ناامیدی: اسباب، اثرات اور علاج

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

اللہ تعالی بنی نوع انسان کو اپنی عبودیت و بندگی کیلئے  معرضِ وجود میں لایا ہے۔موت وحیات کی تخلیق باری تعالی نے اس لئے کی  ہےتاکہ وہ آزمائے کہ کون زیادہ بہتر عمل کرتا ہے،کون اس کے امتحانات و ابتلاءات میں کامیاب و سرخ رو ہوتا ہے اور کون ناکام و نا مراد ؟انسانی زندگی کو اللہ تعالی  نے خوشی و غم کا سنگم بنایا ہے۔ اس میں امید و بیم،دکھ و سکھ،قلق و راحت اور نشیب و فراز کا  لا متناہی سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔حلاوتِ ایمان سے آشنا افراد سکھ دکھ کے سارے لمحات کو خندہ پیشانی کے ساتھ گزار لیتے ہیں۔ مسرت و شادمانی کے وقت اللہ  کا شکر بجالاتے ہیں اور حزن و ملال کے موقعے پر صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ دولتِ ایمان کی شیرینی سے محروم اشخاص خوشی کے لحظات سے تو خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن غم کا  ناگوار سایہ جب ان کی زندگی پر پڑتاہے تو تلملا اٹھتے ہیں۔ ان کے لبِ نا شکرگزار پر زندگی سے نالانی و پریشانی کے گلے شکوے رقص کناں ہو جاتے ہیں۔ وقتی مصیبت پر صبر وثبات کا مظاہرہ کرنے کی بجائےیاس و قنوط کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی وسعتِ رحمت سے نا امید ہوکر آخرت کو  برباد کرنے کےساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کو بھی موت سے بد تر اور جہنم زار بنا لیتے ہیں۔

ذیل میں نا امیدی کے اسباب،اثرات اور اس مذموم صفت سے  دور رہنے کے طریقۂ کار پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نا امیدی کے چند اسباب :

1-اللہ تعالی کی وسعتِ رحمت سے لا علمی :

 اللہ تعالی کی وسیع رحمت،بے پایاں احسانات و انعامات اور لا  محدود  اکرامات و نوازشات سے جہالت و لا علمی کی بنا پر بندہ  مصائب و آلام، شدائد و مشکلات  اور آفات و بلیات کے وقت نا امیدی کا شکار ہوجاتا ہے۔حالانکہ اللہ کی ذات پاک قادر مطلق ہے وہ جو کام کرنا چاہے  اس کیلئے اسے صرف لفظ  ” کن ” ہی کافی ہے۔اگر وہ کسی کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو  نجات دینے والا بھی وہی ہے۔اس  کا شامیانۂ رافت تمام دنیا پر سایہ فگن ہے۔ اس کی ردائے رحمت نے کل عالم کو اپنی وسعتوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس کا فرمان ہے :

[رَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْئٍ]  (الأعراف : 156)

"میری  رحمت تمام  چیزوں پر محیط ہے”۔

لا ریب اس کی رحمت ہمہ گیر ہے اور اس عالم آب و گل میں اس کا فیضان  اس قدر عام ہے کہ اس کو حیطۂ شمار میں لانا اور اس کی وسعتوں کی پیمائش کرنا ممکن نہیں۔ اس لئے  مصیبت زدہ انسان کو چاہیئے کہ وہ اللہ کی وسعتِ رحمت پر کامل یقین رکھے اور اس کی ہمہ گیر رحمت کی صحیح معرفت حاصل کرنے کیلئے بھر پور تگ و تاز کرے۔

2- خوف الہی میں غلو و افراط :

بندہ  بتقاضائے بشریت کسی عظیم گناہ  یا شدید جرم کا  ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے نہاں خانۂ دل میں اپنے جرم و گناہ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دلی اعتبار سے پشیماں ہوکر  گناہوں سے تائب بھی ہونا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے  گناہ کی سنگینی اور جرم کی شدت  کی بنا پر اللہ کے خوف میں غلوآمیزی و افراط کا شکار ہوکر یاس و قنوط میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کیلئے بخشش کے دروازے مسدود ہو چکے ہیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کوئی  شخص اللہ  کا اس قدر  غلو آمیزانہ خوف نہ کھائے کہ خوف کی شدت اسے قنوط میں مبتلا کردے اور اللہ کی رحمت سے نا امید بنادے۔اس لئے کہ ایسا خوف مذموم ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوف الہی کی حد یہ ہے کہ وہ تمہیں معاصی و سیئات کے ارتکاب سے روک دے۔خوف الہی کی اس حد کو تجاوز کرنا درست نہیں۔ نیز ایسا خوف جو مایوسی میں مبتلا کردے در اصل اللہ کی رحمت کے ساتھ بے ادبی ہے۔ (مدارج السالکین : 2/371)

