شیخ گلاب: نیل آندولن کے ایک نایک
نایاب حسن
تاریخ بنتے بنتے بنتی ہے؛لیکن اگر اسے حافظوں میں زندہ رکھنے،زبانوں پر دُہرانے اور اوراق و کتب میں محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کی جائے،توپھر بتدریج وہ تاریخ یا تومسخ ہوجاتی ہے یا کچھ سے کچھ بنادی جاتی ہے۔آزادیِ ہند کی تاریخ میں ’’چمپارن ستیہ گرہ‘‘کی تحریک کوایک نمایاں ترین مقام حاصل ہے اورآزاد ہندوستان کا تقریباً ہر پڑھالکھا انسان اس سے واقفیت رکھتاہے،البتہ اس پوری تحریک کو صرف ایک شخص کے دائروں میں سمیٹ دیاگیاہے اور یہ کام ہندوستان کے ’’دانشوران ومؤخین ‘‘نے کیاہے،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی چمپارن ستیہ گرہ کا ذکر ہو،توزبانوں پرصرف گاندھی جی کا نام ہوتاہے یا دوچار اورلوگوں کا، اس پر طرہ یہ کہ یہ دوچار لوگ بھی وہ ہیں ،جویا تواس تحریک سے وابستہ ہی نہیں تھے یا انھیں ان کے حقیقی کردار سے بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چمپارن ستیہ گرہ تحریک مہاتما گاندھی کی ملک گیر قیادت کا نقطۂ آغاز تھی اور وہیں سے انھیں وہ شروعات ملی،جس نے آگے چل کر ان کی شخصیت کوابھارااورسیاسی قیادت اور آزادیِ ہند کے لیے جدوجہد کے حوالے سے عوامی حمایت و تاییدسے ہمکنار کیا،اس سے پہلے نہ گاندھی مہاتما تھے نہ باباے قوم اور نہ قومی سطح پر ان کی قابلِ ذکر سیاسی شناخت تھی؛لیکن صرف چمپارن ستیہ گرہ اور گاندھی جی کا ذکرمکمل تاریخ نہیں ہے،اس کے آگے پیچھے کے احوال وسانحات کیاتھے،مقامی سطح پر کن لوگوں نے انگریزی جورواستبدادکے خلاف آوازۂ احتجاج بلند کیاکہ اس کی گونج افریقہ میں بیٹھے گاندھی تک پہنچی اور برطانوی شہنشاہی کے ایوان ہلنے لگے،انھیں جاننابھی نہایت ضروری ہے،یہ بھی انصاف پسندی نہیں ہے کہ ایک پوری تحریک کو محض ایک یا چند ایک شخصیتوں کے گرد سمیٹ کر رکھ دیاجائے ،نہ یہ چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے ساتھ انصاف ہے،نہ وہاں کے ان لوگوں کے ساتھ جنھوں نے انگریزی حکومت کے دوران ناجائز ٹیکس وصولی سے لے کر اپنی زمین جائیدادتک گنوائی اور سالہاسال پسِ دیوارِ زنداں رہے۔
چمپارن ستیہ گرہ کی اس تحریک سے متعلق ایک اہم ترین نام شیخ گلاب کاہے، بعد کے دنوں میں نہ تو خود ان کے ورثاواہلِ خاندان نے ان کی قربانیوں اور کارناموں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور نہ چمپارن ستیہ گرہ پر لکھنے والے مؤرخین نے ان کے ذکر کو خاطر خواہ جگہ دی؛حالاں کہ اس تحریک سے متعلق جو اصل حقائق ہیں ،انھیں جاننے اور پڑھنے کے بعد پتا لگتا ہے کہ گاندھی جی کا چمپارن میں ورودتو بہت بعد میں ہوا،اس سے پہلے کم ازکم دودہائیوں سے وہاں کے اصلی باشندے اپنے عزم و حوصلے اور جذبۂ قربانی کی بدولت انگریزی حکومت سے برسرِ پیکار تھے،شیخ گلاب وہاں کے ہندومسلم تمام کسانوں کے متفقہ نمایندہ اور رہنماتھے اور ان کے ساتھ کئی دیگر ہندوومسلم مقامی لیڈران شریکِ عمل تھے،ان لوگوں نے گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک سے پہلے ہی نیل کی کھیتی کے نام پر انگریز ی حکومت کے جبر سہے، ناحق