زندگی نو، ستمبر 2022

سہیل بشیر کار

ماہنامہ زندگی نو؛ ستمبر 2022 کا شمارہ ایک بار پھر اپنی آن بان کے ساتھ شائع ہوا ہے، حسب سابقہ دانشور قائد انجینئر سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے انتہائی عرق ریزی سے ‘قوم پرستی کا بیانیہ’ پر صفحات سیاہ کئے ہیں۔ اشارات میں کئی دانشوروں کے حوالہ جات موجود ہیں۔ ‘انٹیگرل نیشنلزم’ جو کہ قوم پرستی کی انتہا پسندی ہے؛ پر مصنف نے بہترین طریقہ سے روشنی ڈالی ہے، اشارات میں جہاں مسلم مفکرین کی آراء کو پیش کیا گیا ہے وہیں غیر مسلم دانشوروں کی آرا بھی سامنے لائی گئی ہے، پروفیسر ٹائن بی، جان ہچنس، ورہانس کون، وغیرہ کی آرا رقم کرکے تحریر میں توازن پیدا ہوا ہے۔ البرٹ آئنسٹائن قوم پرستی کے حوالے سے لکھتے ہیں: "البرٹ آئنسٹائن نے قوم پرستی کو بچپن کی بیماری اور ‘انسانیت کا خسرہ’ (measles of mankind) قرار دیا۔ [10] (یعنی ایسی بیماری جو بچپن کی بے شعوری کے دور میں لاحق ہوتی ہے اور اس کے اثرات زندگی بھر ستاتے رہتے ہیں۔ ") دین اسلام کا قومیت کے حوالے سے موقف بھی بیان کیا گیا ہے؛ لکھتے ہیں:” اسلام نے وطن سے محبت کے فطری جذبہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ قرآن مجید نے اسے ظلم کی بدترین شکل قرار دیا ہے کہ لوگوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا جائے۔ أُذِنَ لِلَّذِینَ یقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ (39) الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیارِهِمْ بِغَیرِ حَقّ ‘‘اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے۔’’ (سورہ الحج آ 39-40) البتہ وہ انٹیگرل نیشنلزم کا سخت مخالف ہے، لکھتے ہیں: "اسلام ایسے تمام تصورات کی نفی کرتا ہے جو انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، ذات، قوم وغیرہ کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں۔ اسلام کا پیغام وحدت انسانی کا پیغام ہے۔ وہ اس حقیقت کو ماننے کی دعوت دیتا ہے کہ سارے انسان ایک خدا کی مخلوق اور بندے ہیں اورایک مرد اور عورت کی اولاد اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ "دانشور قائد نے دکھایا ہے کہ انٹیگرل نیشنلزم کو اب ہندوستان میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ پوری دنیا اس کو رد کر رہی ہے۔ انٹیگرل نیشنلزم کی جگہ اب ساری دنیا میں سوک نیشنلزم کا تصور عام ہے۔ ” انٹیگرل نیشنلزم کے تصورات اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ مشترکہ سماجوں میں شہری قومیت کا راستہ ایک قابل عمل راستہ ہے۔ ایسے معاشروں میں اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسلام کے علم بردار اور اس کے سفیر بن کر معاشرے میں رہیں گے اور معاشرے میں اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کریں گے۔ "

