مولانا سید جلال الدین عمری مرحوم

ارشاد احمد اعظمی

مولانا سید جلال الدین انصر عمری اب ہمارے درمیان نہیں رہے، آپ نے لمبی عمر پائی اور اچھے کاموں میں اس کا استعمال کیا، یہ آپ کی صلاح اور الله کے یہاں مقبولیت کا ثبوت ہے، حدیث نبوی ہے ” خير الناس من طال عمره و حسن عمله ” (أخرجه الترمذى و أحمد عن عبد الله بن بسر الأسلمى)

مولانا مرحوم کو جاننے والوں کی تعداد دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، ہر ایک آپ کو خیر کے ساتھ یاد کر رہا ہوگا، آپ داعی تھے، مربی تھے، محقق و مصنف تھے، بے شمار ملی اداروں سے مختلف حیثیتوں میں منسلک رہے، آپ سے استفادہ کرنے والوں میں بڑی تعداد ایسی ہے جو براہ راست آپ کے رابطے میں رہی، آپ کی تصانیف، مضامین اور تقاریر سے جن کی زندگیاں بدل گئیں وہ شمار سے باہر ہیں، مولانا کی رحلت کے بعد وہ اپنے تأثرات و جذبات کو بیان کریں گے، اس کا سلسلہ ابھی سے شروع ہو چکا ہے اور آگے بھی چلے گا، اور چلتا رہے گا، مولانا مرحوم کا ان پر یہ حق ہے، وہ جو کہیں گے اور لکھیں گے بلا تردد کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کسی تصنع اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوگی، آپ صحیح معنوں میں بقیة السلف تھے۔

مولانا مرحوم سے میرا کام کا رشتہ نہیں تھا، میں بھوپال کے جس مدرسے میں مدرس تھا وہ مدھیہ پردیش میں دارالعلوم دیوبند کا علم بردار ہے اور جمعیت علماء ہند کا علاقے میں وہی مرکز شمار ہوتا ہے، اور نا چیز پر کام کا اتنا انبار ہوتا تھا کہ کہیں جانے یا خارجی کتابوں کے مطالعے کی کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

اتنا ضرور ہے کہ دہلی میں میرا مکان مرکز جماعت اسلامی ہند سے متصل ہے، پہلے میرے والدین وہیں رہتے تھے، اب بچے رہتے ہیں، اور جماعت اسلامی کے کمپاونڈ میں مولانا مرحوم کا جہاں قیام تھا وہ مسجد اشاعت اسلام اور ہمارے مکان کے وسط میں ہے، اس لئے کام سے جب دہلی جانا ہوتا تو مولانا مرحوم سے ملاقات بآسانی ہو جاتی۔

ایک مرتبہ دہلی سفر میں ایسا ہوا کہ عصر کی نماز سے لوٹتے وقت علیک سلیک کے بعد مولانا فرمانے لگے :

آپ سے ایک کام ہے۔

میں حیرت میں پڑگیا، بھلا مولانا کو میری کیا ضرورت پڑگئی، میں نے عرض کیا : حکم کریں، مجھے اس کی تعمیل کر کے شرف ہوگا۔

مولانا فرمانے لگے میری بعض کتابوں کو عربی میں منتقل کرنا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اس کام کو کر سکتے ہیں۔

یہ سن کر میں سکتے میں پڑ گیا، میری موجودہ ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے میرے لئے یہ کام نا ممکن سا تھا، سو میں نے مولانا کے سامنے اپنے أعذار بیان کئے اور مولانا مرحوم نے ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے مجھے معاف کر دیا۔

2015 میں بھوپال کے مدرسے میں تدریس سے میں نے معذرت کر دی اور دہلی چلا آیا، جو لوگ میرے کام سے واقف تھے ان کی خواہش ہوئی کہ ان کے ادارے سے جڑ جاؤں، لیکن مدارس میں میرا تجربہ اچھا نہیں تھا اس لئے اس کام سے پیچھا چھڑانے میں عافیت سمجھی۔

یہی وہ عرصہ ہے جب چھوٹے لڑکے نے جس کے پاس دہلی میں رہتا ہوں وقت گزاری کے لئے مجھے اپنا پرانا اسمارٹ فون دے دیا، میرے پاس کوئی مصروفیت نہیں تھی، ٹائم ہی ٹائم تھا، اس لئے وہ مکان جو تیس سال قبل دہلی میں بنانا چاہا تھا لیکن بھوپال چلے جانے کے سبب نا مکمل رہ گیا تھا اس کی طرف توجہ دی۔