ظلم و زیادتی کو برداشت کیا، ناجائز ٹیکس وصولی کی مارسہی،کھیتی کرنے کے لیے پانی تک کا ٹیکس ان سے وصول کیا گیا، جب ان لوگوں نے حکومت کی مخالفت کی،تو اکیلے شیخ گلاب کی 60؍بیگہہ زمین قرق کرلی گئی، انھیں پانچ سال تک سلاخوں کے پیچھے رکھاگیا،اکیلے انھیں ہی نہیں ؛بلکہ ان کے گھر کے دیگر افراد بھی سخت ترین سرکاری مظالم کا شکار ہوئے،گاندھی تو ان تمام سانحات کے گزرنے کے بعد چمپارن پہنچے تھے،ان کے لیے زمین بھی شیخ گلاب اور ان کے ساتھیوں نے ہی ہموار کی تھی۔یہ صحیح ہے کہ گاندھی جی کی چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے بعدچمپارن کے کسانوں پر سے اس جبروظلم کا سلسلہ تھما،جو لمبے عرصے سے جاری تھا،مگراصل حقیقت تویہ ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے خود چمپارن کے لوگو ں اور وہاں کے مقامی رہنماؤں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں ۔آزادی کے بعدبہاریا مرکز میں برسرِ اقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے چمپارن ستیہ گرہ تحریک سے جڑی چیزوں ،افراد و شخصیات سے متعلق کچھ نہ کچھ کام کیاہے،مگر افسوس ہے کہ اس پورے منظرنامے پر شیخ گلاب کاکہیں نام تک نہیں ہے،اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے یاکیاتھی،اس کی وضاحت چنداں ضروری نہیں ،کہ اب توآزادیِ ہند کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی پوری تاریخ ہی دوبارہ لکھی جارہی ہے،جس میں مسلمان مجاہدینِ آزادی اُسی طرح حاشیے پر رکھے جارہے ہیں ،جس طرح موجودہ وقت میں مسلمان اس ملک کے حاشیائی شہری بنادیے گئے ہیں ۔
ایسے تعصب زدہ ماحول میں افروزعالم ساحل جیسے شہیدِ جستجوصحافی و سکالرکاوجود ہمارے لیے بساغنیمت ہے،موجودہ صحافتی منظرنامے پران کا نام خاصا جانا پہچاناہے ،ہندی واردودونوں زبانوں میں مختلف سلگتے ہوئے سماجی و سیاسی موضوعات پر ان کی بصیرت افروز تحریریں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ، بطور آر ٹی آئی ایکٹوسٹ بھی ان کی ایک منفرد شناخت ہے،قلم میں دھارہے اور کسی بھی موضوع پرمکمل معلومات حاصل کرنے کے بعدہی لکھتے ہیں ،یہی خوبی انھیں ان کے بہت سے معاصرین واَقران میں ممتاز کرتی ہے۔انھوں نے ایسے وقت میں چمپارن ستیہ گرہ تحریک سے متعلق بعض گم شدہ حقائق کوسامنے لانے کی کوشش کی ہے،جبکہ بہار حکومت کے علاوہ مرکزی حکومت بھی اس تحریک کا صدسالہ جشن منانے کی تیاریاں کررہی ہیں ۔گوکہ یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا، مگریہ وقت بھی اس موضوع سے متعلق اصل حقائق کو منظرِعام پرلانے کے لیے نہایت موزوں ہے؛کیوں کہ ابھی پورے ملک کی زبان پر چمپارن ستیہ گرہ کاذکر چل رہاہے اور لوگ اس کے مختلف پہلووں پر لکھ اور بول رہے ہیں ۔محترم افروزعالم ساحل کی مرتب کردہ کتاب’’شیخ گلاب:نیل آندولن کے ایک نایک‘‘کے اوراق کھنگالے توبہت سے ایسے حقائق سے روبرو ہونے کا موقع ملا،جن سے کم ازکم میں تویکسر ناواقف تھا، ان کی یہ کتاب قامت میں کہتر ہے ،مگر جن حقائق کو انھوں نے اُجالنے کی کوشش کی ہے ،وہ اس کی قدرقیمت کوبہتر سے بہتر بنانے والے ہیں ،تفتیشی صحافت اور تحقیق و اکتشاف ان کا پسندیدہ موضوع ہے،سو انھوں نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ کوئی بات بغیر حوالے کے نہ ذکرکی جائے۔
