دعوتِ دین کا قرآنی اسلوب

ڈاکٹر سلیم خان

        دعوتِ دین کے حوالے سےحالیہ دنوں میں غیر معمولی  بیداریآئی ہے۔ امت کی یہ خوش آئند پیش رفت ہے۔ دعوت کے موضوعات اور مواد کے تعلق سے کوئی خاص اختلاف نہیں پایا جاتا لیکن اسلوب دعوت پر بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ بے شک اندازِ بیان موقع محل اور مخاطب کی ضرورت و نفسیات کے لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے مگر متضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اس بابت ’’ رستے الگ الگ ہیں ٹھکانہ تو ایک ہے‘‘ جسے ہندی میں ’سروودھرم سمبھاو‘ کہا جاتا ہے کی کیفیت کو کچھ لوگ دعوت کے لیے سمِ قاتل سمجھتے ہیں اور کچھ ناگزیر مانتے ہیں۔ اس اختلاف کا حل یہ ہے کہ قرآن حکیم اور سیرت رسول ﷺ سے رجوع کرکےاسلوب دعوت اخذ کیا  جائے  لیکن ایسا کم ہوتا ہے مثلاً اسلام میں خطاب کے آغاز  کا سادہ سا طریقہ سکھایا گیا  ہے:’’  کہو، حمد اللہ کے لیے اور سلام اُن بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا‘‘ لیکن آج کل نہ جانے کہاں سے محترم  فلاں اور فلاں صاحب آگیا خیر۔

اس سلسلۂ آیات میں آگے دعوت کی جانب  توجہ مبذول کرانے والا استفہامیہ انداز  ملاحظہ فرمائیں : ’’(اِن سے پوچھو) اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں؟‘‘ اس کے بعد رب کائنات کے احسانات کا ذکر ہے :’’بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟ (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے؟ نہیں، بلکہ اِن میں سے اکثر لوگ نادان ہیں‘‘۔ اناستفادہ ٔعام کی   نعمتیں  بیان کرکے شرک کی نفی  کردی گئی۔

عمومی  مادی احسانات کے بعد انفرادی   ونفسیاتی لطف و کرم کا ذکر کیا گیا:’’ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا) ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں اور کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (اِن کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو‘‘۔ یعنی  یہ بتایا گیا کہ خدائے واحد کے سوا کوئی خالق و رازق  نہیں ہے لیکن سوچنے سمجھنے کا فقدان بلا دلیل شرک  میں مبتلا کردیتا ہے۔

آگے منکرین آخرت کا اعتراض کہ کوئی مرکر  زندہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اور سوال  کہ قیامت کب آئے گی ؟ کا  جواب  اس طرح دیا گیا کہ  :’’ کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہو چکا ہے‘‘۔ معلوم ہوا  کہ  مخاطبینِ دعوت کے ذہن میں جنم لینے والے سوالات کا تشفی بخش جواب دینا  بھی ضروری ہے۔ دعوت کی راہ میں  مخالفین  کی جانب سےتمسخراور رکاوٹوں کااندیشہ موجود رہتا ہے۔ اس لیے ڈھارس بندھائی گئی:’’اِن کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ اِن کی چالوں پر دل تنگ ہو۔ وہ  (اگر)کہتے ہیں کہ ’یہ دھمکی کب پُوری ہو گی اگر تم سچے ہو؟” (تو) کہو کیا عجب کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آ لگا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب تو لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے‘‘۔ یعنی  بددل ہونے کے بجائے  دلسوزی کے ساتھ جواب دوکہ یہ مہلت  دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اس  موقع کو گنوانے کے بجائے بہترین  استعمال یہ ہے کہ  کفر کی روش ترک کرکے  شکر  یعنی ایمان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ دعوت دین کا یہ قرآنی  اسلوب داعیان اسلام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