کلکی اوتار: آخری پیغمبر کی آمدکا ذکر

مہتاب عالم

        انٹرنیٹ پر دیئے گئے کلکی اوتار جو ہندی اور اردو میں بھی موجود ہے۔ ویدک پرکاش اُپادھیا کاایک تحقیقی مقالہ ہے۔جس پر سنسکرت کی سات یونیورسٹیز کے صدور کی مہر تصدیق ہے۔مصنف نے خود اپنے نام کا عربی ترجمہ نور الہدیٰ لکھا ہے اور کہا ہے کہ عربی میںمجھے کوئی اس نام سے پکارے تو مجھے برا نہیں لگے لگا۔کتاب تو مختلف ابواب پر مشتمل ہے مگر صرف چند ضروری اقتباسات بارہ ربیع الاول کے موقع پر عوامی نیوز کے رحمت عالم نمبر کے قارئین کےلئے پیش کئے جارہے ہیں۔جس کی اشاعت اس پرفتن اور نفرت کے سیاسی بازار میںنہایت ہی ضروری ہے تاکہ انسانیت کو فلاح وکامیابی مل سکے اورہند کی دھرتی دوبارہ آریہ ورتھ یعنی متقیوں کی حقیقی سر زمین ثابت ہو سکے۔جو کہ ابو البشر یعنی آدم علیہ السلام (منو مہاراج یا پہلے انسانی راجہ)کی رہائش گاہ رہی ہے۔ساتھ ہی اتر پردیش کی ایودھیا کی سر زمین ہی ان کی راجدھانی یعنی اوودھ(عود)ہی رہی ہے جہاں ان کے فرزند ثیث علیہ السلام کی60 فٹ قبر بطور نشانی آج بھی موجود ہے۔ جو بعد ازاں حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت سے خورد مکہ کہلاتا ہے۔یہیں پر نوح یعنی سنسکرت نام منو (کشتی والے) پر وید کا نزول ہوا۔آج بھی اہل فیض آباد اس نام کو جانتے ہیں۔مگر اس کی حقیقت سے اہل ہنود اور قوم مسلم دونوں ناواقف ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہو کرآپس میں دست گریباں ہیں جبکہ سری رام کے آبا و اجداد کا علاقہ اجودھن (پاک پٹن)یعنی ہڑپائی تہذیب ہے ۔مگر افسوس کہ مندر اور مسجد کے جھگڑے میں اولاد آدم کا یکساں حقوق و احترام کی سر زمین نفرت اور قتل و غارت کی جگہ یعنی یودھیا یا جودھیا بن گئی جو کہ ایودھیا (شہر امن ) جہاں خون خرابہ نہ ہوکی ضد ہے۔بہر حال آئیے اس تحقیقی مقالے پر غور و فکر کریں۔

 آخری اوتار کی بعثت کے اسباب:اوتار (نبی) کے نزول کے اسباب کی مختصر تحقیق کے بعد اب ہم آخری اوتار (حضرت خاتم النبین( کی بعثت کے اسباب سے واقف کروائیں گے۔

1:۔ بربری شہنشاہیت اور عوام کا وحشیانہ خیال ہوجانا اور اپنی نفسانی برتری کے مقابل دوسروں کی جانوں تک کی لاپروائی کرنا اور حکمرانوں میں بدکارانہ روش ، محصولات میں بے تکے اضافے ، دین ِ حق کے مبلغین پر سنگباری کرنا ۔2:۔ درختوں میں پھول، پھل کی نایابی اور کمی ہونا۔3:۔ دریاوں میں پانی کا کمی ہونا۔4:۔ بے دینی کا عروج اور دوسروں کو مار پیٹ کر ان کی دولت لوٹ لینا ، عام طور پر لڑکیوں کو قتل کرکے دفن کرنا۔5:۔ نسلی امتیاز کی توسیع ، یکسانیت کے احساسات کا ختم ہونا ، اعلیٰ ، ادنیٰ (چھوت چھات) یعنی لامساس کی لعنت مین گرفتار ہونا۔6:۔ غیر اللہ کی پرستش، اگرچہ کائنات کا خالق ایک ہی اللہ ہے مگر اس کے سوا دیوی دیوتاو ¿ں کی پرستش،درختوں ، پودوں اور پتھروں کو ہی خدا سمجھنے کا مشرکانہ رجحان عام ہونا۔7:۔ بھلائی کی آڑ میں برائی، بھلائی کے وعدے سے فریب دے کر نقصان پہنچانا۔8:۔ حسد و عداوت ، تصنع ، ریاکاری وغیرہ کا عام ہونا اور لوگوں میں ہمدردی کا فقدان ، باہم معاندانہ خیال سے دیکھنا ، اللہ پر ایمان کا فقدان، مومنانہ وضع قطع برائے ریاکاری اختیار کرنا گویا کہ وہی اہل اللہ ہیں۔9:۔ دین کے نام سے بے دینی کرنا۔ دین سے حقارت اور بے دینی سے رغبت وغیرہ۔10:۔ فقراءمومنین کی حفاظت کیلئے اور نیک لوگوں کے معاشرے میں بدحال ہونے پر ان کے حفاظت کیلئے۔11:۔ اللہ کی اطاعت کا فقدان ، لوگوں میں اللہ کے کلام سے عقیدت کا نہ ہونا اور احکامِ خدا کی نافرمانی کرنا وغیرہ۔جب ایسے حالات دنیا میں برپا ہوں گے تب آخری اوتار (حضرت خاتم النبین) کی بعثت ان تمام برائیوں کو مٹانے کیلئے ہوگی۔

