میاں نواز شریف کا یہ انجام

ممتاز میر

۲۲ فروری کے اخبارات مین یہ مسرت انگیز خبر پڑھنے کو ملی کہ ۲۸ جولائی ۲۰۱۷ کو جس عدالت کی ۴ رکنی بنچ نے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لئے تا حیات نا اہل قرار دیا تھا اب اسی عدالت کی چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے اپنی پارٹی کی صدارت کے لئے بھی تا حیات نا اہل قرار دے دیا ہے اور جولائی سے اب تک کے ان کے تمام فیصلوں کو بھی رد کر دیا ہے۔یعنی اب آئندہ پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف کا شایدکوئی رول نہیں ہوگا۔اس کے لئے محترم منصفین نے پاکستانی دستور کی دفعہ ۶۲۔اور ۶۳ کا حوالہ دیا ہے۔ اب تک ان دفعات کا شور تو بہت سننے کو ملا تھا کام پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے اور وہ بھی پاکستان کے کسی وزیر اعظم کے خلاف۔

میاں نواز شریف ۸۰ کی دہائی میں پاکستان کی سیاست میں وہاں کے ایک ڈکٹیٹر کے ذریعے’’پھینکے‘‘ گئے تھے وگرنہ وہ ایک تاجر تھے۔ ۳ بار پاکستان کے وزیر اعظم رہنے کے باوجود بعض حلقے انھیں کامیاب سیاستداں نہیں مانتے۔بہت ممکن ہے سیاست ان کا مطمح نظر بھی نہ ہو۔کیونکہ سیاست میں آنے کے بعد ان کی تجارت نے دن دونی رات چوگنی سے بھی زیادہ رفتار سے ترقی کی ہے۔پہلے ان کی تجارت برصغیر تک ہی محدود تھی۔ اب وہ ملٹی نیشنل تاجر ہیں۔اور بات یہیں تک رہتی تو غنیمت ہوتی۔پانامہ پیپرس نے بتایا کے ان کے خاندان کا ہر فرد پاکستان کے باہر کئی کئی Undeclared کمپنیوں کا مالک ہے۔پانامہ پیپرس نے صرف نواز شریف کی نہیں کئی دیگر سربراہان مملکت کی بھی لٹیا ڈبوئی ہے۔مگر جذباتی استحصال صرف مسلمانوں کا خاصہ ہے۔ سومیاں نواز شریف اور ان کا خاندان یہی کر رہا ہے۔ بے شرمی اور بے غیرتی میں بھی مسلمان نمبر ون ہیں۔ورنہ بہت سے دیگر سربراہان مملکت چپ چاپ اپنے عہدے چھوڑ گئے ہیں۔اسلام تو ہر قسم کی پرستش ختم کرنے کے لئے آیا تھا مگر جتنی بت پرستی اور شخصیت پرستی اب مسلمانوں میں ہے شاید ہی کہیں اور ملے۔

ڈکٹیٹر نے میاں صاحب کو براہ راست پنجاب کا وزیر خزانہ بنادیا تھا۔پھر وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ ۔اور پھر وہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ ایک بار بھی اپنی ٹرم پوری نہ کرپائے۔یہ بات بذات خود اس چیز کی دلیل ہے کہ وہ ایک  کم عقل سیاستداں ہیں۔اگر کچھ دیر کے لئے اسے ان کی قربانیاں فرض کر لی جائیں تو ہم جیسے لوگوں کو یہ حسرت ہی رہی کہ کاش وہ یہ  قربانیاں دین کی خاطردیتے۔ ۱۹۹۰ میں پہلی بار انھوں نے اسلام پسندوں کی گود میں بیٹھ کر قومی انتخابات جیتا۔اور پھر انھوں نے سب سے پہلے اسلام پسندوں کے سرخیل قاضی حسین احمد مرحوم کو دھوکا دیا۔ پھر بھی وہ صرف تین سال حکومت کر پائے۔ انھیں انھی کے بنائے صدر نے باہر کا راستہ دکھایا۔دوسری بار وہ ۱۹۹۷ مین وزیر اعظم بنے۔مگر پھر دوسال بعد انہی کے بنائے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف گھر بٹھادیا بلکہ جلا وطن ہی کر دیا۔۲۰۱۳ میں انھوں نے پھر انتخاب جیتا مگر اس بار چیف جسٹس نے ان کی چھٹی کردی۔شاید یہ سپریم کورٹ پر حملے کا بدلہ ہے(یہ میاں صاحب کہہ سکتے ہیں)میاں صاحب ایک بارچیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔مگر اس وقت فوج ان کے ساتھ تھی اس لئے بچ گئے تھے۔پاکستان ایسا ہی عجیب و غریب ملک ہے  وہاں کب کیا ہو جائے کہا نہیں جا سکتا۔کبھی پاکستان کی عدالتین سول حکمرانوں کے سامنے بھی نظر یہء ضرورت ایجاد کر لیتی ہیں اور کبھی چیف جسٹس فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

