مغربی ادب میں ’ویئر وولف‘ (آدم بھیڑیا): حقیقت یا افسانہ

مہتاب پیامی

ہماری یہ تحریر مغربی ادب میں ویئر وولف، محض ایک اجمالی جائزہ ہے۔  اس کا محرک چند تصویریں اور کچھ ویڈیوز ہیں جنھیں ہمارے مسلم برادران بلا سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر دھڑادھڑ شیئر اور فارورڈ کیے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک ویڈیو میں ایک بچے کے چبائے ہوئے پیر اور اس کے ماں باپ کی چیخ پکار دکھائی دے رہی ہے، صاف لگتا ہے کہ بچے کے پاؤں کو کسی جانور نے چبا لیا ہے۔ دوسری ویڈیو میں ایک بھیڑیا  نما انسان کی لاش دکھائی گئی ہے، اور تیسری ویڈیو میں ایک زخمی بھیڑیا نما انسان دکھایا گیا ہے پھر ایک نوٹ لکھ کر عوام کو ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے۔شیئر اور لائک کرنے والے اگر چاہیں تو ذرا سی عقل کا استعمال کرتے ہوئے آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ بچے کی ویڈیو حقیقی ہےم اسے واقعی کسی درندے نے نشانہ بنایا ہے، جب کہ بقیہ دو ویڈیو کسی ”ویئر وولف“ فلم کی کلپس ہیں جن کو اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔

افسوس تب زیادہ ہوتا ہے جب ہمارے پڑھے لکھے بھائی ایسی باتیں کرتے ہیں اور ساتھ ہی ”دوسروں کو تلقین کا فریضہ“ بھی انجام دے ڈالتے ہیں۔ اسلام روشن خیالی کا مذہب ہے، کسی قسم کے واہیات خیالات کے لیے اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ پڑھے لکھے لوگ تو خیر، جب مدرسہ کاطالب علم وہ بھی جامعہ اشرفیہ کا کوئی طالب علم اس طرح کے واہموں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے تو بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے، اور افسوس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ آج کے اس ماڈرن دور میں جب تحقیق کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں، دنیا بھر کی لائبریریوں تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے، کسی بھی تصویر کے بارے میں سرچ کیا جا سکتا ہے، بغیر تحقیق ہم کسی  بھی افواہ کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔

مذکورہ تصویریں اور ویڈیوز ایک ہائی ٹیک افواہ  سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ تاریخ انسانی میں کہیں ایسے جانور کا کوئی وجود نہیں، یہ صرف افسانوی داستان ہے جسے یورپ  کے تاریک ذہنوں نے گڑھا اور نو آبادیات نے ان کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔

اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے مرحوم ابنِ صفی کی، برِ صغیر ہند و پاک میں ان کے جیسا مقبول ناول نگار آج تک کوئی نہیں ہوا، ان کی یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں میں واہموں کو کوئی مقام نہیں دیا،جو کچھ مافوق الفطرت واقعات بیان کیے ان کی مضبوط سائنسی توجیہ بھی پیش کی۔ یورپ کے ذہنی دیوالیہ پن کو انھوں نے اپنے ایک جملے کے ذریعہ کس قدر واضح کر دیا ہے ، وہ دیکھنے کی چیز ہے۔ابنِ صفی کے بقول ضعیف الاعتقاد تو مغرب ہے، اور اس کے ضعیف الاعتقاد ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ”ویئر وولف“ کا تصور ہے۔ ہمارے مشرق میں چڑیلوں اور بھوتوں کا جو تصور ہے اس سے کہیں زیادہ ضعیف الاعتقادی پر مشتمل ”ویئر وولف“ کا تصور ہے۔یورپ کی گذشتہ ہزار سالہ تاریخ اس بے بنیاد واہمے کی اندھیری تہوں میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ہم ذیل میں اس ہزار سالہ واہمے کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

ویئر وولف یعنی آدم بھیڑیا:

قدیم لوک داستانوں میں اس کا ذکر کثرت سے کیا گیا ہے، ان داستانوں کے مطابق  یہ انسان سے بھیڑیا اور بھیڑیے سے  انسانی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی یہ صلاحیت پورے چاند کی رات اپنے شباب پر ہوتی ہے۔” آدم بھیڑیا “کا یوروپی لوک داستانوں میں ایک وسیع تصور  موجود ہے، جس کی بہت سی مختلف شکلیں ہیں۔ ”ویئرو ولف“  کا تعلق قرون وسطیٰ کے دور میں گڑھی گئی یورپی لوک داستانوں کی عیسائی تشریح کے مشترکہ ارتقا سے ہے۔ دنیا بھر میں جب یورپی ممالک نے اپنی نو آبادیاتی کالونیوں کو وسعت دینا شروع کیا تو یہ باطل نظریہ بھی مشرق میں پھیلتا چلا گیا۔ قرون وسطی کے اواخر اور جدید دور کے ابتدائی دور میں ان بھیڑیوں کو چڑیلوں کے متوازی پیش کیا گیا۔بظاہر  اس قیاسی بھیڑیے کا پہلا نظریہ پندرہویں صدی کے اوائل میں سوئٹزر لینڈ میں سامنے آیا اور سولہویں صدی کے اختتام تک پورے یورپ میں پھیل گیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس تصور کی ابتدا دسویں صدی عیسوی میں ہی ہو چکی تھی، البتہ اس کی اتنی شہرت نہیں تھی جتنی پندرہویں صدی میں ہوئی، اس کا ثبوت بعض قدیم افسانوی متنون ہیں جو آج بھی دستیاب ہیں اور ان کے مطالعہ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس خیالی بھیڑیے کا تصور یورپ میں ۱۷ ویں صدی میں اپنے عروج پر تھا، لیکن یورپ کے نشاۃِ ثانیہ یعنی ۱۸ ویں صدی عیسوی میں یہ بالکلیہ ختم ہو گیا، جب کہ یہ حقیقت نہیں ہے، انیسویں اور بیسویں صدی  میں بھی یہ نظریہ خال خال علاقوں میں زندہ تھا۔  بیسویں صدی میں اس موضوع پر بہت سے ناول لکھے گئے اور لا تعداد فلمیں بھی بنائی گئیں۔

