سناتن دھرم اور اسلام: چند غلط فہمیوں کا ازالہ

محمد عبداللہ بن شمیم ندوی

اس تحریرکے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں اور برادران وطن کے درمیان میں پائی جانے والی چندایسی غلط فہمیوں کا ازالہ مقصودہے جن کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان کی خلیج بڑھتی جارہی ہے، محبتوں کی جگہ نفرتوں نے لے لی ہے اور رواداری کی جگہ تعصب آگیا ہے۔ جس میں سے ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام محض ۱۴۰۰ سال قبل مسلم تاجروں، صوفیوں اور مسلم افواج کیے ذریعے آیا تھا۔ جب کہ یہ بات برادران وطن میں ایک اور بڑی غلط فہمی پیدا کرتی ہے، وہ یہ کہ اسلام تو ابھی صرف ۱۴۵۰ سال پرانا مذہب ہے جسے لیکر حضرت محمد ﷺ ؑ عرب میں مبعوث کئے گئے تھے۔ اسلام ایک پردیسی مذہب ہے جس کاسرزمین ہند سے دور کا بھی تعلق نہیں اسلئے یہ ہندوستانی اقوام کے لئے نا قابل قبول ہے۔ جبکہ سناتن دھرم ہزاروں سال پراناہندوستانی مذہب ہے جو یہاں کی تہذیب و روایت کا علمبردار ہے۔ اور اسے دنیا کے قدیم ترین مذہب ہونے  اور اس کی کتاب وید کو قدیم ترین مذہبی کتاب  ہونے کا شرف حاصل ہے توبھلا اسلام کا سناتن دھرم سے کیا مقابلہ؟

دوسری بڑی غلط فہمی آریہ تہذیب کے سلسلے میں ہے وہ یہ کہ آرین قوم اپنے شروعاتی دور سے ہی ظالم و جابر اور نہایت رذیل قوم تھی جس نے عورتوں کے حقوق سلب کئے اور خدا کے بندوں کو چارطبقات میں تقسیم کر کے ایک طبقہ کو سارے حقوق و مراعات دیٔے اور دوسرے سے حق زندگی تک چھین لیا اور یہاں تک کہ پورے ملک کو اپنا غلام بنا لیا۔ اسی طرح کی کچھ غلط فہمیاں برادران دطن کو مسلمانوں کے تعلق سے بھی ہیں۔ آج ملک جن ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہاہے ایسے وقت میں ان غلط فہمیوں کا ازالہ نہایت ضرور ی ہے، کیونکہ ان کے ازالہ سے ہندوستان کی ان دونوں اقوام کے درمیان جو خلیج ہے اسے بآسانی پاٹا جاسکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ملک میں امن و امان قائم ہوگا بلکہ دعوت کے میدان میں بھی یہ نہایت فائدہ مند ثابت ہوگا۔

سرزمین ہند سے مسلمانوں کا رشتہ

حقیقت تویہ ہے کہ اسلام ہی دنیا کا اولین مذہب ہے، جسے لیکر از آدم ؑتا محمدﷺ ایک لاکھ سے زائد انبیاء و رسل آئے۔ اس لئے ہندوستان کا اصل مذہب بھی اسلام ہی تھا جو بگاڑ کے بعد اپنی اصلی شکل کھو بیٹھا۔ چنانچہ نبی پاکؑ کے جانشیں داعیان کرام اور صوفیہ حضرات وغیرہ اسلام کے اس بھولے بسرے پیغام کو یاد دلانے آئے تھے۔ اورانھوں نے اپنی اس ذمہ داری کو اس کو بخوبی انجام دیا۔ لیکن افسوس پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں نے اپنی اس داعیانہ ذمہ داری سے غفلت برتی جس کی وجہ سے آج یومیہ ہزاروں برادران وطن مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم اور درناک عذاب کا شکار ہو رہے ہیں، کیونکہ ہم اس کلمہ کے علمبردار ہونے کے باوجود اپنے ان بھائیوں تک اس کا پیغام نہیں پہونچا تے ہیں۔ اور وہ اپنے پروردگار کو پہچانے بغیر ہی دنیاسے چلے جاتے ہیں۔

برادران وطن اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کر نے کیلئے ضروری ہے ہندوستان سے مسلمانوں کے اولین رشتہ کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ قدیم ہندوستانی کتابوں اور تاریخ اسلامیہ کی معتبر کتب کا مطالعہ کیا جائے تو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سرزمین ہند سے اسلام اور مسلمانوں کا رشتہ محض ۱۴۵۰ سال پرانا نہیں ہے بلکہ یہ رشتہ اتنا ہی قدیم ہی جتنی قدیم انسانیت ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق انسانیت کی ابتداء جس گوشۂ ارض سے ہوئی وہ سر زمین  ہندوستان ہے۔ حضرت آدمؑ جنت سے سب سے پہلے ہندوستان میں ہی اتارے گئے کیونکہ باباآدم ؑ  دنیا کے سب سے پہلے مسلمان اور اسلام کے سب سے پہلے پیغمبر تھے اس لئے ہندوستان پر سب سے پہلا قدم ایک مسلمان نے ہی رکھا اوراسلام کی ابتداء بھی ہندوستان ہی سے ہوئی اور پھر یہاں سے خدا کا پیغام ساری دنیا میں پہونچایا گیا۔ حضرت آدم ؑ کے ہندوستان میں اتارے جانے سے متعلق جو روایات ملتی ہیں وہ شہرت کے درجہ کو پہونچی ہوئی ہیں اور تاریخ اسلام کی معتبر ترین کتابوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔ چنانچہ ’’تاریخ طبری‘‘ : ۱؍۱۱۸میں حضرت ابن عباس اور حضرت علی سے ’’الکامل فی التاریخ ‘‘ ۱؍۲۲ میں حضرت علی حضرت ابن عباس اورحضرت قتادہ سے اور ’’البدایہ والنہایہ ‘‘۱؍۸۴میں حضرت حسن اور حضرت السدی سے یہی روایات نقل کی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’سبحۃ المرجان في آثار ہندوستان‘‘ میں مولاناغلام علی آزاد بلگرامی نے اس مضمون کی کئی روایات جمع کر دی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم ؑ نے پہلا قدم سرزمین ہند میں ہی رکھا تھا۔

