فرزند حرم امام شافعیؒ

عبد الکریم ندوی گنگولی

دوسری صدی کے نصف آخر میں ایک طرف انسان کامل، خوف وخشیت الہی کا زندہ پیکر، جذبۂ ایمانی سے سرشار، علم وآگہی کے نور سے ضیاء بار، اسلامی فقہ کابانی، مجتہد عظیم، فقیہ جلیل، حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، رزم حق وباطل میں فولاد کی طرح ٹھوس، علمی فضاؤں میں عقابی شان سے پرواز کرتے ہوئے، کردارسازی اور علم وعرفاں کی شمعیں روشن کرتے ہوئے، گویا تاروں کی جھرمٹ میں ایک روشن وتابناک ستارہ، عالم انسانیت پر اپنی کرنیں بکھیرنے والا یہ چمکتادمکتا آفتاب اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ امام اعظم(امام ابوحنیفہؒ) کا لقب پاکر غروب ہورہاتھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ دوسری طرف دلکش ومن موہنا رخ تاباں کے ساتھ علم ومعرفت کے پالنے میں جھولتے ہوئے روشن وتابناک سورج شاہراہ حیات کے پیچ وخم سے شجاعت وجفاکشی، جواں مردی وسخت کوشی کا سبق لیتے ہوئے، ایک بے مثال ولازوال عظیم ہستی، جبین انسانیت کا گوہر مکنون، عالی نسب، قریش کا بے مثال فرزند، امام الفقہاء وناصرالحدیث کا لقب پاکر افق عالم میں سماگیاہے، جی ہاں ! وہ شخصیت عالی مرتبت حضرت امام محمد بن ادریس شافعی ؒ کی ذات گرامی ہے۔

درحقیقت آپ ؒفقہ حجازی وفقہ عراقی کے جامع اور مجمع البحرین کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ صحرائی زندگی کے سراب سے آبلہ پاہوکر مہرووفا کی راہوں سے گزرتے رہے اور مشکوۃ نبوت سے قلب کو تازگی، روح کو بالیدگی اور زندگی کو ایمانی روشنی سے منورکرتے رہے اور آپؒ نے علمی وفقہی سرمایہ کوحاصل کرکے قرآن وحدیث کی روشنی میں اجتہادات وقیاسات سے کام لے کر امت کے لئے وسیع شاہراہ قائم کردی اور اس طرح کے گوناگوں اصول وضابطے مقرر فرمائے جو آج اصول فقہ کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی تبحر علمی، ملکۂ اجتہاد وقیاس کی طاقت سے ایسے گوہر نایاب نکالے کہ عقلیں حیراں وپریشاں ہیں اور آج تک دنیائے اسلام ان کے عملی احسانات کی تسنیم وکوثر سے سیراب ہورہی ہے، اور جب آپ نے چمنستان حیات کے سارے بکھرے پھولوں کو یکجا کیا اور ان کو ایک حسین گلدستہ کی زینت بنا دیا تو عرب کے لق ودق صحراء میں ایک خوبصورت باغ ’’فقہ شافعی‘‘کے نام سے منصۂ شہودپر جلوہ گر ہوااور آپؒ کی غیر معمولی کوششوں اور پرعظمت کاوشوں سے معرض وجود میں آنے والااتباع نبوی کا ایک عظیم اقرب الی الحدیث گوشہ، طرز وطریقہ ’’فقہ شافعی‘‘کی اہمیت وافضلیت گلزار ہستی میں آشکاراہے، لیکن اتناکہاجاسکتاہے کہ امام شافعیؒ جب شاہراہ حیات کے پیچ وخم سے گذرے اور فقہ عراقی وحجازی کے چشمہ سے سیراب ہوئے، مسائل زیست کی الجھنوں اور ان کے حل میں مجتہدانہ کردار ادا کیا اوراپنی عقل وفکر کی گہراہی، علم وفقہ کی دقیقہ سنجی، دل پذیر قوت استدلال، خوف وخشیت الٰہی کی لطافت اور اخلاص وحمیت کی لذت سے ان پیچیدہ ونت نئے پیش آمدہ مسائل کی گرہ گشائی کی، پھر آپ کے سوز قلب ودماغ میں یہ حقیقت طشت ازبام ہوئی کہ اجتہاد وقیاس محض نکتہ آفرینی وسخن طرازی کا نام نہیں بلکہ حیات فانی میں پیش آنے والے مسائل کوبصیرت مندانہ ومجتہدانہ نورقرآں ونور نبوت سے چمکانے اور حل کرکے مسائل کو حیات جاودانی بخشنے کی ضرورت ہے تب جاکر توازن واعتدال، کلام الٰہی ونور نبوت کی شمع ’’فقہ شافعی ‘‘کے نام سے فروزاں کی، یہی وجہ ہے کہ حضرت یحییٰ بن سعید القطانؒ کی چشم دید گواہی اس پر مہر صداقت ثبت کرتی ہے، وہ فرماتے ہیں ’’مارأیت أعقل أو أفقہ منہ۔ ۔ ۔ أنا أدعواللہ للشافعی فی صلوتی منذ اربعین سنۃ‘‘(مناقب الشافعی :۱؍۲۳۳) میں نے امام شافعی ؒ سے زیادہ عقلمند اورفقیہ کسی اور کو نہیں دیکھا، میں امام شافعیؒ کے لئے چالیس سال سے اپنی نماز میں دعاکرتاہو