غازی بھائی نے گذشتہ شمارہ سے خواتین پر لکھنا شروع کیا ہے اس شمارہ میں انہوں نے خواتین کی سرگرمی کے بنیادی میدان (گھر، خاندان اور پڑوس) پر مضمون رقم کیا ہے۔ مضمون میں کئی عملی مثالیں بھی دی گئی ہیں؛ خاص کر مولانا مودودی کے گھر کے حوالے سے، رشتہ داروں کو اپنے مقاصد سے جوڑنے کی ترغیب دی ہے لکھتے ہیں: "رشتے داروں کا تعاون انسان کو بہت طاقت ور بنادیتا ہے۔ رشتے داروں کی پشت پناہی حاصل ہو تو آدمی بڑے اقدامات کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ اگر آپ کو دین کے میدان میں بڑی خدمت انجام دینی ہے تو اپنے رشتوں کو مضبوط کرنے اور انھیں اپنا ہم خیال بنانے پر توجہ دیں۔ یاد رکھیں، دو کام کرنے ہیں، ایک رشتوں کو مضبوط کرنا اور دوسرا انھیں ہم خیال بنانا۔ "مولانا مودودی کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے انتہا پسندی پھیلائی ایسے میں” مولانا مودودی اور غیر آئینی و غیر دستوری ذرائع کی نفی” پر مراد علی کی کتاب سے ایک باب شامل کیا گیا ہے، مضمون میں مصنف نے دکھایا ہے کہ مولانا پر کس کس طرح تشدد کیا گیا لیکن انہوں نے ہمیشہ خفیہ کوششوں اور زیر زمین کاموں سے منع کیا۔ اس سلسلے میں مولانا کے بہت سے اقتباسات کے بعد لکھتے ہیں:” ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی اپنے مطلوبہ نظریے کے نفاذ کے لیے خفیہ تحریک، فوجی انقلاب، مسلح جد و جہد، قتل و غارت اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مولانا مودودی کو کئی بار جیل میں ڈالا گیا، پھانسی کی سزاسنائی گئی، آپ پر ہر دور میں ارباب اقتدار نے گھیرا تنگ کیا، آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ کی جماعت کے مجلے اور اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں، آپ کی جماعت پر پابندی لگائی گئی لیکن آپ نے کبھی اپنے اصول سے ذرا بھی انحراف نہیں کیا۔ دورِ ایوب مولانا کی زندگی کا دورِ ابتلا (ordeal) ہے، آپ پر ہر جانب سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی حملے کیے گئے، اجتماعات پر پابندی لگائی گئی، آپ کے کارکنوں کو شہید کر دیا گیا لیکن آپ نے پھر بھی یہی نصیحتیں دہرائیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ "ابھی چند روز قبل مشہور عالم دین اور سابق امیر جماعت سید جلال الدین عمری صاحب کا انتقال ہوا، چند ماہ قبل انہوں نے کارکنان کے لیے ایک تقریر کی تھی جس میں بہت سے نصائح ہے، رسالہ میں” افراد تحریک سے کچھ گزارشات” کے عنوان سے وہ شامل کیا گیا ہے، یہ تقریر ایک باعمل عالم دین کی دل کی آواز ہے۔