آخری اوتار کی خصوصیات:1:۔ شہسواری:پرانوں میں آخری اوتار کا جہاں کہیں بھی ذکر آیا ہے ، ان کی سواری گھوڑا ہی بتائی گئی۔ وہ گھوڑا تیز رفتار ہوگا۔ گھوڑے کی خوبی کے بیان میں "دیودت” نام آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں ‘دیوتا'(فرشتہ) کے ذریعے دیا گیا۔2:۔ شمشیر برداری:سواری کے علاوہ آخری اوتار کو شمشیر بردار بھی کہا گیا ہے۔ بدکاروں کا خاتمہ آخری اوتار کی شمشیر سے ہوگا ، نہ کہ ایٹم بم وغیرہ سے۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ ایٹمی دور ہے نہ کہ دورِ شمشیر۔ اوتار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی وضع قطع اور اسلحہ بہ لحاظِ اقتضائے زمان و مکاں رکھتا ہے یعنی وہ جس قوم میں پیدا ہوتا ہے اسی قوم کے موافق اپنی وضع قطع بھی رکھتا ہے۔3:۔ اشٹ ایشوریہ گنانوت :اس میں آٹھوں صفاتِ اعلیٰ (تقویٰ) کا حامل ہونا پرانوں میں مذکور ہے۔4:۔ جگت پتی:(جہاں کے مولا) پتی لفظ "پا” حفاظت کرنا ، مادہ میں "دتی” لاحقہ کی ترکیب سے بنا ہے۔ "جگت پتی” کے معنی عالم کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔5:۔ اسادھوومن:آخری اوتار کا سب سے بڑھ کر قابلِ تعریف وصف یہ ہے کہ وہ بدکاروں کو ہی مارے گا۔ نہ کہ اچھے لوگوں کو۔6:۔چار بھراتاو ¿ں کے ساتھ:بھراتا یعنی مددگار ، آخری اوتار کے چار مددگار ہوں گے۔ جو ہر طرح سے اس کی مدد کریں گے۔7:۔ دیوتاو ¿ں (ملائکہ) کے ذریعے ان کی مدد:دین کی توسیع اور بدکاروں کی ہلاکت میں مدد دینے کیلئے آسمان سے ملائکہ کا نزول ہوگا۔8:۔ کلی بھگانے والا:کلی کے معنی لڑانے والا ہوتے ہیں۔ اسی طرح لفظ شیطان کے معنی بھی لڑانے والا ہوتے ہیں۔ آخری اوتار سے کلی یعنی شیطان کو شکست ہوگی۔9:۔ اپرتیم دیوتی:(بے مثل حسین) آخری اوتار کے جسم میں اتنی زیادہ رونق ہوگی کہ جس کی مثال نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس کی مانند اور کوئی اوتار ہی ہوا ہے۔10:۔ نرپ لنگ چھدو سیون:(راجاو ¿ں کے بھیس میں چھپے ہوئے چوروں کی تباہی ) آخری اوتار کی نسبت بھاگوت پران میں لکھا ہے کہ وہ راجاو ¿ں کے بھیس میں چھپے ہوئے چوروں کا خاتمہ کرے گا۔11:۔ انگ راگاتی پنیہ گندھا:( خوشبوئے بدن نکلنا) آخری اوتار کے جسم سے خوشبو نکلے گی۔ جو ہوا میں شامل ہو کر لوگوں کے قلوب کو پاک کرےگی ۔

