لستم پوخ (روحانیوں کے عالمی پایۂ تخت استنبول میں گیارہ دن)

محمد رضی الاسلام ندوی

زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر راشد شاز کے قلم سے ترکی کا ایک دل چسپ سفرنامہ ہے۔ لستم پوخ استنبول کے مضافات میں ایک مقام کانام ہے، جہاں سرکردہ صوفیہ کی، جنھیں اقطاب کہاجاتا ہے، عالمی کانفرنس ہوئی تھی، مصنفِ کتاب کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی، لیکن انھوں نے متصوفین اور روحانیوں کا ’اسٹنگ آپریشن‘ کرنے کی غرض سے مختلف ترکیبوں سے اس کا دعوت نامہ حاصل کیا، اس میں شرکت کی اور اس سفرنامہ کے ذریعہ ان کا کچّا چٹّھا کھول کر رکھ دیا۔ انھیں دعوت نامہ شاید علماء کی عالمی انجمن کی کانفرنس میں شرکت کا ملا تھا، جو استنبول کے گرانڈ جواہر ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی اور جس کا ایجنڈا شاید نئی میقات کے لیے اس کے عہدے داروں کا انتخاب تھا۔ کتاب کے شروع میں مذکورہ کانفرنس کا بہت رواروی میں سرسری سا تذکرہ کرنے کے بعد وہ روحانیوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کا سلسلہ کتاب کے آخر تک دراز رہتا ہے۔

یہ ایک نیم حقیقی اور نیم خیالی سفر نامہ ہے۔ نیم حقیقی اس لیے کہ پورے سفرنامے کو پڑھ کر بھی قاری کو یہ نہیں معلوم ہوپاتاکہ مصنف نے ترکی کا یہ سفر کب کیاتھا؟ ہاں ، کتاب کے آخری حصے میں ماہ ستمبر کے دوسرے ہفتے کی بعض تاریخوں کا حوالہ ملتاہے، مگر سال مذکور نہیں ہے۔ انھوں نے ابتدا ہی میں یہ صراحت کردی ہے کہ "طوالت سے بچنے کی خاطر بعض کرداروں کو بعض کرداروں میں ضم کردیاگیا ہے۔” (ص 6) بعض کرداروں کی زبانی مصنف نے جو طویل گفتگو نقل کی ہے، وہ کہیں دو دو صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ باتیں، ظاہر ہے، انھوں نے اپنی یاد داشت سے لکھی ہیں، اس بنا پر ان سے ان کرداروں کے افکار وخیالات کی حقیقی ترجمانی نہیں ہوتی، بلکہ ان میں مصنف کے اپنے احساسات کی آمیزش عین متوقع ہے۔

یہ کتاب حقیقت میں مروّجہ نام نہاد تصوف، صوفیہ کے گم راہ خیالات، فاسد خانقاہی نظام اور مختلف سلاسل تصوف کے انحرافات کا پوسٹ مارٹم ہے۔ مصنف نے استنبول اور اس کے مضافات میں گھوم گھوم کر اکابرِ صوفیہ اور مختلف سلاسل کی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کی، ان کے افکار جانے، مختلف موضوعات پر ان سے بحث و مذاکرہ کیا اور پھر اس کی روداد کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا۔ یہ رودادِ سفر بہت دل چسپ اور موثر اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ قاری کتاب شروع کرتا ہے تو اسے ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔ ویسے گم راہ صوفیہ کے انحرافات اور کارستانیوں اور تصوف کے رموز و اشارات کو آشکارا کرنے کے لیے ترکی کا سفر کرنے کی ضرورت نہ تھی، یہیں ہندوستان میں اجمیر، نظام الدین یا کسی اور درگاہ میں جاکر اس کے سجّادہ نشینوں اور مجاوروں سے مل کر یہی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سناجاسکتا ہے۔ اس سفر نامہ سے ایک منفی تاثر یہ قائم ہوتاہے کہ پورا ترکی تصوف کےسحر کااسیر، ’سلاسل‘ میں جکڑا ہوا اور ’مہدی موعود‘ کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوا نظرآتاہے، حالاں کہ یہ معاصر ترکی کی حقیقی تصویر نہیں ہے۔ یہ طبقہ وہاں کی آبادی کاایک دو فی صد ہوگا۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ خاصی بڑی تعداد میں ہیں جو حقیقی اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔

