اعلان جاری ہے

سہیل بشیر کار

زیر تبصرہ کتاب ‘اعلان جاری ہے’ ہے تو افسانوں کا مجموعہ لیکن دراصل اس میں درد و کرب اور اضطراب کی عکاسی ہے جسے کشمیر کے لوگ عرصہ دراز سے سہہ رہے ہیں۔ کتاب کے مصنف نے خوبصورتی سے گزشتہ 30 سالوں کے حالات کو افسانوں کی شکل دی ہے۔ 192 صفحات کی کتاب میں کل 22 افسانے ہیں۔ ان سبھی کہانیوں میں آپ اس ماں کا کرب محسوس کریں گے جس کا بیٹا موجودہ حالات کا شکار ہوا، اس باپ کی محرومی جس کا بیٹا کسی نامعلوم جگہ پر قید کیا گیا، ان گھرانوں کی بے چینی جن کے بچے بلاسٹ کے شکار ہوئے ، جن کی سبھی پراپرٹی راکھ ہوگئی۔ ان بہنوں کی داستان جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے اپنے کہاں کھو گئے۔ غرض ان کے افسانوں میں آپ کسی اپنے کا کردار محسوس کریں گے۔ شاہد صاحب کے افسانوں میں آپ کوئی مصنوعی پن محسوس نہیں کریں گے،شاہد صاحب نے جو کچھ دیکھا اس کو افسانے کا رنگ دیا؛ بنا یہ دیکھے اس کی زد میں کون آئے گا، کشمیر کے موجودہ حالات کو سمجھنے میں کتاب کی صرف ایک ‘خرابی’ ہے کہ اس کے اکثر افسانے آپ کو بہت زیادہ غمگین کریں گے۔ کیونکہ ان کے ہر افسانے سچے واقعات پر مبنی ہیں۔

مشہور قلم کار نور شاہ لکھتے ہیں: "اعلان جاری ہے” کی کہانیاں شاہد صاحب کی تیس سالہ تجربات کی عکاسی کرتی ہیں ۔اس مجموعے کی قریب قریب ساری کہانیاں کشمیر کے پر آشوب، پر درد اور کرب آمیز دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ ذہنی کشمکش اور احساس محرومی کی آگ میں جلتے ہوئے افسانوں کی کہانیاں ہیں ۔ ان کہانیوں میں جو جیتی جاگتی؛ ان گنت؛ خوبصورت اور بدصورت تصاویر نظر آتی ہیں؛ وہ سب ہماری جانی پہچانی ہیں۔ ان تصویروں میں ہمیں جو چہرے نظر آتے ہیں؛ ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں بخوبی پہچانتے ہیں۔ ان کہانیوں کے سارے کردار ہم میں سے ہیں۔ ” دراصل ان کہانیوں میں کشمیر کا پس منظر ہے، کشمیر کے حالات و واقعات کی منظرکشی ہے ۔ ان کہانیوں میں دود و کرب کی ایک عجیب فضا نظر آتی ہے ۔ان کہانیوں میں کشمیر کی مٹی کی خوشبو بسی ہے۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ غلام نبی شاہد نے اپنی ذہنی پختگی کے سہارے ان کہانیوں کی زلفیں سنواری ہیں ۔۔۔۔۔۔”(صفحہ 11)

مزید لکھتے ہیں:”  جب ہم ان دونوں باتوں کو جوڑتے ہیں تو غلام نبی شاہد کی شخصیت ان کی زندگی کے مختلف پہلو اور ان کے تحریر کردہ افسانے نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں سادگی اور بھولا پن ہے اور ان کے افسانوں میں سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان کی کہانیوں کی خاموشیوں سے جو آواز سنائی دیتی ہے وہ دلوں کو چھوتی ہے؛ ذہن کوجھنجوڑتی ہے۔اور بار باراس بات کا احساس دلاتی ہے کہ کچھ ہو گیا ہے؛ کچھ ہورہا ہے اور کچھ ہونے والا ہے۔ کیا ہوا ہے کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؛ یہ سب کچھ اعلان جاری ہے میں پوشیدہ ہے!!!”(صفحہ 10)