سولہویں اور سترہویں صدی کے دوران یورپ میں ”ویئروولف فکشن“ کا آغاز ہوا۔ اس دوران ویئروولف سے متعلق لا تعداد کہانیاں گڑھی گئیں اور ویئروولف کو اس تواتر سے پیش کیا گیا کہ عوام الناس اسے خیالی مخلوق نہ مان کر جیتی جاگتی شکل ماننے لگے۔

”ویئروولف فکشن “ایک سٹائل کے طور پر قرون وسطی  کی رومانیت میں ماقبل جدید کی نظیرہے اور 18ویں صدی میں ”نیم افسانوی“ حیثیت کا حامل،حتیٰ کہ بیسویں صدی میں بھی ”ویئروولف“ ہارر لٹریچر کا مقبول ترین کردار رہا ہے۔

لفظ ”ویئروولف“ قدیم  انگریزی لفظ   (Werwulf) سے آیا ہے، جو wer  یعنی آدمی  اور (Wulf) یعنی بھیڑیا کا مرکب ہے۔ قدیم ہائی جرمن  زبان میں اس لفظ کی ایک شکل ”ویریوولف“ پائی جاتی ہے البتہ اس  کا تصور قرون وسطی کی جرمن شاعری یا افسانے میں نہیں پایا جاتا۔ جرمن ادب میں اس لفظ نے پندرہویں صدی سے مقبولیت حاصل کی۔ درمیانی لاطینی میں یہ لفظ (Gerulphus)،اینگلو نارمن میں (Wariwulf)اور قدیم نارس میں (Varúlfur)تھا۔ جدید اسکینڈینیوین میں  اسے ”شام کا بھیڑیا“ بھی کہا گیا ہے۔

لائیکن تھروپی  (Lycanthropy)کی اصطلاح:

یہ اصطلاح قدیم ترین یونانی لفظ (Lukánthropos) سے ماخوذ ہے اور اس کا استعمال قدیم یونانی ادب میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے؛اور اگر کہیں اس اصطلاح کا تذکرہ ہے بھی تو صرف کلینکل لائیکن تھروپی (Clinical Lycanthropy)کے طور  پرہے ،جسے گیلن ؔنے بیان کیا ہے، اس کے مطابق کلینکل لائیکن تھروپی وہ بیماری ہے  جو مریض کے اندر بھیڑیے جیسی بھوک اور دیگر خصوصیات پیدا کر دیتی ہے۔ انگریزی میں یونانی سے ماخوذ لائکن تھروپی  (Lycanthropy) کا استعمال 16ویں صدی کے آخر کی تحریروں میں ہوتا ہے۔ پہلی بار انگریزی میں اس لفظ کا استعمال   ”ریجینالڈ اسکاٹ“  نے ء۱۵۸۴ میں اپنی تصنیف ”دی ڈسکوری آف وِچ کرافٹ“ میں کیا تھا۔  اس کتاب میں ”ویئروولف“کی حقیقت کے خلاف بحث کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک ”لائیکن تھروپی  (Lycanthropy) محض  ایک قسم کی بیماری ہے اور یہ کسی حقیقی تبدیلی کا نام نہیں۔ سب سے پہلے واضح طور پر” کلینکل لائیکن تھروپی“  لفظ کا استعمال ان مریضوں کے لیے کیا گیا جو پاگل پن کی ایک خاص قسم میں مبتلا ہو کر یہ تصور کرتے تھے کہ وہ بھیڑیا بن گئے ہیں۔  حقیقی طور پر بھیڑیے میں تبدیل ہونے کے لیے اس لفظ کا استعمال بہت بعد میں ہوا۔

یورپ میں پائے جانے والی” ویئروولف لوک داستان“ قرون وسطی میں ایک مشترکہ نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو عیسائیت کے تناظر میں پیدا ہوا ، اور مسیحی اصطلاحات میں قبل از مسیحی افسانوں کی متعلقہ تشریح، ان کی بنیادی مشترکہ اصل کا پتہ پروٹو-انڈو-یورپی افسانوں سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں جنگجو طبقے کے آغاز کے ایک پہلو کے طور پر لائیکن تھروپی   (Lycanthropy) کی تشکیل نو کی جاتی ہے۔  ہند-یورپی افسانوں کے اس پہلو کا معیاری تقابلی جائزہ McCone (1987) کی کی تحریر میں پیش کیا گیا ہے۔

لائیکن تھروپی کے قدیم افسانوی حوالہ جات:

مردوں کے بھیڑیوں میں تبدیل ہونے کے چند حوالہ جات قدیم یونانی ادب اور افسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بابائےتاریخ ”ہیروڈوٹس“نے اپنی ہسٹریز(تواریخ) میں لکھا ہے کہ” نیوری“ نامی ایک قبیلہ کے لوگ ہر سال ایک بار کئی دنوں تک بھیڑیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں پھر ایک معینہ مدت گزر جانے کے بعد انسانی شکل میں واپس آ جاتے ہیں۔ اس کہانی کا ذکر”پومپونیس میلا“ (Pomponius Mela) نے بھی کیا ہے۔

دوسری صدی قبل مسیح میں، یونانی جغرافیہ دان” پوسانیاس “(Pausanias)نے آرکیڈیا کے بادشاہ ”لائکاون“ کی کہانی بیان کی ہے، جو بھیڑیا بن گیا تھا کیوں کہ اس نے دیوتا” زیوس لائیکیئس“(Zeus Lycaeus)  کی قربان گاہ میں ایک بچہ قربان کر دیا تھا۔

”پوسانیا“(Pausanias)ایک آرکیڈین شخص کی کہانی بھی بیان کرتا ہے جسے Damarchus of Parrhasia کہا جاتا ہے، دیوتا” زیوس لائیکیئس“ (Zeus Lycaeus) کے لیے قربان کیے گئے انسانی بچے کی آنتوں کو چکھنے کے بعد بھیڑیا بن گیا تھا۔ وہ 10 سال بعد انسانی شکل میں واپس آیا ہوااورپھر اولمپک چیمپئن بن گیا۔ یہ کہانی ”پلینی دی ایلڈر“ نے بھی سنائی ہے۔