12:۔ بہت بڑے سماج کا اپدیشک بننا:عظیم معاشرہ کا ناصح آخری اوتار عظیم معاشرہ کا نجات دہندہ ہوگا۔ دین سے دور پڑے ہوئے ظالموں کا قلع قمع کر کے انہیں سیدھی راہ پر لگائے گا۔13:۔ مادھوماس کی دوادشی شکل پکش میں جنم:آخری اوتار کی ولادت زائد النور (بارہویں تاریخ) مادھوماس یعنی ربیع الاول میں ہوگی۔ یہ کلکی پران میں لکھا ہے۔14:۔ شمبھل کے پردھان پروہت کے گھر میں ولادت : شمبھل کے صدر پروہت وشنویشا کے یہاں ولادت ہوگی اور والدہ کا نام سومتی ہوگا۔ یہ تمام خصوصیات آخری اوتار میں ہوں گی۔مقام کا تعین:یہ بات تو مسلمہ ہے کہ آخری اوتار کے ظہور کا مقام "شمبھل گرام” ہوگا۔ صرف گاو ¿ں کے نام سے اطمینان ممکن نہیں جب تک اس کی مکمل توضیح نہ ہو۔ پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہشمبھل کسی گاو ¿ں کا نام ہے یا اس کی صفت ؟ شمبھل کسی گاو ¿ں کا نام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اگر یہ کسی گاو ¿ں کا نام ہوتا تو اس کی صفت بھی بتائی جاتی۔ لیکن پرانوں میں کہیں شمبھل گرام کی کیفیت نہیں بتائی گئی۔ بھارت میں تلا ش کرنے پر اگر کہیں ششمبھل نام کا گاو ¿ں ملتا ہے تو آج سے چودہ سو سال پہلے کوئی ایسا انسان وہاں نہیں پیدا ہوا جو لوگوں کا نجات دہندہ ہو۔ پھر آخری اوتار کوئی کھیل تو نہیں ہے کہ اوتار (نبی خاتم) کی بعثت ہو جائے اور قوم میں ذرہ بھر تبدیلی نہ ہو۔ لہذا لفظ شمبھل کو خصوصیت سے سمجھ کر اس کے مولد پر غور کرنا ضروری ہے۔1:۔ شمبھل لفظ کا مادہ "شم” ہے جس کے معنی "پر امن کرنا”کے ہیں یعنی جس مقام پر امن ہو۔2:۔ "شم” اور "ور” دونوں کی ترکیب سے "سم+ور=سمور” لفظ مشتق ہوا۔ قواعد کے اصول سے شمبھل لفظ کی تکمیل ہوئی۔ جس کے معنی ہوئے جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے یا جس کے ذریعے کسی کا انتخاب ہوتا ہے۔3:۔ لغت 88-12-1 میں لفظ شمبر کے معنی پانی دئیے گئے ہیں۔ "ر” اور "ل” دونوں حروف یکساں ہونے کے سبب "شمبھل” کے معنی پانی کے قریب والا مقام ہوں گے۔لوگوں کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ شمبھل کے معنی پانی کے ہیں تو پانی کے قریب والا مقام یا گاو ¿ں کے معنی کیوں اخذ ہوئے ؟ اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ موضوع گفتگو یہاں پر مقام یا گاو ¿ں ہے نہ کہ پانی مثلا ً اگر کہا جائے "گنگا میں گھوش” اس کے معنی آپ یہ کرتے ہیں کہ گنگا کے قریب واقع گاو ¿ں میں گھوش نہ کہ گنگا کے پانی میں گھوش۔ پھر آپ شمبھل لفظ سے ویسے ہی معنی کیوں اخذ نہیں کرتے۔ اگر گنگا میں گھوش ، جملے میں نشان مانتے ہیں تو اس جملے میں بھی نشان مانئے۔آخری اوتار کے مقام کے موضوع پر قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ وہ مقام جس کے آس پاس پانی ہو اور پر کشش اور امن دینے والا مقام ہو۔ اوتار کی سرزمین مقدس ہوتی ہے لہذا اس مقام میں بھی تقدس ہونا لازم ہے وہاں تشدد وغیرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ مقام زیارت گاہ بھی ہونی لازم ہے یعنی لوگوں کیلئے وہ دینی مقام ہو۔”شمبھل” کے لفظی معنی بلد الامین کے ہیں۔ آخری اوتار کا سسمقام ، امن دینے والا ، تشدد اور حسد سے پاک ہونا چاہیے۔آخری اوتار کیلئے ضروری نہیں کہ وہ ہندوستان میںہو اور سنسکرت یا ہندی ہو۔ اگر ہر ملک کی زبان ، وضع قطع اور نام ایک ہی ہوتی ہے۔ یہ کہنا جہالت ہے کہ اوتار صرف بھارت میں ہو۔ کیا بھارت ہی ایشور کا پیارا مقام ہے؟ اور دوسرے ممالک پیارے نہیں ہیں؟ کیا دنیا صرف بھارت ہے؟ دیگر مملک دنیا میں نہیں ہیں؟لہذا آخری اوتار بیرونِ ہند میں بھی ہو سکتا ہے اور اس ملک کی زبان و دستور اور وضع قطع کے مطابق اس کو چلنا ہوگا لیکن بے دینی اور بے انصافی کے خلاف۔زمانہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت میں آج سے چودہ سو سال پہلے کوئی ایسی شخصیت نہیں پیدا ہوئی جو آخری اوتار کے معیار پر پوری اترے۔تمام پرانوں میں کلکی اوتار کا مقامِ پیدائش شمبھل بتایا ہے۔ سمبھل یا شمبھل ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔آخری اوتار کی بعثت کے مقام کا تعین مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں کیا جائے گا۔آخری اوتار کی تصدیق:متذکرہ بالا بیانات میں یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ کلکی اوتار شہسوار اور شمشیر بکف ہوگا۔ تلوار گھوڑے کا زمانہ گزر چکاہے۔ اب تو جیٹ طیاروں اور ایٹمی اسلحہ جات کا زمانہ آ گیا ہے ۔لہٰذا آخری اوتار کے زمانے کا تعین موجودہ عہد سے پیشتر ہی ثابت ہوتا ہے۔ آخری اوتار کی آمد کے وقت دنیا کے حالات بھی ثابت ہو چکے ہیں۔ بے دینی ، مظالم اور زیادتیوں کے عروج میں آنے پر آخری اوتار کا ظہور ہوگا۔

 کلکی اوتار اور حضرت محمد ﷺ کا تقابلی مطالعہ :

1:۔ شہسواری اور شمشیر برداری:بھاگوت پران ، بارہواں اسکنددوسرے ادھیائے کے انیسویں شلوک میں مذکور ہے کہ کلکی اوتار ملائکہ کے ذریعہ دئیے گئے گھوڑے پر سوار ہو کر تلوار سے بدکاروں کا خاتمہ کردیں گے ۔ کلکی کا گھوڑا جو ملائکہ کے ذریعے عطا کیا جائے گا ، بہت ہی شاندار ہوگا ، اسی پر سوار ہو کر وہ بدکاروں کا قلع قمع کریں گے۔ حضرت محمد کو فرشتہ (جبرئیل) کی معرفت گھوڑا ملا تھا ، جس کا نام براق تھا۔ اس پر سوار ہو کر حضرت محمد رات میں سفرِ زیارت (معراج) کیلئے تشریف لے گئے۔ آپ کو گھوڑے پسند تھے لہٰذا آپ کے پاس 7(سات) گھوڑے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت محمد کو دیکھا کہ آپ گھوڑے پر سوار تھے اور تلوار حمائل تھی۔ حضرت محمد کے پاس کل 9(نو)تلواریں تھیں ، جن میں سے ایک سلسلہ خاندان سے دستیاب دوسری ذوالفقار اور تیسری قلعی نام کی تلوار تھی۔2:۔جگت گرو:بھاگوت پران میں آخری اوتار کو جگت پتی کہا گیا ہے۔ جگت کے معنی "عالم” کے ہیں اور پتی کے معنی ‘حفاظت کرنے والا’کے ہیں۔ لفظ جگت پتی کے معنی یہ ہوئے کہ اپنے پند و نصائح کے ذریعے گرتے ہوئے

