غیر افسانوی ادب کے فروغ میں خواتین کاحصہ
مصنفہ:ڈاکٹرحمیرہ سعید
مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل
اکیسویں صدی میں اردوادب میں نسائی ادب کے فروغ میں خواتین کی انجمنیں، جامعات کے شعبوں کی جانب سے اور انفرادی طورپر بھی قلمکارحضرات خواتین سے متعلق ادب کو پروان چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ نسائی حسیئت اور نسائی ادب پر مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے شعبۂ نسواں میں بھی بہت کچھ کام ہورہا ہے اوراس شعبہ ٔکے تحت چند ایک خواتین اسکالرس کی کتابیں بھی پچھلے چند دنوں میں منظرعام پر آئی ہیں، جو ایک اچھی روایت ہے،خواتین قلمکاروں میں علاقہ تلنگانہ میں نسائی ادب ‘ نسائی حسیئت پرایک معتبر نام ڈاکٹرحمیرہ سعیداسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج سنگاریڈی کا بھی ہے۔ جنہوں نے اس موضوع پر محنت شاقہ سے بہت ہی خوب کام انجام دیا ہے۔ نسائی ادب کے مطالعہ کی ’’نئی جہات اور امکانات‘‘ کوبھی انہوں نے اپنے قلم سے روشن کیاہے۔ ’’اردوناولوں میں نسائی حسیئت‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک کتاب کافی مقبول ہوئی ہے۔ ان کی دوسری اور تازہ تصنیف ’’غیرافسانوی ادب کے فروغ میں خواتین کاحصہ‘‘ کے عنوان سے منظرعام پرآئی ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹرحمیرہ سعید نے مرتب کی ہے جواردوکے قومی سمینار منعقدہ این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگرمیں پیش کردہ مقالوں کا مجموعہ ہے۔ جس کومصنفہ نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ترتیب دیاہے۔ کتاب کی ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹرصاحبہ کو نسا ئی ادب سے بے تحاشہ لگائو اور دلچسپی ہے اورنسائی ادب کے فروغ میں وہ ایک سرگرم رول ادا کرنے سعی و جہد کررہی ہے۔
اس کتاب کا انتساب ڈاکٹرحمیرہ سعید نے ان’’ خواتین قلمکاروں ‘‘کے نام معنون کیا ہے جنہوں نے اردوادب کے فروغ میں نمایا ں حصہ ادا کیا ہے۔ اس کتاب میں کلیدی خطبہ پروفیسر مظفر شہ میری(وائس چانسلر عبدالحق اردویونیورسٹی‘کرنول) کا شامل کیاگیاہے۔ پیش گفتار کے عنوان سے پروفیسر مجید بیدار نے ایک پرمغز مقالہ لکھا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹرحمیرہ سعید نے رقم کیاہے جو کافی طوالت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین کی فہرست کچھ اس طرح ہے۔ بچوں کی صغرا ‘ہمایوں مرزا(ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم)‘ عصمت چغتائی کا دوزخی :خاکہ نگاری کا سنگ میل(ڈاکٹر مسرت جہاں )‘ اولو العزز خاتون جمال النساء ایک تعارف(ڈاکٹرآمنہ تحسین)‘ اردو سفرناموں کی روایت میں خواتین کا حصہ(ڈاکٹربی بی رضا خاتون)‘ لالی چودھری کے سفرنامے (ڈاکٹررفیعہ سلیم)‘ پروفیسرحبیب ضیاء کے مضامین میں طنز ومزاح(ڈاکٹرگل رعنا)‘ صالحہ عابد حسین کی انشاء پردازی( ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی)‘ اردو کی خاتون مترجمین ایک جائزہ(ڈاکٹرفہیم الدین احمد)‘ پروفیسر سیدہ جعفر کی شخصیت اورادبی خدمات (ڈاکٹرناظم علی)‘ بچوں کے غیرافسانوی ادب میں خواتین کا حصہ( ڈاکٹرسیداسرار الحق سبیلی)‘ رپوتا ژ نگاری میں خواتین قلمکاروں کی خدمات( ڈاکٹرمحمدعبدالعزیز سہیل)‘ اردو مکتوب نگاری میں صفیہ اختر کے خطوط کے انفرادیت( ڈاکٹرحمیرہ سعید)‘ ڈاکٹررفیعہ سلطانہ کے تحقیقی وتنقیدی کارنامے(ڈاکٹرمسرور سلطانہ)‘ کرناٹک کی خواتین کی طنز ومزاح نگاری(ڈاکٹرمنظور احمد دکنی)‘ خواتین اورطنز ومزا ح ایک جائزہ (عائشہ بیگم)‘ ڈکٹرحلیمہ فردوس طنزومزاح کا منفرد انداز( ناہیدہ بیگم)‘ طنز ومزاح کے فروغ میں خواتین کا حصہ( فریدہ بیگم)‘ عصرحاضر میں خواتین کی صحافتی خدمات( ایم ڈی۔ نثارالدین)‘ ڈاکٹرحمیرہ جلیلی بحیثیت محقق (ڈاکٹرعطیہ مجیب عارفی)‘ حمیرا جلیلی کے خاکوں میں ہندوستانی تہذیب اورقومی یکجہتی (نیاز الدین صابری)‘ خواتین کی خودنوشت سوانح عمریاں ( رُشدا شاہین)‘ آل انڈیا اردو حیدرآباد کی اردونشریات میں خواتین کی خدمات(محمدخوشتر) اورعصرحاضر کے حیدرآبادی خواتین مضمون نگار(محسن خان)۔