ڈاکٹر راشد شاز کی گزشتہ دنوں کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں ، جن میں ’ادراکِ زوالِ امت‘ کو شہرت ملی ہے۔ ان کتابوں کے ذریعہ اسلام کے بارے میں ان کا مخصوص تصور سامنے آیا ہے۔ وہ یہ کہ دین صرف وہ ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اور اس کی صحیح تعبیر صرف وہ  معتبر ہے جو انھوں نے اپنی عقل سے سمجھی ہے۔ رہے مفسرین، محدثین، فقہاء اور دیگر علماء تو انھوں نے دین کی تشریح و تفہیم کا نہیں ، بلکہ اسے مسخ کرنے کا کام انجام دیا ہے۔ ان کی یہ فکر اس سفرنامہ میں بھی جلوہ گر نظرآتی ہے۔ انھوں نے یہ باتیں مختلف مواقع پر کبھی خودکہی ہیں اور کبھی اپنے کرداروں سے کہلوائی ہیں ۔ مثلاً:

"رسالۂ محمدی و حی ربّانی کی شکل میں موجود و محفوظ تو ہے، لیکن اہل حق کی دھمال، فقہاء کی قیل وقال، مفسرین کی تاویلات و تعبیرات اور محدثین کی شانِ نزول کی تراشیدہ روایتوں نے اس کے معانی پر سخت پہرے بٹھادیے ہیں”۔ (ص 106)

"متفقہ عقیدہ تو صرف وہ ہے جو صاف صاف طورپر قرآن مجید میں بیان کردیاگیا ہے۔ اس کے باہر جو کچھ ہے وہ لوگوں کے اپنے اندازے ہیں ، جس کی بنیاد کسی اثر یا کسی روایت پر ہے، جس کی تحقیق و تنقید کا حتمی کام ابھی باقی ہے” (ص142)

احادیث نبوی کے قبول ورد کا ان کاپیمانہ نرالا ہے، جو سراسر درایت پر مبنی ہے اور درایت بھی ان کی اپنی۔ صحیح ترین احادیث بھی اگر ان کے عقلی چوکھٹے میں فٹ نہ ہوں تو وہ بے بنیاد روایتیں ، تراشیدہ اسطورہ اور سنی سنائی بے اصل خوش گپّیاں (ص 21۔22) قرار پاتی ہیں اور کوئی بات انھیں اچھی لگ جائے تو اسے وہ ’حدیثِ رسول‘ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ، چاہے سند کے اعتبار سے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طورپر اس سفر نامہ میں وہ جابجا ان لوگوں سے بحث و مذاکرہ کرتے نظرآتے ہیں جو احادیث میں مہدی، دجال اور عیسیٰ مسیح کی آمدثانی کے تذکرہ کی وجہ سے ان کے قائل ہیں اور ان کاانتظار کررہے ہیں ۔ وہ اصلاح احوال کی کوشش نہ کرنے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ان کا انتظار کرنے کو غلط نہیں کہتے، بلکہ ان تمام روایات ہی کو من گھڑت اور بے بنیاد قصے کہانیاں قرار دیتے ہیں ۔ ایک جگہ یہ تک کہہ جاتے ہیں کہ ’’بخاری اور مسلم کی کتابیں بھی دجال کے قصے سے خالی ہیں ‘‘ (ص 42) حالاں کہ دجال سے متعلق روایات صحیح بخاری و مسلم کی کتاب الفتن میں مروی ہیں ۔ اسی طرح حیاتِ رسول (ص 142، 143، 181۔182) سماع موتٰی ومقتولینِ بدر (ص 199۔200) سفر معراج (ص200) اور دیگر موضوعات سے متعلق احادیث ان کی سخت تنقید سے، جو بسااوقات استہزا تک جاپہنچتی ہے، نہیں بچ سکی ہیں ۔ دوسری طرف وہ بعض جملوں کو حدیث کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ، جن کاکوئی استناد نہیں ۔ مثلاً : اللھم ارنی الاشیاء کما ھی (بارالٰہا! مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسی کہ وہ ہیں ) کو انھوں نے کتاب کے متعدد مقامات (ص 9،99،123، 165، 207) پر حدیث قرار دیا ہے۔ یہ حکمت کی بات تو ہوسکتی ہے، لیکن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کے لیے ثبوت چاہیے، لیکن مصنف کو اس سے کیا غرض۔