”پلینی دی ایلڈر“ اسی طرح لائیکن تھروپی کی ایک اور کہانی سناتا ہے۔”ایوانتھیس“ (Euanthes) کا حوالہ دیتے ہوئےاس نے ذکر کیا کہ آرکیڈیا  (Arcadia) میں، سال میں ایک بار” اینتھس“ (Anthus) کے قبیلے سے ایک آدمی کا انتخاب کیا جاتا تھا; چنے ہوئے آدمی کو اس علاقے میں ایک دلدل میں لے جایا جاتا، جہاں اس کے کپڑے شاہ بلوط کے درخت میں لٹکادیے جاتے اور وہ دلدل میں تیر کر ایک بھیڑیے میں تبدیل ہو جاتا۔ بعد ازاں نو سال تک اسی حال میں رہتا، اگر ان نو سالوں کے دوران وہ انسانی گوشت چکھنے سے اجتناب کرتا تو پھر اسی دلدل میں واپس تیراکی کر کے اپنی سابقہ ​​انسانی شکل کو بحال کر لیتا۔

”ورجل“ نے اپنی شاعرانہ تصنیف ”ایکلوجیس“ (Eclogues) میں”مورس“ (Moeris) نامی ایک شخص کے بارے میں لکھا، جس نے اپنے آبائی علاقے” پونٹس “میں چنندہ جڑی بوٹیوں اور زہروں کا استعمال کر کے  خود کو بھیڑیے میں تبدیل کر لیا تھا۔

”گیئس پیٹرونیس آربیٹر“(Gaius Petronius Arbiter) نے ۶۰ عیسوی کی اپنی تصنیف”سیٹریکان“ (Satyricon)  میں ایک کردار ”نائکروس“ (Niceros)  پیش کیا ہے۔” نائکروسؔ“ ایک ضیافت میں اپنے ایک دوست کے بارے میں ایک کہانی سناتا ہے جو بھیڑیا بن گیا تھا ۔  وہ اس واقعے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں اپنے دوست کو تلاش کرنے نکلا تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے کپڑے اتار کر سڑک کے کنارے ڈھیر کر رکھے تھےاور وہ اپنے کپڑوں کے گرد دائرے میں پیشاب کر رہا تھا اور پھر اس کے بعد وہ بھیڑیا بن گیا اور چیختا ہوا جنگل کی طرف فرار ہو گیا۔

ابتدائی عیسائی مصنفین نے بھی اپنی کتابوں میں ایسے  بھیڑیوں کا ذکر کیا ہے۔ ”دی سٹی آف گاڈ “(The City of God)میں، ” آگسٹین“ نے ”پلینی دی ایلڈر “سے ملتا جلتا ایک واقعہ قلم بند کیا ہے۔” آگسٹین “کہتا ہے کہ ”عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض جادوگرنیوں کے ذریعے مرد بھیڑیوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔“

جسمانی میٹامورفوسس، ورسپیلس اور ان لوپم فیوز میوٹم:

جسمانی میٹامورفوسس کا ذکر”کیپچولیٹم ایپسکوپی“ (Capitulatum Episcopi) میں کیا گیا تھا، جسے چوتھی صدی میں ”کونسل آف اینسیرا “سے منسوب کیا گیا تھا۔(Capitulatum Episcopi) ”کیپچولیٹم ایپسکوپی“   میں یہ درج ہے کہ: ”جو شخص یہ مانتا ہے کہ کسی بھی چیز کو… کسی دوسری نوع یا مثال میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، سوائے خود خدا کے… وہ بلا شبہ کافر ہے۔“

رومن مصنفین  نے ویئر وولف کا تذکرہ ”ورسپیلس“ کے نام سے کیا ہے۔جب کہ  آگسٹین نے ان ”ویئروولف“کے جسمانی میٹامورفوسس کو بیان کرنے کے لیے ”ان لوپم فیوز میوٹم“ (یعنی بھیڑیے کی شکل میں تبدیل) کا فقرہ استعمال کیا، جو قرون وسطی کے دور میں استعمال ہونے والے فقروں سے ملتا جلتا ہے۔

قرون وسطیٰ کے یورپ میں بھی آدم بھیڑیوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر اعتقاد کے ثبوت موجود ہیں۔ یہ ثبوت براعظم کے بیشتر حصوں کے ساتھ ساتھ برطانوی جزائر تک پھیلے ہوئے تھے۔ قرون وسطی کے قانون کے ضابطوں میں بھی بھیڑیوں کا ذکر کیا گیا تھا، ”کنگ کنٹ“ کے ”کلیسیائی آرڈیننس“ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس حکم نامہ کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ”… پاگلوں کی طرح بہادر ویئروولف بہت زیادہ تباہی نہیں پھیلاتا، اور نہ ہی بہت سے روحانی ریوڑوں کو کاٹتا ہے۔“

”روحانی ریوڑ “ مسیحیت  کی مخصوص اصطلاح ہے، اس کا مفہوم ”روحانی اعتقاد رکھنے والے مذہبی رہنما اور عوام الناس“ بتایا جاتا ہے۔ اس لفظ کا تذکرہ عہد نامہ جدید و قدیم میں بہت سے مقامات پر ہے۔

” آگسٹین“ کی تحقیقات کا مغربی مسیحیت کی ترقی پر بڑا اثر تھا، اور قرون وسطیٰ کے کلیسیاؤں نے اسے بڑے پیمانے پر پڑھا تھا اور یہ چرچ والے کبھی کبھار اپنے کاموں میں بھیڑیوں کے بارے میں بات کرتے تھے۔ مشہور مثالوں میں ”جیرالڈ آف ویلز کے“” ویروولز آف اوسوری“ شامل ہیں۔

”گرویس“(Gervase)  کے مطابق اس طرح کی تبدیلیوں پر (اس کے یہاں بلیوں اور سانپ بننے والی خواتین کا بھی ذکر ہے) یقین اور اعتماد کا دائرہ پورے یورپ پر محیط تھا۔ ”گرویس“ ان میٹامورفوسس پر بحث کرتے وقت، جملہ (que ita dinoscuntur) کا استعمال کرتا ہے، جس کا ترجمہ ہے ”یہ معلوم ہے“۔”گرویس“ (Gervase)  اپنے زمانے میں جرمنی  کا مشہور و معروف اسکالر تھا ،اس نے اپنی تحریروں کے ذریعہ   اپنے  قارئین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہےانسانوں کے بھیڑیوں میں تبدیل ہونے کے نظریے کو آسانی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کے مطابق  ”…انگلینڈ میں ہم نے اکثر مردوں کو بھیڑیوں میں بدلتے دیکھا ہے۔“

