ڈاکٹر ذاکر نائک کی بزدلی

حفیظ نعمانی

کسی شہری کے لئے یہ آخری درجہ کی بات ہے کہ اس کے ملک کی حکومت اس کا پاسپورٹ منسوخ کردے۔ شراب کے بہت بڑے تاجر اور ہوائی جہازوں کے مالک وجے مالیہ کا پاسپورٹ اس لئے منسوخ کیا گیا تھا کیونکہ وہ ملک کے بینکوں کا ہزاروں کروڑ روپئے نہ دینے کی وجہ سے لندن بھاگ گیا تھا۔ اور آج سواسو کروڑ ہندوستانیوں میں جو باشعور ہیں وہ اس سے نفرت کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر ذاکر نائک جو لگ بھگ 20  سال سے ’’مفسر قرآن اور داعی اسلام‘‘ کی حیثیت سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اپنی عظمت کا پرچم لہرا رہے تھے انہوں نے کیوں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان سے عمرہ کرنے جائیں گے اور فرار ہوجائیں گے؟

ہمارے محدود علم کی حد تک انہوں نے جو کچھ ہندوستان میں کیا وہ دستور کے اندر کیا۔ اپنے مذہب پر عمل کرنا اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا ہندوستان میں اتنا عام ہے کہ نہ جانے کتنی عیسائی مشینریاں ہندوستان میں اربوں روئے خرچ کررہی ہیں  اور آج سے نہیں وہ تو 15  ویں صدی سے جب سے واسکوڈی گاما کے بتائے ہوئے راستے پر عیسائی ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں جو مسلمان ہیں ان میں بہت بڑی تعداد ان کی ہے جن کے بزرگوں نے اسلام کو ہر طرح سے دیکھا اور جب وہ مطمئن ہوئے تو اسلام قبول کرلیا۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کو ہم نے دیکھا تو نہیں تھا اس لئے ملاقات کا کیا سوال؟ لیکن جب سے ٹی وی میں ان کے چینل سے بار بار ان کو سنا ہے اس وقت سے ہم نے بھی محسوس کیا کہ اپنی عمر میں ان سے زیادہ قرآن ہی نہیں انجیل اور ہندو دھرم سے واقف ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ دس ہزار کے مجمع کو بھی جس میں ہر مذہب اور ہر طبقہ اور ہر سطح کے لوگ ہوتے تھے مٹھی میں بند کرلیتے تھے اور جس طرح کلام پاک کی سورۃ رکوع نمبر اور آیت نمبر بتاتے جاتے تھے اور سانس نہیں لیتے تھے۔ یا جو ہر اعتراض کا جواب ایسے دیتے تھے کہ جیسے وہ صرف اس کی تیاری کرکے آئے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ شرف بہ اسلام ہوتے تھے اور جو مسلمان ہوتے تھے ان کے دماغ روشن ہوجاتے تھے۔

ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا غلط کیا۔ اور اگر حکومت کے نزدیک غلط کیا تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ موجود ہے۔ انہوں نے واپس نہ آنے کا فیصلہ اس دن نہیں کیا جس دن وہ گئے تھے وہ برابر یہ کہتے رہے کہ وہ آئیں گے۔ پریس کانفرنس بھی کریں گے۔ لیکن ہندوستان میں جو کچھ ہوا اس کی خبروں سے وہ رفتہ رفتہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اب وہ ہندوستان نہ جائیں ۔ اور یہ نہیں سوچا کہ انہوں نے صرف اپنی ایک ذات کو قانونی جھمیلوں سے بچانے کے لئے اور جیل سے دور دور رہنے کے لئے جو فیصلہ کیا اس نے اسلام کو کتنا نقصان پہونچایا ہے؟ اور جو بیس سال انہوں نے کیا تھا جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے وہ محبوب ہوگئے تھے اس سب کو مٹی میں ملا دیا۔

