نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سب حال کی باتیں ہیں اس وجہ سے اس وقت ملک کے عوام کی نظروں کے سامنے ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں حکمراں جماعت پر اس طرز سیاست کا الزام گراں گزرنے لگا ہے اس لئے وہ ‘سماجی جوڑ توڑ’ کے وجود کا ہی سرے سے نفی کررہی ہے۔لکھنؤ کے اندرا گاندھی پرتشٹھان، وبھوتی کھنڈ، گومتی نگر میں 21-22؍فروری 2018 کومنعقدہ دوروزہ ‘اترپردیش انویسٹرس سمٹ-2018’ کے اختتامی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیر مالیات ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ "اگر سیاسی ایجنڈا یہ ہو کہ صرف سیاسی جوڑ توڑ سے سماج اور ریاست کو چلایا جانا چاہئے تو سرمایہ کاری کا یہ چکرکبھی شروع نہیں ہوسکتا” انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اگر پہلے کی طرح ریاستیں سماجی جوڑ توڑ سے چلتی ہیں تو یوپی میں ترقی اور سرمایہ کاری کا دور کبھی شروع نہیں ہوسکتا تھا”۔
اس سمٹ میں سرمایہ کاری اور تعمیر وترقی کی جو باتیں ہوئی ہیں ،جس جوش وخروش کا مظاہرہ کیا گیا ہےاور ملک کے بڑے سرمایہ داروں کی اس میں شرکت اور دلچسپی کے اظہار کی باتیں کی جارہی ہیں اگر یہ زمینی سطح پر حقیقت کا روپ اختیار کرلیں تو کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن چونکہ ملک کے عوام ماضی کی این ڈی اے کی حکومت کے دوران اور 2014میں پالیمانی انتخابات کے وقت اور اس کے بعد سے اب تک تسلسل کےساتھ بڑی بڑی باتیں، وعدے اور بیانات دیکھ اور سن رہے ہیں اس لئے شائد ہی انہیں اس بار یقین آئے۔ جہاں تک بات ملک کی سیاست میں’سماجی جوڑ توڑ’ کی نفی کی ہے وہ اس لئے بھی قابل تسلیم نہیں ہوسکتی کہ حکمراں طبقہ کی سرپرست تنظیم آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نےحال ہی میں اپنے ایک بیان میں ‘ سماجی جوڑ توڑ’ کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ جنوری کے آخر میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ”سیاستدانوں کو ذات پات کی سیاست کا سہارا لینے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ بھارت میں ذات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں……معاشرے میں اخلاقی طرز عمل کی جتنی عادت ہے وہ سیاست میں دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر میں ذات پات کی سیاست کرنا نہیں چاہتا، یہ میں سوچ کرنکلتا ہوں، لیکن سماج تو ذات پات پر ووٹ دیتا ہے، لہذامجھے کرنا ہی پڑتا ہے۔ مجھے وہاں ٹکنا ہے تب ہی میں تبدیلی لاؤں گا۔معاشرتی تبدیلی سےسیاسی نظام میں تبدیلی آتی ہے، اس کے برعکس نہیں ہوتا ہے”۔
یہاں پر ‘سماجی جوڑ توڑ’ پر مبنی سیاست کو تسلیم تو کیا گیا ہے لیکن اہل سیاست کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کی یہ کہہ کر کے کوشش بھی کی گئی ہے کہ معاشرتی خرابی سے سیاست میں خرابی درآئی ہے۔ حالانکہ ملک کے اہل علم ہی نہیں عوام بھی جانتے ہیں کہ اس ملک کے خمیر میں توڑ نہیں جوڑ کی صفت شامل ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ یہاں باہمی اخوت، انسانیت، بھائی چارہ کو اہمیت دی جاتی تھی اور آج بھی یہ زندہ ہے مری نہیں ہے۔ لیکن انگریزوں نے جوڑ کی صفت کو توڑ کی صفت سے بدلنے کی کوشش کی تھی، اس کے لئے توڑ پر مبنی سیاست کا سہارا لیا تھا اور اسے فرغ دیا تھا۔بعد میں اہل سیاست اسی نقش قدم پر آگے بڑھنے لگے اور آج پورے معاشرے کو توڑ اور نفرت کے زہر سے آلودہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ چند سطحی مفادات کے حصول کے لئے توڑ اور نفرت کو جس طرح سے معاشرے میں پیوست کرنےکی کوشش کی جارہی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ سرراہ مارے جارہے ہیں، جلائے جارہے ہیں ، لوٹے جارہے ہیں۔ ایک خاتون سرپنچ کو سب کے سامنے ذات پات کی بنیاد پر ترنگا جھنڈاپھیرانے سے روک دیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر آئے دن خواتین کو بے عزت اور سر راہ برہنہ کردیا جاتا ہے۔ جینے کے حقوق اور کمانے کے مواقع سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تصویر بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔
بیس این جی اوز کے انٹر نیشنل کنفڈریشن آکسفیم(Oxfam) نے ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ملک کی دولت کا بیشتر حصہ ‘جوڑتوڑ’ والے سرمایہ داروں اور ارب پتیوں کی جھولی میں چلا جاتا ہے۔ ذات پات نچلے طبقہ تک ہی تعلق نہیں رکھتی تعلیم یافتہ طبقہ کا بھی ذہن اس زہر سے آلودہ ہے۔ دہلی حکومت کے چیف سکریٹری انشو پرکاش پر عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے اجئے دت نے الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعلی کے گھر پر میٹنگ کے دوران ذات پات کی بنیاد پر طنز کسا تھا۔ اس کی انہوں نےپولس میں شکایت بھی کی تھی۔ اس کے بعد چیف سکریٹری کے ساتھ مذکورہ ایم ایل اے سمیت دیگر کی مارپیٹ کی بات سامنے آئی ہے۔ ذات پات، رنگ ونسل اور علاقائیت و مذہب کے نام پر پیدا کردہ جوڑ توڑ اورنفرت وتفریق ملک ہی کیا بیرون ملک ، قومی اور عالمی سطح پر انسانیت کو اپنا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کے بے شمار واقعات ہیں۔خبر ہے کہ ہمارے ملک کے ایک سکھ نوجوان رونیت سنگھ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ کے سامنے ‘نفرت’ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لیکن خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ جوڑ توڑ اورنفرت وتفریق کے خلاف ملک اور بیرون ملک میں آوازیں بلند ہورہی ہیں، زور پکڑ رہی ہیں ، آوازوں سے آوازیں مل رہی ہیں اور مستقبل میں بہتر اور مثبت تبدیلی اور امن وانسانیت کے فروغ کی نوید سنا رہی ہیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