اردو تعلیمی اداروں کا گرتا ہوا معیار: لمحۂ فکریہ

حکیم محمد شیراز

  گزشتہ دنوں بارہویں سائنس کے نتائج سامنے آئے۔  جنھیں دیکھ کر دل پر چوٹ لگی کیونکہ نتائج کے بتدریج شماریا ت اس بات پر گواہ ہیں کہ اردو اسکولوں کا معیار دن بدن گرتا جار ہا ہے۔  اس کے مقابلے مراٹھی اور ہندی میڈیم کے طلبا  نیز اساتذہ کی کار کردگی اس سے بہتر ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں میں اپنے وطن عزیز شہر مالیگاؤں کی اردو اسکولوں  کے نتائج کا احاطہ کرنا چاہوں گا شہر مالیگاؤں ہندوستان کے نامور اردو مراکز میں سے ایک ہے۔

        ام المدارس اور راقم کی مادر علمی شہر مالیگاؤں کی مشہور اردو اسکول اے ٹی ٹی ہائی اسکول کا نتیجہ 93.2 %رہا۔   جو کہ مسرت کا مقام اس لیے نہیں ہے کہ کل 250طلبا میں سے05 طلبا امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے۔  66  طلبافرسٹ کلاس، 158 طلبا سیکنڈ کلاس جب کہ 4  طلبا کو پاس قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جے اے ٹی گرلس ہائی اسکول،  مالیگاؤں ہائی اسکول،  جمہور ہائی اسکول کا نتییجہ بھی خاطر خواہ نہیں رہا جس  پر یہاں کچھ قابل ذکر تبصرہ کیا جائے۔ اسی شہر کی غیر اردو درسگاہیں جیسے کاکانی ہائی اسکول، ایم ایس جی کالج، کے بی ایچ مہا ودیہ لیہ کے تنائج  96 -100%رہے۔

        ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو تعلیمی اداروں کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ کیا ہے؟وہ کیا اسبا ب ہیں کہ ہمارے شاہین بچوں کی پرواز میں کوتاہی پیدا ہو گئی ہے۔ مصنف جب ماضی کے اوراق پلٹتا ہے تو اسے یہ نظر آتا ہے کہ ایک وقت تھا جب برادران وطن  کے بچے اردو کے دبستانوں خصوصا ً اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں صرف اس لیے داخلہ لیتے تھے تاکہ ان کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔ مگر اب انھیں ایسا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔  اس لیے کہ ان کے تعلیم ااداروں نے اپنا احتساب کر کے اورپنی کمیوں کو دور کر کے انھیں اس  ضرورت سے بے نیاز کر دیا ہے۔ کمیاں اردو  تعلیمی اداروں میں ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان اداروں کے افراد اپنا احتساب شروع کریں۔  بڑی معذرت کے ساتھ مصنف اس زبوں کا حالی کا ذمہ دار ہر دو گروہ موجودہ اساتذہ اور طلبا بلکہ والدین کو بھی سمجھتا ہے ۔  آج ہمارے طلبا میں پڑھائی لکھائی کا ذوق و وجدان ختم ہوتا جارہا ہے۔ والدین نے اپنے لاڈلے بیٹوں بلکہ بیٹیوں کو مہنگے موبائیل عطا کر دیے ہیں جس نے ان کی صحت  اور متاع وقت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ قلوب و اذہان منتشر ہیں۔  نظم و ضبط سے زندگیاں یکسر خالی ہیں۔  کہاں سے منزل مقصود ملے۔ ہمارے بچے ایک ایسے سراب کی تلاش میں ہیں جو ان کو مل کر ہی نہیں دیتا۔ رہروئے درماندہ منزل سے بے گانہ ہے۔

جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ راقم کے اساتذہ میں حسب ذیل صفات موجود تھیں جو دور حاضر میں مفقود نظر آتی ہے۔ بقول شخصی:

نگہ بلند،جاں پر سوز، سخن دل نواز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

پتہ نہیں وہ لوگ کہاں چلے گئے شاید روئے زمین سے زیر زمین چلے گئے۔  جس تیزی کے ساتھ طالب علم کے استاذہ اس دنیا سے اٹھتے جاتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا اب ظلمات سے بھرتی جا رہی ہے۔ موصلہ تازہ خبروں کے مطابق آج کل کے اساتذہ  تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کا الو بھی سیدھا کرنے کو قابل ترجیح سمجھ رہے ہیں۔

بقول شخصی:

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

اگر شعر میں رمیم کی جائے تو یہاں جوانان تتاری کے بجائے جوانان ِ برادران وطن کہنا درست ہو گا۔ جو قدریں ہماری قوم میں موجود تھیں وہ غیروں نے اپنا لی اور ہم بے یار مدد گار نام نہاد تعصب کا رونا روتے کھڑے ہیں۔  بقول شخصی:

لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیلؑ

خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

  کرئیر گائیڈنس کے نام پر قومی بیداری لائق ستائش ہے مگر وہ قوم جس کو سب سے پہلا سبق ’’اقراء‘‘ کا دیا گیا اگر وہ کتابوں سے بے نیاز رہے گی تو اس کا کچھ نہیں بن سکتا۔ بقول شخصی:

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں  فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

 مصنف  ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہے کہ یہ ایک دل  شکستہ  کی باتیں  ہیں جو اپنی قوم کی حالت زار پر افسردہ نیز ان کی ترقی اور معراج کا خواہاں ہے :

انداز بیاں گر چہ بہت شوخ نہیں ہے

  اے کاش! ترے دل میں اتر جائے میری بات

 بلا مبالغہ آپ پچھلے دس سال کے شماریات انٹر نیہٹ سے دیکھ سکتے ہیں۔  اعلیٰ تعلیم کے لیے منتخب ہونے والے اردو میڈیم کی طلبا میں ح خصوصی کمی واقع ہوئی ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

        خلاصہ یہ ہے کہ مصلحین قوم سے خادم قوم کی بس یہی گذارش ہے:

اے میری قوم کے نامور شاعرو!

اے ادیبو فسانہ نگارو سنو

یہ اٹھیں  وہ اٹھیں ہم اٹھیں تم اٹھو

اٹھ کہ اجمل ؔ یہ پیغام دو قوم کو

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

دور سارے جہاں سے اندھیرا ہوا

تبصرے بند ہیں۔