 معاشرے کو بچانے والا اور وہ معاشرہ نہیں بلکہ لامحدود معاشرہ یعنی عالم ہے۔ مفہوم یہ ہوا کہ جگت کا گرو سرورِ عالم ہوگا۔ حضرت محمد کی شان میں قرآنِ کریم میں آیا ہے :۔ ” اے محمد! اعلان کر دو کہ اے تمام دنیا کے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں "اور دوسری جگہ سورة الفرقان میں آیا ہے کہ: "بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام عالموں (قوموں ) کیلئے ڈرانے والا ہو”۔ اس طرح سے عالم کی سروری کا وجود اور عظمت دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں۔

3:۔ اسادھو دمن:کلکی اوتار میں مذکور ہے کہ وہ بدکرداروں کو ہلاک کر دیں گے۔ یہی بات حضرت محمد کی ذاتِ بابرکات پر ثابت آتی ہے۔ آپ نے بھی خاتمہ بدکاروں کا ہی کیا اور قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے، جن مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے ، ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بھی لڑیں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ حضرت محمد نے لٹیروں اور ڈاکوو ¿ں کو سدھار کر انہیں توحید کی تعلیم دی۔ اللہ کی عبادت میں دیگر معبودوں کو شریک کرنے سے منع فرمایا اور بت پرستی کی تردید کی۔ آپ نے ازلی دین کو قائم کیا اور فرمایا کہ میں زمانہ قدیم کے دین کو ہی قائم کر رہا ہوں۔ یہ کوئی نیا دین نہیں ہے۔ لفظ "اسلام” کے معنی ہیں :۔ اللہ کی فرمانبرداری کرنے والا دین۔ اور لفظ وید کے معنی بھی خدا کا کلام ہے۔ اس کی فرمانبرداری کرنے والا مذہب ویدک ہے۔ لہذا ویدک مذہب یا دینِ اسلام کی راہ میں جو مزاحم ہیں انہیں کافر یا ناستک کہا جاتا ہے۔ ان سے مخالفت اور ان کا انسداد ایک فطری عمل ہے۔آپ کی ولادت مبارکہ سے پیش تر ایران میں کیقباد پہلا بادشاہ تھا جس نے پیغام مزدک سے متاثر ہو کر اعلان کیا تھا کہ "دولت اور عورت پر تمام لوگوں کا حق ہے۔ ان پر کسی خاص شخص کا حق نہیں ہے۔” جس کے نتیجہ میں بدکاری حد سے تجاوز کر چکی تھی۔ ایسے عالم میں حضرت محمد ہی کی شخصیت تھی جن کے متبعین نے ان انتہائی شریروں کو شکست فاش دے کر دین کی عزت و ناموس کو قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

4:۔ مقامِ پیدائش کی مطابقت :کلکی اوتار کا مقام ِ پیدائششمبھل ہوگا اور وہ وہاں کے برہمن کے گھر میں تولد ہوگا۔ اس برہمن کا نام وشنوویش ہوگا۔ ظاہر ہے مذکورہ نام سنسکرت زبان کے ہیں۔ جو یا تو معنوں کے تعین کرکے لکھے گئے ہیں یا پھر ان کی بگڑی صورت عربی زبان میں ہوگی۔سنسکرت میں عام طور پر ناموں کے غالب معنوں کو اہمیت دی جاتی ہے چنانچہ ان ناموں کے معنوں کو قبول کرنا زیادہ مفید ہے۔شمبھل کا مادہ "شم” ہے جس کے معنی "امن کرنا” ہوتے ہیں۔ اس میں "بن” لاحقہ لگا ہوا ہے۔ شمبھل کے معنی "دار الامن” ہوں گے اور مکہ معظمہ کو عربی زبان میں دار الامن بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی "سلامتی کا گھر” ہیں۔5:۔ پردھان پروہت:(صدر برہمن کے گھر ولادت) کلکی اوتار کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ وہ "برہمنوں کے سردار” کے گھر میں پیدا ہوگا۔حضرت محمد مکہ معظمہ میں کعبہ اللہ کے پردھان پروہت (صدر متولی کعبہ) کے گھر میں متولد ہوئے۔6:۔ والدین کے مسئلہ میں مطابقت:کلکی کی والدہ کا نام کلکی پران مین "سومتی”(سوموتی)آیا ہے ، جس کے معنی "امانت دار” اور "بہترین اخلاق والی” ہیں اور والد کا نام "وشنو یش” آیا ہے جس کے معنی "اللہ کا بندہ ” ہوتے ہیں۔ حضرت محمد کی والدہ ماجدہ کا نام "بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا” ہے جس کے معنی امانت دار اور امن والی بی بی کے ہوتے ہیں اور والد بزرگوار کا نام "حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ” ہے۔ عبداللہ کے معنی اللہ یعنی وشنو کا”یش” یعنی بندہ (عبداللہ ) ہوتے ہیں۔7:۔ آخری اوتار ہونے میں مطابقت :کلکی کو آخری زمانے کا آخری اوتار بتایا گیا ہے۔ حضرت محمد نے بھی اعلان فرمایا ہے کہ”میں خاتم النبین ہوں ” یہی وجہ ہے کہ مسلمان آپ کے بعد کسی کو نبی نہیں مانتے۔کتاب "واچس پتیم ” اور "شبد کلپتر” میں کلکی لفظ کے معنی "انار کھانے والے ” اور "بدنامی کے داغ کو مٹانے والے” بتائے گئے ہیں۔ حضرت محمد بھی پھلوں میں انار اور کھجور پسند فرماتے تھے اور قدیم زمانے سے جمے ہوئے شرک اور کفر کے بدنما دھبوں کو دھو کر آپ نے پاک کر دیا۔8:۔ شمال کی سمت جانا اور تبلیغ کی بابت مطابقت:کلکی پران میں مذکور ہے کہ کلکی پیدا ہونے کے بعد پہاڑی کی طرف جائیں گے اور وہاں پر شو رام جی سے عرفان حاصل کریں گے اس کے بعدشمال کی طرف جا کر وہاں سے پھر بستی کو آئیں گے۔ حضرت محمد اپنی ولادت باسعادت کے بعد پہاڑی (جبل نور پر واقع غارِ حرا) گئے اور وہاں جبرائیل کے ذریعے عرفان (وحی) حاصل فرمایا۔ یعنی آپ پر بذریعہ جبرائیل وحی سے قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ اس کے بعد آپ جانبِ شمال (مدینہ منورہ) گئے (ہجرت فرما کر) اور وہاں سے پھر دکھن(مکہ معظمہ) کی طرف (مع دس ہزار صحابہ کرام) مراجعت فرمائی اور اپنے مقام مکہ کو فتح کیا۔ کلکی اوتار کے بیان میں یہی واقعات پیش ہونے کا اعلان پرانوں میں موجود ہے۔