بھیڑیوں اور دیگر انسانی جانوروں کی تبدیلیوں میں وسیع پیمانے پر عقیدے کے مزید ثبوت ایسے عقائد کے خلاف کیے گئے مذہبی حملوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ”کونریڈ آف ہیرساؤ“11 ؍ویں صدی میں لکھتے ہیں: ”وہ (یعنی مذہبی رہنما) ایسی کہانیوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہیں جن میں اس طرح کی تبدیلی کا ذکر ہوتا ہے۔“” کونریڈ “خاص طور پر اپنے ٹریکٹ میں”اووڈ “کی کہانیوں کا حوالہ دیتے ہے۔

”میری ڈی فرانس“(Mary De France)کی نظم”بسلاوریٹ“ Bisclavret (c. 1200) ایک اور مثال ہے، جس میں نام نہاد رئیس بسلاوریٹ کو بعض ناگزیر حالات کے سبب ہر ہفتے بھیڑیے میں تبدیل ہونا پڑتا تھا۔ ایک بار اس کی غدار بیوی نے اس کا لباس چرا لیا جو اس کی انسانی شکل کو بحال کرنے کے لیے درکار تھا، تو اس نے اپنی بیوی اور اس کے محبوب پر حملہ کیا۔جب وہ گرفت میں آیا تو  اس نے بادشاہ سے رحم کی درخواست کی اس طرح وہ ان شکاریوں سے بچ گیا جو بادشاہ کے حکم کے مطابق بھیڑیوں کے شکار پر مامور تھے۔پھر اس کے بعدوہ بادشاہ کے ساتھ چلا گیا۔ عدالت میں اس کا رویہ  انتہائی نرم تھا، جب اس کی بیوی اور اس کے نئے شوہر عدالت میں پیش ہوئے، اس حد تک کہ جوڑے پر اس کے نفرت انگیز حملے کو منصفانہ طور پر محرک سمجھا گیا، اور حقیقت سامنے آگئی۔

یہ لائی (نظم کی ایک قسم) دیگر ”ویئروولف“ کہانیوں میں پائے جانے والے بہت سے موضوعات کی پیروی کرتی ہے ، لباس کو ہٹانے اور انسانی گوشت کے استعمال سے باز رہنے کی کوشش ”پلینی دی ایلڈر“ کے ساتھ ساتھ ”گرویس“(Gervase)  کی بھی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

گیارہویں صدی میں” ویئروولف“  کا تذکرہ:

جرمن لفظ ”ویروولف“ کو 11؍ویں صدی میں ”برچارڈ وون ورمز “اور 13؍ویں صدی میں ریگنس برگ کے ”برٹولڈ“ نے پہلی بار استعمال کیا، البتہ قرون وسطی کے کسی بھی جرمن شاعر یا افسانہ نگار نے اس کا استعمال نہیں کیا، ”بیرنگ گولڈ“ کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں ”ویئروولف“ کے حوالے نایاب تھے، غالباً اس وجہ سے کہ جرمن ”کافر ازم“ کے ”بھیڑیوں “ نے جو بھی اہمیت حاصل کی تھی، مسیحی نظریات کے فروغ کے بعد اس سے منسلک عقائد اور طریقوں کو انتہائی کامیابی کے ساتھ دبا دیا گیا تھا ۔آئرلینڈ اور برطانوی جزیروں میں ”ویئروولف “کی ایسی مثالیں 9؍ویں صدی کے ویلش راہب ”نینیئس“ کی تحریروں مل سکتی ہیں۔ 12؍ویں صدی کی آئرش تحریر” ٹیلز آف دی ایلڈرز“ میں خواتین ”ویئروولف“ بھی نظر آتی ہیں۔

1539 ءمیں، ”مارٹن لوتھر “نے ایک فرضی حکمران کو ظالم سے بدتر بیان کرنے کے لیے ”ویئر وولف“ کی شکل کا استعمال کیا ۔

بھیڑیوں سے وابستہ جرمن کافر روایات اسکینڈینیوین وائکنگ دور میں سب سے طویل عرصے تک برقرار رہیں۔ ناروے کے ہیرالڈ I کے پاس (Úlfhednar) (بھیڑیے سے لپٹے [مُردوں]) کا جسم تھا، جس کا ذکر  ”وینٹس ڈوئیلا ساگا“(Vatnsdœla Saga) ،”ہیرالڈسکیوئی“ (Haraldskvæði)، اور ”وولسنگا ساگا“ (Völsunga Saga) میں ملتا ہے، اور کچھ ”ویئروولف“ کے افسانوں سے ملتا جلتا ہے۔” اولف ہڈنار“(Úlfhednar)  جنگ جوؤں کا بھی تذکرہ ملتا ہےجو  ریچھوں کی بجاے بھیڑیوں کی کھال میں ملبوس تھے اور جنگ میں تاثیر کو بڑھانے کے لیے ان جانوروں کی روحوں کو منتقل کرنے کے لیے مشہور تھے۔یہ جنگجو درد کے خلاف مزاحم تھے اور جنگ میں جنگلی جانوروں کی طرح بری طرح سے مارے گئے تھے۔ ”اولف ہڈنار“۔ (Úlfhednar) اور”برسرکرس“ (Berserkers) کا نورس دیوتا”ادین“( Odin )سے گہرا تعلق ہے۔

اس دور کی اسکینڈینیوین روایات شاید”روس “تک پھیل گئی ہوں، جس سے سلاویک ”ویئروولف“ کی کہانیوں کاجنم ہوا ہو گا۔ 11؍ویں صدی کے بیلاروسی شہزادہ ”ویسلاو آف پولوٹسک“ کو ایک ”ویئروولف“ سمجھا جاتا تھا، جو مافوق الفطرت رفتار سے چلنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جیسا کہ” دی ٹیل آف ایگور“ کی مہم میں بیان کیا گیا ہے:

شہزدہ ”ویسلاوؔ“ مُردوں کا فیصلہ کرتا تھا۔ بطور شہزادہ، اس نے شہروں پر حکومت کی لیکن رات کو وہ بھیڑیے کے بھیس میں گھومتا تھا۔ چہل قدمی کرتے ہوئے، وہ کاکس کے عملے سے پہلے، ”تموتوروکن“ پہنچ گیا۔ایک بھیڑیے کی طرح گھومتے ہوئے اس نے  عظیم سورج کا راستہ عبور کیا۔

