شخصیت کا ارتقاء: ہماری توجہ کا محتاج ایک اہم علمی موضوع
محمد رضی الرحمن قاسمی
اب تک علم و تحقیق کے میدان میں بڑا کام ہوا ہے، اور بڑے پیمانہ پر مختلف موضوعات پر کام ہو بھی رہا ہے، لیکن اگر آپ صاحب ِ حوصلہ ہیں، اور کام کرنا چاہتے ہیں تو دورانِ مطالعہ اور غور کرنے پر، آپ کے اپنے دلچسپی کے موضوعات میں بھی کام کے بہت سارے وہ تشنہ پہلو دکھائی دیں گے، جو تحقیق و جستجو اور نئے سرے سے خامہ فرسائی کے محتاج ہیں، جن پر ایک نئی کاوش اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
ان دنوں میرے مطالعہ کا موضوع ” شخصیت کا ارتقاء ” (پرسنالٹی ڈیولپمنٹ) ہے، یہ نہایت ہی دلچسپ اوراہم موضوع ہے، لیکن اس موضوع پر برصغیر میں اہل علم و دانش اور طلبہ کی توجہ نہ کے برابر ہے، گو کہ اسے دوسرے ناموں سے پڑھا اور پڑھایا بھی جاتا ہے۔
اس موضوع کو کئی دہائی پہلے ہی اہل مغرب نے بہ حیثیت موضوع سنجیدگی سے لیا ہے اور اس پر بڑا کام بھی کیا ہے، اس پر آئے دن ورکشاپ، سمپوزیم اور ٹریننگ کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، جن میں سےبعض ٹریننگ کا دورانیہ کئی کئی ماہ کا بھی ہوتا ہے، آج اس موضوع پر مغربی اہل علم اور مفکرین کی سیکڑوں کتابیں مطبوعہ ہیں، جن میں سے بعض اتنی مقبول ہوئی ہیں کہ چند سالوں میں اس کے پندرہ ملین (ڈیڑھ کڑور) سے زیادہ نسخے طبع ہوکر فروخت ہو گئےہیں۔ اور ایسے ایسے عناوین پر ریسرچ کی ہے کہ بعض کوتاہ فہم لوگوں کو اس ریسرچ کے مطالعہ سے پہلے وہ عناوین مضحکہ خیز لگیں گے، جیسے: "نہ کہنے "کے ایک سو پچاس طریقے
عالم عرب میں اس موضوع کے تئیں وہ بیداری تو ابھی نہیں پیدا ہوئی ہے، جو ہونی چاہیے، اس موضوع پر تربیتی پروگرام اور ٹریننگ کے بارے میں بھی خال خال ہی سننے کو ملتا ہے، لیکن پھر بھی اہلِ مغرب کی کتابوں کے ترجمہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ کریم شاذلی اور ان جیسے دوسرے جواں حوصلہ محققین اور اصحاب قلم نے اس موضوع کو اپنی بحث و تحقیق کا محور بنایا ہے، اور ان کی اس موضوع پر مختلف تالیفات طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔
برصغیر کی علمی کاوشیں صدیوں سے قدر اور اعتبار کی نگاہوں سے دیکھی جاتی رہی ہیں اور آج بھی یہاں کے کہنہ مشق علماء و دانشوران اور جواں سال اصحابِ دانش و بینش کی علمی کاوشیں دنیا بھر میں لوگوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں، لیکن اس حقیر کو تعجب بھی ہے اور افسوس بھی کہ” شخصیت کا ارتقاء” کے موضوع پر بحث و تحقیق ایک اونچے معیار تک پہنچ گئی ! لیکن ہمارا حصہ اس میں نہ کے برابر ہے، نتیجۃً اردو میں اس موضوع پر کتابیں اور مقالات بلکہ دوسری زبانوں سے ترجمہ شدہ کتابیں بھی نہ کے برابر ہیں۔ پاکستان کے ایک مشہور صاحب علم جناب قاسم علی شاہ صاحب اور ان کی فاؤنڈیشن نے اس موضوع کے تئیں بیداری کو اپنا مشن بنا لیا ہے، اس موضوع پر ان کی کچھ کتابیں بھی ہیں اور ان کے ٹریننگ سیشن کی سیکڑوں ویڈیوز بھی ہیں، جو یقیناً برصغیر میں کام کا رخ دیتی ہیں۔ ہمارے برادرانِ وطن میں بھی اس میدان کے بعض اچھے ٹرینر ہیں، جن کی ٹریننگ سیشن کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، اور جن میں اچھا مواد اس موضوع سے متعلق موجود ہے۔