9:۔ شیو کی جانب سے کلکی کو ایک گھوڑا عطا کیا جانا:شیو کلکی کو ایک گھوڑا دیں گے جو بہت اعجازی ہوگا۔ حضرت محمد کو بھی براق نامی گھوڑا اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملا تھا۔10:۔چار بھائیوں کی معیت میں کلکی کا انسداد:کلکی پران میں مذکور ہے کہ کلکی چار بھائیوں کے ساتھ کلی(شیطان) کا انسداد کریں گے۔ حضرت محمد نے بھی اپنے چار رفقا ءکے ساتھ شیطان کا انسداد فرمایا۔ ان چار رفقاءکے نام حسبِ ذیل ہیں۔(1)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ(2)حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (3)حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(4)حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاروں صحابہ کرام حضرت محمد کے بعد آپ کے جانشین خلفا ئِ راشدین ہوئے اور آپ کے پیغامِ توحید اوردینِ خالص کی تبلیغ فرمائی۔11:۔ ملائکہ کے ذریعے تائیدِغیبی :کلکی پران میں مذکور ہے کہ کلکی کو دیوتاو ¿ں (ملائکہ ) کے ذریعے جنگوں میں مدد ملے گی۔ یہی بات حضرت محمدکے ساتھ پیش آئی یعنی جنگِ بدر میں فرشتے آپ کی مدد کیلئے نازل کیے گئے۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ:۔ "یقیناً اللہ نے تم کو جنگِ بدر میں مدد دی جبکہ تم کمزور تھے ، پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم شکر گزار بنو۔ جب تم مومنوں سے کہتے تھے کہ کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار نازل شدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے ! ہاں اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اور کفاراپنے پورے جوش میں تم پر حملہ کر دیں تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہونگے تمہاری مدد کوپہنچیں گے۔ جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے سو اس نے تمہاری دعا قبول کی ، کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے ، تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔ اے ایمان والو! اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم پر

فوجیں چڑھ آئیں سو ہم نے ان پر ہوا اور ایسے لشکروں کو بھیجا جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے۔12:۔ بے مثال حسن والے:کلکی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بے مثال حسین ہوں گے یعنی وہ اتنے حسین ہوں گے کہ ان کے حسن کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ حضرت محمد کے متعلق روایت ہے کہ آپ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر حسین اور تمام انسانوں میں اکمل نمونہ اور غازی تھے۔

13:۔ تاریخ پیدائش میں مطابقت:کلکی پران میں کلکی کی تاریخ پیدائش کے مسئلے میں مرقوم ہے کہ مادھوماس (ماہ ربیع الاول) کے شکل پکش کی 12 تاریخ یعنی زائد النور ، بارہویں تاریخ کو پیدائش ہوگی۔ اور حضرت محمد کی ولادت باسعادت بھی بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ جس کے معنی مادھو ماس کے شکل پکش کی بارہ تاریخ یعنی زائد النور ہوتے ہیں۔14:۔ خوشبوئے بدن:شریمد بھگوت پران کی رو سے ، کلکی کے جسم کی مہکتی ہوئی خوشبو کے اثر سے لوگوں کے قلوب پاک ہو جائیں گے۔ یعنی ان کے جسم مبارک کی خوشبو ہوا میں شامل ہو کر لوگوں کے قلوب کو پاک کرے گی۔ حضرت محمد کے جسم مبارک کی خوشبو تو مشہور ہی ہے۔ آپ جس سے بھی مصافحہ کرتے اس کے ہاتھ میں دن بھر خوشبو رہتی تھی۔ آپ کے غلام حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کے جسم اقدس کی خوشبو ہوا کو خوشبو دار بنا دیتی تھی ، جب آپ گھر سے باہر تشریف لاتے تھے۔ایک دفعہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے جسم مبارک کے پسینے کو جمع کیا۔ آپ کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے خوشبوو ¿ں میں ملاتے ہیں کیونکہ یہ تمام خوشبوو ¿ں سے بڑھ کر خوشبو دار ہے۔15:۔اشٹ ایشوریہ گڑانوت:بھاگوت پران اسکند 12 دوسرے ادھیائے میں کلکی کو اشٹ ایشوریہ گڑانوت یعنی "آٹھ صفات جاہ و حشم ” والے کہا گیا ہے۔ وہ حسبِ ذیل ہیں۔1۔پرگینا (علم و دانائی)2۔ کلینا (اعلیٰ نسبی)3۔ ایندری دمن(ضبطِ نفس)4۔شرتی گنان(علم الکتاب)5۔ پراکرم (شجاعت)6۔ ابہو بھاشتا (کم سخنی)7۔ دان (جود و سخا)8۔ گرتکنیتا (شکر گزاری)۔