قرون وسطیٰ کے دوران بیان کی گئی صورت حال ابتدائی جدید یورپ میں ”ویئروولف“ لوک داستانوں کی دوہری شکل کو جنم دیتی ہے۔ ایک طرف ”جرمنی ویئروولف“، جو 1400 ء کے قریب جادو ٹونے سے منسلک ہو جاتا ہے، اور دوسری طرف ”سلاوی ویئروولف“ یا” ولکولک“، جو” ریوننٹ“ یا ”ویمپائر“ کے تصور سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ ”مشرقی ویئروولف ویمپائر“ وسطی اور بشمول ہنگری، رومانیہ اور بلقان مشرقی یورپ کے لوک داستانوں میں پایا جاتا ہے،، جب کہ ”مغربی ویئروولف جادوگر “فرانس، جرمن بولنے والے یورپ اور بالٹک میں پایا جاتا ہے۔

16؍ویں صدی کے فرانس میں ویروولف حملوں اور اس کے نتیجے میں عدالتی ٹرائلز کی متعدد رپورٹس موجود تھیں۔ کچھ کیسوں میں قتل اور حیوانیت کے ملزم کے خلاف واضح ثبوت موجود تھے، لیکن ان کا بھیڑیوں سے کوئی تعلق واضح  نہیں تھا۔ 1448 ءکے اوائل میں بچوں کو کھانے والے بھیڑیوں کا تذکرہ  بھی بارہا افسانوں میں ہوا۔ 16؍ویں صدی کے آخر سے 17؍ویں صدی کے اوائل تک، ”یورپی جادوگرنی کے شکار کے حصے“ کے طور پر” لائکین تھروپی“ کی طرف توجہ کا عروج ہوا۔ 1595 ءاور 1615 ء کے دوران فرانس میں ”ویئروولف“ پر متعدد مقالے لکھے گئے۔ 1598 ءمیں ”انجو “ میں ”ویئروولف“ ہونے کے شبہہ میں ایک نوجوان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔  17 ؍ویں صدی کے آغاز میں انگلینڈ کے جیمز I کی طرف سے جادو ٹونے پر مقدمہ بھی چلایا گیا تھا، 1650 ءکے بعد، ”لائیکن تھروپی“  (Lycanthropy) پر یقین  متزلزل ہونا شروع ہوا اور بالآخر فرانسیسی بولنے والے علاقوں سے یہ بالکل ناپید ہو گیا، جیسا کہ”ڈائڈیروٹس انسائیکلو پیڈیا“ (Diderot’s Encyclopedia) میں اس بات کا ثبوت ملتا ہے، جس میں ”لائیکن تھروپی“  (Lycanthropy)  کی رپورٹوں کو ”دماغ کی خرابی“ سے منسوب کیا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک رپورٹ ”گیوڈان“ (Gévaudan) کے جانور سے متعلق ہے جس نے جنوبی وسطی فرانس میں ”گیوڈان“ (Gévaudan)کے سابق صوبے، جو اَب ”لوزیرے“ (Lozère) کہلاتا ہے، کے عمومی علاقے کو دہشت زدہ کر دیاتھا۔ 1764 ءسے 1767 ء کے درمیان، اس نے 80 ؍سے زیادہ مردوں، عورتوں کو اور بچوں کو ہلاک کیا۔

جس نے 1650ء کے بعد بھیڑیوں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی وہ مقدس رومی سلطنت تھی۔ جرمنی میں 1649ء اور 1679ء کے درمیان ”گیوڈان“  (Gévaudan) پر کم از کم ۹؍ رپورٹیں شائع ہوئیں ۔اسی کے ساتھ  آسٹریا اور باویرین الپس میں بھی ”ویئر وولف“پر یقین برقرار رہا۔

”سبن بیرنگ گولڈ“(Sabine Baring-Gould) کی کتاب ”دی بک آف ویئر وولز“ (The Book of Werewolves) میں ایک خیال پیش کیا گیا ہے کہ ”ویئروولف “کے افسانوں کو سلسلہ وار قتل کی توجیہ کے لیے استعمال کیا گیا ہو گا۔ شاید سب سے زیادہ بدنام مثال” پیٹر اسٹمپ“ (1589 ءمیں پھانسی دی گئی)، جرمن کسان، اور مبینہ سیریل کلر اور کینبل، جسے ”بیڈبرگ“ کے ویروولف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا معاملہ ہے۔

ویئر وولف کی شناخت:

کچھ جدید محققین نے تسلیم شدہ طبی حالات کے ساتھ ”ویئروولف“ کے رویے کی رپورٹوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لندن کے ایک ڈاکٹر” لی ایلس“ نے 1963 ء میں” آن پورفیریا اینڈ دی ایٹولوجی آف ویئروولز “کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا، جس میں انھوں نے دلیل دی کہ ”ویئروولز “کے بارے میں تاریخی بیانات درحقیقت پیدائشی ”پورفیریا “ کے شکار افراد کا حوالہ دے سکتے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ فوٹو حساسیت کی علامات، سرخی مائل دانت اور سائیکوسس کسی مریض پر” ویئروولف“ ہونے کا الزام لگانے کی بنیاد ہو سکتی ہے۔تاہم اس کے خلاف ”ووڈورڈ“ نے دلیل دی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح افسانوی بھیڑیوں کو تقریباً ہمیشہ حقیقی بھیڑیوں سے مشابہت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، اور یہ کہ ان کی انسانی شکلیں شاذ و نادر ہی جسمانی طور پر ”پورفیریا“ کے شکار کے طور پر نمایاں ہوتی تھیں۔

دوسروں نے اس امکان کی نشاندہی کی ہے کہ تاریخی بھیڑیے ”ہائپرٹرائیکوسس “کے شکار تھے، یہ ایک موروثی حالت ہے جو بالوں کی ضرورت سے زیادہ نشوونما سے ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم،” ووڈورڈ “نے اس امکان کو مسترد کر دیا، کیوں کہ بیماری کی نایابی نے اسے بڑے پیمانے پر ہونے سے انکار کر دیا، جیسا کہ قرون وسطی کے یورپ میں ”ویئروولف“ کے کیسز تھے۔” ڈاؤن سنڈروم“ میں مبتلا افراد کو کچھ اسکالرز نے ”ویئروولف“ خرافات کے ممکنہ موجد ہونے کا اشارہ کیا ہے۔ ”ووڈورڈ“ نے ریبیز (پاگل جانوروں کے کاٹنے سے انسانوں کو ہونے والی ایک بیماری)کو ”ویئروولف“ عقائد کی اصل کے طور پر پیش کیا، اس نےاس بیماری کی علامات اور کچھ افسانوں کے درمیان قابل ذکر مماثلت کا دعویٰ کیا۔ ”ووڈورڈ“  نے اس خیال پر توجہ مرکوز کی کہ ”ویئروولف“ کے کاٹنے کے نتیجے میں شکار خود ”ویئروولف“ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ خیال کہ ”لائیکن تھروپی“(Lycanthropy)  اس طرح سے منتقل ہو سکتی ہے، اصل افسانوں اور افسانوی داستانوں کا حصہ نہیں ہے اور یہ صرف نسبتاً حالیہ عقائد میں ظاہر ہوتا ہے۔ ”لائیکن تھروپی“(Lycanthropy)  کو ایک فریب کے بنیادی مواد کے طور پر بھی پورا کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر، ایک عورت کا معاملہ رپورٹ کیا گیا جس نے شدید نفسیاتی حملوں کے دوران خودکو مختلف قسم کا وحشی جانور محسوس کیا۔

