سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اور اسلامی تعلیمات
ریاض فردوسی
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو! (بڑی ہی اوندھی عقل کے) بلکہ حد سے گذر جانے والے لوگ ہو۔ (سورہ۔ الاعراف۔ آیت۔ 81۔ 80)
یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آج کل شرق اردن (Trans Jordan) کہا جاتا ہے اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام’’سدوم‘‘ بتایا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہو چکا ہے۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ سدوم کے علاوہ ان کے چار بڑے بڑے شہر اور بھی تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمال کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہو نے لگتی تھی۔ مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل ناپید ہوچکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کس مقام پر واقع تھیں۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگار باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحِر لوط کہا جاتا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی امت جن بستیوں میں رہتی تھی وہ بڑی شاداب اور سرسبز بسیتاں تھیں غیر بستیوں کے لوگ شادابی کے سبب سے قوم لوط کی بستیوں میں اکثر آجایا کرتے تھے جس کی وجہ سے قوم لوط کو طرح طرح کی تکلیف ہوتی تھی شیطان نے قوم لوط کو بہکایا کہ غیر بستیوں کے لوگ جو آویں ان کے ساتھ جتنے نو عمر لڑکے ہوں ان لڑکوں سے بدفعلی کی جاوے تو غیر لوگ تمہاری بستیوں میں ہر گر نہ آویں شیطان کے بہکانے سے اور خوب صورت لڑکا بن کر ان کو ورغلانے سے انہوں نے ویساہی کیا اور پھر ان میں وہ عادت جم گئی۔ یہ قابل نفرت فعل جس کی بدولت اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی ہے، اس کے ارتکاب سے تو بدکردار انسان کبھی باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھانے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں زبردست پروپیگنڈا کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون ساز نے اسے باقاعدہ جائز ٹھیرا دیا۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مباشرتِ ہم جنس قطعی طور پر وضع فطرت کیخلاف ہے۔ مردوزن کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی و محرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی۔ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیاہے۔ (تفہیم القرآن)
تو دن نکلتے انھیں چنگھاڑ نے آلیا۔ بالآخر ہم نے اس شہر کو اوپر تلے کر دیا اور ان لوگوں پر کنکر والے پتھر برسائے۔ (سورہ۔ الحجر۔ آیت۔ 73۔ 74)
جب اللہ نے قوم لوط کا ارادہ کیاتو ان کے گھر میں اللہ کے فرشتے مہمان بن کر آئے۔ ظالم قوم کو خبر ہوء۔ انہوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کو پرشان کردیا، لیکن اللہ کے حکم سے فرشتوں نے کہا کہ آپ اپنے گھر والوں اور مومنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل جائے۔ حضرت جبریل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ باری ہو ئی کہ قوم لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں۔ عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام واعلہ تھا جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور یہ کہا کہ ہائے رے میری قومیہ کہہ کر کھڑی ہو گئی پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی۔ ان ظالموں کی بستیاں اوپر کو اٹھیں اور آسمان کے قریب پہنچ گئیں اور وہاں سے الٹ دی گئیں اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہو گیا ساتھ ہی ان پر آسمان سے پتھر برسے ایسے جیسے پکی مٹی کے کنکر آلود پتھر ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر)
جو بھی بصیرت و بصارت سے کام لے، دیکھے، سنے، سوچے، سمجھے اس کے لئے ان بستیوں کی بربادی میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ ایسے پاکباز لوگ ذرا ذرا سی چیزوں سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کر تے ہیں پند پکڑتے ہیں اور غور سے ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور لم تک پہنچ جاتے ہیں۔ تامل اور غور و خوض کر کے اپنی حالت سنوار لیتے ہیں۔
سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے۔ (سورہ۔ الاعراف۔ آیت۔ 83)