چنانچہ کل96 صفحات میں سمٹی اس کتاب (یاکتابچے)کو مرتب کرنے کے لیے انھوں نے اردو،ہندی اور انگریزی کے سو سے زیادہ مراجع و مصادر کو کھنگالا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف شیخ گلاب کی قربانیوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے، بلکہ چمپارن ستیہ گرہ تحریک کواس کی اصل اور مکمل شکل میں دیکھنے کا بھی موقع ملتاہے۔ پوری کتاب شروع سے اخیر تک معلومات کا خزانہ ہے۔ اس کوپڑھتے ہوئے ایک بات کا خاص طورپر احساس ہوتاہے کہ کس طرح ہمارے ملک میں تاریخ مسخ کرنے کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے، افروزعالم ساحل کی اس بات میں کتنی سچائی ہے کہ’’شیخ گلاب کی وراثت اور سرکارکے ذریعے انھیں نظرانداز کیے جانے کی کہانی آج بھی چمپارن کے چپے چپے میں بکھری ہوئی ہے،سچ تویہ ہے کہ عظیم شخصیتوں کے’’گلیمرائزیشن‘‘کے اس دورمیں ہم ملک کے ان سچے سپوتوں کو بھول چکے ہیں ،جنھوں نے نام کی پروا کیے بغیر غریبوں اور مظلوموں کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا‘‘۔(ص:88)
بلاشبہ افروز صاحب لائقِ صدمبارک باد ہیں کہ انھوں نے نہایت مناسب موقعے پر تاریخِ آزادی کے اہم ترین،مگر گمنام گوشے کو لوگوں کے روبرولانے کی کوشش کی ہے،ان شاء اللہ ان کی یہ کوشش بارآورثابت ہوگی،چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ شروع ہوگا اور شیخ گلاب سمیت شیتل رائے، حافظ دین محمد،حافظ محمد ثانی،ہرونش سہائے،بطخ میاں انصاری اورچمپارن ستیہ گرہ تحریک کے دیگر ارکان و کارکنان اور جنگِ آزادی کے جاں بازسپوتوں کے کارناموں اور ان کی حقیقی قربانیوں سے آگاہی کا سلسلہ جاری ہوگا۔چمپارن ستیہ گرہ تحریک؛بلکہ ہندوستان اور خاص طورپر آزادیِ ہند کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کواس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے؛کیوں کہ اس حوالے سے جو کچھ ہم اب تک سنتے یا پڑھتے آرہے ہیں، وہ آدھی سچائی ہے اور آدھی سچائی کے ساتھ کسی حقیقت پسند انسان کوکبھی سکون نہیں ملتا،سواس کتاب کو ضرورپڑھیے؛ تاکہ پوری سچائی کا علم ہو،ساتھ ہی یہ بھی جان سکیں کہ ایک شخص کے بڑابننے میں کتنے دوسرے عظیم اشخاص کی قربانیاں شامل ہیں ۔
کتاب میں بعض جگہ کمپوزنگ کی خامیاں ہیں، امید ہے انھیں اگلے ایڈیشن میں دورکردیاجائے گا، طباعت نہایت خوب صورت اور دیدہ زیب ہے، کتاب کی نشر واشاعت کا بار ’’انسان انٹرنیشنل فاؤنڈیشن ،نئی دہلی ‘‘نے اٹھایاہے،قیمت 120؍روپے رکھی گئی ہے۔کتاب ابھی ہندی زبان میں ہی دستیاب ہے،موضوع کی غیر معمولی اہمیت کا تقاضاہے کہ جلد ہی اردو، انگریزی و دیگر زبانوں میں بھی اس کتاب کے ترجمے ہوں ؛تاکہ اس کا دائرہ ٔ رسائی زیادہ سے زیادہ وسیع ہو، نیز ہم امیدکرتے ہیں کہ مرتب موصوف اس موضوع سے متعلق مزیداُن تفصیلات کو سامنے لائیں گے، جودورانِ تحقیق انھیں دستیاب ہوئی ہیں ۔
تبصرے بند ہیں۔