جب اس حقیر نے مغربی اسکالرس اور مفکرین کی کتابیں، اس کے عربی ترجمےاورٹریننگ سیشن کی ویڈیوز دیکھنی شروع کیں، تو نہایت ہی مفید اور زندگی میں مثبت اور تعمیری تبدیلی لانے والی محسوس ہوئیں، لیکن مستقل یہ احساس رہتا تھا کہ یہ چیزیں "الحكمة ضالة المؤمن، فأنى وجدها فهو أحق بها” (حکمت و دانائی کی بات مومن کی متاع گم گشتہ ہے، وہ اسے جہاں کہیں پائے، اسے لے لینے کا زیادہ حق دار ہے) بلکہ ” ترداِلینا بضاعتنا” (ہمارا سرمایہ ہمیں لوٹایا جا رہا ہے) کی قبیل سے ہے۔
کریم شاذلی کی تحریروں کو پڑھنے اور جناب قاسم علی شاہ کی ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد حدیث پاک کی معتبر اور مشہور کتابوں کے اخلاقیات اور معاشرتی ابواب پر ایک نگاہ ڈالی، پھر خوشی کا احساس ہوا اور افسوس بھی ہوا، خوشی اس بات کی کہ ”شخصیت کا ارتقاء” کے سارے مبادیات اور اصول کتاب اللہ میں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں موجود ہیں۔ اور افسوس اس پر کہ اس اعتبار سے عصرِ حاضر کے مسلمان اہل علم اور اسکالرس کا کام اس موضوع پر جدید علمی منہج کے مطابق زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیےنہ کہ اہلِ مغرب کا۔
قارئین کے ذہن میں یہ سوال ہو رہا ہوگا کہ شخصیت کا ارتقاء یا پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا موضوع ہے کیا؟ سادہ سی زبان میں کہا جائے تو یہ نام ہے عقیدہ و اخلاقی تعلیمات، بہترین معاشرتی اقدار اور انسانی تجربات کی روشنی میں ان مہارتوں کو جاننے، سمجھنے اور زندگی میں لانے کا، جس سے ایک انسان نہایت ہی مہذب، پرسکون، اپنے اور پوری انسانیت کے لئے نفع بخش زندگی گذار سکے، یہ مہارتیں اگر انسان کی زندگی میں نہ ہوں، توصحت، علم اور مال و دولت کے باوجود انسان ایک متوازن اور خوشگوار زندگی نہیں گذار سکتا ہے۔ یہ موضوع زندگی کی ہر چھوٹی بڑی چیزوں سے گفتگو کرتاہے: ہمیں کس طرح گفتگو کرنی چاہیے، کیسے سوچنا چاہیے، کون سی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، اپنے پڑھنے کے لئے کس موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے، ہمیں کون سا ذریعہء معاش اختیار کرنا چاہیے، زندگی کے اتار چڑھاؤ سے کس طرح نبرد آزما ہونا چاہیے، لوگوں سے تعلقات کن بنیادوں پر اور کس کس نوعیت کے ہونے چاہیے، مجلس میں کس طرح بیٹھنا چاہیے، کس طرح کھانا چاہیے، کس طرح پینا چاہیے، اور اس جیسی تمام چیزیں، جن کا بے سلیقگی سے کرنا پوری شخصیت کو ہلکا اور بسا اوقات داغدار کر دیتا ہے۔
سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ان سے کافروں نے بہ طور استہزاء کے کہا کہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو تمہیں پیشاب پائخانہ تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بہ طور فخر کے کہا کہ ہاں! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہمیں سکھاتے ہیں، پھر انہوں نے قضاء حاجت کے کچھ نبوی اصول کا ذکر کیا۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: 19) شخصیت کا ارتقاء کے موضوع کا جو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کی صرف بڑی بڑی نہیں، بلکہ ہر چھوٹی چیز کو بھی برتنے اور ہر صورت حال میں جینے کا سلیقہ پیدا کرنی کی مہارتیں حاصل کی جائیں اوریہ کہ کوئی بھی سلیقہ بغیر سکھائے یا سیکھے نہیں آتا ہے، اس حدیث میں واضح طور پر یہ دونوں اصولی باتیں آگئی ہیں۔
