اس لب کا تبسم ہیرا ہے!

محمد ابوذر

(جلگاؤں)

 معاشرہ میں وہی چیز پروان چڑھے گی جس کی تبلیغ ہوگی، خیر و فلاح کا ماحول خیر و فلاح کی باتوں سے ہی پیدا ہوگا۔ فکر ِ اسلامی کی ارتقاء فکر ِ اسلامی سے لبریز نشریات سے ہی ہوگی۔ دینی رجحان پیدا کرنے کے لیے دینی باتوں کو ہی نظروں اور کانوں سے گزارنا ہوگا، باحیا معاشرہ کی تعمیر کے لیے حیا پر مبنی الفاظ و کردار ہی پیش کرنے ہونگے۔ اور اس سلسلے میں ہم بڑے کوتاہ واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی نسل  کو محض استاذ، ٹی۔ وی، موبائل کے نشریات پر اور عالم کے لوگوں محض وقت پر چھوڑ دیا ہے یہ کہ کر کہ : مستقبل تو اسلام کا ہی ہے۔

 کتنی عجیب بات ہے کہ ہر قوم اپنے پیغام کو عام کرنے میں لگی ہے، کھوٹے سودے کو کھرا بتلا کر پورے ملک اور عالم پر پیش کر رہی ہے اور  ہم مسلمان اپنے کھرے اور عمدہ سودے کو بھی اچھے انداز میں پیش کرنے سے نہ کہ صرف غافل ہوں بلکہ کترا رہے ہوں۔

 امریکہ بہادر۔ کو ہی دیکھ لیں اپنی تہذیب و ثقافت کی تبلیغ کے لیے ہر طرح کے جتن کرتا ہے، اور  آج دنیا کے ہر ملک میں امریکی ثقافت اور تمدن نے اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ فرانسیسی ٹی وی پر 70 سے 80 فیصد امریکی فلمیں نشر کی جاتی ہیں، جرمنی جو کہ اپنی زبان کے سلسلے میں بہت حساس شمار کیا جاتا ہے، اس کے باوجود جرمنی کی فلمی صنعت پر 85 فیصد امریکی سینیما کا غلبہ ہے، یوروپ میں امریکی فلموں کے ٹکٹ فروخت ہونے کا تناسب 1996 میں 80 فیصد سے بھی آگے تجاوز کرچکا تھا۔ یوروپ کے ہی ایک ملک سوئٹزرلینڈ میں بھی کچھ یہی صورت حال ہے، جہاں سنیما گھروں میں روزانہ 10 فلمیں دکھائی جاتی ہیں، جن میں سے 9امریکی فلمیں ہوتی ہیں، امریکہ کی 6 بڑی کمپنیاں جو عالمی بازار پر حاوی ہیں، جب کسی ملک سے کوئی بڑا سودا کرتی ہیں، تو اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان امریکی فلموں کو آزادی کے ساتھ دکھائے جانے کی اجازت دیں جو کسی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں نہ چل سکیں اور پٹ گئیں، ، برلن کے بڑے بڑے اسٹوڈیوں میں امریکی فلمیں بنائی جارہی ہیں اور عالمی سطح پر ان فلموں کی تشہیر کے ذریعے امریکہ اپنے پیغام اور اپنی ثقافت کو فروغ دے رہا ہے۔

      لیکن امریکہ بہادر اتنا ہوشیار ہے کہ کوئی ملک اس پر اپنی ثقافت رائج نہیں کرسکتا، اس نے غیر ملکی فلموں کے لیے ایسی پالیسی وضع کردی کہ وہ آسانی سے امریکی ثقافت پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں، چنانچہ 1992 میں امرکی ٹی وی چینلوں پر 492 امریکی فلمیں دکھائی گئیں، جب کہ کل 27 غیر ملکی فلمیں ہی دکھائی جاسکی۔

  اس سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ وہ اپنے پیغامات اپنی تہذیب اپنی ثقافت کو لے کر کتنا سنجیدہ ہے کہ اپنی ثقافت پر پر نہیں مارنے دیتا اور دنیا بھر میں اپنے پیغامات پوری تیاری اور مکمل جنون کے ساتھ پھیلاتا ہے۔

 ہم میں سے ہر شخص کے پاس پہونچانے کے ذرائع بے شمار ہیں، جیسے زبان، قلم، فیسبوک، واٹس ایپ، ٹویٹر، اور یوٹیوب۔ آپ ان  ذرائع ِ  ابلاغ کو آقا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کے پیغامات پھیلانے کا پلیٹ فارم بنالیں۔ اور مثبت انداز میں پوری تحقیق اور مکمل تیاری کے ساتھ دنیا کی تمام زبانوں میں  اسلامی احکام کی خوبیوں کو عام کریں! ان راستوں کو نیکیوں کا۔  کیش کاؤ۔ بناکر اپنی جھولی نیکیوں کے نوٹ سے بھرلیں! اور جب بھی سوشل میڈیا کا استعمال کریں احکام ِ الہی کی تبلیغ کے لیے کریں! شریعت ِ محمدی۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کو زندہ کرنے کے لیے کریں! حق کو ظاہر اور باطل کو جھکانے کے لیے کریں!

نہ جانے کس بندہ کی ہدایت کا وقت آگیا ہو ؟اور وہ آپ کے کہنے سے راہ ِ راست پر آجائے۔ وہ اپنے معاملات خدا کے ساتھ درست کرلے اللہ۔ قادر ِ مطلق۔ سے صلح کرلے، توبہ کرکے اپنی آخرت بنالے۔ اور جب بھی وہ نیکی کرے آپ کا اکاؤنٹ بھی نیکیوں سے بھرتا رہے، کیونکہ عمل صالح کی طرف اشارہ کرنے والے کو بھی عمل ِ صالح کرنے والے کے جتنا ہی ثواب ملتا ہے-

اس لئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم۔ سے جو کچھ سیکھا ہے، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اسے لوگوں تک پہونچائیں!کیونکہ ہم سے پہلے گزرنے والے لوگ اگر ہمارے آباء واجداد کو آقا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کا پیغام نہ پہونچاتے تو آج ہم مسلمان نہ ہوتے !اور کفر پر مرکر ہمیشہ کی جہنم میں سخت آگ سے کباب کی طرح بھونے جارہے ہوتے۔ اللہ حفاظت فرمائے!

  لیکن دعوتی سرگرمیوں میں اثر تب ہی پیدا ہوتا ہے جب انسان خود باعمل ہو، اس کے جسم کے تمام حصوں سے اسلام جھلک رہاہو، خود اس کی طبیعت میں اسلام رچ بس گیا ہو، سنا ہوگا آپ نے :جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ اس لئے جو چیز آپ بازار میں لے کر آرہے ہیں وہ آپ کے پاس بھی ہونی چاہئے۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں جہاں بھی ایمان کا بیان ہے وہاں عمل صالح کا تذکرہ بھی ضرور ہے، کہتے ہیں؎

احساس عمل کی چنگاری جس دل میں فروزاں ہوتی ہے

اس لب کا تبسم ہیرا ہے اس آنکھ کا آنسو موتی ہے

اس لئے اپنی زندگی میں بھی عمل کا پودا لگائیں تاکہ کل کو ایک بہتر فصل کاٹ سکیں!

تبصرے بند ہیں۔