3-قنوطی افراد کی صحبت :

بسا اوقات  ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے۔اور اسے اپنے رب پر بھروسہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن  وہ اس پر نظر کرم ضرور فرمائےگا۔دیر ہی سے صحیح اس کے سر پر منڈلانے والی  مصیبت کی مہیب گھٹا ضرور چھٹےگی۔لیکن اسے ایسے لوگوں کی معیت و صحبت میسر ہوتی ہے جو ہمیشہ یاس و قنوط کی وادیوں میں بھٹکنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ کی رحمت و مغفرت کا ذکر کم اس کے غیظ و غضب کا ذکر ہمیشہ ان کے لبوں پر رہتا ہے۔نتیجتاً اس قنوطیت زدہ صحبت کے برے اثرات اس کےنقشۂ ذہن پر دیر سویر مرتب ہو ہی جاتے ہیں۔

4-قلتِ صبراور حصول نتائج کی جلدی :

مصائب و آلام  پر صبروتحمل انسان کے اندر امید کی کرنیں روشن رکھتا ہے۔اس کے اندر شدائدو مشکلات سے نبردآزمائی کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔صابر و متحمل شخص  اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتاہے اور نہ ہی نتائج کے حصول کیلئے جلدی بازی سے کام لیتا ہے۔کیونکہ  جلدی بازی  پیمانۂ صبر کو بہت جلد لبریز کردیتی ہے۔ پھر انسان صبر کا دامن ترک کرکے  شکستہ خاطر ہوجاتا ہے۔اس کے اندر نا امیدی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔ اسی لئے ایک حدیث میں قبولیت دعا کی جلدی بازی سے منع کیا گیا ہے۔

"عن أبي هريرةَ أَنَّ رسولَ اللهِ ﷺ عليه وسلم قال:يُستَجابُ لأحدِكم ما لم يعجَل،يقول :دعوتُ فلم يُستجَبْ لي "(البخاري : 6340)

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے کسی کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے، کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی”۔

5- دنیا سے  دل کی  حدسے زیادہ وابستگی :

جب انسان کو دنیا کے مال و منال اور اسباب تعیش و تنعم سے  بہت زیادہ  لگاؤ ہوتا ہے تو راحت طلبی  اس کا لازمۂ حیات بن جاتی ہے۔ہمیشہ اسے سکون واطمینان،صحت و تندرستی،پرازاشتیاق طرز حیات اور پر شکوہ اسلوب زندگی کی خواہش ہوتی ہے۔راحت میں اترانا اور مصیبت میں نا امید ہونا اس کا شیوہ  بن جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا : [وَإِذَا أَذَقْناَ الناسَ رحمةً فَرِحُوْا بِھا وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ بِماَ قَدَّمَتْ أَيْدِيْھُمْ إِذَا ھُمْ يَقْنَطُوْنَ] (الروم : 36)

"اور جب  ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھا تے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں ان کےکرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہونچے تو ایک دم وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں "۔

نا امیدی کے بعض مضر اثرات :

1-نا امیدی کافروں و گمراہوں کا شیوہ ہے:

ایک مؤمن بندہ پر خواہ لاکھ شدائد و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، اس کے پائے ثبات پر تزلزل پیدا نہیں ہوتا۔سخت سے سخت حالات میں بھی وہ صبر و رضا  کا دامن نہیں چھوڑتا۔اسے اپنے رب کریم کی وسیع و ہمہ گیر رحمت پر کامل یقین ہوتا ہے۔ وہ کبھی نا امیدی کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتاکہ نا امیدی تو محض کافروں و گمراہوں کا شیوہ ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :[قَالَ وَمَنْ يَّقْنُطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا القَوْمُ الضَّآلُّوْنَ] (الحجر :56)