اسی طرح شخصیت کا ارتقاء کے فن میں ایک اہم ضابطہ (WIN WIN) یعنی دوسروں کو جیتنے دو اور خود بھی جیتو ہے، اس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ زندگی جینا دوسرے انسانوں کے ساتھ کرکٹ اور فٹبال کے میچ کی طرح نہیں ہے کہ ایک کے جیتنے کے لئے دوسرے یا دوسروں کا ہارنا ضروری ہو، بلکہ یہ ممکن ہے کہ زندگی کے کسی بھی معاملہ میں ہم بھی جیتیں، کامیابی حاصل کریں اور ہمارا بھائی اور دوست بھی ہماری ہی جتنی کامیابی حاصل کرے، اب ذرا اس حدیث کو پڑھیں: لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه. (بخارى، حدیث نمبر:14) ” تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہ رہا ہے۔ کیا WIN WIN کا اصول اس حدیث پاک میں انسانیت کو بہت پہلے ہی نہیں دیا گیا ہے۔
غرض یہ کہ شخصیت کے ارتقاء کا موضوع بہت ہی اہم اور ضروری ہے، انسان کی مثبت خطوط پر تعمیر و ترقی، پرسکون، شکر اور امیدوں سے معمور صحت مند زندگی کے گذارنے میں یہ ایک بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔ لہذا اس موضوع کے تئیں بیداری بھی ہونی چاہیےکہ اسے پڑھیں، سمجھیں، فائدہ اٹھائیں، نیز حوصلہ مند، دل دردمند اور فکر ارجمند رکھنے والے جواں سال اہل علم و دانش کو اس پہلو سے بھی توجہ دینی چاہیےکہ جدید پیرہن میں، نئے علمی منہج اور اصول کے مطابق اس موضوع پر کام کریں اور اس پہلو پر بھی کام کریں کہ اس بیش قیمت فن اور موضوع کے مبادیات اور اصول قرآن و سنت میں موجود ہیں، اسی طرح جو الحادی افکار اس میں در آئے ہیں، منطقیت اور معقولیت کے ساتھ اس کا رد بھی کیا جائے اور اس کا متبادل بھی پیش کیا جائے۔
اگر میں یہ عرض کروں کہ دعوتی نقطۂ نظر سے اس موضوع پر(انگریزی، عربی، اردو اور فرانسیسی جیسی عالمی زبانوں میں) کام کرنا فرض کفایہ کے درجہ میں ہے، تو یہ – میری سمجھ کے مطابق – ایک ذمہ دارانہ بات ہوگی، کیوں کہ اس فن اور موضوع(کی کتابوں، لائیو سیشن اور ٹریننگ پروگراموں) سے مغرب میں لوگ بہت استفادہ کر رہے ہیں اور یہ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا سبب ہو رہا ہے، چنانچہ فطری طور پر لوگوں کا اس موضوع کی طرف رجحان ہے، اب اگر مناظرانہ اور تردیدی اسلوب میں نہیں، بلکہ علمی، منطقی اور معروضی اسلوب میں ہم یہ پیش کریں کہ اس فن کے مبادیات اور اصول کتاب وسنت کے عقائد، اخلاق، معاشرت اور دوسرے مختلف ابواب میں پہلے سے موجود ہیں، تو اس موضوع سے استفادہ کرنے والا ہر فرد ایک بار ضرور اس حوالہ سے اسلام کے بارے مثبت طور پر سوچے گا، اور ہماری دعوتی ذمہ داری یہی تو ہے کہ اپنے کافر بھائی کے لئے اسلام کے تئیں فکر کے در کو وا کر دیں، باقی ہدایت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
تبصرے بند ہیں۔