لوح و قلم تیرے ہیں

منگل مورخہ14فروری  2017ء بعد نماز مغرب قلم کاروان کی ادبی نشست مکان نمبر1اسٹریٹ 38،G6/2اسلام آبادمیںمنعقد ہوئی۔ جناب حبیب الرحمن چترالی نے صدارت کی۔’’حلقہ احباب تصوف‘‘ کے تعاون سے آج کی نشست میں ’’تصوف‘‘کے عنوان سے اسرائیل الخیری کامضمون اورحضرت نظام الدین اولیاء ؒکی کتاب ’’فوائدالفواد‘‘پر کوکب اقبال ایڈوکیٹ صدر حلقہ احباب تصوف اسلام آبادکے تاثرت پیش ہونا طے تھے۔تلاوت کے بعد ڈاکٹرساجد خاکوانی نے مطالعہ حدیث پیش کیااور جناب انجینئرمجاہد حسین نے سابقہ نشست کی کاروائی پڑھ کرسنائی۔

 صدر مجلس کی اجازت سے مضمون پیش کیاگیا۔اسرائیل الخیری نے ’’تصوف‘‘نامی مضمون میں تصوف کاتعارف،تاریخ اور جملہ نظریات بڑی جامعیت کے ساتھ سمیٹ دیے تھے۔انہوں نے صوفیائے کرام کے اقوال بھی نقل کیے تھے اور تصوف میں درلائی گئی بدعات کابھی ذکر کیا۔ان کے بعد صدر حلقہ احباب تصوف جناب کوکب اقبال ایڈوکیٹ نے حضرت نظام الدین اولیاء کی کتاب’’فوائدالفواد‘‘پراپنے تفصیلی تاثرات بیان کیے،انہوں نے مروجہ طریقہ خلافت،پیری مریدی اورخانقاہی نظام کابھی تجزیہ پیش کیااورحقیقی بزرگان دین اوردنیاداروں اور حرس و ہوس کے پجاریوں کے درمیان فرق بھی تفصیل سے بیان کیا۔صدر مجلس کی اجازت سے گفتگوکاآغازہواتو پروفیسرآفتاب حیات نے سوال کیا کہ صحیح تصوف کی پہچان کیاہے،کوکب اقبال ایڈوکیٹ نے جواب میں قرآن و سنت سے دلائل پیش کیے۔ڈاکٹرساجد خاکوانی نے کہاکہ حضرت جنیدبغدادی ؒسے کسی نے کہاکہ آپ میں کوئی کرامت نہیں دیکھی،انہوں نے جواب دیاکہ مجھ میں کسی خلاف سنت عمل کانہ ہونا ہی کرامت ہے۔ڈاکٹرساجد خاکوانی نے جناب اسرائیل الخیری کے مضمون کی بھی تعریف کی اور کہا بہت مختصرسی اطلاع پر انہوں نے بہت شاندار مضمون پیش کیاہے۔انجینئرمجاہد حسین نے بھی تصوف پراظہارخیال کیا۔نسیم عباس نے کوکب اقبال کے تاثرات کو بہت پسند کیااور کہاکہ ان کے خطاب میں عملی زندگی کے بہت سے روشن پہلو سامنے آئے اور غلط فہمیاں بھی دورہوئیں۔

 آخرمیںصدرمجلس کے خطاب سے پہلے نسیم عباس نے سرائیکی زبان میں منظوم کلام پیش کیااورشیخ عبدالرازق عاقل نے اپنی تازہ غزل نذرسامعین کی۔صدر مجلس جناب حبیب الرحمن چترالی نے ایک جرنیل صحابی امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراح کاتصوف بیان کیاجو سوکھی روٹیوں کو پانی میں ملاکر تناول فرماتے تھے اور یہی کھانا انہوں نے حضرت عمر کو بھی شام میں آمد کے دوران پیش کیاتھا،صدر مجلس نے قائداعظم ؒکی درویشی کو ایک سیاستدان کے تصوف کے طورپر پیش کیا جنہوں نے اپنی کل جائداد تین تعلیمی اداروں کووصیت کر دی تھی اور خود سادگی کے ساتھ ایک صوفیانہ زندگی بسر کی۔انہوں نے کہاکہ تصوف عملی زندگی کانام ہے اور دنیاسے کٹ کر اور راہبانہ زندگی کا اسلامی تصور حیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صدارتی خطبے کے بعد نشست کے اختتام کااعلان کردیاگیا۔

تبصرے بند ہیں۔