عالمی یوم خواتین اور اسلام
حنا مقبول
(کانٹھ باغ بارہمولہ کشمیر)
اپنے حقوق کی طلب، خالق کائنات نے انسانوں کے اندر ودیعت کی ہے۔ دنیا کی ترقی میں ودیت اہم ہے۔ 8 مارچ کو ہر سال عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ پہلے ہم یہ جان لیں کہ یوم خواتین منانے کی روایت کہاں سے شروع ہوئی اور اس کے مقاصد کیاہیں۔
خواتین تحریک کی شروعات مزدورں کی تحریک کے بعد ہی شمالی امریکہ (North America) اور یورپ میں بیسوی صدی کے ابتداء میں ہوئی اور پہلی بار امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے نیویارک میں 28 فروری 1908 کو یہ دن منایا اور پھر بہت سی تحریکوں اور کاوشوں کے بعد UNO کی حمایت سے ۸؍ مارچ عالمی یوم خواتین کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اب ہر سال ۸؍ مارچ کو مختلف ممالک میں یہ دن الگ الگ طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ UN کی طرف سے خاص مرکزی خیال (Themes) کے تحت سال 1996 سے اب تک عالمی سطح پر کانفرنس منعقد کی جاتی ہے، جس میں ہر مرکزی خیال کے تحت کچھ مقاصد طے کیے جاتے ہیں اور ان کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ نئے قوانین بنائے جاتے ہیں، فنڈس منظور کیے جاتے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر منصوبہ بندی کی جاتی ہے، جن کا مقصد عورتوں کی آزادی، مساوات، سماجی برابری ، لبریشن ، عدل و انصاف ، کامیابی و ترقی ہیں۔
سال 2011 میں عالمی یوم خواتین کو منانے کے پورے سو سال (ایک صدی) مکمل ہوگئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد اور عالمی طاقتوں کے اکٹھا ہونے کے بعد بھی ہم خواتین کو اپنا اصل حق و مقام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں؟ کیا واقعی خواتین کی حالت بدلی ہے یا یہ صرف نعرے ہیں۔ مرد خواتین میں خواتین کا ریشو گھٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ریشو(Ratio) 1000لڑکوں پر 750 یا 800 لڑکیاں ہیں، 2021 کی کرائم رپورٹس جو کہ اگر ہم پڑھ لیں تو ہم ”بیٹی پڑھاو "کو چھوڑ کر صرف ”بیٹی بچاو” کے نعرے پر اپنے آپ کو مجبور پائی گے۔
نیشنل کمیشن آف ویمن (NCW) کے رپورٹ کے مطابق 2020 کے مقابلے 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم میں 30 (تیس)فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میں Acid Attacks اور جنسی زیادتی جیسے ہولناک جرائم اب دستک دے چکے ہیں۔ پوری دنیا میں خواتین کے ساتھ ظلم و تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان، جنسی ہراسانی کے واقعات کا بڑھتا ہوا اعداد و شمار ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان کھڑا کررہا ہے کہ ہر سال 8 مارچ کو منانے سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوا جس کا جواب دھونڈنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب ہمیں سرتسلیم خم کردینا چاہیے کہ جب انسان قانون فطرت سے ٹکراتا ہے، تو پھر تباہی و بربادی ہی ہاتھ آتی ہے اور پوری دنیا کو بھی یہ سمجھانا چاہئے کہ قانونی فطرت سے ٹکرانا کتنا خطرناک ہے۔
خالق کائنات نے عدل و انصاف کے ساتھ مساویانہ تفریق کی ہے اور دونوں مرد و عورت کو اس کے دائرے کار میں رکھتے ہو ان کے کام متعین کیے ہیں۔ ایک مثال پیش کرتی ہوں اللہ رب العزت عورت کو سب اہم ترین و مشکل ترین کام سونپا ہے وہ ہے بچوں کا جنم اور ان کی تربیت اس کا اہتمام بھی اللہ نے ماں کے رحم سے ہی کیا ہے۔ پہلے تو ماں کے جسم میں (جو ایک عورت ہی ہوسکتی ہے) Phicial, Pshological, Biological گویہ ہر طرح کی لازمی تبدیلیاں آتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایک خاتون کے اندر دوسو سے تین سو گنا Dopamine harmone اس دوران بڑھ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرد حضرات یہ انوکھا کارنامہ، جو کہ بقاء زندگی و انسانیت کی اہم کڑی ہے، انجام دے سکتے ہیں؟ جواب ہے مرد حضرات ان چیزوں میں عورتوں کی برابری ہرگز کر ہی نہیں سکتے اور بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ان کے بس کا کام نہیں۔ مگر خواتین بے جا ہر معاملے میں مردوں کی برابری کرنے پر کیوں اٹل ہے کیا یہ خواتین کے صنف نازک ہونے کا غلط فائدہ اٹھایا جارہا ہے ؟ کیا یہ خالق کائنات سے کمزور رشتے کا نتیجہ ہے اگر ہم UNO کی 26 سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اگر ہم اقدامات کو گننا شروع کریں گے تو کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن زمینی صورتحال ویسی کی ویسی ہی ہے۔ بلکہ ان خوشنما نعروں کے پیچھے صرف خواتین کا استحصال ہے،
خواتین کا تحفظ ہی نہیں بلکہ عملاً ان کو سماج میں رول ادا کرنا اسلام کا منشا تھا۔ مگر بدقسمتی سے مسلم دنیا کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے، مسلم دنیا میں خواتین نے وہ سفر پورا نہیں کیا تھا جس کی شروعات دور نبوت میں ہوئی تھی، جہاں بچیاں زندہ درگور کی جاتی تھیں۔ اسی معاشرہ میں خواتین سربراہ مملکت کو کھل کر ٹوکتی بھی تھی۔ جہاں عورت کیا حیثیت ضمیمہ نہیں تھا بلکہ ان کا اپنا وجود اور مقام تھا، یہاں تک کہ مارکٹ انسپکٹر بھی خاتون ہی تھی۔ لیکن آج عملاً خواتین کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جاتا۔ خواتین کو اللہ نے بہت صلاحیتوں سے نوازا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب جب ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا گیا تو بہترین نتائج برآمد ہوئے۔
دین اسلام میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت لوگوں نے احادیث روایت کی ہیں ان میں مرد بھی ہے اور خواتین بھی۔ مگر ایک بھی خاتون سے جھوٹی حدیث مروی نہیں ہے، اگرچہ اس ضمن میں کچھ مرد حضرات کی جھوٹی حدیثیں ملتی ہیں۔ باقی علوم اور ہنر میں بھی خواتین نے جو کام کیا وہ بہتر طریقے سے کیا، کیونکہ خواتین جو بھی کرتی ہیں اس میں محنت کے ساتھ جذباتی وابستگی بھی ہوتی ہے۔ کوئی ایک دن خواتین کے لیے مخصوص رکھنے سے کچھ بہتر تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے کھوکھلے نعرے بھی خواتیں کو جائز مقام نہیں دے سکتے۔
ضرورت ہے کہ خواتین کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب امت مسلمہ عملاً دین کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نصف آبادی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے۔
بہترین مضمون