اسلامی مآخذ کے علاوہ حضرت آدمؑ اور حواؑ سے متعلق بعینہ یہی واقعات سناتن دھرم کی قدیم کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔ جیسے  حضرت آدمؑ کی تخلیق، فرشتوں کا انھیں سجدہ کرنا، حضرت آدم سے حضرت حوا کا تخلیق کیا جانا، شیطان کا دونوں کوبہکا کر شجر ممنوعہ چکھوانا اور پھربطور سزا کے دنیا میں اتارا جانا۔ ملاحظہ کریں : رگ وید :پہلا منڈل سوتر نمبر۱۰ تا۱۷۔ بھوشہ پران پرتی سرگ کا پہلا کھنڈ۔ رام چرتر مانس بال کانڈ، شلوک ۱۴۱ کی پہلی چوپائی۔

اس تحقیق سے یہ حقیقت بھی آشکاراہوتی ہے کہ جب تمام انسان حضرت آدم اور حضرت حوا  (سو یبھو منو اور شتروپا )  کی اولاد ہیں تو دنیا کے تمام انسان چاہے وہ جس مذہب کے پیروکار ہوں ان کاآپسی رشتہ خون کا رشتہ ہے، اور ابتداء کے اعتبار سے سب کا ایک مذہب ہے اور وہ ہے’’ اسلام‘‘۔ ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں بسنے والی کوئی چھوٹی بڑی قوم ایسی نہیں گزری جہاں خدا کا کوئی پیغمبر خدا کی وحدانیت کا پیغام لیکر نہ آیا ہو۔ چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے ’’ ولکل قوم ھاد‘‘( الرعد:۷)(  ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہنما بھیجا گیا)۔ ’’ولکل أمۃ رسول‘‘(سورہ ئونس:۴۷)(ہر امۃ کے لئے ایک رسول بھیجا گیا)۔ اللہ کے یہ فرستادے دنیا کے ہر گوشے میں بھیجے گئے۔ ارشاد فرمایا ’’و من کل قریۃ الا لہا فیہا نذیر‘‘( سورہ الفاطر:۲۴) (کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام پہونچانے کے لئے لسان قوم کی حکمت سکھائی ہے۔ چنانچہ جس قوم کی طرف بھی کوئی پیغمبر بھیجا گیاتو اس قوم کی زبان میں ہی بھیجا گیا، تاکہ پیغام ہدایت کو بخوبی سمجھ سکیں۔ ارشاد خداوندی ہے:’’وما أرسلنا من قبلک الا بلسان قومہ لنبین لھم‘‘(سورہ ابراہیم:۴)   (اور ہم نے آپ سے پہلے جس کسی کو بھی بھیجا اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ ہم ان پر( ہدایت کو)واضح کر دیں۔

پیغمران خدا کی جماعت ہندوستان میں بھی بھیجی گئی

اس پوری تحقیق کے بعد ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت آدم ؑسے محمد عربی ﷺ تک پیغمبروں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں بھی بھیجی گئی، کیونکہ پیغمبروں کا یہاں آنا قانون الٰہی کے مطابق طے شدہ حقیقت ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں جو پیغمبر آئے وہ پیغام الٰہی یہاں کی زبان میں ہی لے کر آئے۔ یہ اور بات ہے کہ اقوام ہند نے بھی دنیا کی دیگر قوموں کی طرح اپنے نبیوں کی تعلیمات کو فراموش کر دیا۔

قوموں کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین اقوام میں ’’سناتن دھرم‘‘ کے پیروکار یعنی ہندو بھی ہیں۔ اگر سنسکرت زبان میں سناتن دھرم کا ترجمہ معلوم کریں تو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سناتن دھرم در اصل اسلام ہی ہے۔ کیونکہ ’’سناتن ‘‘ کے معنیٰ ہیں ’’القیم ‘‘  یعنی قا ئم رہنے والا اور ’’دھرم‘‘ کے معنیٰ ’’الدین‘‘ کے ہیں، سناتن دھرم کا عربی ترجمہ ’’الدین القیم ‘‘ ہے۔ قرآن نے اسلام کو ’’الدین القیم‘‘ کہا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :’’ ذٰلک الدین القیم ولٰکن أکثرالناس لا یؤ منون  (سورہ الروم:۳۰) (یہ ہمیشہ باقی رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ )

سناتن دھرم کی بنیادی کتب’’ وید‘‘ہیں اوردوسرے درجہ کی کتب ’’ اپنیشد‘‘  اور ’’پران‘‘ ہیں ان کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مذہب میں توحید کا اقرار، شرک کی شناعت، رسالت کاتصور اور آخرت پر ایمان ہو بہو قرآنی تعلیمات کے مطابق موجود تھا لیکن مرور زمانہ سے اس میں بھی دیگر مذاہب کی طرح تحریفات کر دی گئیں اور شیطان کے کارندوں نے سناتن دھرم میں سے توحید کو مسخ کر کے شرک اور بت پرستی کواس میں داخل کر دیا۔ تاریخ ہند کی سب سے معتبر کتابــ ’’کتاب الہند ’’ ہے جس میں علامہ البیرونی نے ہندو قوم کی تاریخ اوراس کے عقائد و رسومات کے بارے میں بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ علامہ’’ البیرونی ‘‘کی تحقیق ہے کہ ہندوقوم میں بت پرستی کی ابتداء ’’راجہ انبرش‘‘ کے زمانے کے بعد شروع ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں :’’راجہ انبرش اپنی سلطنت تیاگ کر یاد الٰہی میں مشغول ہو گیا تھا اس وقت اسے خدا کا دیدار ایسے انسان کی شکل میں ہوا جس کے چار ہاتھ تھے، خدا نے اسے احکامات دیئے، جن کے مطا بق اس نے پھر سے سلطنت شروع کی۔ راجہ کے انتقال کے بعد اس کی قوم نے چار ہاتھ والے دیوتا کا بت بنا کر پرستش شروع کر دی‘‘(کتاب الہند مترجمہ اردو :از سید اصغر علی۔ ص ۱۲۵)   ہندوستان میں اجتماعی بت پرستی کی شروعات روجہ سوراج نے کر وائی تھی  تاریخ فرشتہ ‘‘کے مصنف ’’محمد قاسم فرشتہ‘‘ لکھتے ہیں :’’ہندوستان میں (اجتماعی) بت پرستی راجہ سورج کے زمانے میں شروع ہوئی، جھارکھنڈ کے ایک برہمن نے راجہ کو اس بات کا یقین دلا دیا کہ اگر وہ اپنے بزرگوں کے سونے چاندی کے مجسمے بنواکر ان کی پوجا کرے گا تو وہ صراط مستقیم کو پا لے گا، چنانچہ راجہ نے اس کو قبول کیا اور اس کی قوم نے بھی اس کا یقین کر لیا، اورہندوستان میں آگ کی عبادت کا تصور ایک ایرانی شخص لایا تھا‘‘۔ (تاریخ فرشتہ از محمد بن قاسم مترجمہ عبدالحی خواجہ)

 ویدوں کااگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے کلام الٰہی ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔ کیونکہ بیشمار تحریفات کے با وجود آج بھی اس میں توحید رسالت اور آخرت سے متعلق جو تعلیمات موجود ہیں وہ ہو بہو وہی خدائی تعلیمات ہیں جن کو قرآن نے بیان کیا ہے۔ مزید برآں اس ہزاروں سال پرانی کتاب میں نبی آخرالزاں صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی واضح پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کا کسی انسانی کلام میں ہونا محال ہے۔ اورجہاں تک اس نبی کا تعلق ہے جس پر وید اتارے گئے تو اس پراب تک کی سب سے اچھی تحقیق مطالعۂ ادیان کے ماہر علامہ سیدعبد اللہ طارق صاحب نے پیش کی ہے۔

 انھوں نے مضبوط دلائل اورتاریخی شواہد سے ثابت کیاہے کہ ’’وید‘‘ جس شخص پر اتارے گئے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے سب سے پہلے رسول حضرت نوح ؑ ہیں۔ و ید خود اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ چنانچہ وید میں حضرت نوح علیہ السلام کو ’’وَیوَسوَت ‘‘ ( مہا جل پلاون منو ) یعنی سیلاب عظیم والے منو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ متسیہ پران ۱۵-۱۴:۲میں ہے ’’اے زمین کے محافظ ! چاکشش منونتر کے دور قیامت میں جب ساری زمین ایک سیلاب میں غرق ہو جائے گی اور تمہارے ذریعہ مخلوق کی دوبارہ ابتداء ہوگی تب میں ویدوں کو نافذ کروں گا‘‘۔ سورہ نوح میں قوم نوح کے جن دیوی دیوتاؤں کا ذکر کیا گیاہے  (ودّ۔ صواع۔ یغوث۔ یعوق، نسر) ان ناموں کے دیوی دیوتا ہندوستان کے علاوہ کہیں نہیں پائے جاتے، صرف ہندوستانی قوم ہی ان کی پوجا کیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ وید حضرت نوح ؑ پر اتارے گئے تھے جن کو بعد میں تحریف کا شکار بنا دیا گیا۔

سناتن دھرمی کتابوں میں حضرت نوحؑ کے کشتی بنانے سے لیکر سیلاب کے بعد تک کے واقعات بڑی تفصیل سے ملتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم ہمارے برادران وطن ہندو ہی ہیں۔ ملاحظہ کریں بھوشہ پران، پرتی سرگ کا پہلا کھنڈ۔ رگ وید ۱۰-۱۱:۴۵:۵۔ شت بتھ پران براہمن۔ مہا بھارت ون پرو۔ متسیہ پران۔