ایک روایت میں آیا ہے کہ تمام اغلام بازوں کے نام کا پتھر آیا تھا۔ جن پر ان کا نام درج تھا۔
آئی ایل جی اے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہم جنس پرستی کو 1968میں قانونی قرار دیا گیا جبکہ یونان میں 1951، امریکہ 2003، آسٹریلیا اور ہنگری 1962، آئس لینڈ 1940، آئرلینڈ 1993، اٹلی 1890، کوسوو 1994، لٹویا 1992، لیتھونیا 1993، لگسمبرگ 1795، برکینا 2004، چاڈ، کانگو، آئیوری کاسٹ، گنی، 1931گبون، گنی بسا? 1993، مڈاگاسکر، مالی، نائیجر، روانڈا، جنوبی افریقہ 1998، کمبوڈیا، چین 1997، مشرقی تیمور 1975، بھارت 2009، انڈونیشیا، اسرائیل 1988، جاپان 1882، اردن 1951، کازکستان 1998، کرغستان 1998، لا?س، منگولیا 1987، نیپال 2007، شمالی کوریا، فلپائن، جنوبی کوریا، تائیوان 1896، تاجکستان 1998، تھائی لینڈ 1957، ترکی 1858، ویتنام البانیہ فلسطین 1995، انڈورہ، آرمینیا2003، آسٹریا 1971، آزربائیجان 2000، بلجیم 1795، بوسنیا 1998، بلغاریہ 1968، کروشیا 1977، سائپرس 1998، چیک رپبلک 1962، ڈنمارک 1933، اسٹونیا 1992، فن لینڈ 1971، فرانس 1791، جارجیا 2000، میکوڈینیا 1996، مالٹا 1973، مالدیپ 1995، مناکو1793، مانٹیگرو1977، نیدر لینڈ 1811، ناروے 1972، پولینڈ 1932، پرتگال 1983، رومانیہ 1996، روس 1993، سان مارنیو 1865، سر بیا 1994، سلاوکیہ 1962، سلوانیا1979، سوئٹزرلینڈ 1942، یوکرائن 1991، برطانیہ 1929، ویٹی کن سٹی 1929، ارجنٹائن1887، باہاماس1991، بلوویا1831، برازیل 1831، کوسٹ ریکا1971، چلی 1999، کولمبیا 1981، کیوبا 1979، ایکاڈور1997، سالواڈور، گوئٹے مالا، ہیٹی، ہنڈراس1899، میکسیکو 1872، نکاراگوا 2008، پاناما 2008، پیراگوئے 1880، پیرو 1836، سورینام 1869، اوگرائے 1934، وینزویلا، فیجی 2010، مارشل آئی لینڈ 2005، نیوزی لینڈ 1986 میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ آئی ایل جی اے کی رپورٹ کے مطابق ایران، سعودی عرب، ماریطانیہ، یمن، پاکستان اور سوڈان سمیت 76ممالک میں ہم جنس پرستی پر پابندی ہے اور اس جرم میں سزائے قید سے لے کر سزائے موت تک دی جاتی ہے۔ ان ممالک میں الجیریا، انگولا، بوسٹوانہ، بورونڈی، کیمرون، کوموروس، مصر، ایریٹیریا، ایتھوپیا، گیمبیا، گنی، کینیا، لائیبیریا، لیبیا، ملاوی، مراکش، موزمبیق، نائیجریا، سینیگال، سیریا لیون، صومالیہ، تنزانیہ، یوگنڈا، زمبابوے، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، برونائی، برما، کویت، لبنان، ملیشیاء، عمان، قطر، سنگاپور، سری لنکا، شام، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، یمن، برمودہ اور جمیکا وغیرہ شامل ہیں۔ ہندوؤں کے ساشتروں میں بھی لکھا ہے کہ جب لڑکی یا لڑکا بالغ ہو جائے، تو اس کی شادی کر دی جائے، (عورت کا مرد سے مرد کا عورت سے، یہ نہ کی مرد کا مرد سے، عورت کا عورت سے)اگر دونوں کے ذمیدار شادی نہ کرے تو بہت ہی ظلم اور فساد کی بات ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو دیوک آپدائیں (قدرتی آفات)لگاتار آئیں گی.(Encyclopedia of Hinduism)
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: ” جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی قیامت کے دن وہ انہی کے ساتھ ہو گا” (متفق علیہ)
ابن ابی الدنیا نے محمد بن مفکرؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کولکھا کہ عرب کے اطراف میں بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عورتوں کی طرح مردوں سے نکاح کرتے ہیں تو حضرت صدیق اکبرؓ نے صحابہ کو جمع کیا جن میں حضرت علی المرتضیٰ ؓ بھی شریک تھے اور فرمایا اغلام ایسا گناہ ہے جس کو کسی نے نہیں کیا۔ سوائے قوم لوط کے اور اللہ رب العالمین نے اس کی جو سزا دی وہ سب کو معلوم ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ایسے شخص کو آگ میں جلانا چاہیے چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لکھا کہ ان کو آگ میں جلا دو تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان سب لوگوں کو آگ میں جلا دیا اور امام اعظم ابوحنفیہؒ کے نزدیک بھی ایسے فعل کرنے والے کو آگ میں جلادیں یا اس پر دیوار گرا دیں یا ایسی ہی کوئی اور سزا جو حاکم تجویز کرے۔ ہم جنسی فعل درحقیقت معاشرے میں پھیلنے والا گھٹیا ناسور ہے۔ جو عیاشی کی انتہا کہلاتا ہے۔
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (سورہ۔ آیت۔ مومینون۔ آیت۔ 5۔ 6)