تاریخ کے صفحات اس بات پربین گواہ ہیں کہ امام شافعیؒ  ’’فقیہ واحد أشد علی الشیطان من الف عابد‘‘ کے بے مثال نمونہ اور قابل عمل اسوہ ہیں، ایمان کی تاج زریں پہنے، علوم نبوت کی خلعت اوڑھے افق عالم میں چمکتے دمکتے اور دعوت نظارہ دیتے ہوئے مثل خورشید ہیں، یہی وجہ ہے چشم فلک نے یہ دیکھاکہ آپؒکے قلب وروح میں بدرکامل کی نورانی لطافت تھی، احساسات وشعور میں تسنیم وکوثر کی پاکیزگی اورنظافت تھی، جن کی نغمۂ توحید اور بوئے عشق ووفا سے بزم ہستی کے تاریک گوشے زعفران زار اور لمعہ پاش ہوتے رہے اورآپؒ صہبائے ایمان ویقین کے بادہ کش، خوان حرمین کے ایسے  ریزہ چیں تھے، جن سے انسانیت میں جذبۂ ایمانی موجزن ہوتاہے، مردہ قلوب وتشنہ کام انسان سیرابی پاتے ہیں اور جن کی مخلصانہ رہنمائی ورہبری میں انسانیت کی کشت ویراں چمنستان حیات میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ان کے پاکیزہ نفوس گم گشتہ راہ کے لئے نشان منزل اور چراغ ہدایت ثابت ہوتے ہیں اورجن کے لئے پہاڑوں نے اپنے سر جھکالئے، صحراء نے اپنے وجود کو سمیٹ لیا، کائنات کی وسعتیں ان کے قدموں تلے اپنا وجود کوبیٹھتی ہے اور بزم ہستی کی ہر چیزان کیلئے محو دعارہتی ہے، آپ جیسی نیرتاباں شخصیات پر علامہ اقبال ؒ کی زباں گویا ہے

یہ غازی  یہ تیرے پراسرار بندے

جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی

  دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحراء ودریا

 سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

  آئین جواں مردی حق گوئی وبے باکی

 اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

امام شافعی کے فقیہانہ جذبۂ شوق اور والہانہ علمی ذوق کو دیکھ کر امام مالکؒ کا وہ جملہ آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے جو آپ کے علو مرتبت اور علمی کمال کی واضح دلیل ہے اور جس سے دل وجاں میں فرحت وراحت کی خوشبو پھیلتی ہے کہ، امام شافعیؒ خود فرماتے ہیں :آل زبیر کے ایک شخص میرے پاس سے گذرے اور مجھ سے کہنے لگے کہ یہ بات مجھے بہت گراں گذرتی ہے کہ تم اس فصاحت وذکاوت کے ہوتے ہوئے تفقہ سے محروم رہواور تم کو دینی سیادت حاصل نہ ہو، میں نے کہا کہ تحصیل فقہ کے لئے کس کے پاس جاؤں ؟انھوں نے کہا:ھذا مالک سید المسلمین الیوم، اس کے بعد میں نو راتوں میں امام مالک کی کتاب مؤطا کو یاد کرلیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب میں امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں کہا کہ میں مطلبی ہوں اور میراحاضری کا واقعہ یہ ہے، امام صاحبؒ نے میری باتیں سن کر تھوڑی دیر میری طرف دیکھااور نام پوچھا، میں نے بتایاکہ میرا نام محمد ہے، امام صاحب ؒ نے کہاکہ:یا محمد!اتق اللہ واجتنب المعاصی فإنہ سیکون لک شأن من الشأن‘‘محمد!اللہ سے خوف کرو اور گناہوں سے بچو، کیوں کہ آئندہ تم بہت یاحیثیت بنوگے(ترتیب المدارک:۱؍۳۸۴، ۳۸۵)۔