 اس کی پوری تفصیل کے لئے ’’المعہد العالی الاسلامی‘‘ حیدرآباد کے ۲۰۱۱ء؁ کے قرآنی سمینار کے مجموعہ بعنوان’’قرآن اور عصر حاضر‘‘ میں سید عبد اللہ طارق صاحب کا مقالہ ’’بعنوان قرآن اور ہندو مذہبی کتب۔ مشترکہ شخصیات کی تلاش ‘‘ملاحظہ فرمائیں۔

آریہ تہذیب ایک منصفانہ جائزہ

 آریوں سے پہلے ہندوستان میں جو تہذیب تھی اسے سندھ طاس تہذیب کہا جا تا ہے۔ آریہ جواس وقت ایران اور اس کے نواح میں بستے تھے افغانستان کے دروں سے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے یہ دراوڈوں کے مقابلے زیادہ منظم اور مہذب تھے اس لئے انھیں مغلوب کر کے اور یہاں کی دیگر اقوام کو پسپا کر کے ملک کے شمالی علاقوں تک محصور کر دیا، ۔ یہاں سے ہندوستان کی سب سے بڑی تہذیب یعنی آریہ تہذیب کی ابتداء ہوتی ہے جو کہ مسلمانوں کے ملک پر اقتدار تک باقی رہی۔ اگر چہ اس کے بعد بھی کئی اقوام مختلف مراحل میں یہاں داخل ہوئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی آریہ تہذیب کی جگہ نہیں لے سکی۔

(دی اسٹوڈنٹ آف اندین ہسٹری از ڈاکٹر ایشوری پرساد :ص ۲۴تا ۳۵)

عام طور سے آریوں کی تاریخ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اچھا نہیں ہے خاص کر بعض مسلم تجزیہ نگاروں نے آریہ تہذیب کو اس کے شروعاتی دور سے ہی نہایت ظالمانہ اور سفاکانہ تہذیب بنا کر پیش کیا ہے جو کہ حقیقت سے کافی دور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آریوں نے ہندوستانی معاشرے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تھا لیکن شروعاتی دور میں یہ تقسیم پیدائشی نہیں تھی بلکہ مختلف کاموں کے لئے چارطبقات  بنا ئے گئے تھے اور پھر ان کو ان کا موں کا ذمہ دار بنا یا گیا تھا لیکن مرور زمانہ سے یہ تقسیم ذاتوں میں تبدیل ہو گئی اور پیدائشی تقسیم بنا دی گئی۔ چنانچہ شروعاتی دنوں شودروں کو بھی اچھا مقام دیا جاتا تھا اور ان کے حقوق کا تحفظ کیاجاتا تھا لیکن بعد میں جب بگاڑ آیا تو شیطانی کارندوں نے مذہب پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ یہ سب کافی بعد میں ہوا لیکن ہمارے تجزیہ نگاروں نے تاریخ کے اس برے دور کو ہی قلمبند کیا اوراس سے پہلے کے آرین دور کا تجزیہ نہیں کیا جو انصاف پسندی اور مساوات کی ایک مثال تھا۔ یہ سب اصل تاریخ سے عدم واقفیت کی بنا پر ہوا، بالکل اسی طرح جیسے بعض غیر مسلم مؤرخین نے مسلمانوں کی تاریخ کو ظلم و ستم اور خون خرابے کی تاریخ بنا کر پیش کیا ہے، جب ہم اسے ناانصافی کہتے ہیں توپھر آریوں کی تاریخ کو بیان کرنے میں یہ نا انصافی کچھ ہماری طرف سے بھی ہوئی ہے۔

سناتن دھرم کی کتب کا مطالعہ بتا تا ہے کہ ویدک دور کے شروعاتی ایام میں لوگوں میں کوئی طبقاتی تقسیم نہیں تھی، تمام انسان ایک ہی طبقہ کہلاتے تھے، بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر معاشرے کو چار طبقات(ورن) میں تقسیم کر دیا گیا۔ برہداینڑک اپنیشد کی گیارہویں کاشیکامیں کہا گیا ہے کہ’’تخلیق کائنات کے وقت صرف ایک ہی برہمن طبقہ موجود تھا‘‘۔

مہا بھارت شانتی پرو ادھیا ئے ایک کا چودھواں شلوک ہے:ـ’’برہمن الگ الگ کاموں کو اپنانے کی وجہ سے مختلف کاموں میں تقسیم ہوتے چلے گئے‘‘۔

سناتن دھرم پر اب تک کی سب سے مضبوط اورمنصفانہ تحقیقی بودھ مذہب کے ایک آئی ایس آفیسر جناب ڈاکٹر کے ایم سنت (سے، نی) نے پیش کی ہے۔ انھوں کے اس عنوان پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ جہاں انھوں نے ہندو مذہب، اس کی کتابوں، اور اس کے دیوتائوں کے کیریکٹر پر ایسی کھلی تنقیدیں کی ہیں، وہیں انھوں نے شروعاتی دور کے آریوں کی تہذیب کی تعریفیں بھی کی ہیں۔ وہ اپنی کتاب’’ بھارتی سمویدھان بنام ہندو دھرم شاستر ‘‘ ص ۲۰ میں لکھتے ہیں : ’’ وید کے دورکے آریوں نے جو طبقاتی نظام قائم کیا تھا وہ پیدائشی نہیں تھا بلکہ کام کاج کی تقسیم کے لئے کیا گیا تھا اور ان چاروں طبقات کو زندگی کے مختلف میدانوں میں آزادی حاصل تھی، ان میں عدم مساوات نہیں تھی، بھید بھاؤو چھوت چھات جیسی معاشرتی برائیاں نہیں تھیں، بلکہ آپس میں سب بھائی بھائی بنکر رہتے تھے ــ‘‘(۱۲)۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ہندو مذہبی کتب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ شروعاتی دور میں برہمن، کشتری، ویش اور شودر کو تمام میدانوں میں برابری دی گئی تھی اسلئے شودر بھی راجہ بنائے جاتے تھے۔ بالمیکی رامائن میں برہمن، کشتری، ویش اور شودرتمام راجاؤوں کا تذکرہ ملتا ہے ‘‘۔