کتاب کے آخر میں ایک دل چسپ بحث مصنف نے ’دَرودِ ابراہیمی‘ سے متعلق کی ہے۔ ان کے مطابق اسلام کی ابتدائی دو صدیوں میں درودِ ابراہیمی کاکوئی وجود نہ تھا، تیسری صدی میں فاطمی خلافت کے قیام کے بعد اسے گھڑا گیا (ص226 ۔227) یہ بات بدیہی طورپر غلط ہے اس لیے کہ درودِ ابراہیمی موطا امام مالک (کتاب جامع الصلاۃ، باب ماجاء فی الصلاۃ علی النبی) میں بھی موجود ہے اور موطا کی ترتیب دوسری صدی کے اوائل میں ہوچکی تھی اور امام مالک کے تمام اساتذہ پہلی صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے من گھڑت ہونے کی دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ ’’وہ تاریخ اور وحی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی ذریت پر فضل و انعام کی بارش کی دعا کی، لیکن خدا کے ہاں سے صاف جواب آگیا کہ محض ذریت کا حوالہ فضل وانعام کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ ابراہیم کی آل پر تاریخ اور وحی دونوں سے شہادت ملتی ہے، جب کہ محمدؐ کی آل کے متعلق قرآن اور تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ بہ سبب مصلحتِ خداوندی آپ کا نسلی سلسلہ آپ ہی پرختم ہوگیا۔ قرآن کااعلان ہے کہ محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ۔ جب آل محمدؐ ہی دنیا میں موجود نہ ہوں تو پھر ان پر صلوٰۃ و سلام کے کیا معنیٰ؟‘‘ (ص 225) پہلے موصوف نے درودِ ابراہیمی میں ’آل محمد‘ کو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریّت اور نسلی اولاد کے معنی میں طے کردیا، پھراس کی بنیاد پر اس کے من گھڑت ہونے کا فیصلہ صادر کردیا۔ جو شخص احادیث کو وحی کی کسوٹی پر جانچنے کا دعوے دار ہو اور اپنی ہی عقل کو عقلِ کل سمجھتا ہو اسے اتنی موٹی بات تو معلوم ہونی چاہیے کہ عربی زبان میں لفظ ’آل‘ کا اطلاق صرف نسلی اولاد پر نہیں ہوتا، بلکہ حمایتیوں ،مددگاروں ، کارندوں اور پیروکاروں پر بھی ہوتاہے۔ قرآن بھی اس پر شاہد ہے۔ اس میں ہے کہ بنی اسرائیل کو ’آل فرعون‘ اذیتیں دیتے تھے (البقرہ:49) اور اللّٰہ تعالیٰ نے ’آل فرعون‘ کو غرق کردیا (الانفال:54) یہ اذیتیں دینے والے اور دریا میں غرق ہونے والے فرعونِ مصر کی نسلی اولاد نہیں تھی۔