یورپی لوک داستانوں میں بھیڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی شکل میں بھی جسمانی خصلتیں رکھتے ہیں۔ ان میں ناک کے پل پر دونوں ابرو کا ملنا، مڑے ہوئے ناخن، وغیرہ شامل تھے۔ ”ویئروولف“ کو انسانی شکل میں پہچاننے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ملزم کا گوشت کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ زخم کے اندر کھال نظر آئے ۔ ایک روسی توہم پرستی کہتا ہے کہ ایک ”ویئروولف“ کو زبان کے نچلے حصے کے آبلوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔

جانوروں کی شکل میں ”ویئروولف“ کی ظاہری شکل مختلف داستانوں میں علاقائی ثقافت کے لحاظ سے الگ الگ پیش کی گئی ہے ۔ کچھ سویڈش تحریروں کے مطابق، ”ویئروولف“ کو ایک عام بھیڑیے سے اس طرح سے ممتاز کیا جا سکتا ہے کہ یہ تین ٹانگوں پر دوڑتا ہے، چوتھی کو پیچھے کی طرف پھیلا کر دُم کی طرح کر لیتا ہے۔ ان داستانوں میں ایسے بھیڑیوں کو واپس اپنی انسانی شکلوں میں لوٹ آنے کے بعد عام طور پر کمزوری اور دردناک اعصابی افسردگی کا سامنا کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

ویروولف بننے کے مختلف طریقے:

ویروولف بننے کے مختلف طریقے قدیم داستانوں میں پیان کیے گئے ہیں ، جن میں سے ایک آسان  طریقہ لباس کو ہٹاکربھیڑیے کی کھال سے بنی بیلٹ پہننا ہے، جو کہ ممکنہ طور پر پورے جانور کی کھال کے تصور کے متبادل کے طور پر ہے (جس کا اکثر بیان بھی کیا جاتا ہے)۔ دوسری صورتوں میں، جسم کو جادوئی سالو سے رگڑا جانا، زیر بحث جانور کے قدموں کے نشان سے، یا -بعض جادوئی ندیوں سے بارش کا پانی پینا، بھی میٹامورفوسس کے عمل پورا کرنے کے مؤثر طریقے سمجھا جاتا تھا۔سولہویں صدی کے سویڈش مصنف” اولاؤس میگنس“ نے اس کے لیے ایک کپ بیئر اور ایک مخصوص فارمولے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اٹلی، فرانس اور جرمنی میں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی مرد یا عورت کسی مخصوص بدھ یا جمعہ کو گرمیوں کی رات میں  باہر سوئے تو  جبپورا چاند براہ راست اس کے چہرے پر چمکتا ہے ایسی حالت میں وہ ویئروولف میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

”لائکن تھروپی“(Lycanthropy) کی لعنت اور علماے مسیح:

”لائکن تھروپی“(Lycanthropy) کی لعنت کو علماے مسیح نے عذاب الٰہی سمجھا۔ ”ویئروولف“ لٹریچر میں ان لوگوں پر لعنت بھیجنے کی بہت سی مثالیں دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے ”لائکن تھروپی“(Lycanthropy) کے ساتھ غضب کو پکارا تھا۔ ایسا ہی معاملہ” لائکاون“ کا ہے، جسے زیوس (دیوتا)نے اپنے ہی ایک بیٹے کو ذبح کرنے اور اس کی باقیات کو دیوتاؤں کو رات کے کھانے کے طور پر پیش کرنے کی سزا کے طور پر بھیڑیا بنا دیا تھا۔

دوسروں کو جنگلی درندوں میں تبدیل کرنے کی طاقت نہ صرف مہلک جادوگروں کی طرف منسوب تھی، بلکہ عیسائی روایات میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے…”تمام فرشتے، اچھے اور برے ہمارے جسم کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں“ مسیحی راہب ”سینٹ تھامس ایکیناس“  کا  یہی ماننا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ” سینٹ پیٹرک“ نے ویلش کے بادشاہ ”ویرٹیکس“ کو بھیڑیے میں تبدیل کر دیا تھا۔” نٹالس“ نامی ایک مسیحی راہب نے بھی قیاسی طور پر ایک نامور آئرش خاندان پر لعنت بھیجی تھی جس کے ہر فرد کو سات سال تک بھیڑیا بنا دیا گیا تھا۔

قدیم مآخذوں میں لائکن تھیراپی کے متعدد نہ سمجھ میں آنے والے علاجوں کابھی تذکرہ ملتا ہے، جسے ہم یہاں نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

19؍ویں صدی کے اختتام سے پہلے، یونانیوں کا خیال تھا کہ بھیڑیوں کی لاشیں، اگر تباہ نہ ہوئیں، تو وہ بھیڑیوں یا ہائینا کی شکل میں زندہ ہو جائیں گے جو مرتے ہوئے فوجیوں کا خون پیتے ہوئے میدان جنگ میں گھومتے ہیں۔ جرمنی، پولینڈ اور شمالی فرانس کے کچھ دیہی علاقوں میں، ایک زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ لوگ جو  گناہ میں مر گئے تھے، خون پینے والے بھیڑیوں کی طرح دوبارہ زندہ ہو گئے تھے۔ ویمپائر کا تعلق مشرقی یورپی ممالک بالخصوص بلغاریہ، سربیا اور سلووینیا میں ”ویئروولف“ سے بھی تھا۔ سربیا میں ”ویئروولف“ اور ”ویمپائر“ کو اجتماعی طور پر” ولکوڈلک “کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہنگری کی لوک داستانوں میں، ”ویئر وولف“ خاص طور پر ”ٹرانس ڈانوبیا “کے علاقے میں رہتے تھے، اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں بھیڑیے میں تبدیل ہونے کی صلاحیت نوزائیدہ عمر میں، والدین کی طرف سے بدسلوکی کے بعد حاصل ہوتی تھی۔ سات سال کی عمر میں لڑکا یا لڑکی گھر سے نکلتا ، رات کو شکار پر جاتا اور جب چاہے کسی شخص یا بھیڑیے میں بدل جاتا۔

