ایک شام

یاسمین شمشاد

            ایک واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیاتھا، آج  میں اس کو آپ سب کے ساتھ سانجھا کررہی ہوں۔ یہ واقعہ بنگلورو کا ہے۔

            ایک شام میں سبزی لینے کے لیے گئی۔ قریب ہی سبزی فروش اپنا ٹھیلا لگاتے تھے۔ میں چلتے ہوئے ایک ٹھیلے کے قریب رک گئی۔ اس پر مختلف اقسام کے ساگ رکھے تھے۔ کچھ تو وہ جن سے میں آشنا تھی ، کچھ وہ جو بالکل اجنبی سے تھے۔ سبزی فروش سے میں نے ان کے نام پوچھے کہ کیا نام ہے۔ کیا ساگ ہے؟ پر جواب جو ملا وہ سر سے گزر گیا۔ کیوں کہ وہ ہماری زبان سے ناآشنا، اور میں اس کی زبان سے۔ میں قیام پذیر تو تھی ہند کے ایک حصے میں، پر زبان،  تہذیب، کھانا پینا اور رسم و رواج سارے ہی مختلف۔ کھانا پینا تو پھر بھی شوق سے کھا لیتے، پر زبان کے معاملے میں مار کھاجاتے، سوائے ایک مسکراہٹ کے کوئی چارہ نہ ہوتا۔

            بہرحال بات سبزی فروش کی ہورہی تھی، وہ ٹوٹی پھوٹی ہی سہی پر میں زبان سے کچھ ذرا سا واقف تھا پر میں بالکل صفر۔ ان کی زبان کی ابجد سے بھی ناواقف۔ (یہ بات تو تھی شرمندگی کی، پر کیا کرتے)۔

            میرکے اجڑے دیار میں جو ٹھکانہ بنا رکھا ہے، اثرات کچھ نہ کچھ تو آئیں گے ہی۔ یہ قلم بھی ہمارا یہاں وہاں کی باتیں خوب کرنے لگا ہے۔ سبزی فروش سے میں نے ساگ کی کچھ گڈیاں خریدیں۔ پیسے دئے واپسی سے پہلے اس کا شکریہ ادا کیا اور قدم بڑھادئے۔ دس پندرہ قدم ہی چلی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی میڈم میڈم۔ پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا، لیکن جب آواز قریب سے آئی تو میں نے پلٹ کر دیکھا۔  وہ کوئی اور نہیں وہی سبزی فروش تھا۔ آنکھوں میں چمک اور چہرے پر عجب سی خوشی کے ساتھ (جسے نام دینا مشکل ہے) میرے سامنے اپنے دونوں ہاتھوں میں وہی اجنبی سی ساگ کی گڈیاں لیے کھڑا تھا۔ میں نے کہا "بھائی مجھے یہ ساگ نہیں خریدنا ہے”۔ اس نے کہا "میڈم یہ ساگ آپ کے لیے ہے”۔  میں نے پھر کہا کہ "مجھے نہیں لینا ہے بھائی”۔ اس نے برجستہ کہا "میڈم آپ نے مجھے تھینک یو کہا ہے۔ یہ میری طرف سے آپ کے لیے۔ آپ نے میرا شکریہ ادا کیا ہے”۔

            میں حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر مسرت کی چمک چھائی ہوئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا اسے بیش بہا دولت مل گئی ہو۔ (ویسے عزت کسی دولت سے کم نہیں)۔

            وہ ساگ دونوں ہاتھوں سے تھامے میری جانب دیکھ رہا تھا۔ اور میرے اندر کیسی اتھل پتھل تھی بیان سے قاصر۔

            اپنے آپ پر شرمندگی، اپنے معاشرے پر، اپنے اور معاشرے کے رویہ پر۔ کیا کیا نہ خیالات تھے جن کی یورش تھی۔

            یہ کیسا معاشرہ ہم نے بنا رکھا ہے کہ لوگ عزت کے دو بول کو ترسنے لگیں۔ کیا ساری ان مالداروں کے لیے جو خون چوس چوس کر غریبوں کا اپنی تجوری بھرتے ہیں۔ کیا محنت کش کسی عزت اور توقیر کے سزاوار نہیں؟ یہ محنت کش کیا انسان نہیں ہیں؟

            ایک کش مکش تھی جو برپا تھی۔ ایک ندامت کا احساس، جس میں غرق ہونے کو جی چاہ رہا تھا۔ ہم کیسے انسان ہیں جس میں انسانیت کی ذرہ بھی رمق نہیں۔

بہر کیف میں نے ایک نظر اسے دیکھا ، اور بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے ساگ کی گڈی لی ، ایک بار پھر بڑے خلوص کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا۔

            اور وہ سبزی فروش سرخوشی کے عالم میں واپس اپنے ٹھیلے کی طرف لوٹ گیا۔

1 تبصرہ
  1. حماد عبید اللہ کہتے ہیں

    ذرے سے کائنات کی تفسیر پوچھ لے

    قطرے کی وسعتوں میں سمندر تلاش کر

    سچ میں بہن ا

تبصرے بند ہیں۔