لڑکا نئے زمانے کے مزاج کو دیکھ کر دہلی میں کرایے کے فلیٹ میں رہتا تھا، اور فلیٹ میں رہنا میرے لئے ایک عذاب جان ہے، اور ” کریلا نیم چڑھا، کے مصداق تین منزل تک بار بار چڑھنا اترنا میرے بس کی بات نہیں تھی، سو میں نے اپنے نامکمل مکان کو قابل رہائش بنانے کا بیڑہ اٹھایا، اور کام کی نگرانی کرتے وہیں بیٹھ کر فیس بُک پر لکھنے کی مشق بھی شروع کر دی۔

مولانا سید جلال الدین انصر عمری مرحوم جماعت اسلامی ہند کے پرانے کارکنوں میں سے ہیں، آپ اعلیٰ علمی صلاحیت کے حامل اور عمیق مطالعہ میں انہماک کے عادی رہے، آپ کی ترجیح و دلچسپی ہمیشہ تصنیف و تالیف اور دعوت و تبلیغ میں رہی، 2015/ میں جب دہلی آیا اس وقت بھی آپ کی عمر اسی (80) سے متجاوز تھی، اور جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر اس کے ایک سادہ سے مکان میں قیام کرتے تھے۔

مولانا کی زندگی تکلفات سے دور سادگی سے عبارت رہی، جماعت اسلامی کے درجنوں شعبہ جات ہیں اور ہر شعبہ میں ضرورت کے مطابق ماہرین کا اسٹاف موجود ہے، اس کا ہر شعبہ سے اتنا بڑا ہوتا ہے کہ صرف ایک شعبہ ملک کے دوسرے بڑے بڑے ملی اداروں پر بھاری پڑ جائے، یہ سارے کارکنان أمیر جماعت کے دائرے میں آتے ہیں، میرا اپنا مشاہدہ رہا ہے کہ مولانا کا برتاؤ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ برادرانہ اور یکساں ہوتا تھا، اور ان کو پہلی مرتبہ دیکھنے والا مشکل سے یقین کرتا تھا کہ یہی أمیر جماعت اسلامی مولانا سید جلال الدین انصر عمری صاحب ہیں۔

جماعتِ اسلامی ہند کے کارکنان عام طور پر ریا کاری سے دور رہتے ہیں، لیکن ان میں تین شخصیات ( مولانا ابو اللیث اصلاحی، مولانا افضل حسین اور مولانا جلال الدین عمری ) ایسی گزری ہیں جو نمونہ کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں اور جن کی تقلید دوسروں کے لئے مشکل کام ہے۔

مولانا جلال الدین عمری صاحب کو پچھلے کئی سالوں سے امراض نے گھیر رکھا تھا، آپ کے پاؤں میں زخم اور ورم رہا کرتا تھا، کبھی کبھی حالت یہ ہو جاتی تھی کہ چلنا مشکل ہو جاتا تھا، لیکن آپ آفس ضرور آتے تھے۔

ایک دفعہ کسی کام سے مرکز جماعت اسلامی گیا تو چرچا تھی کہ مولانا کی طبیعت صحیح نہیں ہے اس لئے آج آفس نہیں آئے، یہ سن کر مجھے خبط سوار ہوا اور مولانا کی خیریت معلوم کرنے ان کی قیام گاہ چلا گیا، وہاں پہنچ کر جب میں نے اپنا نام بتایا تو مولانا چل کر بیٹھک تک خود آگئے، اور مجھے دیر تک اپنے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کر دیا، میں بہت شرمندہ ہوا کہ میں نے مولانا کو خوامخواہ تکلیف دی، اور اپنی غلطی کے احساس میں مولانا کے اس اخلاق پر پہلی مرتبہ فیس بُک پر لکھ کر تلافی کرنی چاہی۔

رمضان 1442/ میں جب ملک میں کورونا کی شدت تھی اور ملک میں ہر طرف ایک ہیجان سا برپا تھا، اوکھلا کےابو الفضل انکلیو کے ہمارے بلاک میں کوئی گھر اس سے محفوظ نہیں تھا، مولانا عمری صاحب بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے تھے، اور رمضان ہوتے ہوئے کافی وقت آپ نے ہاسپیٹل میں گزارا، الله نے اپنے اس بندہ ساتھ ہی خلق پر رحم فرمایا اور مولانا اس مہلک وبا کا شکار بننے سے بچ گئے، لیکن اس وبا میں آپ کو اپنی شریک حیات اور داماد ڈاکٹر رفعت صاحب کی فرقت کا غم اٹھانا پڑا۔

تبصرے بند ہیں۔