جنوبی سلاوؤں کے درمیان، اور موجودہ شمالی پولینڈ کے نسلی کاشوبی لوگوں میں بھی یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی بچہ بالوں، پیدائشی نشان، یا سر پر ایک کالی علامت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، تو وہ شکل بدلنے کی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ کسی بھی جانور میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایسا بچہ بھیڑیے میں تبدیل ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔

آرمینیائی روایات کے مطابق، ایسی عورتیں ہیں جنہیں مہلک گناہوں کے نتیجے میں، بھیڑیے کی شکل میں سات سال گزارنے کی سزا دی جاتی ہے،ان کو ایک بھیڑیے کی کھال والی روح ملتی ہے، جس کی وجہ سے وہ جلد ہی انسانی گوشت کے لیے اتاولی ہو جاتی ہیں۔ پہلے وہ اپنے ہر بچے کو کھا جاتی ہیں، پھر رشتے کے لحاظ سے اپنے رشتہ داروں کے بچوں کو، اور آخر میں اجنبیوں کے بچوں کو۔ وہ صرف رات کو ہی گھومتی ہیں، ان کے قریب آنے پر دروازے اور تالے خود بخود کھل ہیں۔ جب صبح ہوتی ہے تو وہ انسانی شکل میں واپس آجاتی ہیں ۔اس تبدیلی کو عام طور پر غیر ارادی کہا جاتا ہے، لیکن رضاکارانہ میٹامورفوسس کے متبادل ورژن کا تذکرہ بھی متعدد افسانوں میں ملتا ہے جہاں ، جہاں خواتین اپنی مرضی سے تبدیلی لاسکتی ہیں۔

ناسکاپس کا خیال تھا کہ زندگی کی حفاظت” دیو بھیڑیوں“ سے ہوتی ہے جو قریب سے نکلنے والے لاپروا شکاریوں کو مار ڈالتے ہیں۔”ووڈورڈ“ کا خیال تھا کہ یہ عقائد امریکہ کے نارس کالونائزیشن کی وجہ سے ہیں۔ جب امریکہ کی یورپی نوآبادیات واقع ہوئی تو، وہ اپنے ساتھ” ویئروولف“ لوک داستانیں لے کر آئے اور بعد میں وہ اپنی پڑوسی کالونیوں اور مقامی لوگوں کی روایت سے متاثر ہوئے۔ کینیڈا، مشی گن کے بالائی اور زیریں جزیرہ نما اور نیو یارک کے اوپری حصے میں موجود” لوپ گارو“ میں یقین، ”وینڈیگو “پر مقامی امریکی کہانیوں سے متاثر فرانسیسی لوک داستانوں سے ماخوذ ہے۔ میکسیکو میں” ناگول“ نامی مخلوق کا بھی عقیدہ پایا جاتاہے۔ ہیٹی میں، ایک توہم پرستی یہ ہے کہ ”ویئروولف“ روحیں جنہیں مقامی طور پر”جی -روجز“ Jé-rouge (سرخ آنکھیں) کے نام سے جانا جاتا ہے، نادانستہ افراد کی لاشیں رکھ سکتی ہیں اور رات کے وقت انہیں ”کینبلسٹک لیوپین“ مخلوق میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ ہیٹی کے” جی-روجز“ عام طور پر ماؤں کو اپنے بچوں کو رضاکارانہ طور پر دینے کے لیے رات کو جاگ کر اور ان سے اپنے بچے کو لے جانے کی اجازت طلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر مایوس مائیں یا تو ہاں یا نہیں میں جواب دے سکتی ہیں۔ ہیٹی کے ”جی -روجز“ (Jé-rouge) روایتی یورپی بھیڑیوں سے مختلف ہیں ان کی عادت کی وجہ سے وہ اپنی لائیکن تھروپک حالت کو دوسروں تک پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، بالکل ویمپائر کی طرح۔

لائیکن تھروپس سے نجات:

زیادہ تر جدید افسانوں میں بھیڑیوں کو چاندی کے ہتھیاروں سے مارنے یا زخمی کرنے کا ذکر ہے ۔ یہ خصوصیت 19؍ویں صدی کی جرمن لوک داستانوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دعویٰ کہ Gévaudan کے ویئروولف کو  اٹھارہویں صدی میں چاندی کی گولی سے مارا گیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار نے اس کہانی کو 1935 ءکے بعد پیش کیا تھا نہ کہ اس سے پہلے ۔ انگریزی لوک داستانوں میں، 1865 ءسے پہلے، شکل بدلنے والوں کو چاندی کے لیے خطرہ ظاہر کیا گیا تھا۔ایک داستان میں ہے: ”…جب تک کہ محصول لینے والے نے ان کے سروں پر چاندی کا بٹن نہیں مارا جب وہ فوری طور پر دو ناجائز بوڑھی خواتین میں تبدیل ہو گئیں…“

ایک اور داستان کے مطابق  1640ء گریفسوالڈ، جرمنی کا شہر بھیڑیوں سے متاثر تھا۔ ایک ہوشیار لڑکے نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے تمام چاندی کے بٹن،بلٹس، بیلٹ بکس وغیرہ کو اکٹھا کریں، اور انہیں اپنے مسکیٹ اور پستول کے لیے گولیوں میں پگھلا دیں۔ اس طرح انہوں نے اس مخلوق کو زخمی کر کے پکڑا اور ذبح کر دیا اور گریفسوالڈ کو لائکین تھروپس سے نجات دلائی۔