کشمیر کے بڑے ادیب محمد یوسف ٹینگ نے افسانوں کی خصوصیت بیان  کرتے ہوئے لکھا ہے:” کیا کشمیریوں کے جذبہ دل کی اس معصوم تفسیر سے زیادہ اور بہتر تر جمانی کی جا سکتی ہے؟ مجھے خوشی ہے کہ شاہد نے اپنے بیانیے کو غیر ضروری تکرار اور تواتر سے بوجھل نہیں بنایا ہے۔ اس نے ہلکے پھلکے انداز سے باتیں کرتے ہوئے آگے قدم بڑھایا ہے اور کم سے کم عبارت میں مفہوم کو ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ یہ جدید اردو کے بڑے اسلوب سے ملتا جاتا ہے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی جیسے ناقد نے کہا ہے کہ افسانے کی حمایت میں سب سے بڑی بات یہی ہوسکتی ہے کہ اس پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔۔۔۔۔ اگر افسانے کو اصناف کی محفل میں زبان کی سطح پر رکھا جائے تو ٹھیک ہے۔(افسانے کی حمایت میں )”(صفحہ 15)

افسانوں میں جو چیزیں ہونی چاہیے وہ شاہد صاحب کے افسانوں میں موجود ہے مشہور مصنف و ناقد غلام نبی خیال لکھتے ہیں:” افسانے کی ہیئت کے بارے میں یہ رائے مسلمہ ہے کہ اس کے تین اجزا ہوتے ہیں جن میں آغاز ، وسط اور اختتام یعنی عروج شامل ہیں ۔شروع میں افسانے کا آغاز ایک عام تخلیق کی طرح ہوتا ہے جو آگے بڑھتے بڑھتے سنے یا پڑھنے والے کے ذوق پر حاوی ہو جاتا ہے اور آخر پر اس کے عروج سے ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ قاری یا سامع کا ذہن دیر تک اس کے بارے میں ایک غیر متوقع سوچ میں محو ہو جاتا ہے ۔ زیر تبصرہ مجموعے میں آجادی عنوان کی کہانی میں سے ساری خصائص بدرجہ اتم جلوہ گر ہیں۔ "(صفحہ 18)

ان افسانوں کی ایک خاصیت ہے کہ مصنف نے نہ صرف یہاں کے حالات و واقعات قلمبند کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ کرب، اضطراب کو بھی بیان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے سب واقعات کی منظر کشی ہو رہی ہے، یہ قارئین کے دماغ کو ہی نہیں بلکہ عقل کو بھی اپیل کرتے ہیں، مشہور ادیب رفیق راز لکھتے ہیں: "ان کی آنکھ کشمیر میں رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کو ایک کیمرے کی طرح گرفت میں لاتی ہے۔ پھر اپنے کرداروں پر مرتب ہونے والے نفسیاتی اثرات کو نہایت خوبی کے ساتھ قارئین پر ظاہر کرتے ہیں۔” (صفحہ 23)

ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں: ” الفاظ میں ستمگار کے ستم کو کیسے پرویا گیا ہے؛ کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔ "

پہلی کہانی جمیلہ اور افضل کی ہے جن کا بیٹا کمپیوٹر سیکھنے جاتے ہوئے بم دھماکے میں جان بحق ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں اور والدین کو اس کا ہاتھ بہت دنوں بعد ملتا ہے اور جب اس ہاتھ کو باپ دفنانے نکل جاتا ہے تو وہ کافی بھاری لگتا ہے، ظاہر ہے جواں بیٹے کے جسم کا ایک انگ  باپ کے کندھے سے بھاری ہی ہوگا اور وہی افضل کو محسوس ہوتا ہے، دوسری کہانی ایک اس عورت کی ہے جس کا خاوند حالات کی نظر ہو کر مزار شہداء میں دفن ہوتا، مصنف نے اس خاتون کا کرب دکھایا ہے۔ تیسری کہانی اس کتاب کی واحد کہانی ہے جس سے قاری کا موڈ خراب نہیں ہوتا، اس کہانی میں مصنف یہ دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ عام کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ چوتھی کہانی میں نیم بیوہ (Half widow) کی عکاسی کی گئی ہے، پانچوے افسانے میں مصنف نے ایک باپ کا کرب دکھایا ہے؛ جس کے بچے اسکول جاتے ہوئے دھماکے سے ہلاک ہوئے۔ اس افسانے میں ہندو مسلم بھائی چارہ کی خوبصورتی کو بھی دکھایا گیا ہے، چھٹے اور ساتویں افسانے اگرچہ مختصر ہے لیکن مصنف  گمشدہ افراد کے اقرباء کی کیفیت دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں، آٹھویں افسانے  زندہ داران شب میں عام شہری کی قیمت دکھائی گئی ہے، نویں افسانے  حالات کی عکاسی نہیں کرتا لیکن ایک بہترین افسانہ ہے، دس سے پندرہویں افسانے میں مصنف اس ذہنی کرب کو دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو موجودہ حالات کی وجہ سے پیدا ہوئے ، لوگوں کی نفسیاتی حالت کی اس سے بہتر عکاسی ممکن نہیں۔ سولہویں افسانے "ہم جیت گیے” میں مصنف نے بہت زیادہ آرمی کی وجہ سے بچوں کی نفسیات دکھائی  ہے۔ سترہویں افسانہ "ابابیلیں” میں بھی سنگ بازی کی وجہ سے والدین اور بچوں کا کرب دکھایا گیا ہے، اٹھارہویں افسانے میں احتیاطی حراست کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کشمیر کی اکثریت نفسیاتی بیماریوں کی شکار ہے۔ انیسوے افسانے میں مصنف نے اس کی جھلک دکھائی ہے، سلام الدین اداس کیوں ہے؛ میں مصنف نے ہاوس بوٹ میں کام کرنے والے ایک فرد کا کرب دکھایا ہے جس کا بیٹا اٹھارہ سال سے لاپتہ ہے۔

الغرض یہ کتاب کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو خوبصورتی سے دکھانے میں کامیاب نظر آتی ہے، ساتھ ہی کشمیری لوگوں کی انسانیت دوستی کو بھی دکھانے میں کامیاب کوشش ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید نے کیا خوب لکھا ہے: "کشمیر اور کشمیری جیسے الفاظ سامنے آتے ہی تنگ نظروں کے ذہنوں میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی، اور فرقہ پسندی اور فرقہ پرستی جیسے الفاظ متحرک ہو جاتے ہیں، جبکہ سچ یہ ہے کہ آگ اور خون سے لبریز کئی دہائیوں کے پل صراط سے گزر آنے کے بعد بھی کشمیر فرقہ وارانہ اتحاد کا سب سے روشن استعارہ ہے اور کشمیری قوم آج بھی ہندو مسلم اتحاد کے امین ہیں، اس کا اندازہ غلام نبی شاہد کی کتاب اعلان جاری ہے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ "

192 صفحات کی یہ کتاب  نہایت عمدہ گیٹ اپ پر مصنف نے شائع کی ہے، کتاب کی قیمت 400 روپے ہے اور یہ کتاب مصنف کے ذاتی فون نمبر 9797946911 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

کتاب rekhta پر بھی مندرجہ ذیل لنک پڑھی جا سکتی ہے :

https://www۔rekhta۔org/ebooks/ailaan-jari-hai-ghulam-nabi-shahid-ebooks?lang=ur

تبصرے بند ہیں۔