اگر ڈاکٹر ذاکر نائک کو کسی کے برابر کھڑا کیا جاسکتا ہے تو وہ مولانا مودودی ہیں جو اکیلے اُٹھے اور صرف اپنے قلم کے اور اپنی دعوت کے بل پر دنیا پر چھا گئے لیکن جب پاکستان میں ان کو جیل بھیجا گیا تو اطمینان سے آخری پان کھاکر سب کو خدا حافظ کہہ کر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے چلے گئے اور جب انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو انہوں نے نہ معافی مانگی نہ ایوب خاں سے کہا کہ میں پاکستان سے چلا جائوں گا اور نہ خود رحم کی درخواست کی نہ کسی کو اس کی اجازت دی اور انہیں پھانسی کے انتظار میں کوٹھری میں پہونچا دیا گیا وہ کوٹھری کیا ہوتی ہے اس کا علم صرف ان کو ہے جنہوں نے وہ کوٹھریاں دیکھی ہیں ۔ پھانسی تو پانچ منٹ کا کھیل ہے لیکن کوٹھری میں رہنا ہر منٹ پھانسی لگنا ہے۔ ہمارے ایک دوست کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی اس وقت وہ 95  کلو کے تھے 20  دن کے بعد ہم نے انہیں دیکھا تو وہ 55  کلو کے رہ گئے تھے۔ آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ مسٹر بھٹو کو جب کوٹھری سے پھانسی کے لئے لے جایا گیا تھا تو ان کی ٹانگیں زمین میں گھسٹتی ہوئی گئی تھیں ۔ (یہ صرف صدام حسین تھے جو شیر کی طرح پھانسی کے تختہ پر کھڑے تھے)

پاکستان میں ایوب خاں کے دَور میں مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اور انہیں پھانسی کی کوٹھری میں پہونچا دیا گیا۔ اس خبر کا عام ہونا تھا کہ پورے عالم اسلام نے ایوب خاں پر دبائو ڈالا اور ہندوستان سے شاید پچاس لاکھ پوسٹ کارڈ پہونچے غرض کہ ایوب خاں گھبرا گئے اور مولانا کی سزا 14  سال کردی گئی اور پھر کچھ دنوں کے بعد مولانا گھر آگئے اور دعوت کا کام اسی انداز سے ہونے لگا۔ مولانا اکیلے نہیں  تھے پوری جماعت کے اہم حضرات ان کے ساتھ جیل میں تھے۔

ہندوستان میں  جب  ایمرجنسی لگی تو جماعت اسلامی کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ ہم نے کسی ہندو لیڈر کے بارے میں نہیں سنا کہ اسے عام حوالاتیوں کے ساتھ رکھا گیا ہو، سب عیش کررہے تھے مکھن اور انڈے کھا رہے تھے لیکن جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی کو نینی جیل الہ آباد میں رکھا گیا ان پر جو گذری وہ ہم بھی جانتے ہیں اور 19  مہینے انہوں نے وہ سختیاں جھیلیں لیکن کوئی فریاد نہیں کی اور نہ صفائی دی کہ سیاست سے کیا تعلق؟

پنڈت نہرو نے شیخ محمد عبداللہ کو 12  برس جیل میں رکھا پھر جھک مارکر رِہا کیا لیکن شیخ نے آزاد کشمیر کا مطالبہ نہیں چھوڑا۔ پنڈت جی کے انتقال کے بعد وہ چین چلے گئے جہاں  ان کا زبردست استقبال ہوا وہ چین میں کشمیر کی جلاوطن حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جس کے لئے چین تیار تھا۔ اسی زمانہ میں شاہ فیصلؒ نے ’’موتمر عالم اسلام‘‘ بلائی جس میں ہر مسلم ملک سے اور ہندوستان سے دس ممبروں کے وفد بلائے مگر شیخ عبداللہ کو الگ سے دعوت دی۔ مکہ معظمہ میں شیخ نے مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا ابوالحسن علی سے مشورہ کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ ہندوستان میں اندرا گاندھی مجھے جیل میں ڈال دے گی ان دونوں نے مشورہ دیا کہ صرف اور صرف ہندوستان چلو سامنا ہوگا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ شیخ عبداللہ ان دونوں کو بہت مانتے تھے۔ اور نہ چاہنے کے باوجود ہندوستان آئے اور دہلی میں ہی نظربند کردیے گئے۔ ایک شاندار کوٹھی اور دس ملازمین خدمت کے لئے دیئے گئے اور آخرکار شیخ نے ضد چھوڑ دی اور حالات سے سمجھوتہ کرکے وزیر اعلیٰ بننا منظور کرلیا اور قوم نے بھی تسلیم کرلیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے جنازے میں کہا جاتا ہے کہ دس لاکھ آدمی تھے۔