1897 ءکا ناول ”ڈریکولا“ اور مختصر کہانی ”ڈریکولا کا مہمان“،”برام سٹوکر“ نے لکھیں، اس نےان میں  بھیڑیوں اور اسی طرح کے افسانوی شیطانوں کی طرف متوجہ کیا ۔”ڈریکولا کے مہمان“ میں، فوجی گھوڑ سواروں کا ایک گروہ جس کا مرکزی کردار ڈریکولا کا پیچھا کرتا ہے، کی مدد کے لیے آتا ہے، جسے ایک عظیم بھیڑیے کے طور پر دکھایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے مارنے کا واحد طریقہ ”مقدس گولی“ ہے۔اس کا ذکر مرکزی ناول” ڈریکولا “میں بھی ہے۔ کاؤنٹ ڈریکولا نے ناول میں بتایا کہ ”ویئروولف“ کے افسانوں کی ابتدا اس کے سیکیلی نسلی خون کی لکیر سے ہوئی،  جسے خود بھی رات کے وقت اپنی مرضی سے بھیڑیے کی شکل بدلنے کی صلاحیت کے ساتھ دکھایا گیا ہے لیکن وہ دوپہر کے علاوہ دن کے وقت ایسا کرنے سے قاصر ہے۔

1928ء کا ناول”دی وولفس برائڈ: اے ٹیل فرام ایسٹونیا“ (The Wolf’s Bride: A Tale from Estonia)، جسے فن لینڈ کے مصنف”اینو کالاس“ (Aino Kallas) نے لکھا ہے، 17؍ویں صدی میں ”ہیوما“ (Hiiumaa) میں رہنے والے” فارسٹر پریڈک“ کی بیوی”آلو“ (Aalo) کی کہانی بیان کرتا ہے، جو حیوانی جذبے کے زیر اثر ایک ”ویئروولف“ بن گئی تھی۔اسے”ڈائیبولس سلورم“ (Diabolus Sylvarum) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اینتھروپ مورفک ویئروولف فلمیں:

اینتھروپ مورفک ویئروولف کا استعمال کرنے والی پہلی فیچر فلم 1935 ءمیں لندن کی” ویئروولف“ تھی۔ اس فلم کا مرکزی” ویئروولف“ لندن کا ایک سائنس دان ہے جس نے اپنی تبدیلی کے بعد اپنے کچھ انداز اور انسانی خصوصیات کو برقرار رکھا ہے، بطور مرکزی اداکار ”ہنری ہل “میک اپ آرٹسٹ جیک پیئرس کے کیے ہوئے میک اپ میں زیادہ وقت گزارنے کو کسی بھی تیار نہیں تھے اور اس میک اپ کے گھناؤنے پن کی وجہ سے انھیں فلم کی شوٹنگ میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایک زیادہ المناک کردار” لارنس ٹالبوٹ “ہے، جسے” لون چینی جونیئر“ نے 1941 ءمیں ”دی وولف میں“ میں ادا کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ،”ویئر وولف“کی تصویر کشی مکمل طور پر بدمعاش سے لے کر بہادر مخلوق تک بھی گئی ہے، جیسے کہ” انڈرورلڈ “اور ”ٹوائی لائٹ سیریز“، نیز ”بلڈ لاڈ“، ”ڈانس ان دی ویمپائر بنڈ“، ”روزاریو + ویمپائر“، اور دیگر مختلف فلموں اور اینی میشن وغیرہ میں۔

فلموں میں بھیڑیوں کو اکثر چاندی کی نوک والی چھڑی، گولی یا بلیڈ سے کمزور ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ وصف سب سے پہلے” دی وولف میں“ میں سنیما میں اپنایا گیا تھا۔ چاندی کے بارے میں یہ منفی ردعمل بعض اوقات اتنا شدید ہوتا ہے کہ ”ویئروولف“ کی جلد پر دھات کا محض چھونا جلنے کا سبب بنتا ہے۔ موجودہ دور کے” ویئروولف“ فکشن میں تقریباً خصوصی طور پر لائیکن تھروپی شامل ہے ، وہ یا تو موروثی حالت ہے یا دوسرے” ویئروولف“ کے کاٹنے سے متعدی بیماری کی طرح ۔ کچھ افسانوں میں، ”ویئروولف“ کی طاقت انسانی شکل تک پھیلی ہوئی ہے، جیسے کہ ان کی شفا یابی کے عنصر، مافوق الفطرت رفتار اور طاقت کی وجہ سے ناقابل تسخیر ہونا اور بلندی سے اپنے پیروں پر گرنا نیز جارحیت اور حیوانی خواہشات میں شدت اور قابو پانا ،عموماً ان صورتوں میں صلاحیتیں انسانی شکل میں کم ہو جاتی ہیں۔

بھیڑیوں کو عام طور پر ”محنت کش طبقے“ کے عفریت کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، جو اکثر سماجی و اقتصادی حیثیت میں کم ہوتے ہیں، حالاں کہ وہ مختلف قسم کے سماجی طبقات کی نمائندگی کر سکتے ہیں اور بعض اوقات انھیں ۱۹؍ صدی کے ہارر لٹریچر کے دوران ”اشرافیہ زوال“ کی نمائندگی کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

نازی جرمنی نے  بھی ”ویئروولف“ کا استعمال کیا، جیسا کہ 1942-43 ءمیں ہٹلر کے ہیڈکوارٹر کے کوڈ نام کے طور پر اس افسانوی مخلوق کا نام جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔ جنگ کے آخری دنوں میں، نازی ”آپریشن ویئروولف“کا مقصد ایک کمانڈو فورس بنانا تھا جو دشمن کی خطوط کے پیچھے کام کرے  کیوں کہ اتحادی خود جرمنی کے ذریعے آگے بڑھ رہے تھے۔

بہر حال ان داستانوں ، ناولوں اور فلموں کے اجمالی جائزہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”ویئر وولف“ محض ایک داستانوی کردار ہے، اس کی حقیقت کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا ، جن داستانوں اور آپ بیتیوں میں ان آدم بھیڑیوں کی موجودگی کا وثوق کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے، وہ تمام تحریریں کسی بھی قسم کا ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں، ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ تمام کہانیاں صرف تفریحِ طبع کے لیے لکھی گئی تھیں اور تاریک یورپ کی ذہنی تاریکی نے ان افسانوی ہیولوں کو حقیقت کا درجہ دے دیا اور کم و بیش دس صدی تک ایک غیر موجود آدم بھیڑیا، درجنوں ممالک، اور ثقافتوں کو متاثر کرتا رہا۔آج پوری دنیا کا یہ متفقہ خیال ہے کہ ویئر وولف نامی کسی جانور کا وجود نہیں، یہ گذشتہ ہزار سالوں سے محض افسانوں اور لوک کہانیوں میں زندہ ہے، حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