تبلیغی سرگرمیوں کو موثر بنانے کے لیے مومنانہ کردار

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

خدا وندِ جل و علا نے غلامانِ مصطفیؐ کو انبیاء و مرسلین کے مقدس مشن کو آگے بڑھانے کی عظیم الشان ذمہ داری تفویض فرمائی ہے۔ انبیاء و مرسلین کے مقدس قافلہ کی بنیادی ذمہ داری لوگوں تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچانا تھا جسے تبلیغ کہتے ہیں۔ اس ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھانے کے لیے انبیاء و مرسلین کبھی دلائل و براھین سے کام لیتے ہیں تو کبھی معجزات دکھاتے ہیں کیونکہ دین کی تبلیغ اور غیر مسلموں کو دامن اسلام سے وابستہ کرنے میں جبر و اکراہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ آج مسلم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے لوگوں کو شرک و بدعت سے بچانے، ان کی بدعقیدگی کو دور کرنے کے نام پر جو مغلظات بکتے ہیں، حق بیانی اور شعلہ بیانی کی آڑ میں مخالف مکتب فکر والوں کے لیے جو برے القابات کا استعمال کرتے ہیں اس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے اور ہمارا یہ طرز تبلیغ انبیاء و مرسلین کی تبلیغ و ارشاد سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتا چونکہ انبیاء و مرسلین زندگی بھر مخالفین کو اپنا بنانے کی کوشش کرتے رہے اور ہم زندگی بھر لوگوں کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بالفرض محال اگر ہماری دانست میں کوئی گمراہ یا بھٹکا ہوا بھی تو ہماری دینی ذمہ داری یہ نہیں کہ ہم اسے مشرک، بدعتی، گمراہ وغیرہ کہیں بلکہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم احسن طریقہ سے اس کے دل کی تاریکیوں کو نور ہدایت سے معمور کرنے کی بقدر استطاعت کوشش کریں۔ اللہ تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا موسیٰؑ کو فرعون جیسے جابر، ظالم اور متکبر شخص کے ساتھ بھی انتہائی ملائمت اور مہر و محبت سے کلام کرنے کا حکم فرمایا ہے چونکہ دشمنوں کے ساتھ مدارات کا معاملہ کرنا ان کے تاریک دلوں پر اثر و نفوذ پیدا کرنے کے حوالہ سے انتہائی اہم ہے۔ چونکہ ہم نے قرآن مجید کے اس اسلوب تبلیغ سے انحراف کیا ہے اسی لیے آج پوری دنیا میں ان گنت ادارے اور تنظیمیں تبلیغ اسلام میں سرگرم ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری تبلیغ کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ راہ راست پر بہت کم آرہے ہیں لیکن ہمارے درشت اور معاندانہ انداز خطابت سے امت مسلمہ روز بہ روز گروہ در گروہ میں بنٹتی ضرور چلی جارہی ہے، لوگوں کے درمیان نفرتوں اور عداوتوں کی دیوار مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ ان حقائق سے چشم پوشی کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دین اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا دین بن کر ابھر رہا ہے لیکن ہمیں اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اس میں ہماری تبلیغ اور ہمارے کردار کا کوئی دخل ہے بلکہ لوگ بذات خود دین اسلام کا مطالعہ کررہے ہیں،اس کی حقانیت سے آشنا ہورہے ہیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہم اور ہمارا کردار تو غیر مسلم اور اسلام کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جب غیر مسلم آسارام باپو جیسے دنیا و نفس پرست انسان سے تنگ آکر اسلام کے دامن سے وابستہ ہونا چاہیں تو انہیں یہاں پر بھی صوفیانہ لبادہ میں جعلی پیروں کی بھرمار نظر آتی ہے ایسے عالم میں کیا وہ اسلام قبول کرنا پسند کریں گے۔ جب مسلمان اسلام میں موجود تصور طلاق اور حلالہ اپنی نفسانی و شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو کیا غیر مسلم خواتین اسلام قبول کرنا چاہیں گی۔ اسی لیے بحیثیت مجموعی مسلمانوں پر لازم ہے کہ تبلیغ کا کام کرنے سے پہلے اپنے کردار کی اصلاح کریں تاکہ تبلیغ کے بہتر نتائج برآمد ہوسکیں۔