اشٹ ایشوریہ گڑانوت1۔ پر گینا(علم و دانائی):مسئلہ علم ودانائی میں بھی حضرت محمد سے مطابقت یہ ہے کہ آپ ماضی ، حال اور مستقبل کی تمام باتیں بتانے میں کامل استطاعت رکھتے تھے۔ اس کی تائید میں کئی مثالیں عنایت احمد کی کتاب "الکلام المبین” میں پائی جاتی ہیں۔ بطور نمونہ اس کتاب میں سے ایک مختصر تاریخی حوالہ ملاحظہ ہو :۔ "رومیوں اور ایرانیوں کی جنگ میں جب رومی مغلوب ہوئے تو حضرت محمد نے اپنے رفیقوں کو یہ واقعہ بتایا۔ آپ کے رفیقوں سے اس واقعہ کو جان کر ایک مخالف قریشی ابی بن خلف بہت خوش ہوا اور نو سال کے اندر رومیوں کی فتح کی پیش گوئی سن کر آپ کے رفیقِ سفر و حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سو اونٹوں کی شرط باندھی۔ آخر نو سال کے اندر "نینوا” کی جنگ میں رومیوں کو فتح 627ءمیں ہوئی۔ اس مضمون سے متعلق قرآنِ کریم کی تیسویں سورالروم نازل ہوئی۔ ” اس قسم کی کئی مثالیں ہیں جو آپ کی دانائی اور دور اندیشی سے متعلق تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔2۔کلینا(اعلیٰ نسبی):کلکی ممتاز براہمن خاندان سے متعلق ہوں گے۔ اس کا ثبوت پہلے ہی ہم دے چکے ہیں۔ حضرت محمد بھی کعبةاللہ کے متولی خاندان کے ممتاز گھرانے بنو ہاشم میں پیدا ہوئے ، جو مقدس کعبہ کا محافظ تھا۔ یعنی آپ کی ولادت 571ءمیں قبیلہ قریش کے ممتاز خاندان بنو ہاشم میں ہوئی جو باشندگانِ عرب کا معزز ترین اور سلسلہ قدیم سے محافظ کعبہ خاندان تھا۔3۔ایندری دمن(ضبطِ نفس):صفاتِ جاہ و حشمت میں تیسری صفت ہے حواس کو قابو میں لانا۔ بھارت کی مذہبی کتب میں کلکی کے مضمون میں مرقوم ہے کہ کلکی ضبطِ نفس کے حامل ہوں گے۔ حضرت محمد کے متعلق کہا گیا ہے کہ آپ خود ستائی سے مبرا ، کریم ، پر سکون اور حواس کو قابو میں رکھنے والے (ایندرئیے جیت) اور فیاض تھے۔ حواس ارادے کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ لہٰذا ارادے کو قابو میں میں لانا ہی حواس کو قابو میں لانا ہے۔اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جو شخص نو(9) شادیاں کرے تو معاذاللہ اس کو ہوش مند اور عیش و عشرت پسند کی بجائے حواس پر قابو رکھنے والا کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟ تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کیا یوگی راج شری کرشن جی کی پٹ رانیاں تعداد میں چھ (6)سے زیادہ نہیں تھیں؟۔ زاہد (یوگی) دنیا کے عیش و عشرت میں رہ کر بھی پر خلوص اور جذبہ بے غرضی (نش کام بھاو ¿نا) کے سبب خواہش سے بری رہتا ہے۔ جیسے کنول کا پتہ پانی میں رہتے ہوئے بھی پانی سے الگ رہتا ہے ویسے ہی عابد انسان بھی دنیا کے عیش و عشرت میں رہتے ہوئے بھی اس سے مبرا رہتا ہے۔ لہٰذا حضرت محمد کی نو بیویوں کا رہنا مافوق الفطرت مردانگی کا مظہر ہے۔ اس سے آپ کے ضبطِ نفس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔

4۔شرتی گنان(علم الکتاب):یہ آٹھ صفات ِ بزرگی میں چوتھا وصف ہے۔ سنسکرت میں "شرت” بمعنی ہیں "سنا ہوا کلام” جو رسولوں کے ذریعے سنا گیا ہواور وہ کتاب کی صورت میں محفوظ ہو تا ہے۔ اور یہ لفظ "شر” مادہ سے بنا ہے۔ اس کے معنی ہیں "سننا” لہٰذا وحی کے ذریعہ سنا گیا خدائی کلام جس کتاب میں ہو اس کو "وشرتی” کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد پر فرشتے جبرائیل کے ذریعے کلام اللہ(شرتی) کا نزول ہوتا تھا۔ اس کو سن کر آپ لکھا دیتے تھے۔ قرآن ِکریم آپ کا شرتی گنیان ہے۔ لین پول اس کی تائید میں رقم طراز ہے :۔ "حضرت محمد پر فرشتے کے ذریعے اللہ کا کلام بھیجا جانا حق ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔” آروی سمتھ بھی اس سے متفق ہے۔ ایک وحی میں حضرت محمد کو اللہ کی پیغمبری کا عہدہ (عہدہءنبوت ) پانے والے کہا گیا ہے۔ سر ولیم میور نے بھی حضرت محمد کی بابت لکھا ہے :۔ "وہ اللہ کے رسول اور نمائندے تھے۔” اس طرح حضرت محمد اور کلکی میں مطابقت پائی جاتی ہے۔5۔پراکرم(شجاعت):بزرگی کی آٹھ صفات میں شجاعت پانچواں وصف ہے حضرت محمد ﷺ قوتِ جسمانی میں بھی انتہائی کمال رکھتے تھے۔ اس کے ثبوت میں کئی حقائق تاریخ میں موجود ہیں۔ مثلاً ایک پہلوان جس کا نام ‘رکانہ’ تھا اس کی روداد ملاحظہ ہو۔ اس سے آپ نے سوال کیا :اے رکانہ ! تیرا خدا سے نہ ڈرنے اور ایمان نہ لانے کا سبب کیا ہے ؟ رکانہ پہلوان نے حقکی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا ، تو بڑا بہادر پہلوان ہے ، اگر میں کشتی میں تجھے زیر کردوں تو کیا تو ایمان لائے گا ؟ اس نے قبول کیا۔ تب آپ اسے دو مرتبہ مغلوب کیا۔ پھر بھی وہ پہلوان آپ پر ایمان نہ لایا اور اللہ کی ذات سے منکر رہا۔6۔ ابہو بھاشتا(کم سخنی):کم سخنی بزرگ انسان کی بہت بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ حضرت محمد بھی خاموش طبع تھے لیکن آپ جو کچھ فرماتے تھے ، اتنا اثر انگیز ہوتا تھا کہ سننے والے آپ کی باتیں کبھی نہیں بھولتے تھے۔ باہم گفتگو میں بھی آپ پر سکون رہتے تھے ، لیکن عرب کے لوگ آپ کی باتیں سننا بہت پسند کرتے تھے۔7۔ دان(جود وسخا):خیرات مذہب کا ابدی حصہ ہے۔ غریبوں کو خیرات دینا آٹھ صفات میں ساتواں وصف ہے جو انسان کو نورانی بناتا ہے ، تقریباً ہر ایک بزرگ کے پاس یہ تسلیم شدہ امر ہے۔ کلکی کو پرانوں میں "اشٹ ایشور گنانوت ” کہا گیا ہے یعنی ان میں آٹھوں صفات من حیث المجموع رہنا قرار دیا ہے۔ حضرت محمد تو ہمیشہ عطا کرنے میں مصروف رہتے تھے اور آپ کے مکان پر غریبوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ آپ کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ سر ولیم میور نے بھی حضرت محمدکو بے انتہا حسین و جمیل صورت والے ، شجیع اور سخی بتایا ہے۔8۔ گرتکنیتا(شکر گزاری):ان آٹھ صفاتِ حشمت و بزرگی میں شکر گزاری (کئے گئے احسان کی قدر کرنا ) آٹھواں وصف ہے۔ اس خوبی کے بغیر کوئی شخص بزرگی نہیں پا سکتا۔ کلکی میں مع شکر گزاری آٹھوں صفاتِ حشمت موجود رہنے کی پیش گوئی پرانوں میں مرقوم ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ حضرت محمد میں بھی مذکورہ بالا سات صفات کی موجودگی واضح ہو چکی ہے اور آپ میں شکر گزاری کی موجودگی کا کوئی مورخ غیر معترف نہیں ہو سکتا۔ انصار کے متعلق کہے گئے فقرات آپ کی شکر گزاری کی وضاحت کرتے ہیں۔اللہ کے کلام کا مبلغ:کلکی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ جس مذہب کو قائم کریں گے وہ ویدک مذہب ہوگا اور ان کے وسیلے سے ہدایت کردہ تعلیمات خدائی تعلیمات ہوں گی۔ یہ تو واضح ہی ہے کہ حضرت محمد کے وسیلے سے نازل شدہ قرآنِ کریم ، اللہ کا کلام ہے۔ پھر بھی ضدی لوگ بھلے نہ مانیں !۔ قرآن میں اخلاق ، تقویٰ، محبت اور احسان وغیرہ کرنے کیلئے جو احکام موجود ہیں ، وہی وید میں بھی ہیں۔ قرآن میں بت پرستی کی تردید اور توحید کی تعلیم ، باہم محبت کے سلوک و برتاو ¿ کی ہدایات ہیں۔ وید میں ایکم ستیہ (حق ایک ہے) اور عالمی برادری کا امتیاز ی اعلان ہے۔ ویدوں میں ایشور کی بھگتی (خدا کی عبادت) کا حکم ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے سبب مسلمان دن میں پانچ مرتبہ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں۔ جبکہ برہمن میں شاذ و نادر لوگ تری کال سندھیا (تین وقتوں کی دعا) کرنے والے ملیں گے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کلکی اور حضرت محمد کی بابت ایک ہی باتیں ہیں اور ایک دوسرے میں کافی مماثلت ہے۔

