غیر اعلانیہ ایمرجنسی
ذوالقرنین احمد
ہندوستانی جمہوریت کا نظام آج فرقہ پرست عناصر کی ذد پر ہیں جو ملک کی ساخت کو کھوکھلا کر رہے ہیں جنہیں ملک کی ترقی اور تنزلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جمہوری انداز میں فرقہ وارانہ ماحول تیار کرنے کیلئے اور ہندو راشٹر کے میشن کو لیکر بی جے پی جیسی کئی سیاسی پارٹیاں وجود میں لائی گئی تھی جو آزادی کے قبل سے ملک میں خانہ جنگی کو بڑھاوا دینے پھوٹ ڈالوں اور حکومت کرو کیپالیسی کو لیکر سرگرم ہیں آج انہیں فرقہ پرست عناصر اور سنگھی ذہنیت کے حامل افراد کی ایک بڑی جماعت جسے آر ایس ایس کے نام سے جانا جاتا ہیں، جسکی کئی ذیلی تنظیمیں ہےاسی کی ایک مضبوط سیاسی جماعت بی جے پی ہے، جو ۲۰۱۴ میں مرکزی حکومت پر قابض ہونے کےبعد سے اس ملک کو تنزلی کیطرف لےجاری ہیں۔
اس ملک میں غریبی غربت کی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور امیر،امیر تر ہوتے جارہے ہیں، جہاں کسان چند ہزار روپے کے قرض ادا کرنے سے قاصر ہونے پر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور امیر ترین افراد کروڑوں کیمالیت کو لیکر ملک سے فرار ہوجاتے ہیں،ایک طرف مہنگائی کے بوجھ تلے غریبی مفلسی دم توڑ رہی ہیں، ہر انسان دنیا میں آزاد پیدا ہوتا ہیں، اور جہاں وہ پیدا ہوتا ہیں وہاں اسے بنیادی ضروریات کو مہیا کروانا وہاںکی حکومت کا اہم فریضہ ہوتا ہیں جیسے روٹی، کپڑا، مکان، لیکن اس ملک میں ہزاروں بچے ناقص غذائیت کا شکار ہورہے ہیں، کئی خدار مائیں بھوک سے نڈھال اپنے بچوں کے ساتھ خودکشی کرلیتی ہیں،کئی اسی بھوک کی خاطر اسملک کی بیٹی اپنی عزیتیں سر عام نیلام کر دیتی ہیں، اور اس مقدس نفوس کو خرید نے والے وہی سیاست دان ہوتے ہیں جو بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کانعرہ دیتے ہیں، آخر ہمارا ملک کسطرف جارہا ہیں، میں کس کس بات پر روؤں کس بات پر ماتم مناؤں، معصوم بچیوں کی عصمتیں تار تار ہوتی ہیں۔
ہم احتجاج کرتے ہیں، اور پھر گہری نیند سوجاتے ہے،حکومت خاموش رہتی ہیں، پھر اگلے روز اخبار کے پہلےصفحہ پر نظر پڑتی ہے تو دل خون کے آنسوں روتا ہیں، کے پھر کہیں کسی بنت حوا کی عصمت تار تار کی گئی، آخر یہ سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہا ہیں،ایک طرف حق و انصاف پر لکھنے اور بولنے والے افراد حکومت کے نشانے پر ہیں، جیہاں گوری لنکش کاانکاونٹر بھی ایمرجنسی کی علامت ہیں، عمر خالد پر کونشٹیٹوشن کلب کے باہر فائرنگ ایمرجنسی کی علامت ہے،حق بولنے والے اینکروں کو عہدوں سے برطرف کرنا، سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری میں غیر منصفانہ سلوک اختیار کرنا، اور حکومت کو انکی غلطیوں سے متعارف کرانے والوں کو پری پلان طریقے سے جیلوں میں قید کردینا،اقلیتی برادری کو تعلیمی اور سیاسی میدان میں ریزرویشن سمحروم رکھنا،سنگھی دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دینا۔
ماب لنچنگ کے ذریعے خوف و ہراس کاماحول تیار کرنا،اور اگلے ۲۰۱۹ کے انتخابات کیلے ماحول کومکدر کرکے، اسکا سیاسی فائدہ حاصل کرنا ایمرجنسی نافذ کرنے کے برابر ہے، جی ہاں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، آپ بھلے ہی کھلی فضامیں سانس لے رہے ہو، لیکن آپکا مستقبل اور آپکی نسل تباہی اور غلامی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے، اگر اب بھی نا جاگے تو ایک غلام قوم بننے کیلئے تیار رہئیے۔
حالت کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے وقت کے فرعون اور باطل طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائیں اگر آپ اس ملک میں اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھام لیجے، اور شریعت کے نفاذ کیلئے جد وجہد کیجے، سیاسی حکمت عملی تیار کیجے اور مسجدوں کے ممبرون سے بلند ہونے والی آواز سے آواز ملایئے،کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، ورنہ یہ قافلہ منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