 ہم سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام کی دعوت کو غیر مسلم حضرات تک پہنچانا مسلمانوں کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ لیکن جیسے ہی ہمارے ذہن میں تبلیغ اسلام کا تصور ابھرتا ہے تو ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو ارکان اسلام یعنی کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے فرائض و واجبات، سنن و نوافل اور آداب و ارکان سکھانا تبلیغ اسلام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام امور کا تعلق اصلاح سے ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ تبلیغی اور اصلاحی کاموں میں فرق کریں چونکہ اکثر ہم اصلاحی کاموں کو ہی تبلیغ کا نام دیکر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہم نے تبلیغ کا مذہبی فریضہ اور خیر امت ہونے کا حق ادا کردیا ہے ۔ تبلیغ اسلام کو لیکر دوسری غلط فہمی جو ہمارے ذہنوں میں یہ ہے کہ تبلیغ اسلام کو موثر بنانے کے لیے جدید آلات و ذرائع استعمال کرنے کے لیے ہمارے پاس مالی وسائل نہیں ہیں۔ یقینا تبلیغ اسلام کے لیے جدید و عصری ٹکنالوجی کا استعمال سود مند ثابت ہوگا لیکن عمل کے ذریعہ کی جانے والی تبلیغ جس قدر موثر ہوسکتی ہے اس کا تقابل کسی اور چیز سے کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مثلاً زندگی کا کوئی شعبہ حیات ایسا نہیں ہے جس کے نظام کو رشوت نے اندر سے کھوکھلا نہ کردیا ہو۔ مسلمانوں کی اکثریت بھی ’بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ‘ کے مطابق لوگوں کو رشوت دینے اور ان سے لینے لگی ہے جس کی نحوست سے نہ صرف زندگی سے برکات ختم ہوجاتی ہیں بلکہ آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کے اس ناعاقبت اندیشانہ روش کا سب سے بڑا نقصان اسلام کو ہورہا ہے۔ اگر کسی غیر مسلم کو کسی کام کو منظوری دلوانے کے لیے عہدیدار کو پانچ لاکھ روپیہ بطور رشوت دینے پڑ رہے ہوںاور یہی کام مسلم عہدیدار بغیر رشوت لیے پورا کردے ،یہ کہتے ہوئے کہ اسلام میں رشوت لینے اور دینے سے منع کیا گیا ہے، تو اندازہ کیجیے کہ ہمارے اس چھوٹے قدم سے غیر مسلم کے قلب و ذہن پر کس قدر مثبت اثرات مرتب ہوں گے یقینا وہ یہ سونچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ جب اسلام کے ایک حکم کی وجہ سے پانچ لاکھ روپیہ کا فائدہ ہورہا ہے تو اس شخص کو کتنا فائدہ ہوگا جو اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارتا ہوگا۔

 دین اسلام میں تبلیغ کا علی الاطلاق حکم نہیں ہے بلکہ تبلیغ کے کام میں شرائط و آداب اور ضوابط و طرق کی رعایت رکھنا لازم ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوندِ قدوس کی وحدانیت و کبریائی پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور اس کے حبیب کے اسوہ حسنہ کی پیروی کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کا زیادہ حق وہ لوگ رکھتے ہیں جو ایمان کے انوار و برکات سے اپنے قلوب و اذہان کو منور، اعمال صالحہ سے اپنے کردار کو مزین اور خلوص و صداقت سے اپنے باطن کو سنوار چکے ہوں۔ غیر تربیت یافتہ مبلغین کی دعوت مخالفین اسلام سے زیادہ ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔ چونکہ جو لوگ فطرت انسانی کے حیوانی تقاضوں کے اسیر ہوجاتے ہیں ان کا قلبی سکون اور ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے وہ لوگ غیرت باختہ طرزِ معاشرت اور مغربی تمدن کی تقلید کرنے کو ہی کامیابی کی شاہ کلید سمجھنے لگتے ہیں اور ایسے لوگ تبلیغ و ارشاد کا کام کرنا شروع کردیں تو یہ نہ صرف اسلامی تہذیب و ثقافت پر ناروا زیادتی ہے بلکہ اسے مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

