حرم کے آنسو

عبد الکریم ندوی گنگولی

عنوان بالاسے آپ کے خانۂ دل میں اک سوال پنپ رہا ہوگا کہ حرم کے آنسو؟؟آپ کا سوال بھی درست اور ہماراجواب’’ حرم کے آنسو‘‘بھی بجا، جی ہاں، حرم کے آنسو، وہ حرم جس سے نکلنے والی سحر کی گل گشت ہواؤوں کی خوشبوبیک وقت مردہ وزندہ قلوب کے آنگن کومہکادیتی ہے، آج اسی کے پاسپانوں نے اس کے دامن خیر وبرکت میں آنسوؤں کی سوغات ڈال دی ہے، جی ہاں !وہی حرم کہ جس کی طرف ماہ ذی الحجہ کی مبارک ساعتوں میں محبتوں وعقیدتوں کا سہراسجائے دیوانہ وار تیزگام قافلے گردش میں آنے لگتے ہیں، آج اسی حرم کے درودیوار، دشت وجبل، گلیاں اور سڑکیں پھوٹ پھوٹ کر رورہی ہیں، اور اس کا ذرہ ذرہ ماتم کناں اور نالہ وشیوں میں مشغول ہے، وہی حرم جس کے بام ودر راہ عشق وجنوں کے مسافروں کے بے تاب نالوں، لبیک اللہم لبیک کی والہانہ صداؤں سے گونج اٹھتے ہیں، آج اس کا خرمن بدلتے موسم کی بے تاب بجلیوں کی زد میں ہے، وہی حرم جوحضرت ابراہیمؑ واسماعیل ؑکی لافانی ولاثانی قربانیوں سے مرکز روحانی بن چکاتھا، آج اپنوں ہی کی خرمستیوں اور سیہ بختیوں سے اس کا دامن تقدس تارتار ہوچکا ہے اور سرورکونین ﷺ کا وہ منبر ومحراب جہاں سے ہمیشہ اہل حق کو انصاف اور اہل شر کو سزا ملتی تھی، آج اسی منبر ومحراب سے نااہلوں اور ظالموں کو صحابیٔ رسول حضرت عمر ؓ کے اوصاف حمیدہ ’ ’محدث ملھم‘‘کے اوصاف سے پکاراجارہاہے، وہ سرزمین جس کی جدائی پرجذبات محبت کی رومیں بہتے ہوئے زبان رسالت سے بے ساختہ یہ الفاظ جاری ہوئے تھے’’واللہ إنک لخیرأرض اللہ وأحب أرض اللہ إلی اللہ ولولا أنی أخرجت منک ما خرجت‘‘(بخاری ومسلم)بخدا! اے سرزمین مکہ! تو خدا کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے زیادہ پیاری زمین ہے، اگر مجھے بے گھر نہ کیا جاتا تو میں یہاں سے نہ جاتا، آج وہی ارض مقدس سرد مہری وغفلت پروری کے لبادہ میں ملبوس انسانوں اور آرام طلبی وعیش پسند ی کے خوگر پاسبانوں کی بے ایمان زندگی پر ماتم کناں ہے۔

مشہور ومعروف صحافی جمال خاشقجی کی شہادت کو لے کرنہ میں استاد گرامی ٔقدر حضرت مولانا سیدسلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم کی تائید کررہاہوں اور نہ ہی ان کے خلاف زہر افشانیاں کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملارہا ہوں، پس روزبروزمختلف النوع مضامین کی بوچھار سے محوپریشاں ہوں، کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ہے امت مسلمہ پرا ٓج بھی حقیقت ناشناسی وناعاقبت اندیشی کے وہی سیاہ گھنے بادل منڈلارہے ہیں ؟جوکبھی ماضی میں ذلت ونکبت کا سبب تھے، اور آخر کیاوجہ ہے کہ جبہ ودستار میں ملبوس افراد حقیقت حال کو آئینۂ انصاف سے کیوں نہیں دیکھتے ؟کیوں وہ بے تکی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ابھی دوران مطالعہ ایک صاحب کا مضمون نظروں سے گذرا، ایسا لگ رہا تھا کہ حضرت کے عقل کے سارے سوتے خشک ہوچکے ہیں اور ریال کی جھنکار نے ان کے دل ودماغ پر بہت گہرا اثرچھوڑا ہے اوروہ صرف اور صرف حواس خمسہ سے عاری انسانی ایک مجسمہ ہیں، وہ بڑی دریدہ دہنی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے گذرتے ہیں کہ ’’میں بھی پڑھ کر سوچ رہاتھا کہ بیچارے ہندوستانی مسلمان بزدل اس قدر واقع ہوئے ہیں کہ شدت پسند ہندو تنظیموں کے ہاتھوں جان دے دیتے ہیں، سینٹرل یونیورسٹی سے بچے غائب کردئیے جاتے ہیں اور وہ اف تک نہیں کہتے اور وہ صاحب چلے ہیں طرم خان بننے، ارے بھائی لائک، کمینٹس اور شئیر کے لئے جذباتی باتیں لکھ دینا بہت آسان ہے، یہ بھی دیکھو کہ جس ملک میں تمہاری حیثیت تو ردی کے بھاؤ کے برابر بھی نہیں، سیاسی طور پر غلام ہیں اور باتیں اتنی بڑی کہ ہٹلر بھی سن لے تو شر ماجائے‘‘ذرہ آپ ہی بنظر انصاف دیکھیں کہ کیان بے سروپا باتوں سے لکھنے والے کی حیثیت اور اس کے مقام کا اندازہ نہیں ہوتا اورمزید بے شرمی کی آخری حد کو پار کرتے ہوئے بڑی آسانی کے ساتھ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مجھے جمال خاشقجی کی موقت پر بہت افسوس ہے، مجھے شاک بھی لگا ہے کیوں کہ اس قسم کے حماقت کی توقع مجھے سعودیہ جیسے میچیور ملک سے ہرگز نہ تھی‘‘۔