اپنی شرم گاہ کو اپنے ہاتھوں استعمال نہیں کرتے۔ غیر سے جسمانی لذت نہیں لیتے۔ اس میں مرد و عورت دونوں کے لئے مناہی ہے۔
اغلام بازی(GAY)، ہم جنس پرستی(HOMOSEX.LESBIAN)مست زنی(MASTURBATING) بھی حرام کاری میں شامل ہے۔ عیسائی مذہبی رہنما ایکویناس سینٹ اور دیگرنے اپنی تحریروں میں ہم جنس پرستی کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے اس کی خوب مذمت کی تھی۔ انیس ویں صدی تک ہم جنس پرستی کو فطرت کے خلاف بغاوت تصور کیاجاتھا تھا۔ قانون کی نظر میں یہ بدفعلی نہ صرف قابل سزاتھی بلکہ اس کے مرتکب کو موت کی سزا بھی دی جاتی تھی۔ لیکن شیطان کے اعلی کار یہودیوں نے مکروفریب کے ذریعے اس غیر فطری فعل کو خوشنما بناکردنیاکے سامنے پیش کیا۔ اہل ایمان اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النور حواشی 30۔ 32)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا
اول۔ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرتا ہو
دوم۔ وہ جس شخص سے بھی محبت کرتا ہو محض اللہ کی (رضا) وجہ سے کرتا ہو۔
سوم۔ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرتا ہو جیسے آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم)
ابن کثیر ؒ کہتے ہیں۔ ۔ کوئی بھی ایسی دوستی جو غیر اللہ کی بنیاد پر تھی وہ قیامت کے روز عداوت میں تبدیل ہو جائے گی، صرف وہی دوستی قائم رہے گی جو اللہ کیلیے تھی، تو یہ دوستی دائمی وقت تک قائم رہے گی”(تفسیر ابن کثیر۔ 7 / 237)
امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں کہ، دنیا میں گناہوں کی بنا پر ایک دوسرے کے دوست بننے والے افراد روزِ قیامت آپس میں دشمن بن جائیں گے، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اظہار لاتعلقی کرے گا، صرف وہ لوگ وہاں بھی باہمی دوست ہوں گے جن کا تعلق تقوی الہی کی بنیاد پر تھا”۔ (تفسیر طبری21 / 637)
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تا عمراپنادایاں ہاتھ اپنے شرمگاہ کونہیں لگایا۔
ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں اس وقت جو ممالک سرگرم ہیں ان میں امریکہ پیش پیش ہے۔ امریکہ کے تحقیقی ادارے بھی اس پر کام کر رہے ہیں اور ہم جنس پرستی کے حق میں مختلف دلائل دے رہے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں امریکی تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ ہم جنس پرست مردوں کی آپس کی شادیاں صحت مند ماحول پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھ جانے والے ہم جنس پرست مرد بیماریوں کا کم شکار ہوتے ہیں۔ کیونکہ قانونی جیون ساتھی مل جانے سے ہم جنس پرست مرد اس اضطراری کیفیت سے نکل آتے ہیں جس کا شکار وہ ہم جنس پرست ہونے اور اپنا ساتھی نہ ملنے کے باعث رہتے تھے۔ جب کہ ہمارے یہاں عزت مآب سپریم کورٹ بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے 113ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ جن میں مالی، اردن، کاغستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا اور آزربائیجان جیسے 9مسلمان ممالک بھی شامل ہیں اور 76ممالک میں غیر قانونی ہے۔ اور اب شادی شدہ
عورت سے اس کی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کوعزت مآب سپریم کورٹ نے درست قرار دیا ہے۔ کیا عجیب بات ہے کہ ناجائز رشتہ جائز اور دوسری شادی کے ذریعے اسی عورت کو یا کسی لڑکی یا بیوا کو عزت دینا جرم؟زنا کرو لیکن طلاق مت دو اگر طلاق دو گے تو قید بامشقت واہ رے انصاف کے علم بردار؟ اس سے اور بھی فحاشی اور عریانیت کو فروغ حاصل ہوگا۔ ہمارا ملک جو اپنی الگ تہزیب و تمدن کی شناخت رکھتا تھا اسے مغربی تہزیب اور ثقافت کے ناپاک رنگ میں رنگے کی زہریلی کوشش ہے۔ اس سے ہمارے ملک وجود ہی اور ملکوں کی طرح ختم ہوجائے گا۔ اور ہم پھر شخصی نہ سہی ذہنی غلامی کے شکار ہو جائے گیں۔ اللہ خیر کرے۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ اے اللہ ہمارے ملک ہندوستان کے تہزیب و تمدن کی حفاظت کر۔ (آمین یا رب العالمین)
(ہمارا مقصد عزت مآب سپریم کورٹ کی اہانت کرنا نہیں ہے ہم مسلمان ہندوستان کے سب سے اوپر عدلیہ کی عزت کرتے ہیں۔ )
ہم مسلمان اس ملک سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد اسی مٹی میں ملنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن
ہم خون کی قسطیں بہت دے چکے لیکن
اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