امریکہ میں 14 لوگوں کو بم بھیجنے والا ایک ‘بھکت’ پکڑا گیا

رویش کمار

اس کا سینہ 56 انچ کا تو نہیں مگر عمر 56 سال ہے۔ وہ كنگال ہو چکا ہے۔ کنگال ہونے سے پہلے کپڑے اتار کر رقص کرتا تھا۔ جم میں جسم کو مضبوط بناتا رہا۔ وہ کامیاب ہونا چاہتا تھا، فٹ بال پسند کرتا تھا،  مگر ناکامی نے اس کا دامن نہیں چھوڑا۔ ناکامی نے اس کے خوبصورت جسم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ وہ صدر ٹرمپ کا حامی بننے لگا۔ اس کے اندر اپنے والد کو دیکھنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے لکھنے بولنے کے اسپیس میں معمولی حمایتی  سے کٹر حمایتی  میں بدلنے لگا۔

ٹرمپ کی حمایت اس کے لیے کامیابی تب بھی نہیں لائی۔ وہ گھر بیچ کر وین میں رہنے لگا۔ وین کے چاروں طرف بہت سے اسٹیکر لگے ہیں۔ وہ ٹرمپ کا حامی ہے اور ٹرمپ کے مخالف کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ان اسٹیکر کو دیکھنے پر آپ کو بھارتی وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے م کی یاد آ جائے گی۔ ان تصویروں پر ڈیموکریٹ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ انہیں مار دینے کی علامتوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ وین پر ٹرمپ پر سوال کرنے والے میڈیا کو بےایمان میڈیا لکھا ہے۔ CNN کو نشانہ بنایا ہے۔

وین کے باہر چھپے یہ اسٹیکر اور ان کے مواد اس کے دماغ میں بھر گئے ہیں۔ وہ زہر سے بھرا ہوا ایک انسان ہے جو اپنی غریبی کو بھول ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرمپ مخالفین کے تئیں نفرت کی آگ اگلتا ہے۔ اس شخص کا نام ہے سیزر سايوك۔ جسے بارہ لوگوں کو چودہ بم بھیجنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے اسے لے کر جانچ ایجنسی کی تعریف کی ہے لیکن سیزر کے سیاسی موقف کو ابھارنے کے لیے میڈیا پر جم کر حملہ بولا ہے۔

ریپبلکن پارٹی کی سیاست نے حامین کو ’بھکت‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے اندر نفرت کی باتوں سے ایک جھوٹے فخر کا احساس بھر دیا ہے۔ اس لیے وہ اپنے حالات کی بہتری چھوڑ دوبارہ امریکہ کو عظیم بنانا چاہتا ہے، جیسے بھارت کو عالمی گرو بنانے والے باتیں کرتے ہیں۔ بھارت میں بہت سے معاملات میں بنی بھیڑ ایسے ہی لوگوں سے بنی تھی مگر ان کے بارے میں ایسی ڈٹیل سامنے نہیں آئی۔ کسی نے کوشش بھی نہیں کی۔ CNN نے سیزر کی وین کی کھڑکی پر چپکے اسٹیکر کو لے کر سنجیدہ تجزیہ کیا ہے۔ ہر اسٹیکر کے ڈٹیل پر بحث ہوئی ہے۔

میں نے اپنی کتاب The Free Voice میں ایک چیپٹر ROBO-Republic کے بارے میں لکھا تھا کہ کس طرح غلط اموشن اور فیکٹ فیڈ کر انسان کے ‘ہونے’ (belonging) کو ماضی میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ اس کے تصور میں ہندو راشٹر آگیا ہے اور وہ اس کا حقیقی شہری سمجھتا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو جھوٹ اور نفرت سے  programmed  کر دیا گیا جن پر کسی بھی سچ یا حقیقت کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ یہ لوگ کبھی بھی کسی بات سے اپنے آپ ٹریگرہوسکتے ہیں اور لنچ موب میں بدل کر لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر مسلم ہوتے ہیں جن کے بارے میں بے شمار قسم کی نفرت بھر دی گئی ہے۔ وہ گائے، پاکستان، کشمیر، بنگلہ دیش، آبادی کا نام سنتے ہوئے اپنے شریک شہری مسلم کو دوسری نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کے اندر کچھ ٹریگر ہو جاتا ہے۔ جب لنچ موب بن کر قتل نہیں کرتے تب وہ نفرت کی باتوں کو لکھ کر، مخالفین کے مارنے کی بات کر ذہنی مشق کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ لوگ اتنے  programmed ہو چکے ہیں کہ نوکری نہیں ہے یا بزنس ڈوب گیا ہے ان باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ ان کے لیے سیاست اور اقتدار اپنی بہتری کے لیے نہیں بلکہ دوسروں سے نفرت کرنے، مار دینے اور ان پر فتح پانے کا ذریعہ ہو گئی ہے۔ مسئلہ اس بھیڑ ہے۔ امریکہ میں جو پکڑا گیا ہے وہ ایک روبوٹ ہے۔ ایسے بہت سے روبوٹ تیار ہو چکے ہیں۔ بھارت میں ایسے روبوٹ بن چکے ہیں جن کے اندر میرا  پوسٹ دیکھتے ہی کچھ ٹریگر ہوتا ہے۔ بغیر پڑھے اور سمجھے وہ اِن باکس اور کمنٹ باکس میں گالی دینے چلے آتے ہیں۔

 ROBO-Republic کا پروجیکٹ روز بڑا ہو رہا ہے۔ امت شاہ نے کہا تھا کہ یوپی میں 32 لاکھ وہاٹس اپ گروپس بنائے ہیں۔ ان میں آن آفیشیل کچھ ہوتا ہے، اَن آفیشيل کچھ اور ہوتا ہے۔ مختلف تنظیموں کے نام سے اَن گِنت گروپوں میں نفرت کی باتیں پھیلائی جاتی رہتی ہیں۔ سوچیے تین کروڑ سے زیادہ لوگ وہاٹس اپ یونیورسٹی میں جھوٹ اور نفرت کی م پڑھ رہے ہیں۔ خود کو  programmed  ہونے دے رہے ہیں۔ کئی ریاستوں میں نہ جانے کتنے کروڑ لوگ وہاٹس اپ یونیورسٹی کے اس زہر کا نشہ لے رہے ہیں، انتظار کیجیے امت شاہ خود ہی کسی سائبر سیل کی ورکشاپ میں بتا دیں گے۔ بی جے پی کے حامی اور کارکن پہلے بھی تھے مگر وہ عام سیاسی مخلوق تھے۔ اتفاق اور اختلاف کو سمجھتے تھے، لیکن اس وقت وہاٹس اپ م سے programmed  لوگ ان سے کافی مختلف ہیں۔ اب بھی سمجھ نہیں آ رہا تو آپ بالکل انہی programmed  ہو چکے لوگوں میں سے ہیں۔ آئیے اب ٹریگر ہو جائیے اور مجھے گالی دینا یا کچھ ایسا بكنا شروع کیجیے جس کا میری پوسٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