زیرتبصرہ کتاب میں ’’اردوغیرافسانوی ادب میں خواتین کا حصہ کے عنوان سے کلیدی خطبہ ڈاکٹر مظفر شہہ میری نے پیش کیاہے۔ جس میں انہوں نے غیرافسانوی ادب کی تخلیقات پرروشنی ڈالی ہے، غیرافسانوی ادب کے اصناف کا تذکرہ کیاہے۔ مفروضہ کی شکل میں اس کلیدی خطبہ میں سوالات شامل ہیں جن کے اطمینان بخش جوابات دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹرعطیہ ریئس کے حوالے سے کافی اہم باتوں کو پیش کیاہے۔ لکھا ہے
’’ افسانوی نثر کے مقابلے میں غیرافسانوی نثربہت کم ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین اورکم ہیں۔ اس پریہ بھی بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ پا کستانی خواتین کے مقابلے میں ہندوستانی خواتین نے کم لکھا ہے‘‘۔
پروفیسر مظفرشہہ میری نے جدول میں خواتین قلمکار قرۃ العین حیدر‘عصمت چغتائی‘صالحہ عابد حسین‘ صغرامہدی‘انیس قدوائی‘بیگم حمیدہ سلطان‘ڈاکٹرفوزیہ چودھری‘فاطمہ بیگم‘فاطمہ انیس ‘اودھیش رانی‘ عطیہ فیضی‘ بملا کماری‘ وزیر سلطان بیگم‘ ادا جعفری‘ صفیہ اختر‘ بیگمات واجدعلی شاہ‘خدیجہ مستور‘ رضیہ سجادظہیر‘ سلطانہ حیات‘ ریاست خانم‘ سلمیٰ صدیقی‘ زہرہ جملا‘ نازلی رفیعہ بیگم جنجیرا‘ لالی چودھری نفیسہ خان کے خاکے رپورتاژ‘ خودنوشت‘ خطوط ‘ سفرنامے اور مضامین کی فہرست پیش کی ہے۔
اس کتاب میں ’’ پیش گفتار ‘‘کے عنوان سے پروفیسر مجید بیدار نے ایک پرمغز مضمون لکھا ہے۔ انہوں نے اپنے اس پیش گفتارمیں اردو شعر وادب ‘ افسانوی وغیرافسانوی ادب ‘خواتین کی تعلیم پرسیرحاصل گفتگو کی ہے اورلکھا ہے کہ’’ خواتین کی جانب سے غیرافسانوی نثر کی نمائندگی پرتوجہ دی جائے توپتہ چلتا ہے کہ خواتین نے جدت طرازی کارنامہ بھی انجام دیا ہے اوراس کے ساتھ ہی غیرافسانوی نثر ‘نثروی اصناف کے فن کی ترجمانی پربھی خصوصی توجہ دی ہے۔ خواتین کی غیرافسانوی نثر میں جہاں خود نوشتوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں یادداشتوں ‘روزنامچوں ‘سفر ناموں کے علاوہ رپوتارژ اور سوانح ناول لکھنے والی خواتین کی بھی قابل لحاظ تعداد کونظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے‘‘۔ ڈاکٹرمجید بیدار نے غیرافسانوی نثر پر توجہ دینے والی خواتین میں سلطان جہاں بیگم‘ وزیرسلطان بیگم‘ بمل کماری ‘بیگم انیس قدوائی ‘عصمت چغتائی‘ اداجعفری‘ کشورناہیدوغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے فن کا جائزہ لیا ہے۔
زیر نظرکتاب میں ڈاکٹرحمیرہ سعید کاطویل مقدمہ شامل ہے۔جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے خواتین کے غیرافسانوی ادب پر سیر حاصل گفتگوکی ہے۔ ساتھ ہی اس سمینار کے انعقادغرض وغائیت کوبیان کیاہے،ساتھ ہی سمینار کے شرکاء کی تفصیلات ‘ان کے مقالوں کے موضوعات کی تفصیلات کوپیش کیاہے اور غیرافسانوی ادب کی اصناف پرتفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوں نے خواتین قلمکاروں کی خدمات کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ اردو زبان وادب کی خدمات میں خواتین نے مردوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا ہے جوان کی سیاسی وسماجی بصیرت ‘شعور کی پختگی‘ علم وادب سے دلچسپی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ اوربات ہے کہ اس معاشرہ میں خواتین کوکھل کرسامنے آنے اوراپنی بات رکھنے کے کم مواقع دستیاب ہونے پربھی جس طرح بند کمرے میں ایک چھوٹے سے سوراخ سے آنے والی کرنیں اجالابکھیرتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح موقع ملتے ہی خواتین اپنی علمیت‘ شعور وپختگی کالوہامنوایاہے۔خواتین قلمکاروں نے عورتوں کے جذبات‘احساسات اور جذبہ ایثار کو ہمیشہ بڑی فنکاری سے پیش کیاہے۔‘‘