عام طور پر مذاہب کے بارے میں جو تصور ہے کہ یہ بندہ کو خشک مزاج بناتا ہے، یہاں حسن و جمال کی اہمیت نہیں لیکن ایس امین الحسن بھائی کچھ عرصہ سے تمدن پر خوبصورت سلسلہ لکھ رہے ہیں؛ شمارہ میں” جمالیات اور قرآن” کی چوتھی قسط ہے، لکھتے ہیں: "قرآن اپنے پڑھنے والوں کو نہ صرف ہدایت اور رہ نمائی سے سرفراز کرتا ہے بلکہ ان کی جمالیاتی حس کو بھی تیز کر دیتا ہے۔ قرآن اور جمالیات کا گہرا رشتہ ہے۔ جن کو جمالیات میں زیادہ دل چسپی ہوتی ہے ان کے لیے قرآن کا فہم بھی آسان تر ہو جاتا ہے۔ اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے جمالیاتی ذوق کو جلا ملتی ہے اور جمالیاتی حس کا حامل شخص قرآن سے زیادہ لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ جن کی طبیعت میں لطافت حس کی کمی ہو، قرآن کا مطالعہ انھیں لطافت حس سے مالامال کر سکتا ہے۔ ” امین بھائی نے اس سلسلے میں بہتری نکتے بیان کیے ہیں لکھتے ہیں:” کمیونی کیشن کے ضمن میں قرآن کی تعلیم حسین ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ مومن جب گفتگو کرتا ہے تو سیدھی بات کہتا ہے، اچھی بات کرتا ہے۔ اس کی بات سیدھے دلوں تک پہنچنے والی ہوتی ہے۔ اس کی گفتگو نرم ہوتی ہے۔ اس کی باتوں میں لوگوں کے لیے آسانیاں ہوتی ہیں۔ وہ مشکلات میں ڈالنے والا نہیں ہوتا۔ "اس مضمون میں نہایت ہی اعلی معلومات بھی ہے لکھتے ہیں:” اسلام کے تصور جنت کے عملی نمونے اسلامی تمدن کے آثاریات میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے دور کی عمارتوں اور اس کے اطراف کے ماحول کی تزئین و آرائش اور ان کی باریک تفصیلات پر غور کریں گے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تصور جنت سے وہ سب مستعار لیے گئے ہیں۔ان میں باغات اہم عنصر ہیں۔ ان باغات میں افادیت کے پہلوؤں کے علاوہ جمالیات کے ذوق کی بھی کار فرمائی رہی ہے۔ "امین بھائی نبض شناس ہیں چونکہ وہ ماہر نفسیات ہے؛ اس لئے جانتے ہیں کہ آج کی نسل کیا چاہتی ہے، بھائی کا یہ سلسلہ نہایت ہی اہم ہے۔ احمد علی اختر صاحب نے دین کی سمجھ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون لکھا ہے۔غازی بھائی کی خصوصیت ہے کہ انہوں نے بہت ہی اعلی اور ذہین افراد کو ‘دریافت’ کیا ہے۔ ان ہی میں سے ایک سائنسدان ڈاکٹر رضوان صاحب بھی ہیں، ڈاکٹر صاحب کے کئی شاہ کار مضامین گزشتہ کچھ عرصے سے شائع ہوئے۔ اس ماہ LGBTQ پر ان کی دوسری قسط ہے یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر اردو میں اکیڈمک طور پر بہت کم لکھا گیا، ڈاکٹر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مشکل مباحث کو بھی آسان بناتے ہیں۔ آج کے مادی دور میں بچوں کی تربیت ایک اہم مسئلہ ہے، بچوں پر ام مسفرہ مبشرہ کھوت کے کئی مضامین زندگی نو میں آئے ، اردو میں اس سلسلے میں یہ اہم سلسلہ ام مسفرہ نے شروع کیا ہے۔ اس ماہ انہوں نے والدین کے طریقہ تربیت کے تحت 9 طریقوں سے قارئین کو متعارف کرایا ہے، ام مسفرہ لکھتی ہے: "آپ کے بچے پر آپ کی اچھی باتوں اور نصیحتوں کا اثر ضرور پڑتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ان کا اثر گہرا اور دیرپا ہو۔ لیکن آپ کے رویے کا اس کے اوپر بہت گہرا اور تاعمر باقی رہنے والا اثر ہوتا ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو نصیحتیں کرتے ہیں لیکن ان بچوں کے ساتھ ان کا رویہ ان نصیحتوں کو بے اثر کردیتا ہے۔ والدین کے تربیتی رویے کی خوبی یا خرابی بچے کی شخصیت پر بہت گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ "، والدین کو کونسا رویہ اختیار کرنا چاہیے اس پر مروجہ طریقے بیان کرنے کے بعد معتدل رویہ دکھاتی ہے؛ لکھتی ہے:” والدین کو اپنا تزکیہ کرتے رہنا ہے۔ انھیں اپنے انداز پر غورو فکر کرنا ہے۔ محققین نے کئی برسوں کے مشاہدات کے بعد ہی بہتر اور بدتر تربیت کی نشان دہی کی ہے۔ تربیت کے بدتر طریقے آسان تو ہوں گے لیکن مستقبل تباہ کردیں گے؛ وہیں دوسری طرف ثمرات سے بھرپور خوش حال مستقبل کے لیے بہترین انداز تربیت کو بروئے کار لانے میں صبر اور محنت کرنی ہوگی۔اور یہ محنت ہرگز رائیگاں نہیں جائے گی۔ دنیا وآخرت دونوں جگہ کام آئے گی۔ "

عام طور پر مشہور افراد کی احوال زندگی پر لکھا جاتا ہے اور ان کی زندگی کے پہلوؤں پر گفتگو کی جاتی ہے تاکہ لوگ فالو کر سکیں ، رسالہ میں محمد جاوید اقبال صاحب نے ایک مالی پر مضمون لکھا ہے اور دکھایا ہے کہ کیسے اس کے اندر احسان (excellency) ہے ،اس مالی سے سیکھنے کے لیے قاری کو بہت کچھ مل جائے گا، اللہ تعالیٰ برصغیر کے مشہور فقہیہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی حفاظت فرمائے وہ نئے نئے مسائل پر فقہی مسائل کا حل بتاتے ہیں، شمارے میں انہوں نے میت کے غسل، استقرار حمل، نماز جنازہ طلاق کنایہ پر مفصل جوابات دیے ہیں ۔ جس سے قاری کو بھرپور رہنمائی ملتی ہے۔

شمارہ میں جعفری لنک کے مضمون کی کمی محسوس ہوئی، کل ملا کر رسالہ دن بہ دن خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا ہے، رسالہ آن لائن www۔zindgienau۔com پر پڑھا جا سکتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. محمد سلمان مکرم کہتے ہیں

    بہت عمدہ جزاکم اللّہ خیرا

تبصرے بند ہیں۔