سپریم کورٹ میں ‘تین طلاق’ کی بحث پر ٹائمز آف انڈیا کا تبصرہ!

عبدالعزیز

 میڈیا کا اکثر یتی حصہ مودی بھگت ہوچکا ہے جس کی وجہ سے میڈیا کے اندر حق و صداقت میں کمی آتی جارہی ہے اور جمہوریت کا یہ چوتھا ستون جو حکومت کو بے راہ روی پر قدغن لگاتا تھا اور اس کی اصلاح کرتا تھا ، صحیح صلاح و مشورہ دیتا تھا اب خوشامدی اور درباری ہونے پر اتراتا ہے   ؎

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اترتا

 اترانا اور خوشامدی ہونے میں کوپریٹو ہائوسز کا بڑاہاتھ ہے کیونکہ میڈیا کو بڑے بزنس مین اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ سرکار کو اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں اور تجارت میں ہر قسم کی دھاندلی اور بے ایمانی کو روا رکھ سکیں ۔ آج کل بڑے تاجروں کے اخبارات اور نیوز چینلس یہی کام انجام دے رہے ہیں ۔ بعض چینلوں نے ابھی سر نہیں جھکایا جس کی وجہ سے صحافت ، صداقت اور شرافت کا چراغ سیاست کی تیز اور تند آندھیوں میں بھی جل رہا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا گروپ میڈیا ہائوسز میں شاید سب سے بڑا گروپ ہے مگر اس کی صحافت آزادروی کو سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کرتی ہے خواہ وہ آزاد روی گمراہی اور بے راہ روی پر ہی کیوں نہ مبنی ہوان کے اخبارات اور چینل مودی اور ان کے کاموں پر یقینا نکتہ چینی کرتا ہے مگر مودی پرستوں کواکثر و بیشتر بڑھاوا بھی دیتا ہے کبھی کبھی مودی کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتا ہے مثلاً ذبیحہ گائو پر پابندی ، گئو رکھشکوں کی بدمعاشی اور یوگی جیسے شخص کی تاجپوشی کو ٹائمز آ ف انڈیا نے ہدف ملامت بنایا ۔ مذکورہ اخبار نے ’’تین طلاق‘‘ کے خاتمہ پر بہت زور دیا اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملایا مگر آج (19مئی 2017) کے اداریہ میں سپریم کورٹ میں ’’تین طلاق‘‘ پر جاری بحث پر جو تبصرہ کیا ہے اس میں توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے ۔

 اخبار نے اٹرنی جنرل موکل روہتگی کے ا س بیان پر کہ حکومت مسلم خواتین کیلئے نکاح و طلاق کے قانون کو بنانے کیلئے تیار ہے اگر سپریم کورٹ طلاق کے تمام طریقوں کو کالعدم قرار دیدے پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ بورڈ کے وکیل کپل سبل کی یہ بات صحیح ہے کہ بی جے پی حکومتوں نے ذبیحہ گائے پر مکمل پابندی لگا کر دوسرے فرقوں کے جذبات کو سراسر مجروح کیا ہے اور امتیاز ، تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے ۔

 اخبار نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ہندستان میں مذہبی عقیدے اور جذبات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اخبار مذکور نے سپریم کورٹ کو بھی طلاق کے سلسلے میں عدل و انصاف اور توازن برتنے پر زور دیا ہے اور حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر مسلمانوں کے معاملے میں اگر کوئی قدم اٹھاتی ہے تو فائدہ کی جگہ نقصان ہوسکتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ مسلمانوں کے اندر جو طلاق پر بہتر طریقے سے عمل آوری ہے وہ مسلم فرقہ کے صلاح و مشورہ سے نافذالعمل بنانے کی کوشش کرے نہ کہ اپنا کوئی قانون مرتب کرکے مسلم فرقہ پر مسلط کرے۔ حکومت کیلئے بہتر اپروچ (Ideal approach) مسلمانوں کے اندر سے تلاش کرنا چاہئے۔ اہل حدیث اور جعفریہ فرقہ میں آج بھی یہ عمل موجود ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا ہے اور میاں بیوی کو رجوع کرنے کا موقع ہوتا ہے وہ اپنے ٹوٹے رشتے کو جوڑ سکتے ہیں ۔ اخبار نے وسعت نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں فرقے کا طریقہ طلاق دستوری اصولوں سے ہم آہنگ ہے اور عورتوں کی حقوق مساوات پر حرف نہیں آتا۔

 حنفی علماء میں سے ایسے لوگوں کی مثال موجود ہے جب کوئی مرد تین طلاق دے کر پریشان حال ہوتا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ فقہ جنفی میں منصوبہ بند حلالہ کے حرام طریقہ کے سوا نہیں ہوتا تو وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اہل حدیث مفتی سے فتوا لے کر ایک دوسرے سے رجوع کرلو ۔ ہندو پاک میں ایسے صحیح مشوروں سے ہزاروں جوڑوں کے خاندان تباہی و بربادی سے بچ گئے ۔ اگر بورڈ کے حنفی علماء اپنی پالیسی میں لچک پیدا کرلئے ہوتے تو شاید تین طلاق کی خرابیوں کا چرچا سرِ بازار نہیں ہوتا۔ اہل حدیث خاندانوں اور حنفی مسلک کے خاندانوں میں شادی بیاہ بھی آپس میں ہوتے ہیں کچھ لوگ مسلک پرستی میں کٹر ہیں ان کی بات جدا ہے ۔