اس کتاب میں شامل پہلا مضمون ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم کا ’’بچوں کی صغریٰ ہمایوں مرزا ‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ صغرا ہمایوں مرزا کی ادبی خدمات کو ڈاکٹرصاحب نے اس مضمون میں بیان کیا ہے اورلکھا ہے ’’ صغریٰ ہمایوں مرزاشہرحیدرآباد کے معزز خاندان میں 1884ء کوپیدا ہوئیں۔ یہ دور تشکیک وانتشار کا دورتھا۔ ایک طرف انگریزی اور انگریزی تہذیب کوسیکھنے اورسکھانے کے خلاف بعض علماء کمربستہ ہوئے تو دوسری طرف سرسید اوران کے احباب نے انگریزی اورجدید علوم کی طرف مسلمانوں کوراغب کرنے کے لیے سرگرم تحریک چلائی۔ اسی تشکیک وانتشار کی فضاء میں بیگم صغریٰ ہمایوں کی تربیت ہوئی اور جب وہ ایک روشن خیال بیرسٹرسیدہمایوں مرزا کی بیگم بنی تو ان کی سوچ وفکر میں انقلاب برپا ہوگیا۔
اس کتاب میں شامل دوسرا مضمون ’’عصمت چغتائی کا دوزخی: خاکہ نگاری کا سنگ میل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹرسید مسرت جہاں کا شامل کیاگیا ہے جس میں محترمہ نے عصمت چغتائی کے خاکہ نگاری کواپنے مقالہ کا موضوع بنایاہے اور دوزخی کی اہمیت کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوزخی کئی حیثیتوں سے منفرد قسم کا خاکہ ہے۔ یہاں خاکہ نگار اور صاحب خاکہ دونوں ہی قلمکار ہیں اورایک ہی ماحول کے پروردہ ہیں۔ عصمت ‘عظیم بیگ کی حقیقی چھوٹی بہن تھیں اوران سے 19سال چھوٹی تھیں۔
اس کتاب میں شامل تیسرا ہم مضمون ’’اولوالعزم خاتون جمال النساء۔ ایک تعارف(یادداشت ‘’بکھری یادیں ‘‘کے حوالے سے)‘‘ ڈاکٹرآمنہ تحسین کا شامل ہے۔ انہوں نے جمال النساء سے متعلق لکھا ہے کہ جمال النساء (پیدائش۔حیدرآباد1913ء‘وفات2012ء) علمی وادبی ذوق کی حامل‘سیاسی وسماجی شعور رکھنے والی فعال اورنہایت ہی بہادر اور باحوصلہ خاتون تھیں۔ وہ باجی جمال النساء کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنی طویل زندگی کاایک بڑا حصہ نہ صرف خواتین کی ترقی وبااختیاری کے لیے وقف کردیاتھا۔ کئی برس سیاسی سرگرمیوں کی نذرکردیئے اور قائدانہ رو ل نبھایاتھا‘‘۔
اس کتاب میں دیگرمضامین بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے کافی اہمیت کے حامل ہیں، مزید یہ کہ اس کتاب میں اور بھی خواتین قلمکاروں کی تخلیقات اور خدمات کا جائزہ ممکن تھا جس کا خود اعتراف ڈاکٹرحمیرہ سعید نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے کہ ’اس کتاب میں کچھ حصے تشنہ ہیں اور بھی بہتر انداز میں اس کتاب کو ترتیب دیا جاسکتا تھا‘‘ بہر حال اس بات سے صرف نظر یہ کتاب نسائی ادب کے حوالے سے اور خواتین قلمکاروں کی ادبی خدمت کے حوالے سے کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پرڈاکٹرحمیرہ سعید کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔ انہوں نے بہت ہی سلیقہ سے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے او ر اپنی پوری کوشش اور جستجو سے اس تصنیف کو بہترسے بہتربنانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ اس کامیاب کوشش پرڈاکٹرصاحبہ کوپھرایک مرتبہ مبارک باد پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے خواتین سے متعلق ادبی خدمات کو اردودنیا میں روشناس کروایاہے۔ یہ ایک کافی اہم موضوع ہے جس پر تحقیقی وتنقید کا کام انجام دیاجانا ایک لائق تحسین اقدام ہے۔اس کتاب کے ناشرایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی ہے۔ 248صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 300روپئے رکھی گئی ہے جو ھدیٰ بک ڈپوپرانی حویلی حیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭
تبصرے بند ہیں۔