آریوں نے یہ طبقاتی نظام کیوں قائم کیا تھا اس کے جواب دیتے ہوئے ص :۱۸ پر لکھتے ہیں :’’ در اصل آریہ جیسے جیسے تمدنی اور معاشرتی ترقی کرتے گئے تو رفتہ رفتہ ان کے علاقے بھی بڑھنے لگے۔ طاقت و قوت کی اس ترقی کے ساتھ انھیں حکومتی و معاشرتی سطح پر کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے کے زمین و جائیدادوں کے جھگڑے شروع ہو گئے، تخت و تاج کے حصول کے لئے لڑا ئیاں ہونے لگیں۔ جس سے ان کا معاشرتی نظام درہم برہم ہونے لگا۔ چنانچہ آریوں کے مذہبی راہنما ؤں اور اور قومی حکمرانوں نے اس مسئلہ کا حل تلاشنا شروع کیا۔ کا فی غور خوض کے بعد وہ سب اس نتیجے پر پہونچے کہ معاشرے میں بگاڑپیدا کرنے والی چار چیزیں ہیں۔ جہالت، نا انصافی، بے روزگاری، اور سستی و کاہلی۔ اگر ان کا خاتمہ کر دیا جائے تو معاشرہ ہر طرح کے فساد سے محفوظ ہو جائے گا۔ لہٰذاانھوں نے ان چاروں چیزوں کے خاتمہ کے لئے چار طبقات بنائے۔ انھوں نے جہالت کو دور کر نے کے لئے اساتذہ(برہمن)، نا انصافی کے خاتمہ کے لئے فوجی(کشتری)، بے روزگا ری پر قابو پانے کے لئے تاجران(ویش)، اور سستی و کاہلی کو دور کر نے کے لئے سماجی کارکنان(شودر) بنائے۔ اس طرح معاشرے میں پھر سے امن ومان قائم ہو گیا‘‘۔

یہ طبقاتی تقسیم پیدائشی نہیں تھی بلکہ لوگوں کو ان کے علم و ہنر اور ان کی قابلیت کے اعتبار سے کو ئی ’’ورن‘‘ دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی علمی میدان سر کرتا تو برہمن بن جاتا، فوجی تربیت پاتا تو کشتری کہلاتا، تجارت یا کھیتی باڑی کرتا تو ویش بن جاتا اوراپنا انتخاب بحیثیت سماجی کارکن کے کرتا تو شودر کہلا تا۔ بھوشہ پران ادھیائے ۴۰ شلوک ۴۸ میں ہے :’’چاروں ورنوں کے لوگ اپنے علم و ہنر کے اعتبار سے اپنے ورن بدل سکتے ہیں ‘‘۔ کسی کے لئے یہ لازم نہیں تھا کہ وہ اپنے والدین کے ورن میں ہی رہے بلکہ ہر شخص کو یہ اختیار تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ورن تبدیل کر سکتا تھا۔ متسیہ پہران ادھیائے چار میں ہے کہ’’منو کے بیٹے وامدیو تھے اور وام دیو کے بیٹے برہمن، کشتری، ویش اور شودر چاروں طبقات سے تعلق رکھتے تھے ‘‘۔

 اگر تاریخ اسلام کے مطالعے کی رو سے سناتن دھرم کے تعلق سے یہ تحقیقات حقیقت پر مبنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہر قوم میں اس کے نبی کی تعلیمات کا اثر ایک عرصہ تک باقی رہا ہے اور جب اس قوم میں بگاڑ آیا تو وہ نبی اوراس کی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھی۔ لیکن اس سب کے با وجود ان کی کتابوں میں اسلامی تعلیمات کہیں نہ کہیں محفوظ رہیں۔ چنانچہ رگ وید: ۵؍۶؍۵ میں ہے ’’ انسانوں میں نہ کوئی بڑاہے نہ چھوٹا سب آپس میں برابر کے بھائی بھائی ہیں سب مل کر دنیا و آخرت کے لئے خدا کے بتائے کاموں پر عمل کریں ‘‘۔ قرآن نے اسی بات کو اس انداز سے کہا ہے ’’ یا ایھاالناس انا خلقناکم من ذکر وانثیٰ وجعلناکم شعوباََ وقبائل لتعارفوا، ان أکرمکم عند اللہ اتقٰکم‘‘ ( سورہ الحجرات:۱۳)

وید میں قرآنی تعلیمات کے حوالے سے مزید تفصیل کے لئے دیکھیں علامہ سید عبد اللہ طارق صاحب کی کتاب ’’ وید اور قرآن، کتنے دور کتنے پاس‘‘۔

