شخصیت کی تعمیر میں ’سوچ‘ کا کردار
کامران غنی صباؔ
میں نے محسوس کیا ہے کہ اسکول میں عموماً جن بچوں کو ناغہ کرنے کی عادت ہوتی ہے، وہ کسی نہ کسی بہانے سے اسکول ناغہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ان کے پاس کوئی بہانہ نہ ہو تو بسا اوقات فطری طور پر انہیں کوئی بہانہ مل جاتا ہے۔ مثلاً وہ بیمار پڑ جاتے ہیں، گھر میں مہمان آ جاتے ہیں، کسی رشتہ دارکی شادی ہو جاتی ہے، کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا ہے وغیرہ۔ اس کے برخلاف پابندی سے اسکول آنے والے بچے شاید ہی کبھی بیماری یا کوئی اور عذر لے کر آتے ہیں۔ ایک بار میری جماعت کا ایک بچہ ایک ہی سال میں تیسری مرتبہ شادی کے نام پر چھٹی مانگنے آیا تو میں نے جماعت کے ان بچوں سے جو پابندی سے اسکول آتے ہیں، ہنستے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کے خاندان میں سب لوگ کنوارے ہی رہتے ہیں ؟ آپ لوگوں نے کبھی شادی کے نام پر چھٹی نہیں مانگی؟ میرے اس سوال پر کلاس کے سبھی بچے مسکرانے لگے۔
یہ معاملہ صرف بچوں کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ آپ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ قدرت ہمیں ویساہی ماحول عطا کردیتی ہے، جیسی ہماری فکر ہوتی ہے۔ اسکول میں جو اساتذہ دیر سے آتے ہیں، ان کے پاس روز دیر سے آنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ جھوٹ ہی بولتے ہیں بلکہ اکثر دیر سے اسکول جانے کی وجہ سے، تاخیر سے اسکول پہنچنا ان کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر کئی دفعہ چاہ کر بھی وہ وقت کی پابندی نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے گرد و اطراف کے کسی بھی شخص کے معمولات اور طرزِ زندگی پر غور کریں تو ہم پائیں گے ہر شخص کی زندگی اس کے سوچنے کے انداز کے مطابق ڈھلی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں وہ دوسروں کے اچھے سے اچھے کام میں کیڑا نکالتے رہتے ہیں اور خود کبھی کوئی تعمیری کام نہیں کر پاتے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر اس کی سوچ کے مطابق ہوتی ہے۔ انگریز مصنف جیمس ایلن اپنی کتاب AS A MAN THINKETH (انسان جیسا سوچتا ہے) میں لکھتا ہے:
"As the plant springs from, and could not be without, the seed, so every act of man springs from the hidden seeds of thoughts, and could not have appeared without them.
یعنی جس طرح کوئی بھی پودا بغیر بیج کے نہیں نکل سکتا اسی طرح انسان کا کوئی بھی عمل اس کے دماغ میں افکار کے پوشیدہ بیج کے بغیر ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ پوشیدہ بیج دراصل انسان کے وہ خیالات ہیں جو اس کے شعور اور تحت الشعور میں چھپے ہوتے ہیں۔
آپ غور کریں کہ جو لوگ جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں وہ ہمیشہ پریشان حال رہتے ہیں۔ وہ اپنی ہر پریشانی کو جادو ٹونے کااثر سمجھتے ہیں اور عامل وغیرہ کے چکر میں پڑ کر اپنا ذہنی سکون غارت کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے برخلاف جن لوگوں کو ان چیزوں پر یقین نہیں ہوتا وہ بہت آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پیسے عاملوں کے پاس نہیں جاتے۔
اسلام چونکہ ایک فطری نظام حیات ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و احادیث میں نیت کی پاکیزگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی یہ مشہور حدیث کون نہیں جانتا کہ ’’بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جو وہ نیت کرے۔۔۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بندہ بہت سے نیک اعمال کو انجام دیتا ہے، فرشتے اس کو آسمان پر لے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اعمال کو اس کے نامۂ اعمال سے نکال دو، کیوں کہ اس نے یہ کام میری خوشنودی کے لیے نہیں کیے اور ہاں، فلاں فلاں اعمال اس کے نامۂ اعمال میں درج کر دو، فرشتے عرض کریں گے کہ الہ العالمین! اس بندے نے تو یہ کام کیے نہیں، تب اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گاکہ اس نے دل میں ان کاموں کی نیت کی تھی۔‘‘
بخاری شریف کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں :
’’عمل نیت سے ہی صحیح ہوتے ہیں (یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلہ ملتا ہے)اورہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا، پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کے لئے ہجرت کرے، اس کی ہجرت للہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف ہوگی، اور جو کوئی دنیا کمانے کے لئے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لئے ہوگی۔
یہ بات مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ ایک نوجوان لہو لعب کا عادی ہے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگ بھی اسی قماش کے ہیں۔ اچانک اس میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ اس کا جھکائو مذہب کی طرف ہو جاتا ہے، پھر رفتہ رفتہ وہ اپنے برے دوستوں کی رفاقت ختم کر لیتا ہے اور اس کے حلقۂ احباب میں مذہبی رجحان والے دوستوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے۔ ان ساری تبدیلیوں کی اصل وجہ وہ سوچ ہے جو کسی موقع پر اس کے دماغ کے کسی حصے میں بیج بن کر داخل ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ اسی بیج نے تناور درخت کی صورت اختیار کر لی۔ مشہور لاطینی کہاوت ہے کہ ’’اگر تم اپنی زندگی کو بدلنا چاہتے ہو تو تمہیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا‘‘
انسان کی سوچ اس کی شخصیت پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنی سوچ کے مطابق خود کو ڈھالتا چلا جاتا ہے۔ آپ نے ضرور غور کیا ہوگا کہ بہت سارے لوگ تعلیم یافتہ اور ذہین ہوتے ہوئے بھی سماج کو اپنی ذات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا پاتے کیوں کہ ان کی سوچ میں فیض پہنچانے کا عنصر نہیں ہوتا برخلاف اس کے کچھ لوگ بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور ذہین تو نہیں ہوتے لیکن سماج کو ان کی ذات سے فیض حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ ان کی سوچ میں فیض پہنچانے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
مذکورہ مثالوں کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دین و دنیا کی کامیابی کی کلید ہماری سوچ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی سوچ کے پودے کی آبیاری اتنی احتیاط سے کرنی چاہیے کہ ہماری شخصیت اس بات کی غمازی کرے کہ ہماری سوچ کتنی پاکیزہ، فیض پہنچانے والی اور ارفع و اعلیٰ ہے۔
تبصرے بند ہیں۔