"كہا اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں "۔

2-نا امیدی اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب ہے:

اللہ کی  وسعت رحمت دیکھئے کہ اس سے صرف مؤمن و صالح افراد ہی  فیضیاب نہیں ہو رہے  بلکہ رحمت الہی کی کشادگی سے صالح و فاسق اور مؤمن و کافر دونوں ہی محظوظ ہو رہے ہیں۔ جدھر دیکھو رحمت الہی کے فیوض ہی نظر آئیں گے،اس لئے کہ بارگاہ خداوندی سے فقط رحمت ہی کا صدور وظہور ہوتا ہے۔

اس کا فرمان ہے :[ کَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ](الأنعام :120)

"الله نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ رحمت فرمائے”۔

بنا بریں اگر کوئی شخص اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے تو گویا وہ ان آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کا مکذب و منکر قرار پاتا ہے جن میں رحمت  الہی کی وسعت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

3- نا امیدی کفر و شرک اور ہلاکت و ضلالت میں واقع ہونے کا سبب ہے:

اللہ کی رحمت کے فیوض سے نا امید شخص اپنی توحید کی حفاظت نہیں کرپاتا ہے۔اپنی حرماں نصیبی پر افسردہ خاطر ہوکر دکھ و درد کا  درماں کفر و شرک کے اڈوں میں تلاشنےلگتا ہے۔حالانکہ اسے لا محالہ اتنا ہی مل سکتا ہے جتنا اس کے نوشتۂ تقدیر میں ہے۔اس لئے اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا اپنے آپ کو ہلاکت و بربادی  کی کھائی میں ڈھکیلنا ہے۔اور اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ہلاک کرنے سے منع فرمایا ہے۔

فرمان باری تعالی ہے : وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّھْلُكَةِ (البقرة : 195)

"اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو”۔

محمد بن سیرین رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :الإلقاء إلى التھلكة ھو القنوط من رحمة الله (معالم التنزيل :1/217)

یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے۔

4- اذکار و عبادات میں کاہلی :

نا امیدی کےمضراثرات جب کسی کے ذہن و دماغ کے پردۂ اسکرین پر مرتب ہوتے ہیں تو وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں بھی فروگذاشت کا مرتکب ہو جاتا ہے۔بلکہ بسا اوقات  اعمال کے فوائد سے نا امید ہوکر طاعت و بندگی سے یکسر غافل ہوجاتا ہے۔

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : القانطُ آئسٌ من نفعِ الأعمالِ، ومن لازم ذالك تركھا (الزواجر :1/122)

یعنی مایوس آدمی چونکہ اعمال کے فائدے سے نا امید ہوتا ہے،اس لئے وہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔

5- معاصی و سیئات پر استمرار و مداومت :

ابو قلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الرجلُ يُصِيبُ الذنبَ فيقول :قد ھلكتُ،ليسَ لي توبةٌ،فَيَيْأَسُ من رحمةِ اللهِ،و ينھمك في المعاصي، فنھاھم الله تعالي عن ذالك،قال تعالى :[إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللهِ إلا القومُ الكافرون] (يوسف :87) (معالم التنزيل :1/217)

جب آدمی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ہلاک ہوگیا، میرے لئے توبہ نہیں، چنانچہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوکر گناہوں میں (مزید) منہمک ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے لوگوں کو ناامیدی سے منع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:”یقیناً رب  کی رحمت سے کافر لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں "۔

  نا امیدی کے مذکورہ بالا پانچ اور ان کے علاوہ دیگر مضر اثرات جب یاس وقنوط میں مبتلا آدمی کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں تو اس کی زندگی جہنم زار بن جاتی ہے۔سکون و اطمینان غارت ہوجاتا ہے،دائمی قلق و اضطراب میں گرفتار ہوجاتا ہے، ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی زد میں آکر مرغ نیم کشتہ  کی سی زندگی گزارتاہے۔زندگی سے زیادہ موت کی تمنا ہوتی ہے۔سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ  مایوسی کے ان جاں گسل حالات میں اکثر و بیشتر قنوطیت زدہ افراد خودکشی جیسے بزدلانہ اور حرام کام کا ارتکاب بھی کرلیتے ہیں۔ اور پھر نہ دنیا ملتی ہے  نہ آخرت۔اسی لئے شریعت اسلامیہ نے بڑی سختی کے ساتھ  نا امیدی سے منع کیا ہے۔