امام شافعی ؒجب گہوارۂ علم وعرفاں بغداد کی سرزمین مقیم تھے، تو وہاں رونما ہونے والے واقعات سے آپ کی علمی وفقہی صلاحیت ولیاقت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اپنی خصوصی رحمتوں اور توجہات سے نوازاتھا اور آپ کے ہاتھوں ایک عظیم الشان  تاقیامت چلنے والاایک کار خیر وجود میں لاناتھا جو بعد میں چل کر پائے تکمیل کو پہونچا، چنانچہ حسن بن محمد زعفرانی ؒ رقم طراز ہیں کہ’’ امام صاحب کے قیام بغداد کے زمانہ میں ان کی مجلس میں ادباء اور کتاب حاضر ہوکر ان سے فصاحت وبلاغت اور حسن بیان سنتے تھے، میں نے کیا کسی نے ان کے دور میں ان جیسا عالم نہیں دیکھا‘‘۔ اسی طرح ابوالفضل زجاجؒ کا بیان ہے کہ’’جس وقت امام شافعی ؒ بغداد تشریف لائے، وہاں کی جامع مسجد میں چالیس پچاس علمی اور درسی حلقے جاری تھے اور امام صاحب ایک ایک حلقہ میں بیٹھ کر حاضرین سے کہتے تھے قال اللہ اور قال الرسول اور وہ لوگ قال اصحابنا کہتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد مسجد میں ان کے علاوہ کوئی حلقہ باقی نہیں رہ گیا، خود امام صاحب کہتے ہیں کہ میں بغداد میں ناصر الحدیث کے لقب سے مشہور ہوگیاتھا(تاریخ بغداد:۲؍۶۹، تہذیب التہذیب:۹؍۲۸)۔

امام شافعیؒ پر کتابوں کی کتابیں سیاہ کردی گئی ہیں، آپ کی زندگی کے تمام پہلؤوں کو اجاگر کیا گیا ہے، یہاں پر مزید تفصیل کی ضرورت نہیں، بس غالب کی زبانی یہ شعر کہاجاسکتا ہے کہ

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے

علم وفضل کے آسمان پر تاباں ودرخشاں بن کر طلوع ہونے والا یہ آفتاب ایک عالم کو ضیاء پاش کرتا ہوا مہرووفا کی جن جن منزلوں سے بھی گزرااپنے نقوش تاباں ثبت کرتاگیا، اور آخر وہ روح فرسا سانحہ ۲۰۴ھ؁کو جمعہ کی شب پیش آیا کہ شدت غم سے لوگوں کے ہوش وحواس گم ہوگئے، ان کی نگاہوں میں یہ سانحہ اتنا الم ناک تھا کہ گویا آسمان اپنے تمام تر بوجھوں کے ساتھ زمین پرآ گرا اور ہر شی ٔ کو ملیامیٹ کرگیا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگرد رشید ربیع بن سلیمان مراری کابیان ہے کہ امام صاحب کے بعد ہم لوگ ان کے حلقۂ درس میں بیٹھے تھے کہ ایک اعرابی نے آکر سلام کیا :أین قمر ھذہ الحلقۃ وشمسھا؟’’اس حلقہ کے شمس وقمر کہاں ہیں ؟ہم نے بتایا کہ ان اکا انتقال ہوگیا، یہ سن کر وہ پھوت پھوٹ کر رونے لگا اور پھر چلاگیا۔ لیکن یہ حقیقت بر مبنی بات ہے کہ یہ سورج عالم انسانیت کے لئے اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑگیااور کبھی ختم نہ ہونے والا شفق چھوڑ گیا

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

تبصرے بند ہیں۔