سنسکرت کے عظیم دانشور کے تبصرے:ڈاکٹر گوند کوی راج ،ایم اے ، ایم ایس ایچ ، ایم ڈی ، پی ایچ ڈی۔ سرودرشن آچاریہ ،:ویا کرن آچاریہ ، ساہتیہ آچاریہ ، آیوویدوگنان آچاریہ ، بھیشک آچاریہ ،ویدئے رتن ، ہندی ساہتیہ رتن ، وید انت شاستری (معہ انگلش) پروفیسر ورانئے سنسکرت یونیورسٹی ، پرنسپل نیپالی سنسکرت کالج ورانسی”کلکی اوتار اور حضرت محمد ” کتاب میں نے پڑھی۔ تمام دنیا میں پھیلے ہوئے اصولیاتی باہمی تعصب کو مٹا کر بنی نوع انسان کو ایک اصول کا پابند کرنے کیلئے آپ نے جو بے تکان کوشش کی ہے وہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شری گوپال چند مشرا ،ایم اے، پی ایچ ڈی ، دھرم شاستر آچاریہ : صدر میگہ وید ، سنسکرت یونیورسٹی ورانسی۔خدائی تخلیق میں انسانیت کا مقام یکساں ہے اور اس کی ترقی وتنزلی کے اصول بھی یکساں ہیں۔ تمام ممالک میں بزرگ و عظیم انسانوں کی ضرورت بھی وقتاً فوقتاً پڑتی رہتی ہے۔ کوئی شخص بغیر اللہ کے نور کے نبی یا رسول یا بزرگ انسان بنے ، یہ ناممکن ہے۔ حضرت محمد ملکِ عرب میں بہ تقاضائے زمان و مکاں ، اللہ کے نور سے عظیم الشان نبی ہوئے۔ اس حق و صداقت کو قبول کرنے میں کسی کو تامل نہیں ہو سکتا۔ خواہ کسی خطہ ء ِ ارض پر زمان و مکاں کے مطابق کوئی بزرگ انسان معزز یا پیغمبر ہو۔ تو اس عظمت کا ذکر دیگر ممالک کے لوگ اپنی تہذیب اور زبان کے مطابق الفاظ میں کرتے ہیں۔ اس حقیقت کا یقین ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیائے کی کتاب "کلکی اوتار اور حضرت محمد سے ملتا ہے۔جھوپا شری جے کشور شرما:(ویا کرن آچاریہ پرکان آچاریہ ، سودا منی سنسکرت یونیورسٹی۔ الہٰ آباد)۔پیشِ نظر کتاب "کلکی اوتار اور حضرت محمد ” کا تقابلی مطالعہ پیش کرتی ہے ، جو نئے اسلو ب اور خاص انداز میں ہے۔ جسے پڑھتے ہوئے اطمینان ہوتا ہے اور مصنف کے خصوصی کمال کا اظہاریہ کہ ، دورِ جدید کے عوام کو اتحاد کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ اس سبب سے میرا قلب انتہائی مسرت سے لبریز ہو رہا ہے۔ عالی جناب مصنف پر خدائے پاک (ایشور) اپنی نظرِ التفات کی نوازش فرمائے اور فلاح یاب کرے۔ اس حسین تصنیف کو دیکھنے کے بعد کوئی دوسری قسم کی تصنیف نظر نہیں آتی۔شری اشوک تیواری،لویدی اٹاوہ۔ یوپی:”کلکی اوتار اور حضرت محمد ” کا تقابلی مطالعہ کے عنوان پر تحقیقی کتاب پڑھ کر تمام مذاہب کی یکسانیت کے قدیم احترام کے خیال کو مزید تقویت ملی۔وہ رسول (کلکی) کی دینی فتح کے اسباب میں گھوڑوں اور شمشیروں کے استعمال کا اشارہ ہر ذی فہم انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ موجودہ دور میں اس پیش گوئی کے عمل میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ یہ دورِ ماضی میں عمل پیرا ہو چکی ہے۔ بالاختتام کتاب کا مفہوم یہی ہے کہ بھاگوت کے کلکی ہمارے محمد ﷺہی ہیں۔ فی الحقیقت اس مقتدرِ اعلیٰ ہستی کی ہمہ گیری کیلئے ان معیارات کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے ، لیکن میں اپنی نیک خواہشات میں یہی کہوں گا کہ اپادھیائے جی کی یہ کوشش ہندوو ¿ں اور مسلمانوں کے متعصب خیالات کو پاک کرنے میں کامیاب ہو۔شری رام بھون مصرا۔بھوج کولھوا چلہ۔ مرزا پور۔ یوپی:

"کلکی اوتاراور حضرت محمد “یہ کتاب کا تقابلی مطالعہ کے عنوان پر تحقیقی کتاب بلاشبہ ایک نئی تحقیق ہے جس میںمدلل حقائق کے ساتھ ہندوو ¿ں اور مسلمانوں کے اختلافی نظریات ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی دنیا کا قیام کرے گی جو نجات دہندہ اور پر اطمینان اور دکھ سے عاری ہوگی۔شری اندر جیت شکلا (بردوان)کتاب "کلکی اوتار اور حضرت محمد "کا تقابلی مطالعہ کرنے سے مجھے اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ کلکی اوتار اور محمد ایک ہی وجود ہیں۔ڈاکٹر رام سہائے مصرا شاستری،بہادر گنج۔ الہٰ آبادپنڈت وید پرکاش اپادھیائے کی تصنیف "کلکی اوتار اور حضرت محمد "کا تقابلی مطالعہ کے موضوع کا تحقیقی کارنامہ میں نے اچھی طرح دیکھا ہے۔فاضل محقق نے اس مختصر کتاب میں ہندوستانی پرانوں کے ادب اور اسلامی ادب کا تقابلی مطالعہ کر کے جو کلکی اوتار کے متعلق اہم ترین تحقیقی خدمت انجام دی ہے وہ دورِ حاضر کے مذہبی ٹکراو ¿ کی بیخ کنی کیلئے بہترین ثابت ہوگی۔ اس طرح سارے عالم میں توحید کی تبلیغ ہوگی اور بنی نوع انسان میں اخوت اور محبت پیدا ہوگی۔ ہم پر امید ہیں کہ یہ مختصر کتاب تمام فرقوں میں پسندیدہ ہو گی اور محدود کور بینا لوگ اپنے تنگ عقائد سے دور ہو کر عالمی اخوت کی روشنی میں آ جائیں گے اور یہ سعی ایک عظیم اشتراک کا پیغام دے گی۔ ہم نیک تمناو ¿ں کے ساتھ دعا گو ہیں کہ مصنف کی سعی قوم کیلئے مبارک ہو۔

 سید خلیل اللہ حسینی،صدر کل ہند مجلس تعمیرِ ملت کا تبصرہ:جناب وید پرکاش ا ±پادھیائے صاحب کی تحقیق قابلِ قدر ہے۔ ضرورت ہے کہ اہلِ ملک بڑی تعداد میں اس کتاب کو پڑھیں اور خود مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ کلکی اوتار کون ہےں۔ جو لوگ اس مقالہ کو غیر مسلموں تک پہنچانے کیلئے شائع کریں وہ آخرت میں اس کا اجر پائیں گے۔ خود ڈاکٹر وید پرکاش ا ±پادھیائے صاحب قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے تحقیق کا حق ادا کیا۔ رحیم قریشی :معتمدِ عمومی کل ہند مجلس ِ تعمیرِ ملت و سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا تبصرہ:کتاب بہت اچھی ہے۔ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں کے ہاتھوں میں پہنچنا چاہیے۔ مصنف سے اجازت لے کر تلنگی اور ہندی میں کثیر تعداد میں شائع کر کے تقسیم کی جائے اور اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ مصنف کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمائے۔(آمین)

تبصرے بند ہیں۔