ہم دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بر صغیر کے ان دو ممالک میں صرف دفاع ہی کے میدان مین دوڑ نہیں رہتی بلکہ کرپشن میں بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے نہلے پہ دہلا مارتے رہتے ہیں۔جب یہاں وطن عزیز میں نرسمہا راؤ کے ایک کروڑ کے سوٹ کیس کا معاملہ اچھلا تھا تب سرحد پار سے بیگم بے نظیر بھٹو اور آصف علی زردداری کے لندن میں سرے محل خریدنے کی خبر آئی تھی۔ پھر برسوں پہلے ایک خبر یہ بھی آئی تھی

کہ میاں نواز شریف لاہور کے پاس اپنی جاگیر رائے ونڈ میں سرکاری خرچ پرجنت ارضی تعمیر کر رہے ہیںیہ سب ہندوستان کے نہلے پر پاکستان کے دہلے کی خبریں تھیں۔مگرپھر ہمارے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کو شرم آئی۔اور انھوں نے ۲لاکھ ۷۶ ہزار کے ٹو جی گھپلے کا اعلان کردیا۔ شاید یہ بھی کہا ہو کہ اب دو اس کا جواب۔بہرحال برصغیر کے بدعنوانیوں کے میدان میں سناٹا چھا گیا۔ پھر اس کے بعد اس میدان میں وطن عزیز لیڈ کرنے لگا۔ھزاراں ھزار کروڑ سے کم گھٹالے پھر یہاں ہوئے نہیں۔خود سرکاری عملہ ان گھٹالوں میں مدد کرنے لگا۔

بھئی سوال قومی افتخار کا جو تھا۔پاکستان کسی میدان میں ہم سے آگے نکل جائے، بڑی شرم کی بات ہے۔مگر میاں نواز شریف کو شرم ’’چڑھ‘‘ہی گئی۔مگر ان کے گھٹالے کا پتہ ملک کے اندر سے عیاں کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔یہ باہر کے پانامہ پیپرس کا کارنامہ ہے۔ہم برسوں سے ان کے اس طرح کے انجام کے منتظر تھے۔۔۔کیوں؟

سورہء بقرہ کی آیت ۲۷۵ سے ۲۸۰ تک سود کی برائیوں کا قباحتوں کا ذکر ہے ہم یہاں صرف دو آیتوں کا ترجمہ دے رہے ہیں۔آیت نمبر۲۷۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو نما دیتا ہے۔ اللہ کسی نا شکرے بد عمل انسان کو پسند نہین کرتا‘‘آیت نمبر۲۷۹ کا ترجمہ ہےَ’’اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤکہ اللہ اور اس کے رسول ؐکی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔اب بھی توبہ کرلو(اور سود چھوڑ دو)تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ان تمام آیات کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میاں نواز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ مملکت کی حیثیت سے سودی معیشت کے خاتمے کے لئے اپنی جان لڑا دیتے مگر انھوں نے کیا یہ کہ جب جب سودی معیشت کے خاتمے کی کوشش کی گئی انھوں نے اس کی مدافعت میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں۔

اور یوں خدا اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی ہمارے ہی درمیان سے چاپلوس اور چمچے قسم کے دانشور مل جاتے ہیں جو انھیں اپنی غلطیوں کا احساہونے دیتے۔ سب سے پہلے ۱۹۹۱ میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے حکومت کو اسے ختم کرنے کے لئے مناسب اقداماتاٹھانے کی ہدایت کی تھی۔ مگر وزیر اعظم میاں نواز شریف وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل میں چلے گئے۔

سپریم کورٹ نے ۱۹۹۹اس اپیل کے خلاف ہی فیصلہ دیا اور حکومت کو پابند کیا کہ وہ ۲۰۰۱ تک سودی معیشت ختم کرکے غیر سودی معیشت  کو قائم کرے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ’’اسلام پسند ‘‘وزیر اعظم نے ہر ہر بار اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کیا ظاہر ہے اب جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ہمیں خوشی ہوگی ہی۔ کیونکہ ہم اسے قدرت کی مار سمجھتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