سعودی عربیہ کی موجودہ صورت حال، موجودہ بادشاہ محمد بن سلمان اور امام حرم شیخ سیدیس کے بیانوں سے یہ بات ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ غیرت اسلامی تاریخ کے تاریک ترین قبرستان میں دفن ہوچکی ہے اور ان کے عقلوں پرنفس پرستی وریال پرستی کے تالے پڑے ہوئے ہیں اور عیش وتلذذ کے شکار ہوکر ان کے سروں پر دوسروں کا تاج، گردنوں میں غلامی کا طوق، زبانوں پر دوسروں کی تعریف، کانوں میں دوسروں کی فتوحات کے نغمے سجے ہوئے ہیں، اس پر مزید ظلم یہ کہ اپنے تخلف وانحطاط اور پچھڑے پن کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، گویا قرون مظلمہ کے مثل آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، عقل وخرد پر مغلوبیت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں، ضمیروں نے اپنا کام کرنا چھوڑدیا ہے۔

من مانیوں کا راج ہے سارے سماج میں  

جیسے کوئی عہد ہے نہ پیمانہ زندگی

یہ میں بات واضح کرتا چلوں کہ خانۂ کعبہ مسلمانوں کا روحانی مرکز اور اس کے پاسبانوں کی اہمیت بھی اسی قدراعلی وافضل ہے، اگر کوئی اس کی طرف بری نظر سے دیکھتا ہے تو دنیا کے ہر مسلمان کا جذبۂ ایمانی شعلہ ٔ جوالہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور وہ خانۂ کعبہ اور اس کے پاسبانوں کی حفاظت میں تن من دھن کی بازی لگادیتاہے، قربانیوں کو پیش کرتا ہوا بے خطر نار انتقام میں کود پڑتا ہے، چاہے وہ مسلمان بے نمازی ہی کیوں نہ ہو، اور اگر حرم کے پاسبانوں کی شکم پروری اور تن آسانی کودیکھتا ہے تو مایوسی وناامیدی کے بحر بے کنار میں ڈوب جاتا ہے اور فکر وسوچ کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے، ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس کی ساری محبتوں وعقیدتوں پر اوس پڑچکا ہے اور اس کی تازگی کے تمام غنچے مرجھاچکے ہیں، ان ناگفتہ بہ حالات میں ایک محرر اورمقرر اپنے دردانگیزنالوں اوردل سوزجذبات کا اظہار کرتا ہے اور شریعت کی روشنی میں زمانہ سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ظالم کی پکڑ اور مظلوم کی دادرسی ہو، ظالم کوسزا اور مظلوم کی پرساں حالی ہو، اگر کوئی اس اقدام کوبیوقوفی اور کم عقلی سے تعبیر کرے تو اس سے متعلق بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں بقول حفیظ میرٹھی:

پہنے ہوئے ریشم وکمخواب کا کفن

یاران بے ضمیر کی بے جان زندگی

جمال خاشقجی کے قتل کی حقیقت طشت ازبام ہوچکی ہے، قاتلوں کے چہرے منظرعام پر آرہے ہیں ا ور یہ حقیقت بھی سامنے آرہی ہے کہ ان پر ایسے کوہ ِ ظلم وستم ڈھائے کہ کوہستان بھی ریگستان میں تبدیل ہوجائے، امریکی نوازوں اور اعدائے اسلام کے پرستاروں کے اس نازیبا اور ناجائز حرکت سے افق ِعالم پر ستارے حیران وششدر رہ گئے کہ لوگ انسانیت کے نام پر خودانسانیت کا خون چوس رہے ہیں اور ماہتاب وآفتاب بھی ان کی چیرہ دستیوں، ستم رانیو ں پر انگشت بدنداں ہیں کیونکہ کہ یہ لوگ حکومت کے تخت پر جلوہ افروزہوکر، اس کے اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ کراور انصاف کی چادر کو چاک چاک کر کے اسلام کی شبیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں، جس سے چشم ِ فلک بھی آنسوں بہانے پر مجبور ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ آسمانوں پر اندھیراسا چھاگیاہے، زمین پرانسانیت شرمسار ہوگئی ہے اور درندوں کی ٹولی میں خوشی کی لہر یں امنڈ پڑیں ہیں اور آج مسجد حرام اپنے پاسبانوں میں خوف خدامیں بہنے والے آنسوؤں، حب رسول اور فکر آخرت سے سرشار جسموں کے دید کا منتظر ہے، پر افسوس ! انہوں نے خواہشات نفسانی کی تکمیل کو اپنامرکز فکر بنالیا، مال وزر کی محبت، عیش وعشرت کی چاہت، حکومت وسیادت اور عہدوں کی ہوس نے انہیں اپنے دامن میں دبوچ لیا، غیروں کی غلامی نے انہیں ننگاناچ نچایااور عیش پرستی کے باعث ایمان وضمیر کا سودا تک کرنے پر مجبور کردیا، بہر حال بات لمبی ہوجائے گی، سردست صرف اتنا کہ یہ امریکہ نوازی اور اس کی ذہنی وفکری غلامی کے سوا کچھ نہیں، خواہ اپنوں کا کتنا ہی خون کیوں نہ بہہ جائے اور اپنوں کے کتنے ہی گھر جل کر تباہ ہوجائیں۔

 اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مملکت سعودیہ کے تخت شاہی پر جلوہ افروز محمد بن سلمان کی سیاسی سرگرمیوں سے حرم کا ریزہ ریزہ نوحہ خواں ہے اورعقل ورطۂ حیرت میں ہے کہ آخریہ گل گوں انسان انسانیت وشرافت کے قبائیں اتارکر کس شرمناک درندگی پر اتر آیاہے اوراس کانیک صالح، حق گو وحق پرست علماء کرام کو بے جا قیدوبند کی صعوبتوں میں ڈھکیل دینا یہ ایک شرمناک وقابل مذمت عمل ہی نہیں بلکہ حجاج بن یوسف کے زمانہ میں کئے جانے والے مظالم کے عین مشابہ ہے، جو تاریخ کا بدترین ومکروہ ترین فعل ہے، گویاوہ امریکہ نوازی اور اس کے حکم کی پیروی میں ہر دن شرارتوں کے نئے گل کھلارہاہے، ظلم وستم کے نئے پینترے بدل رہا ہے، اب حالت ایسی بن چکی ہے کہ اسے جبر وتشدد کے زہر میں مئے نشاط کا مزاآنے لگا ہے اور ظلم وجور، بغض وحسد کی بھٹی میں تبائی ہوئی تلواریں انسانیت کے خلاف برہنہ ہوچکی ہیں اور محمد بن سلمان اور اس کے ہمنواؤں اوران کی ریشہ دوانیوں پرتف ہو!اس پس منظر میں طائف کے موقع پر دولت کی فراوانی میں ڈوبے ہوئے سنگ دل، متکبرلوگوں کی رحمۃ للعالمین کی ذات اقدس پر ڈھائے گئے مظالم کی وہ داستان درد والم کانوں میں گونج رہی ہے اورشاید اہل طائف کی دیوانگی اور اخلاق باختگی جیسامنظر عربوں نے کبھی نہ دیکھاہوگا، وہی دیرینہ قصے وارثین نبیﷺ کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں اور ان پر ظلم وجبر کے تازیانے برسائے جارہے ہیں، محو حیرت ہوں کہ کیوں نہیں ان زرپرست جاگیرداروں کی محل سرائیں ان پر آگریں ؟کیوں نہیں زمین پھٹ پڑی کہ یہ ان سماگئے ہوتے؟کیوں نہیں کوئی طوفان، کوئی زلزلہ، کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا کہ وہ اسی میں رل مل گئے ہوتے؟!۔یہ وہ نالہائے درد اور اشکہائے الم تھے اور خون جگر میں ڈوبے ہوئے دل صد پارہ کے وہ ٹکڑے تھے جو قرطاس غم والم پر سجا کر آپ کی نذر کئے گئے۔

میرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت بھی ہے کہ تاریخ اسلامیہ کے اوراق مسلم حکومت کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، جس کی سرخیوں میں امن آشتی، جس کی سطروں میں صلح وصفائی اور جس کے جملوں سے محبت ومؤدت اور بھائی چارگی کاجام چھلکتا ہے اور کتب تاریخ میں ان کی وفاداری وغم خواری، جذبۂ ایثار، خالص دوستی اور عدل انصاف کی خوشبو آج بھی مشام جان کو معطر کررہی ہے، کیونکہ اس حقیقت سے کسی بھی فردِ بشر کو مجال ِ انکار نہیں کہ مسلم بادشاہوں نے اپنے مذہب اسلام کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ میں سرفروشی، عروج وترقی اور لوگوں کے مابین مختلف المذاہب ہونے کے باوجود انسانیت وانسانیت نوازی میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اس کی نظیر تاریخ ِعالم میں ملنی مشکل ہے اور انہوں نے جس شعلۂ عشق ووفا میں ڈوب کر، سراپا مردانِ باصفا بن کردین اسلام کو جس اونچائی اور بلندی پر پہنچایا تھا اور اپنے خونِ جگر سے اس کی آبیاری کرکے ثمر آور اور پھلدار بنایا تھا، کتب ِ تاریخ کے صفحات آج بھی ان کے کارناموں پر شاہد ہیں۔

ہائے یہ کیسی تیرہ وتاریک فضاہے، یہ کیسا دلدوز سماں ہے، اہل حرم وپاسبان حرم کا یہ کیسا سفاکانہ سلوک ہے، انسانی فطرت کے تضادات کا یہ کیسا حیرت ناک پہلو ہے، جس سے خود حرم کی آنکھیں نم ہیں اور امت اسلامیہ اپنے مرکزروحانی اور اس کے پاسبانوں کی طرف سے پھیلائے گئے مسموم فضاسے پریشاں ہیں جنہوں نے اسلامی نظریۂ حیات کا قلادہ اتارپھینک کر امریکہ نوازی واعدائے اسلام کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں پر سجالیا ہے اور ان شکیب رباونامساعد حالات اور جبروتشدد کے اندوہناک واقعات سے دلوں سے بیداریٔ نوکی امیدیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں اور جمال خاشقجی کی شہادت سے اس حقیقت کی پردہ کشائی ہوئی ہے کہ اہل عرب وشاہان عرب بالخصوص موجودہ سربراہان مملکت سعودیہ عیش وطرب کی شادمانیوں میں مگن عقل سلیم وجوہر حق سے عاری زندگیوں سے شاداں وفرحاں، گہری نیند میں سرگرداں اور خواب خرگوش میں سرمست ہیں، جنہیں اپنی شکم پروری ومفادپرستی اور شادمانی وخوش حالی کے سوانہ اپنوں کی فکر ہے اور نہ دین اسلام کی، اب ان پاسبان حرم سے امت مسلمہ پر سایہ فگن یاس انگیز ودردانگیز بادل کے چھٹ جانے اور موسم خزاں میں شاخ نازک پر شاخ تازہ کی امید بے جااور انجام گلستاں کی پیہم بربادی وبدنامی یقینی معلوم ہوتی ہے۔

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام ِ گلستاں کیا ہوگا ؟

یہ الگ بات ہے کہ رب کعبہ جس طرح یہودیوں ونصرانیوں اور اعدائے اسلام کی دشنام طرازیوں اور ناپاک سازشوں سے پہلے بھی حفاظت کرتاآرہا ہے، آج بھی اور کل قیامت تک بھی حفاظت کرتا رہے گا، مگر بے وفا وبے شعار حکمرانوں وپاسبانوں سے نسیم سحر کاانتظاربے کار معلوم ہوتاہے، کیوں کہ ایک طرف قدم قدم پر ننگ دین، ننگ ملت غداروں کی ضمیر فروشی کے بھبکے اور شکست وہزیمت کے رستے زخم بھی ہیں تو دوسری طرف دل ودماغ پر ساون کے بادلوں کی طرح عیش پرستی وتن آسانی کی گھٹائیں بھی چھائی ہوئی ہیں، اسی طرح ایک طرف ان کی منافقانہ روش زندگی، سرمایہ دارانہ خسیس ذہنیت، ان کی سنگ دلی وسرکشی اور اخلاقی گراوٹ بھی طشت ازبام ہے تو دوسری طرف حیاسوز کردار کی پستی، اخلاق سوز تنزلی اظہر من الشمس ہے، لیکن قنوطیت ویاس کی اس دہلیز پر بھی ہمارے دلوں میں امید ِصبح نو کی کرنیں روشن ہیں، کیوں کہ مایوسی کفر ہے اور یہ بھی حقیقت برمبنی امر ہے کہ ہر شام اپنے ساتھ نورسحر کی نوید لاتی ہے۔

طول غم حیات سے نہ گھبرا اے جگر    

ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