عدم مساوات کی تعلیم وید کے علاوہ دوسری مذہبی کتب میں بھی ملتی ہے۔ چنانچہ مہابھارت شانتی پرو، ادھائے ۱۸۸ میں کہا گیا ہے ’’طبقات میں کوئی عدم مساوات نہیں بلکہ برہما کے بنائے تمام انسان شروعات میں برہمن ہی تھے پھر عمل کی بنیاد پر الگ الگ تقسیم ہوئی‘‘۔ چاروں طبقات میں عدم مساوات نہیں تھی اس کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ یہ چاروں طبقات کوعلمی ومذہبی کاموں میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ یہاں تک کے شودر طبقہ کے لوگ بھی اگر علمی صلاحیت حاصل کر لیتے تو برہمن ان کو وید کا درس دینے کی نہ صرف اجازت دیتے بلکہ وید کی جمع و تدوین میں بھی ان کی حصہ داری قبول کرتے۔ چھاندوگیہ اپنیشد کے مطابق ایک شودر رشی ’’کوَش‘‘ نے ویدکے کچھ منتر لکھے تھے۔ تمام طبقات کو باہمی رشتے قائم کرنے کی اجازت تھی، وہ آپس میں شادیاں کرتے تھے۔ چنانچہ سناتن دھرم کے بہت سے علماء و قائدین شودر خواتین کے بطن سے ہوئے، اور یہ کہیں نہیں ملتا کہ اس وقت کسی نے اس پر اعتراض کیا ہو۔ سناتن دھرم کی مشہور کتاب ’’بھوشہ پران‘‘، ورتہ پرو، ادھیائے ۴۲، شلوک ۲۲ تا ۲۸  کے مطابق’’ کپورتا خاتون سے ویاس جی اور شواپا خاتون سے پراسر جی کی پیدائش ہوئی، اسی طرح شوکی خاتون سے شک دیو اور الکی خاتون سے کرن رشی پیدا ہوئے۔ اسی طرح منی سریشتھا مندپال لویکا خاتون سے پیدا ہوئے اور یہ تمام خواتین شودر طبقہ کی تھیں۔

آریوں میں عورتوں کا مقام

آریوں کے دور میں عورتوں کو بلند مقام حاصل تھا اصل سناتن دھرم کے مطابق ان کے حقوق رکھے گئے تھے۔ کے ایم سنت صاحب لکھتے ہیں ’’پرانے زمانے میں آریہ سماج میں عورتوں کو بڑا مقام حاصل تھا مردوں کو مخصوص حالات میں ہی ایک سے زائد نکاح کا اختیار تھا، مردوں کی طرح عورتیں بھی طلاق(خلع) حاصل کر سکتی تھیں، اس وقت کا معاشرہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتا تھا۔ عورتوں کو آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا اختیار تھا، وہ مردوں کی محتاج اور بے سہارا بن کر نہیں رہا کرتی تھیں۔

اسی طرح خواتین کو حصول علم کی مکمل آزادی تھی، وہ گروکل کے مدارس میں نہ صرفہ مذہبی تعلیم حاصل کرتی تھی بلکہ وید کی معلمہ کی حیثیت سے درس وتدریس کے فرائض بھی انجام دیا کرتی تھیں۔

حکومتی کاموں میں بھی خواتین کا بڑا دخل تھا  یہاں تک کہ بادشاہ بنا نے کی رسم خواتین کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوا کرتی تھی۔ (بھارتی سمویدھان بنام ہندو دھرم شاستر؛ص ۲۳)

 آریوں میں بگاڑ کی شروعات

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ راجہ رام چندر جی کے والد راجہ دشرتھ کے دور تک ہندوؤں میں مروجہ ان چاروں طبقات میں اتنی عدم مساوات نہیں تھی جس قدر بعد کے دور میں آگئی۔ راجہ دشرتھ کے زمانے تک شودروں کو بھی بادشاہت کا حق حاصل تھا۔ چنانچہ  بالمیکی رامائن میں ہے کہ راجہ دشرتھ نے ایک مرتبہ تمام راجاؤں کی دعوت کی تھی جس میں شودر راجہ بھی شامل تھے۔ آریوں میں جو اخلاقی بگاڑ آیااس کا سب سے بڑا مظہر’’ رام چندر جی‘‘ کی بادشاہت کے آخری ایام میں ہوا جب ایک شودر عالم ’’شمبو جی مہاراج‘‘ کو رام چندر جی سے کسی بات پر اختلاف کر نے کی وجہ سے قتل کرادیا گیا۔ یہاں سے شودروں پر مظالم کی شروعات ہوئی اور آہستہ آہستہ اسی دور میں شودروں کی تپسیہ (مذہبی امور کی ادائیگی)پر پابندی عائد کر دی گئی اور اب شودروں کے گھر میں شودر اور برھمن کے گھر میں برھمن پیدا ہونے لگے(بحوالہ سابق:ص۲۸)۔ پھر رفتہ رفتہ آریوں کی اخلاقی گراوٹ یہاں تک پہونچ گئی کہ ان کے مذہبی طبقہ برہمن نے باقی تمام طبقات پرامتیاز کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی ساتھ شودروں کی غلامی کا فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اس فیصلے کو خدائی فیصلے کا نام دیا گیا جس کے لئے بڑی ہوشیاری سے ایک برہمن گرو’’منو جی‘‘ سے ایک آئین مرتب کرایا گیا جسے ہر ہندوستانی باشندے پر لا گو کر دیا گیا۔ اس آئین نے برہمنوں کو افضل البشر کا درجہ دیا اور شودروں سے ان کاحق زندگی تک سلب کر لیا گیا۔ اسی قانونی دستاویز کو’’ منواسمرتی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس کے بعد کمزور طبقات پر جو ظلم ہوا اس کی داستانیں رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں۔