شیروں کے ذکر میں ہم کچھ اپنا ذکر بھی کردیں حالانکہ ’’کیا پدی کیا پدی کا شوربہ‘‘ کہاں یہ عظمت کے مینار کہاں ہم گنگو تیلی؟ یکم اگست 1965 ء کو ندائے ملت کا مسلم یونیورسٹی نمبر نکالنے کا اعلان کیا مسلمانوں کے اور سیکولر ہندوئوں کے تمام بڑوں نے لکھنے کا وعدہ کرلیا اور پورے ملک میں دھوم مچ گئی۔ حکومت کی نیت خراب ہوگئی اور 20  جولائی 1965 ء سے باقاعدہ نگرانی شروع ہوگئی۔ اور دو چار دن کے اندر تمام افسروں نے معلوم کرنا شروع کیا کہ اخبار میں کیا چھپ رہا ہے؟ ہم نے کہہ دیا کہ چھپنے کے بعد پڑھ لیجئے گا۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ حکومت اخبار نکلنے سے پہلے ضبط کرلے گی۔ ہم نے یکم اگست کا اعلان تھا لیکن 31 جولائی کی شام کو آر ایم ایس کے ذریعہ ریلوے اسٹیشن سے 1500  کاپیاں پورے ملک میں بھیج دیں ۔ ہم جانتے تھے کہ رات میں گرفتاری ہوجائے گی۔ ہم سے دوستوں نے کہا کہ ہمارے گھر آجائو لیکن ہم اپنا کام کرتے رہے اور رات کو سیکڑوں کی تعداد میں پولیس آئی اور گرفتار ہوگئے لیکن 9 مہینے جیل میں رہ کر آگئے حکومت نے جھک مارکر مقدمہ واپس لے لیا۔ کیونکہ دستور کے خلاف کوئی بات نہیں تھی۔

ہم وہ بات تو نہیں جانتے جو ڈاکٹر ذاکر نائک جانتے ہیں لیکن جتنا جانتے ہیں اس کی بناء پر کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سال دو سال جیل میں رہتے اور پھر باہر آتے اور مقبولیت میں چار چاند لگ چکے ہوتے اور اگر انہوں نے جو کیا وہ دستور کے خلاف تھا اور ان کو معلوم تھا تو حیرت ہے کہ کیوں کیا؟ اور نہیں کیا تو ملک چھوڑنے کا فیصلہ خودکشی ہے جسے نہ پروردگار معاف کرے گا اور نہ لاکھوں مسلمان اور نہ وہ میمن برادری جس نے ان کی کروڑوں کی مدد کی۔ ذاکر نائک سے واقف شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو اُن کے اس فیصلہ کو بزدلی اور خودکشی نہ سمجھتا ہو۔ انہوں نے اپنے سے زیادہ اسلام کو نقصان پہونچایا ہے جبکہ معاملہ اللہ کی عدالت میں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


3 تبصرے
  1. اصلاح الدین کہتے ہیں

    قابل تقلید موقف ھے آپکا

  2. مولوی اقبال گودھرا کہتے ہیں

    Good analysis!

  3. Saifullah Abdul Hafeez کہتے ہیں

    صاحب تحریر کی باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی عیاریوں سے بالکل نابلد ہیں اور منافقت ٻر مبنی اس حکومت کی پالیسیوں پر ایمان کامل رکھتے ہیں ۔ شاید اسی لئے ڈاکٹر ذاکر نائک کی حکمت عملی کو بزدلی سے تعبیر کیا ہے۔ نہ صرف عند المسلمین بلکہ عند اللہ بھی ڈاکٹر صاحب کو ناقابل تلافی جرم کا حامل قرار دیاہے۔ حفیظ صاحب کو میرا مؤدبانہ مشورہ ہے کہ اپنی ذاتی رائے دوسروں سے منسلک نہ کریں اور اپنی قلمی صلاحیت کو تخریبی تنقید کے بجائے امت کی تعمیر و اتحاد میں صرف کریں۔ اگر آپ اسلام کی خدمت نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم داعی اسلام کی قدر کرنا سیکہیں اور انکی غیر معمولی اسلامی خدمات کو تعاون کریں اور سراہیں اللہ آپکو جزائے خیر دے۔
    اس بات سے بھی آگاہ رہیں کہ آپ اور ہم موجودہ وقت میں کسی عادل اور غیر متعصب حکومت کی زیر سایہ سانس نہیں لے رہے ھیں۔

تبصرے بند ہیں۔