کتاب میں بہت سے مقامات پر عربی عبارتیں درج کی گئی ہیں اور کہیں کہیں ان کے ترجمے کیے گئے ہیں ۔ عبارتوں اور ترجموں دونوں میں کثرت سے غلطیاں ہیں ۔ بعض جگہ آیتیں بھی صحیح نقل نہیں کی گئی ہیں (ص225) زبان وبیان پر اچھی قدرت کے باوجود حیرت ہوئی کہ بہت سے الفاظ کااملا درست نہیں ہے۔ چند مثالیں یہ ہیں : (قوسین میں صحیح املا درج کردیاگیاہے) مسجیّٰ (مسجّع)، مشائیت (مشایعت)، غیض و غضب (غیظ )، تسبیح و تحلیل (تہلیل)، سحو (صحو)، حضرات القدس (حظیرۃ القدس)، ہجرہ (حجرہ)، گنبد خضریٰ (خضراء)، نظر (نذر)، احمدرفائی (رفاعی)، علی حمدانی (ہمدانی)، حال (ہال)، طروق (طرق)، دانستاً (دانستہ)، آلائشات (آلائشیں )، امانیات (امانی) وغیرہ

ایک جگہ رات کے پچھلے پہر نماز پڑھنے کاتذکرہ ان الفاظ میں کیاہے: ’’وہیں فرش پر دو رکعت نماز داغی‘‘ (ص72) ادائی نماز کے لیے یہ سوقیانہ تعبیر بڑی تکلیف دہ ہے۔

خلاصہ یہ کہ اس سفرنامہ کے ذریعہ فاضل مصنف نے جہاں اپنے قارئین کو بہت سی گم راہیوں سے آگاہ کیاہے اور ان سے بچانے کی کوشش کی ہے، جس پر وہ شکریے کے مستحق ہیں ، وہیں انھوں نے بہت سے فکری انحرافات والتباسات میں انھیں مبتلا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے، جو باعثِ افسوس ہے۔

مصنف: راشد شاز، سنہ اشاعت: 2013ء، صفحات:232 ، قیمت:/- 250/روپے ،اسٹوڈینٹس ایڈیشن 150/- روپے، ناشر: ملی پبلی کیشنز، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔25

4 تبصرے
  1. عطا رحمانی کہتے ہیں

    عمدہ تبصرہ ہے. اگر چہ کتاب پڑھی نہیں، لیکن خلاصہ سامنے آ گیا.
    اس کتاب کا نام کئی مقامات پر پڑھا تھا. لیکن کبھی سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا بلا ہے؟ آج معلوم ہوا کہ یہ ترکی میں ایک گاؤں کا نام ہے.
    جزاکم اللہ خیرا

  2. کاشف شکیل کہتے ہیں

    ماشاء اللہ چشم کشا تبصرہ
    آج کل کئی لوگ تمجید العقل کے شکار ہوکر غیبیات پہ ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
    اللہ انھیں ہدایت دے

  3. Muhammad Imran کہتے ہیں

    Deen e Islam se hr musalman ko yaqeenan aqeedat hot hr musalman uski hifazat ke liye fikrmand h. Lekin baaz log uski hifazat ke naam PR uski asaas tk se inkaar krne lge’n to unki ‘aqliyat* pr noha hi kiya ja skta h . aide log kisi ijtemaiyat ko apne meyaar she km smjhte hn or apni hi theory PR logo ko chalne ki dawat dete hn haalaan k Islam ki khoobsoorti or uska Sara hifazati nizam uski ijtemaiyat we jurha h Jo frd or jamaat soon ko gumrahi she bachati h.
    Allah Rashid Saaz sahab ko swaleh ijtemaiyat at a frmaye.

  4. Hamesha Iqbal کہتے ہیں

    Ustaz e Muhtaram ka tabsera aksar fikri aur zaban ke usloob se muzayyin hota hai. Ajeeb wo Gareeb Naam wali Khayali wo Shawoori Kitaab Lastam Pookh pr tabsera to buhto Ki zaban se suna hai lekin ustad ne baat mukammal Kr di. Zawal e Ummat per Imle Ki Galti Wale Mahire Zaban agar Qalam Uthahte hai to ulema Ki yaqinnan ye zimmedari hai k wo us ka gairjanibdarana tabsera awam k samne pesh kare khas taur pr aise ashkas ka Jo man chaha apni khud K publication se jab chaha manzare aam per la sakte hai. Allah hame khair k kamo me sabaqat le Jane Ki Taufeeq
    naseeb farmaye.

تبصرے بند ہیں۔