کسی قوم میں جب بگاڑ آتا ہے تو اس کی زد میں معاشرے کے دوسرے افراد بھی آتے ہیں۔ چنانچہ اس بگاڑ نے عورتوں کو بھی بری طرح متاثر کیا، انکو ان کے بنیادی حقوق تک سے محروم کردیا گیا اور ان کے لئے مردوں کی غلامی لکھ دی گئی۔  اس دور کے برہمنوں کا حال یہ تھا کہ اپنی بیویوں کو فروخت تک کر ڈالتے تھے، اورجوئے میں انھیں رہن تک رکھ دیا کرتے تھے۔ جیسے کے کورؤوں نے پانڈؤوں کے پاس اپنی بیویوں کو رہن رکھ دیا تھا، جن کو وہ جوئے میں ہار بیٹھے تھے جس کے بعد ہندوستانی تاریخ کی سب سے خونریز جنگ لڑی گئی جسے ہم ’’کرکشیترا‘‘اور’’ مہا بھارت‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آریوں کا بگاڑ یہاں تک جا پہونچا تھاکہ بھائی اپنی شادی شدہ بہن سے ناجائز تعلقات بنانے لگے۔ بھوشہ پران میں ہے کہ’’النکاؔ رشی‘‘ کی بیوی سے اس کے بھائی کے ناجائز تعلقات تھے (۲۳)۔ رشی جو قوم کا راہنما ہوتے ہیں ان تک کا حال یہ تھا کہ بر سر عام جماع کو فعل محمود سمجھتے تھے۔ مہا بھارت کے آدی پورو، ادھیائے ۶۳ کے مطابق ’’رشی پاراسر‘‘نے کھلے عام عوام کے سامنے جماع کیا تھا (۲۴)۔ مہابھار ت میں آگے ادھیائے ۱۰۴ کے مطابق ؎ رشی’’ دیرتھما ‘‘نے بھی ایسی ہی حرکت کی تھی۔ بلکہ کسی عورت کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رشی منی اپنی جنسی خواہش جانوروں سے پوری کر نے لگے تھے۔ مہا بھارت کیا آدی پرو ادھیائے ۱۰۰ میں ہے کہ’’وِبھَندکا ‘‘ رشی نے ہرنی کے ساتھ جماع کیا تھا۔

ہندو قوم پر مسلمانوں کا احسان

بگاڑ کی یہ صورتحال صدیوں تک باقی رہی، مختلف خاندانوں کی حکومتیں بدلتی رہیں کبھی کسی ودسرے مذ ہب کو بھی بالادستی حاصل  ہوئی جیسے راجہ اشوک کے دور میں بودھ مذہب کو غلبہ ہوا اور مہاویر جین نے بھی ان معاشرتی برائیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن وہ سب معاشرہ کو ان برائیوں سے نہیں بچا سکے۔ یہاں تک کہ اسلام(حقیقی سناتن دھرم) کا سورج کفرو شرک کی گھٹاؤوں کو چھانٹ کر پھر سے طلوع ہوا جس نے اپنی کرنوں سے ہندوستان کی سرزمین کو پھر سے روشن کیا اور جہاں جہاں اس کی کرنیں پہونچیں وہاں سے ظلم وستم اور کفر و شرک کی بادل چھٹتے چلے گئے۔ جب مسلمان اس ملک میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ جن انسانوں کو اللہ نے آزاد پیدا کیاتھا انھیں یہاں کے ایک خاص طبقے کاغلام بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے اس ظالمانہ نظام کے خاتمے کی جی جان سے کوششیں کیں اور جب ان کو یہاں اقتدار نصیب ہوا تو انھوں نے منو سمرتی کے اس غیر انسانی قانون کو جڑ سے ختم کر کے اسلام کا نظام مساوات اور نظام عدل و انصاف قائم کیا، یہاں کے باشندو ں کو ان کے مالک و خالق سے متعارف کرا یا۔ مسلمان ہی تھے جنہوں نے کمزور طبقات سے مذہبی پابندیاں ختم کیں، زندگی کے ہر میدان میں تمام ہندوستانیوں کو یکساں حقوق دئے۔ جب تعلیم سے برہمنوں کی اجارہ داری ختم ہوئی تو دلتوں نے بھی اس میں بھر پور حصہ داری کی اور کہیں کہیں برہمنوں سے بھی آگے نکل گئے۔ مسلمانوں نے عورتوں پر بھی احسان کیا پہلے وہ مردوں کے پابند سلاسل تھیں ان کی حالت نہایت ابتر تھی انھیں آزاد کرواکے ردائے عزت عطا کی، معاشرے میں انھیں خود کفیل بنا یا اور وہ تمام حقوق و مراعات  واپس دلائیں جن سے انھیں محروم کر دیا گیا تھا۔