 اسلامی قوانین کے ماہر ڈاکٹر طاہر محمود نے لکھا ہے کہ آج کے حالات میں اہل حدیث اور فرقہ جعفریہ کا طریقہ طلاق بہتر ہے اور جعفریہ فرقہ کا طلاق پر جو عمل ہے اور بھی بہتر ہے ۔ اس میں طلاق اور جوع کیلئے دو گواہوں کی بھی گواہی درکار ہوتی ہے میرے خیال سے طلاق کو جسقدر قرآن و سنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے مشکل عمل بنایا جائے وہ قرآن و سنت کی بہتر پیروی ہے اور طلاق کو جس قدر آسان بنانے کی کوشش کی جائے وہ قرآن و سنت سے دوری ہوگی پیروی نہیں ۔ ’’نکاح کو آسان بنائو طلاق کو مشکل‘‘ (حدیث )سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ طلاق کے قواعد اور ضابطہ پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں فرماتا ہے:

 پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) خاتمہ پر پہنچیں تو انہیں بھلے طریقے سے اپنے نکاح میں روکے رکھو یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہوجاؤ ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں ۔ اور (اے گواہ بننے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کیلئے ادا کرو‘‘ (آیت ۔ 2) عصر حاضر کے معروف اور مشہور عالم دین مولانا سید ابواعلیٰ مودودی نے سورہ طلاق کی آیت 2 پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔

 ـ’’ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد طلاق پر بھی گواہ بنانا ہے اوررجوع پر بھی (ابن جریر )۔ حضرت عمران بن حصین سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس سے رجوع کرلیا، مگر نہ طلاق پر کسی کو گواہ بنایا نہ رجوع پر ۔ انہوں نے جواب دیا’’تم نے طلاق بھی سنت کے خلاف دی اور رجوع بھی سنت کے خلاف کیا۔ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ بنائو اور آئندہ ایسا نہ کرنا ‘‘ (ابو دائود ابن ماجہ) لیکن فقہاء اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ طلاق اور رجعت اور فرقت پر گواہ بنانا ، ان افعال کی صحت کیلئے کیلئے شرط نہیں ہے کہ اگر گواہ نہ بنایا جائے تو نہ طلاق واقع ہو ، نہ رجوع صحیح ہو اور نہ فُرقت ، بلکہ یہ حکم اس احتیاط  گیا ہے کہ فریقین میں میں سے کوئی بعد میں کسی واقعہ کا انکار نہ کرسکے ، اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہوسکے اور شکوک و شبہات کا دوازہ بھی بند ہوجائے ۔ یہ حکم بالکل ایسا ہی ہے جیسے فرمایا  واشہدو اذا تبا یعتم’’جب تم آپس میں بیع کا کوئی معاملہ کرو تو گواہ بنالو‘‘ ( البقرہ ۔282) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیع پر گواہ بنانا فرض ہے اور اگر گواہ نہ بنایا جائے تو بیع صحیح نہ ہوگی ، بلکہ یہ ایک حکیمانہ ہدایت ہے جو نزاعات کا سدّ بات کرنے کیلئے دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنے ہی میں بہتری ہے ۔ اسی طرح طلاق اور رجوع کے معاملہ مین بھی صحیح بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر فعل گواہیوں کے بغیر بھی قانوناً درست ہوجاتا ہے ۔ لیکن احتیاط کا تعاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی کیا جائے ،ا سی وقت یا اس کے بعد دو صاحب عدل آدمیوں کو اس پر گواہ بنالیا جائے۔ ‘‘

 آج کے حالات میں بیع کے معاملے میں دو گواہ بنا لینا بہت ضروری ہے آج یہ چیز عام ہے کہ گواہ بنالیا جاتا ہے ۔ جہاں تک طلاق اور جوع کے معاملے میں بھی انتہائی ضروری ہے کہ گواہ بنالیا جائے ۔ فقہ جعفریہ میں یہ Provioinہے جس کی وجہ سے شیعہ حضرات اس پر عمل کرتے ہیں مولانا مودودی ؒ نے حضرت ابن عباسؓ کا قول طلاق اور رجوع کے سلسلے میں جو پیش کیا ہے وہ انتہائی وزنی ہے آج کے حالات میں اسے نظر انداز کرنا یا ہلکا سمجھنا صحیح نہیں ہوگا۔  آج جو لوگ قانون بنانے پر تلے ہوئے ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ اسپیشل میرج ایکٹk Act special marriage کا قانون پارلیمنت کی طرف سے بنا ہے اسے ہندو یا مسلمانوں میں سے ایک فیصدلوگ ماننے یا عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جو لوگ اپنے ماں باپ کے ناراضگی کے خلاف شادی کرتے ہیں بس وہی اس پر عمل کرتے ہیں مگر وہ بھی اپنے عقیدے کے مطابق جب تک رسوم یا طریقے پر عمل نہیں کرلیتے سماج انہیں شادی شدہ جوڑا تسلیم نہیں کرتا ۔ حکومت یا سپریم کورٹ اسلام کے عائلی قانون کو نظر انداز کرکے اگر کوئی قانون واضح کرنے کی کوشش کرے گا تو مسلمان اسے ہرگز تسلیم نہیں کرے گا ۔اس کا حشر بھی اسپیشل میرج ایکٹ special marriage Act جیسا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