اب آئیے ناامیدی و مایوسی کے بھنور سے نجات دلانے والے چند ممد و معاون وسائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔

ناامیدی سے دور رہنے کےچند معاون وسائل :

1-  اللہ تعالی کے اسماء و صفات پر ایمان :

بندہ اگر اللہ تعالی کے اسماء و صفات پر مکمل ایمان وایقان رکھے،ان کے معانی و مطالب  پر تدبر و تفکر کرے،اور ان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے زندگی گزارے تو وہ کبھی بھی ناامیدی کی وادی میں نہیں بھٹک سکتا۔کوئی شخص اگر کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے اللہ تعالی کی صفتِ رحمت کو یاد کرکے اس سے رحم وکرم طلب کرنا چاہیئے کہ وہ رؤف ہے،رحمن ہے،رحیم ہے۔اس کے رحم وکرم کا شامیانہ تمام دنیا پر سایہ فگن ہے،یقیناً اس پر رحم فرمائےگا۔کوئی  بندہ کسی جرم و گناہ کا ارتکاب کرکے پشیماں ہے تو اسے اللہ تعالی کی صفت مغفرت کو یاد کرنا چاہیئے کہ وہ غفورہے،غفارہے،تواب ہے،وہ اپنے بندوں کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے،اس کی توبہ کو یقیناً  شرف قبولیت عطا کرےگا۔اگر کوئی آدمی مہلک ولاعلاج مرض میں مبتلاہے،دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔پھر بھی اسے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالی جس نے بنی نوع انسان کو علم طب سے روشناس کیاہے،اس کے پاس  تمام طرح کے امراض عویصہ کا علاج موجود ہے۔اس نے کوئی ایسی بیماری ہی نہیں پیدا کی ہے جس کا علاج نہ ہو۔یہ الگ بات ہے کہ طبابت کی رسائی وہاں تک نہیں ہو سکی ہے۔الغرض ہر درد کا درماں، ہر مصیبت سے رستگاری اللہ کے دربار میں ممکن ہے،بشرطیکہ بندہ مکمل ایمان و یقین کے ساتھ اس کا طلبگار ہو۔

2-اللہ سے حسن ظن :

ناامیدی کے گرداب سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ بندہ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ سے حسن ظن رکھے۔ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

عن أبي هريرةَ رضي اللهُ عنه قال:قال النبيُّ ﷺ يقولُ اللهُ تعالى:أنا عندَ ظَنِّ عبدِي بِي،وأنا معه إذا ذَكَرَنِيْ،فإن ذكرني في نفسِه،ذكرتُه في نفسِي،وإن ذكرني في مَلَأٍ، ذكرته في ملأ خير منه،وإن تَقَرَّبَ إلي بِشِبْرٍ تقربتُ إليه ذراعاً، وإن تقرب إلي ذراعاً تقربتُ إليه باعاً وإن أتاني يمشي أتيتُه هرولةً (البخاري :7505)

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جب مجھے وہ یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر (فرشتوں کی )مجلس میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں۔ اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں "۔

3-قضاء و قدر پر ایمان :

جب بندہ کو اس بات پر یقین ہوگا کہ سب کچھ قضاء و قدر کے مطابق ہورہا ہے تو وہ ہر حال میں ذہنی سکون و قلبی راحت محسوس کرےگا۔کسی متوقع چیز کے حصول پر اترائےگا نہ اس کےفقدان پر مایوس ہوگا اور نہ  ہی کسی ایسی چیز کے وقوع پذیر ہونے سے  رنجیدہ وپریشان ہوگا جس سے وہ خائف تھا۔

اللہ تعالی نے فرمایا :[ مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَھَا إِنَّ ذَالِكَ عَلَى اللهِ يَسِيْرٌ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتَاكُمْ وَاللهُ  لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ] (الحديد: 22- 23)

” نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے،یہ (کام) اللہ تعالی پر (بالکل) آسان ہے۔ تاکہ تم اپنے  سے کسی فوت شدہ چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو،اور نہ عطا کردہ چیز پر اتراجاؤ اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا”۔

4- مصائب و آلام کے وقت صبر وشکیبائی کا مظاہرہ :

اللہ تعالی نے مصیبت کے وقت مایوس ہونے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے،جبکہ مصیبت پر صبروشکیبائی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اس مذمت سے مستثنی قرار دے کر انہیں مغفرت اور بڑے اجر کا حقدار گردانا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا :

[ وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْناَھَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَؤُوْسٌ كَفُوْرٌ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُوْلُنَّ ذَھَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّيْ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ إِلَّا الْذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوْا الصِّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ لَھُمْ مَغْفِرَةٌ وَّ أَجْرٌ كَبِيْرٌ] (ھود :9 -10- 11)

” اگر ہم انسان کواپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا ہی ناشکرا بن جاتا ہے۔اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہونچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں، یقیناً وہ بڑا ہی اترانے والا شیخی خور ہے۔سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کیلئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی”۔

5-قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کرنا :

جلدی بازی سے گریز کرتے ہوئے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کرنا بھی مایوسی سے بچنے کا بہترین علاج ہے۔ بارگاہ الہی میں وہی دعا  مقبول ہوتی ہے  جو اجابت کے یقین کے ساتھ کی گئی ہو،لا پرواہی اور بے توجہی سے مانگی گئی دعا  قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :

"اُدْعُوْ اللهَ وَأَنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بِالإِجَابَةِ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللهَ لَا يَسْتَجِيْبُ دُعَاءاً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ”

"تم اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگوکہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔اور جان لو کہ اللہ تعالی  بے پرواہ اور لہو و لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا ” (ترمذی :3479-حسنه الألباني )

6- جائز اسباب اختیار کرنا :

اگر کوئی شخص کسی مرض یا مصیبت میں مبتلا ہے تو اسے چاہیئے کہ  اس سے نجات پانے کیلئے ان معاون اسباب کو اختیار کرے جنہیں اللہ تعالی نے جائز قرار دیا ہے۔کوئی مریض ہے تو ڈاکٹر سے اپنا علاج کرائے  اور اللہ کی ذات سے شفایابی کی مکمل امید رکھے۔مصیبت کے وقت ناامید نہ ہونے اور جائز اسباب اختیار کرنے کی اہمیت حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں واضح  طور پر معلوم ہوتی ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام کی جدائی کے بعدپھر جب بنیامین کے تازہ صدمے سے دوچار ئے تو انہوں نے کہا :

[ياَ بَنِيَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوُسُفَ وَأَخِيْهِ وَلَا تَيْأَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُوْنَ] (يوسف :87)

"میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔یقیناً ر اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں "۔

7-دنیا سے بے رغبتی :

ناامیدی کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب دنیا کے مال ومنال اور اسباب حیات  سے غلوآمیز  وابستگی بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آدمی دنیاوی مرغوبات و ملذات کے فقدان پر اس قدر  افسردہ ہوجاتا ہے جتنا نہیں ہونا چاہیئے۔اس بات کو اچھی طرح دل و دماغ کی گہرائیوں میں اتار لینا چاہیئے کہ اللہ تعالی دنیا اپنے پسندیدہ و ناپسندیدہ ہر بندے کو دیتا ہے،لیکن آخرت صرف اور صرف اپنے پسندیدہ و محبوب بندوں کو ہی عطا فرمائے گا۔آپ ذرا غور کریں کہ  ہمارے آخری نبی محمد ﷺ تمام مخلوقات میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب و مکرم تھے،پھر بھی  دنیا اور دنیا کے مرغوبات و ملذات سے اللہ تعالی نے آپﷺ کو دور رکھا۔کتب احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی کئی دن آپ ﷺ نے فاقہ کشی میں گزار دئیے۔

اس لئے ہمارے اندر آخرت کو سنوارنے کی فکر ہونی چاہیئے اور دنیا سےبس اتنا تعلق ہونا چاہیئے  کہ جس سے گزران گزر جائے۔

اللہ تعالی ہمیں ناامیدی جیسی مذموم صفت سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