جب مسلمان خود عجب پسندی اور خود پرستی میں مبتلا ہو تو وہ غیر مسلم کو عاجزی و انکساری کی طرف مائل کیسے کرے گا، جب مسلمان خود تعلیمی پسماندگی میں مبتلا ہو تو غیر مسلم کو مدبریت اور دانش مندی کا درس کیسے دے گا، جب مسلمان خود خانقاہی نظام کو خرافات کا مرکز بنادے تو غیر مسلم کو باطنی محاسن اپنانے کی تلقین کیسے کرے گا، جب مسلمان خود وعدہ خلافی کا مرتکب ہو تو غیر مسلم کو اسلام میں وعدہ کی اہمیت سے کیسے واقف کروائے گا، جب مسلمان خود جھوٹ اور فریب کی زندگی گزار رہا ہو تو غیر مسلم کو اس سے اجتناب کرنے کی تلقین کیسے کرے گا، جب مسلمان خود امانت میں خیانت کرتا رہے گا تو غیر مسلم کو خیانت کی نحوست سے بچنے کا سلیقہ کیسے سکھائے گا، جب مسلمان خود، مفاد پرستی و خودغرضی کے سمندر میں غرق ہو تو غیر مسلم کو خلوص کی تعلیم کیسے دے گا، جب مسلمان خود اقربا پروری کا شکار ہوگا تو غیر مسلم کو حق کا ساتھ دینے کی طرف آمادہ کیسے کرے گا، جب مسلمان خود طاغوتی طاقتوں سے مرعوب ہوجائے گا تو غیر مسلم کو ثابت قدمی و استقامت کے ساتھ  زندگی گز ارنے کا سلیقہ کیسے بتائے گا الغرض دین اسلام کے ہر پیغام کو عام کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان خود اس پر عمل پیرا ہوجائے جس کے لیے لازم ہے کہ مسلمان اپنے اور اپنے اہل و عیال کے کردار کو اسلامی نہج پر سنوارنے کی حتی الوسع کوشش کرے۔

حقیقی مبلغ اسلام کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ قرآنی ارشادات و احکامات کی پابندی پوری تندہی سے کرتا ہے پھر لوگوں کو اسلام کے چشمہ شیریں سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے دعوت دیتا ہے۔ ایسے مبلغین کی کاوشوں سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے جاتے ہیں۔چنانچہ کہا جاتا ہے کہ سلسلہ چشتیہ کے مایہ ناز بزرگ حضرت خواجہ حسن نظامی ؒ کی دلپذیر تبلیغی کاوشوں سے متاثر ہوکر تقریباً اسی ہزار کفار دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپؒ نے ان لوگوں کے قلوب میں ایمان وایقان کی ایسی روشنی منور فرمائی جسے کفر و گمراہی کی تاریکی بھی بجھا نہ سکی۔ اسی لیے قرآن مجید مبلغین اسلام کو تین چیزوں یعنی حکمت، موعظت اور پسندیدہ انداز سے مجادلہ کو لازم کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ ہماری تبلیغ کے انداز میں یہ خصوصیات مفقود نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری تبلیغی کاوشوں سے غیر مسلم کا متاثر ہونا تو درکنا جب ہم امر بالمعروف و نہی عن المنکرکی ذمہ داری نبھاتے ہیں تو مسلمانوں کے کردار بھی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مسلمان ہونے کے زبانی دعوے سے نہ حق کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی باطل کو زک پہنچتی ہے اسی لیے قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے اس شخص سے بہتر کس کا کلام ہوسکتا ہے جو تبلیغ و ارشاد کا کام کرے، اعمال صالحہ بجالائے اور زبان و عمل سے ثابت کرے کہ میں رب کا مطیع و فرمانبردار ہوں۔

دین اسلام انسان کی زندگی کے ہر لمحہ کو دنیاوی و اخروی اعتبار سے خوشگوار بناتا ہے اسی پیغام کو عملی طور پر غیر مسلموں تک پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔  تبلیغ ایسا دینی فریضہ ہے جو ہر مسلمان پر بقدر استطاعت لازم ہے اور تبلیغی مشن کو موثر بنانے کے لیے اپنے کردار کو اسلامی تعلیمات سے مزین کرنا از حد ضروری ہے کیونکہ راسخ ایمان، بے نظیر استقامت اور اعمال صالحہ کے حامل مبلغین، منادیانِ توحید اور مجاہدین راہ حق کی منطق و استدلال اور علم و دانش پر مبنی گفتگو و عمدہ وعظ نصیحتیں ریگ زار حیات میں ایک قطرہ آب کے لیے تڑپنے والے تشنہ لب لوگوں پر انتہائی کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہیں۔ جذب و احساس کو ابھارنے والے مبلغین کے اس طرز عمل سے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو پوری دنیا میں بہ آسانی پھیلا جاسکتا ہے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