مسلمانوں کے اس عدل و انصاف، عملی مساوات اور مذہبی رواداری سے متأثر ہو کر لاکھوں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ ملک مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو ہر طرف امن وامان قائم ہو گیا، تمام اشیاء ضروریہ نہایت ارزاں کر دی گئیں، مسلمانوں نے ملک کی صنعت و حرفت، تجارت اور فن تعمیرکو اتنی ترقی دی کہ ہندوستان  دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور ہوگیا، عسکری طاقت کو اس بلندی پر پہونچایا کہ عثمانی ترکوں کے بعد دنیا کا سب سے طاقت ور ملک بن گیا۔ جب ملک میں خوشحالی آگئی اور مذہبی رواداری کی مثالیں چوطرفہ پیش کی جانے لگیں تو ہندو مسلم سکھ عیسائی سب میں پیار و محبت کے رشتے قائم ہو گئے اور ملک جنت نما بن گیا۔ اسلام اور مسلمانوں کا اس ملک پر سب سے بڑا احسان خدا شناسی، عدل وانصاف کا قیام اور غلامی کا خاتمہ ہے ہندو مت اور سناتن دھرم دو متفرق چیزیں

آج کا مروجہ ہندو مت اور سناتن دھرم دو متفرق چیزیں ہیں  کیونکہ دونوں کے درمیان بنیادی اختلاف توحید اور شرک کا اختلاف ہے، سناتن دھرم مورتی پوجا سے روکتا ہے اور ہندو مت اس کی تعلیم دیتا ہے۔ سناتن دھرم رسالت اور آخرت کا یقین دلاتا ہے اور ہندو مت اوتار واد اور پنر جنم کا داعی ہے۔ چنانچہ سناتن دھرم کا نام بدل کر ہندو مت کیا جا ناہندوستانی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ ہندو لفظ کا استعمال اگر چہ کچھ ہندو کتا بوں میں بھی ہوا ہے لیکن ہندو قوم کو ہندو کہے جا نے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عرب ہندوستانی باشندوں کو ہندی کہہ کر مخاطب کرتے تھے جیسا کہ آج بھی وہ ہندوستانیوں کو بلا تفریق مذاہب ہندی ہی کہا کرتے ہیں۔ جب ہندوستان پر قابض ہوئے یہاں کی بت پرست قوم کو بھی ہندی کے نام سے مخاطب کیا۔ لہٰذا مرور زمانہ سے یہ نام ہندی سے ہندو ہو گیا اور ایک قوم کے لئے مخصوص ہو گیا۔

ہندو مذہبی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوؤں میں مشرکانہ عقائد، مورتی پوجا، عجیب و غریب رسم ورواج اور توہمات کو فروغ دینے میں ان کے مذہبی رہنماؤوں کا بڑا کردار ہے۔ انھوں نے مذہب پر اپنی جارہ داری قائم رکھنے کے لئے ان تمام چیزوں کو عوام میں رواج دیا جس کے ذریعے وہ عوام کے دل و دماغ پر قابض ہو تے گئے۔ ایک عجیب سا ڈر لوگوں کے  دل و دماغ پر مسلط کر دیا گیا جس کی وجہ سے لوگ مذہبی رہنماؤں کے غلام بن گئے اور صورتحال یہاں تک پہونچ گئی کہ ہندو قوم میں پیدا ہونے والا کو ئی شخص اپنے پنڈتوں کی مرضی کے بغیر اپنی زندگی کا کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتا تھا۔ وید اور ایسی مذہبی کتابین جو اصل سناتن دھرم کی تعلیم دیتی ہیں عوام کی ان تک رسائی کو نا ممکن بنا دیا گیا۔ اس کے لئے شروعاتی دور میں پرونوں میں تحریف کی گئی اور پھرآخری دور میں ’’رام چرتر مانس‘‘ جیسی کتابیں مدون کی گئیں تاکہ کوئی شخص بھی ہندو پنڈتوں کے بنائے اس جال سے نہ نکل سکے۔ ہندو قوم پرمسلمانوں کا ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس مذہبی غلامی کے طلسم کو توڑا اور اپنے ہندو بھائیوں کو اس سے آزاد ی دلائی اور تعلیم سے برہمنوں کی اجارہ داری ختم کر کے سب کے لئے عام کر دیا۔ آج ہندو معاشرے میں جو تعلیمی بیداری پائی جاتی ہے وہ سب انھیں مسلمانوں کی دین ہے۔

خلاصہ کلام

اس تحریر میں سناتن دھرم اور اسلام کے تئیں دونوں قوموں مین پائی جانے والی جن بڑی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے اگر اس کو عام کر دیا جائے تو ملک میں امن و امان پھر سے قائم ہو سکتا ہے اور موسم بہار پھر سے لوٹ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ برادران وطن کو ان حقائق سے واقف کرایا جائے کہ۔

۱۔ اسلام پردیسی نہیں بلکہ وہی ہندوستان کا قدیم مذہب (سناتن دھرم) ہے جس کو بعد کے لوگوں نے تحریف کر کے بالکل مسخ کر دیا۔

۲۔ آریائی تہذیب کا شروعاتی دور نہایت درخشاں اور عدل و انصاف سے مزین تھا، وہ ایک بے مثال تہذیب تھی جو بگاڑ کے بعد تاریخ کی بد ترین تہذیب بن گئی۔

۳۔ ہندوستان پر مسلمانوں کے بے شمار احسانات ہیں ان میں سے سب سے بڑا احسان خدا شناسی، عدل و انصاف کا قیام، تعلیمی آزادی اور ذہنی و جسمانی غلامی کا خاتمہ ہے، اگر مسلمان نہ آتے تو یہ ملک آج بھی تعلیم سے دور ایک طبقاتی غلامی میں جی رہا ہوتا۔

کیاہی اچھا ہو جو کو ئی قوم و ملت کا ہمدرد افادۂ عام کے لئے اس تحریر کو ہندی زبان میں شائع کرادے۔

تبصرے بند ہیں۔